Zinda_Rood
Minister (2k+ posts)
جنازہ تو ضیاء الحق کا بھی بہت بڑا تھا
ضیاء الحق بھی تو اصلی اسلام کا پیروکار تھا۔
جنازہ تو ضیاء الحق کا بھی بہت بڑا تھا
نہیں میری نظر میں تو ایسی کوئی حدیث نہیں ہے ..بلکہ اسکے برعکس ایسی احادیث موجود ہیںدرست ..لیکن کوئی ایسی حدیث جو دنیوی علم حاصل کرنے سے روکتی ہو ..
الله نے تو دنیا آپ کے سامنے رکھ دی اور سوچ بچار اور کھوج کا کہہ دیا ..
اگر اس بات پر مغربی دنیا بھی عمل کرتی تو آج ہم انٹرنیٹ پر بیٹھے اس بات پر بحث نہ کر رہے ہوتے کہ کونسا علم بہتر ہے ..
میں الحاد کی نہیں علم کی تبلیغ کرتا ہوں۔ جیسے حضرت سقراط نے فرمایا تھا کہ میرا کام لوگوں کو سکھانا نہیں صرف سوچنے پر مجبور کرنا ہے۔۔۔
It is true that it is not prohibited to acquire world's knowledge in Islam. But at the same time it is also not encouraged to acquire world's knowledge in our religion. Even during the time of Khalf-e- Rashdeen there were mosques but there were no schools for children to learn to read and write. Even by the 19th century Muslim kings were busy making Taj Mahal, jahangir was very religious. He made Badshahi masjid, but no university.میں آپ کی بات سمجھی نہیں
جب آپ کو میں ایک بات بتا رہی وں تو آپ مجھ پر یقین کیوں نہیں رکھتے ...خادم رضوی آپ کے بیان کو تقویت دیتے ہیں اس لئے ان کا سہارا لیتے ہیں
نہیں میری نظر میں تو ایسی کوئی حدیث نہیں ہے ..بلکہ اسکے برعکس ایسی احادیث موجود ہیں
جب حضور صلم نے جنگ میں آےکافر قیدیوں کو یہ کہکر چھوڑ دیا کہ مسلمانوں کو جو کوئی علم بھی
تمہیں اتا ہے سکھا دو..اب وہ دینی علم تو ہو نہیں سکتا.
میں اپنا چشمہ کہیں رکھ کر بھول گیا۔۔۔
اب اگر خدا نے ایک سہولت دی ہے تو اس پر اس کا شکر بجا لانا تو بنتا ہے
It is true that it is not prohibited to acquire world's knowledge in Islam. But at the same time it is also not encouraged to acquire world's knowledge in our religion. Even during the time of Khalf-e- Rashdeen there were mosques but there were no schools for children to learn to read and write. Even by the 19th century Muslim kings were busy making Taj Mahal, jahangir was very religious. He made Badshahi masjid, but no university.
If someone lives his life in a highly religious manner but never learned any thing about the world then such person will not be punished by God. That's what I mean. One can get world's knowledge. Learn about science. It is allowed but if one chooses not to study such fields of study then it is not a sin.
کیا آپ بتا سکتے ہیں یہ حدیث کس راوی سے منسوب ہے اور حدیث کی کونسی کتاب میں ہےHe is right on this point. This is a false hadees. I have done some research in the past and came to know it is a false hadees.
اس لئے کہ میں نے آپ سے زیادہ اسلام کو پڑھا ہے۔ آپ کے پاس غامدی کا سہارا نہ ہو تو آپ تو قران کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔۔
آپ اپنی پوسٹ کی پہلی لائن پھر سے پڑھیں ..کوئی سینس بنتی ہے ؟
یہ سہولت خدا نے کب دی ہے۔ یہ تو ان کافروں نے دی ہے جن کو آپ ہر جمعہ کی نماز کے بعد بدعائیں دیتے ہیں اور ان پر فتح کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یا رب انصرنا علی قوم الکافرین۔ تو شکر کرنا ہے تو قوم الکافرین کا کریں۔۔۔
اس دُنیا کی ذندگی پر خون جلانے انٹرنیٹ فورم پر وقت برباد نہ کریں۔دریں چہ شک . دنیا کی عارضی زندگی ہے . جیسے تیسے گزر ہی جاےگی . اصل تو آخرت کی زندگی ہے اس کی فکر کرنی چاہیے .
Iss baat sey tawaju hatany key liye ye log aisey articles likhty hein!!سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان اتنا نیجے کیسے گیا۔ اگر کوئی اس کا الزام بھی عمران خان پر لگائے تو اپنے دماغ کا علاج کروائے۔
آپ نے پڑھا ضرور ہوگا ..لیکن سمجھا نہیں
درست ..لیکن کوئی ایسی حدیث جو دنیوی علم حاصل کرنے سے روکتی ہو ..
الله نے تو دنیا آپ کے سامنے رکھ دی اور سوچ بچار اور کھوج کا کہہ دیا ..
اگر اس بات پر مغربی دنیا بھی عمل کرتی تو آج ہم انٹرنیٹ پر بیٹھے اس بات پر بحث نہ کر رہے ہوتے کہ کونسا علم بہتر ہے ..
ہاہاہا...میں صرف آپ کے فرمانے سے تو مانونگا نہیں...آپکو اسکا ثبوت دینا پڑے گایہ بات درست ہے ..ایسی کوئی حدیث نہیں ہے
سمجھا نہیں؟ قرآن میں کیا کیمسٹری کی ایکویشنز لکھی ہیں یا میتھ کے فارمولے؟
This is a big achievement......for a country whose people live in Europe and USA and criticize on their own country's achievement.......if this was in Europe and America then people like you will kiss their feeses.........I think you don't even know what is this means.وزیراعظم عمران خان نے بذریعہ ٹویٹس قوم کو خوشخبری سنائی ہے کے ایمیزون نے پاکستان کو سیلرز لسٹ میں شامل کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر فواد چوہدری اور عبدالرزاق داؤد نے باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے اپنی حکومت کی اس کامیابی سے قوم کو آگاہ کیا۔ ایمیزون محض ایک کمپنی ہے، کوئی ریاست نہیں، مگر ایمیزون کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ لگایئے کہ پاکستان جیسے ملک کا وزیراعظم اس پر بھنگڑے ڈال رہا ہے، پوری حکومت جھمریں ڈال رہی ہے حالانکہ ابھی تک امیزون نے خود اس پر کوئی سٹیٹمنٹ جاری نہیں کی، مگر پاکستان کو چونکہ ادھر سے اشارہ مل گیا ہے اس لئے یہاں قبل از وقت شہنائیاں بجنی شروع ہوگئی ہیں۔ امیزون کی اہمیت سے آپ اندازہ لگا لیں کہ اس کا مالک جیف بیزوس کس قدر اہم شخص ہے، اس کی دولت کو تو فی الحال ا یک طرف رکھ دیں، آپ صرف اس کے مقام کا اندازہ لگائیں۔ اسی طرح پے پال بھی ایک کمپنی ہی ہے، جس کے آگے پاکستانی حکومت کب سے ناک رگڑ رہی ہے، منتیں ترلے کررہی ہے، مگر وہ پاکستان میں قدم رکھنے کو تیار نہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر یہ کمپنیاں اتنی طاقتور کیسے ہیں کہ ریاستیں ان کے سامنے ماتھا ٹیکنے پر مجبور ہوگئی ہیں اور جن ممالک کے لوگوں کی یہ کمپنیاں ہیں، ان ممالک کی حیثیت کا آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں، میں یہاں امیزون اور پے پال کو صرف مثال کے طور پر استعمال کررہا ہوں ، ایسی اور بے شمار کمپنیاں ہیں، صرف آئی ٹی میں ہی نہیں، بلکہ دیگر شعبہ جات میں بھی۔ ان کی طاقت اور اہمیت کے پیچھے صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے، وہ ہے علم کا حصول اور ترویج۔ بل گیٹس، جیف بیزوس، جیک ڈورسے، مارک زکربرگ، ایلون مسک ، سٹیون ہاکنگ یہ صرف اور صرف علم کی بدولت ہی اتنا بڑا مقام حاصل کرپائے اور اپنے ملک کو بھی ترقی اور طاقت دے پائے۔ انہوں نے خود پر سائنس کے دروازے بند نہیں کئے، انہوں نے سائنس سے نفرت نہیں کی۔ اور کریڈٹ صرف افراد کو نہیں جاتا، بلکہ اس پورے معاشرے کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے افراد کو کھل کر سوچنے سمجھنے کا، اپنے آئیڈیاز پیش کرنے اور ان پر عمل کرنے کا ماحول فراہم کیا۔ ان معاشروں نے کسی کی سوچ پر قدغن نہیں لگائی۔
یہ وہی یورپ ہے جہاں چند صدیوں پہلے تک گلیلیو اور کوپرنکس کو محض اس بات پر جان کے لالے پڑگئے تھے کہ انہوں نے بائیبل کے جیو سینٹرک نظریے کو رد کرتے ہوئے ہیلیوسنٹرک نظریے کو پیش کیا، ایک کو تو زندہ جلا دیا گیا جبکہ دوسرے نے معافی مانگ کر جان چھڑوائی۔ آج وہی یورپ ہے جس میں سٹیون ہاکنگ کہتا ہے کہ خدا نہیں ہے اور کوئی اسے ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ رچرڈ ڈاکن ٹی وی پروگرامز میں بیٹھ کر کھل کر کہتا ہے کہ بائبل بل شٹ ہے، بکواس ہے اور کوئی اس کی زبان بندی نہیں کرتا۔ یہ سوچ اور فکر کی آزادی ہی ہے جو انسانی معاشروں کو آگے لے جانے کا باعث بنتی ہے۔ آپ ذرا ہمارے ملک و قوم کی، ہماری اوقات کا اندازہ لگائیں کہ ہم ریاستی سطح پر کمپنیز کے منت ترلے کرنے پر مجبور ہیں اور وہ ہماری بات تک نہیں سن رہیں۔ ایک کمپنی نے ذرا سا اشارہ دیا اور ہمارا وزیراعظم بھنگڑے ڈال رہا ہے۔ یہ جدید دنیا میں ہماری اوقات ہے۔ کیونکہ ہم نے علم کو رد کردیا ہے،ہم نے اپنی نسلوں کو سائنس سے نفرت سکھائی ہے۔ آج بھی ہمارے لئے اہم مسئلہ یہ ہے کہ فلاں ملک کے فلاں شہر کے فلاں کونے میں فلاں فرد نے ہماری مقدس شخصیت کے کارٹون کیوں بنادیئے، دنیا کے فلاں کونے میں کسی نامعلوم شخص نے ہماری مقدس کتاب کو کیوں جلا دیا۔ فلاں گروپ ہمارے والے اسلام سے مختلف عقیدہ رکھتا ہے، لہذا اس کے خلاف ریاستی سطح پر قانون سازی کرکے اس کے ایمان کو فیصلہ کرتے ہیں۔فلاں ڈھمکاں ویب سائٹ پر فلاں قسم کا مواد پڑا ہے جو ہمارے جذبات کو مجروح کررہا ہے، لہذا ان ویب سائٹ کو ہی بین کردو۔ اندازہ کریں ہم نے چار سال یوٹیوب کو اپنے ملک میں بین کئے رکھا کہ یوٹیوب پر پڑی کروڑوں ویڈیو میں سے کسی ویڈیو سے ہماری احمق قوم کے جذبات مجروح ہورہے تھے، یوٹیوب کو رتی برابر فرق نہیں پڑا، پھر خود ہی پاکستان نے یوٹیوب کھول دی، وہ ویڈیوز آج بھی ویسے کی ویسے پڑی ہیں، مگر آج پاکستان کے لوگ چونکہ یوٹیوب سے پیسے کمارہے ہیں، اس لئے سب عاشق رسول سکون میں ہیں۔ یہ ہے طاقت علم کی۔ یوٹیوب کو فرق نہیں پڑتا، پے پال کو فرق نہیں پڑتا، فیس بک کو پاکستان میں بین رکھا گیا، ان کو بھی فرق نہیں پڑا، انہوں نے اپنی پالیسیز نہیں بدلی،امیزون کو بھی فرق نہیں پڑتا۔
امریکہ، یورپ اور جاپان کی معمولی کمپنیز آپ کے پورے ملک پر بھاری ہیں۔ امریکہ ایسے ہی سپرپاور نہیں بنا ہوا، فرانس کی طاقت کے پیچھے اس کی بھیڑ بکریوں یا کیڑوں مکوڑوں کی طرح پھیلتی ہوئی آبادی نہیں ہے، جاپان، تائیوان، ہانگ کانگ، سنگاپور، ساؤتھ کوریا یہ سب سائنس اور علم کے میدانوں میں آگے بڑھنے کی وجہ سے ترقی کی شاہروں پر گامزن ہیں۔ ناسا مریخ پر جھنڈے گاڑ رہا ہے اور ہم یہاں صدیوں پرانے لوگوں کے بکھیڑوں سے ہی نہیں نکل رہے۔ اندازہ کیجئے ہماری قوم کا بڑا طبقہ ابھی تک چودہ سو سال پہلے گزرے صحابہ کرام کے معاملے پر ہی آپس میں سر پھٹول میں پڑا رہتا ہے۔ ابھی تک ہماری قوم اسی مسئلے میں الجھی ہوئی ہے کہ چودہ سو سال پہلے گزرنے والے فلاں شخصیت زیادہ معتبر و مقدس تھی یا ڈھمکاں شخصیت، ہماری قوم ابھی بھی لوگوں کو ان کے عقیدوں سے جج کرتی ہے، عبدالسلام جیسے شخص کو پاکستان نے صرف اس لئے دھتکار دیا کیونکہ اس کا عقیدہ اکثریتی مسلمانوں سے فرق تھا۔ ہم ابھی تک یہی نہیں سیکھ سکے کہ مذہب، عقیدہ وغیرہ ہر فرد کا ذاتی انفرادی معاملہ ہوتا ہے۔۔۔
قصہ مختصر جس قوم کی ترجیحات یہ ہوں کہ وہ حال کی بجائے چودہ سو سال پرانے ماضی میں پھنسی رہنا پسند کرتی ہو، اس قوم کا پھر وہی حال ہوا کرتا ہے جو آج پاکستان کا ہورہا ہے، ایسی قوم پھر ہر وقت دوسروں کے سامنے کشکول لے کر بھکاریوں کی طرح کھڑی رہتی ہے اور کوئی اسے بھیک دینے پر بھی رضامند نہیں ہوتا۔
اس دُنیا کی ذندگی پر خون جلانے انٹرنیٹ فورم پر وقت برباد نہ کریں۔
اصلی ذندگی کی تیاری کریں۔ وہ بھی رمضان کے آخری عشرے میں