امریکہ اور ناٹو افغانستان کی دلدل میں

اتوار, 19 دسمبر 2010 10:24 احمد ولی مجیب
پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں نیٹو ممالک کا دو روزہ اہم اجلاس اس اعلامیے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ نیٹو بتدریج افغانستان سے اپنے انخلاءکا پروگرام شروع کرے گا اور 2014ءتک ان کا عسکری مشن افغانستان میں ختم ہوجائے گا۔ اس اجلاس کو نیٹو کی 60 سالہ تاریخ کا سب سے اہم اجلاس قرار دیا گیا۔ اس اجلاس کے جہاں اور بہت سے اہم پہلو ہیں وہیں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ اس میں روس نے بھی شرکت کی۔ روس کی اس اجلاس میں شرکت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب ایک ماہ قبل روس اور نیٹو فورسز نے پہلی بار مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے مشرقی افغانستان کے ایک گاﺅں پر حملہ کیا، جس کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ یہاں منشیات بنانے کی فیکٹری تھی، جسے تباہ کردیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ اس مشترکہ عسکری کارروائی کا علم حامد کرزئی کو میڈیا میں خبر نشر ہونے کے بعد ہوا۔ لیکن حامد کرزئی کو پھر بھی افغانستان کا صدر ہونے کا دعویٰ ہی، اور اب تو انہوں نے نیٹو کے ساتھ ایک طویل المیعاد معاہدہ بھی کرلیا ہے۔ ایک انتہائی بے اختیار شخص نیٹو کے وجود کو افغانستان میں جواز فراہم کررہا ہے۔ لزبن میں ہونے والے اس دو روزہ اجلاس میں 2014ءمیں جس انخلاءکی بات ہوئی اسے کس چیز سے تعبیر کریں؟ فتح سے یا شکست سے؟ نیٹو کے سیکریٹری جنرل اینڈرے راسموسین نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس انخلاءکو کامیابی سے تعبیر کیا اور کہا کہ اس نوسالہ قبضے میں ان کو بہت ساری کامیابیاں ملی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان کی قوت کمزور ہوچکی ہے اس لئے اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بتدریج انخلاءکا عمل شروع کیا جائے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے کامیابی کی بات تو کی مگر اپنی اس کامیابی کی وضاحت نہیں کی۔ افغانستان کے امور پر نظر رکھنے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ طالبان کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ طالبان نے اپنی عسکری کارروائیوں کا دائرہ شمالی افغانستان تک پھیلا دیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر پورے ملک میں طالبان حملے کرتے ہیں اور واپس اپنے محفوظ مقامات پر پہنچ جاتے ہیں۔ امریکی کمانڈر انچیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں میں گزشتہ 6 ماہ سے بہت زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ایسے حالات میں نیٹو کس کامیابی کی بات کرتا ہے؟ طالبان نے ان کی صفوں میں نقب لگائی ہے اور ان کے ہر منصوبے اور عسکری حکمت عملی کو ناکام بنایا ہوا ہے۔ امریکہ اور اتحادی گزشتہ کئی ماہ سے مذاکرات کی باتیں کرتے رہے اور اس ضمن میں یہ بھی دعویٰ کرتے رہے کہ انہوں نے کئی اعلیٰ طالبان رہنماﺅں سے مذاکرات کیے ہیں، مگر طالبان نے ہمیشہ اس سے انکار کیا اور دوٹوک موقف اختیار کیا کہ وہ امریکی فوج کی موجودگی میں کسی بھی نوعیت کے مذاکرات میں حصہ نہیں لیں گے۔ مگر امریکی حکام پھر بھی اس بات پر مصر رہتے ہیں کہ ہم نے مذاکرات کیے ہیں اور مغربی میڈیا نے سی آئی اے کی اس لائن کو خوب کوریج دی تاکہ طالبان کی صفوں میں دراڑیں ڈال سکی، مگر اب خود یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس سے مذاکرات ہوئے وہ کوئی جعلی ملا تھا۔ کرزئی کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے اپنی کونسل قائم کرکے اس معاملے کو مزید مشتبہ کردیا ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک شخص ملا اختر محمد منصور بن کر مذاکرات کرتا ہے اور امریکیوں سمیت کسی کو اس کی اصلیت کا علم بھی نہیں ہوتا!اگر یہ واقعہ سچ ہے تو اس سے امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کے باخبر ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ افغانستان میں امریکی استعماری قبضے دسواں سال چل رہا ہے اور اب امریکہ 2014ءمیں انخلاءکا پروگرام تیار کررہا ہے، مگر ان 9 برسوں میں وہ اپنی کامیابی کی کوئی واضح تصویر پیش نہیں کرسکا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ مزید چار سال میں اپنے اہداف حاصل کرپائے گا؟ اس سوال کا بالکل سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں شکست کھا چکے ہیں.... نہ صرف شکست بلکہ اس دلدل میں دھنس چکے ہیں۔2011ءتک امریکی و نیٹو فورسز افغانستان میں رہیں گی، اور ان کی قسمت میں سوائے مزید تباہی اور بربادی کے کچھ نہیں آئے گا۔ نیٹو فورسز نے جس بتدریج انخلاءکا جو نظام الاوقات دیا ہے وہ انتہائی مجہول قسم کا ہے۔ نیٹو کا کہنا ہے کہ 2011ءکی ابتدا سے فوجیوںکو گاﺅں اور دیہات سے پسپائی کا حکم دیا جائے گا۔ اس ضمن میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ وہ کن علاقوں سے پہل کریں گے۔ نیٹو فورسز پہلے مرحلے میں ضلعی مراکز تک محدود ہوں گی اور دوسرے مرحلے میں صوبائی مراکز تک محدود رہیں گی اور ان کی جگہ افغان آرمی سنبھالے گی۔ سوال یہ ہے کہ اول تو افغانستان میں ایسے بے شمار گاﺅں دیہات بلکہ پورے کے پورے اضلاع ہیں جہاں پر امریکی فوجی ان دس برسوں میں نہیں جا سکے ہیں، وہاں صرف طالبان کا راج چلتا ہے۔ جن دیہات میں امریکی اور نیٹو فورسز ہیں وہاں بھی وہ بہت وسیع علاقے کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں، ان کے پاس تمام جنگی وسائل اور اعلیٰ ٹیکنالوجی ہے مگر پھر بھی طالبان ان پر حملے کرتے ہیں اور وہ وہاں ایک طرح سے محصور ہیں۔ جب ان کے فوجی وہاں سے نکلتے ہیں تو فضا سے ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور سخت حفاظتی پہرے میں وہ گشت کرتے ہیں لیکن پھر بھی طالبان سپاہی اپنی جان پر کھیل کر اسلام اور ملک کی آزادی کی خاطر فدا ہوجاتے ہیں۔ اب اگر امریکی ان دیہات کو چھوڑ جاتے ہیں اور ان کی جگہ ان کے شاگرد افغان فوجی لیتے ہیں جن کی اکثریت چرس اور افیون کی عادی ہے، تو کیا وہ طالبان کے حملوں کو روک سکتے ہیں؟ طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر نے عیدالاضحی کے موقع پر قوم کے نام جو پیغام بھیجا تھا اس میں ایمانی قوت، عزم اور پامردی واضح پیغام تھا۔ طالبان سربراہ نے اس پیغام میں اپنے عسکری منصوبے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ہم دشمن کو گھیر چکے ہیں اور موقع آچکا ہے کہ ان کے اعصاب پر ایسی ضرب لگائیں کہ پھر وہ دوبارہ سنبھل کر نہ اٹھ سکیں۔ طالبان کے بیانات اور خبروں کو بعض مبصرین جذبات سے تعبیر کرتے ہیں، مگر سچ تو یہ ہے کہ ان سادہ، جذباتی اور ایمان سے سرشار مٹھی بھر مجاہدین نے دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ تباہی و بربادی کے اصل ذمہ دار امریکہ اور نیٹو ہیں۔ آج وہ اس بات کو بخوبی جان چکے ہیں کہ ان کو کوئی عسکری اور سیاسی کامیابی نہیں مل رہی ہے، ان کا ہر منصوبہ ناکام ہورہا ہے، مگر پھر بھی ہٹ دھرمی کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس معاملے کو 2014ءتک لے جانے سے اُن کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جب کہ امریکہ اور یورپ مزید تباہی کے مناظر دیکھیں گے۔ اور اب امریکی اور یورپی فوجیوں کی لاشوں کو نہیں چھپایا جاسکتا۔ افغانستان کی کرپٹ حکومت جو امریکی بیساکھیوں پر قائم ہے امریکی طرزِ حکومت کی علامت ہے۔ امریکہ نے صرف اور صرف کرپشن کا تحفہ دیا ہے، ہزاروں بے گناہ لوگوںکو موت کے گھاٹ اتارا ہے، جب کہ ان کا کمانڈر انچیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اب اپنی اسپیشل فورسز کے ساتھ رات کی تاریکی میں بے گناہوں پر شب خون مار رہا ہے، حالانکہ مغربی میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا ہر حربہ ناکام ہوچکا ہے۔ قندھار آپریشن گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے اور یہ آپریشن اتنی سفاکی کے ساتھ ہورہا ہے کہ خطے کے تمام لوگ امریکی بربریت کی گواہی دے رہے ہیں۔ لوگوں کے باغات، گھروں اور املاک کو بلڈوزروں کے ذریعے تباہ کیا جارہا ہےیمگر پھر بھی ان کو کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ لزبن کانفرنس سے قبل امریکیوں کی یہ کوشش تھی کہ قندھار کے حوالے سے کامیابی کی کوئی خبر حاصل کرسکیں، مگر وہ اس میں ناکام ہوئے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ہلمند کے چھوٹے سے علاقے مرجاہ میں کامیابی حاصل نہ کرسکے تو قندھار میں کس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں! وہ صرف اور صرف لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، بے گناہوں کو قتل کرسکتے ہیں۔ لیکن کیا کسی بے گناہ کو قتل کرنا فتح مندی ہے؟ امریکی لاکھوں ڈالر اُن جنگی سرداروں کو دے رہے ہیں جن کا کوئی بھروسا نہیں، جو ہمیشہ اپنی مرضی کا کھیل کھیلتے ہیں۔ خود امریکی صدر بارک اوباما اتنے بے بس ہوچکے ہیں کہ وہ انتہائی حسرت سے یہ واضح کرچکے ہیں کہ امریکی خارجہ پالیسی ان کے اختیار میں نہیں۔ امریکہ میں ایسا طبقہ موجود ہے جو جنگ کا حامی ہے اور وہ اپنی امپیریلزم کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن ایسا اُس کے لیے اب ممکن نہیں، کیونکہ افغانستان کی جنگ میں 7.5 بلین ڈالر ماہانہ خرچ ہورہا ہے جب کہ فوجیوں کی ہلاکت میں بھی بے انتہا اضافہ ہوچکا ہے۔
 
اوباماکاخفیہ دورہ افغانستان!!۔۔۔کاراز

چار دسمبر 2010ء کی شب امریکی صدر اوباما نے افغانستان کا خفیہ دورہ کیا۔ بگرام ایئربیس پر تین گھنٹے قیام کیا۔ یہاں انہوں نے امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈیوڈپیٹرسن، افغانستان میں متعین امریکی سفیر کارل ایکزی اور امریکی فوجیوں سے ملاقاتیں کیں۔ ایئربیس پر ہی قائم ہسپتال میں جسمانی، روحانی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا امریکی فوجیوں کی عیادت کی اور پھر آخر میں اجتماعی طور پر خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا: مجھے اس حقیقت کا بڑی شدت کے ساتھ احساس ہے کہ امریکا میں ہالیڈے سیزن شروع ہوچکا ہے۔ یہ وہ سیزن ہے جب ہر کوئی اپنے گھر والوں کے ساتھ ملنا چاہتا ہے لیکن آپ اپنے گھروں سے ہزاروں کوس دور، ان انتہائی مشکل حالات میں ہیں۔ میں آپ کو حوصلہ دینے کے لیے آیا ہوں۔ قارئین! مسٹر اوباما کی اس بات میں حقیقت ہے اس وقت امریکی افواج سخت ڈپریشن میں ہیں۔ آسانی سے کوئی بٹالین افغانستان آنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی۔ بھاری بھرکم تنخواہ، کئی قسم کی مراعات اور واپسی پر تاحیات مختلف الاوٴنس، بونس کا لالچ دینے اور بیسیوں قسم کے سبز باغ دکھانے کے باوجود کم کم ہی فوجی آنے پر تیار ہوتے ہیں۔ پینٹاگون نے 2009ء میں جن 35 ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان بھیجنا تھا ان میں سے 55 فیصد نے مختلف حیلے بہانے بناکر آنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ کیوں انکار نہ کریں جب آئے دن اپنے ساتھیوں کے تابوت افغانستان سے آتے دیکھتے ہیں۔ دورانِ تحریر میرے سامنے انگلش، عربی اور اُردو رپورٹس کا پلندہ ہے۔ جس میں 2001ء سے لے کر مارچ 2009ء تک افغانستان میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ہے۔ عرق ریزی سے جمع کیا تو جو ہندسے سامنے آئے وہ کچھ یوں تھے۔ کل امریکی آرمی 7374، امریکی نیو 176، میرین 1686، ایرفورس 260۔ یہ کل تعداد 9496 بنتی ہے۔ اس سال جنوری میں جو پندرہ دن تک ہلمند میں آپریشن رہا اس میں محتاط اندازے کے مطابق 877 امریکی فوجی مارے گئے۔ یہ وہ اعداد وشمار ہیں جن کی لاشیں خوبصورت تابوتوں میں لپیٹ کر اپنے ہوائی اڈوں پر اُتریں تو ان کو سیلوٹ کرنے والے حاضر تھے۔ 16/ فروری سے 15 مارچ 2010ء تک حالات زیادہ خوفناک تھے۔ امریکی واتحادی افواج میں سے جن کے تابوت اپنے گھروں کو لوٹے ہیں، وہ 1391 ہیں۔ امریکی واتحادی تباہ شدہ فوجی گاڑیوں کی تعداد 141 ہے۔ بکتر بند اور ٹینکوں کی تعداد 342 ہے۔ ٹرک اور آئل ٹینکرز 51 ہیں۔ ہیلی کاپٹر اور طیارے 7 ہے۔ جاسوس طیارے 5 ہیں۔ اس کے علاوہ زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد کا شمار نہیں۔ باقی صحیح سلامت بچ جانے والے فوجی وسیکیورٹی اہلکار شدید نفسیاتی دباؤ میں ہیں۔ امریکا کے مرکز صحت کی جاری کردہ عربی اور انگلش بیسیوں رپورٹوں کے مطابق عراق وافغانستان میں تعینات افواج کی کثیر تعداد اپنی قدرتی صلاحیتیں کھوبیٹھی ہے۔ وہ دماغی اور اعصابی کام کرنے سے معذور ہوچکے ہیں۔ اب تو ڈاکٹر بھی ان کے علاج سے مایوس ہوچکے ہیں۔ دنیا کی سپر پاور کے مہذب فوجی منشیات کو بطور آخری علاج استعمال کرنے لگے ہیں۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں فوجیوں کا خاندانی شیرازہ دھیرے دھیرے بکھررہا ہے۔ امریکی حکام نے سوچا تھا ترقی یافتہ طب اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے جنگ میں زندہ بچنے والے بیمار فوجیوں کا علاج کرسکیں گے لیکن اسے بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بیمار فوجیوں کا علاج کرنے والی کمیٹیوں نے بتایا گزشتہ سال افغانستان اور عراق سے واپس آنے والے 2ہزار 5 سو فوجی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ 2008ء کے آخر تک مختلف بیماریوں اور امراض کا شکار فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچنے کا قوی امکان ہے۔ امریکی حکومت نے ان کے علاج معالجہ کے لیے 650/ ارب ڈالر کے خطیر اخراجات کا اندازہ لگایا ہے۔ امریکی فوج کے نگرانوں نے بتایا افغانستان سے واپس آنے والے فوجیوں میں دماغی بیماری کی وبا پھیل چکی ہے۔ ان فوجی اور آرمی نیشنل کے اہلکاروں میں سے 38 فیصد دماغی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں۔ فوجیوں کی ذہنی بیماریوں کی نوعیت معلوم کرنا ایک بڑا مشکل عمل ہے جبکہ ان کا علاج اس سے بھی مشکل کام ہے۔ یہ بیمار فوجی نسیان کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ ان کے چلنے پھرنے کا طریقہ بتاتا ہے وہ ہوش وحواس سے بیگانہ ہورہے ہیں۔ دماغی بیماروں کے علاج کرنے و الے مراکز کے مطابق گزشتہ سال افغانستان سے واپس آنے والے 4 ہزار200فوجی دماغی بیماری کے علاج کے لیے مختلف فوجی ہسپتالوں میں داخل کیے گئے۔ ہزاروں دیگر غیر رجسٹرڈ فوجی بھی دماغی امراض کا شکار ہیں۔ سروے کے مطابق میدانِ جنگ سے واپس آنے والے ہر 5فوجیوں میں سے ایک فوجی دماغی امراض کا شکار ہے اور اس کی وجہ ڈاکٹروں نے زوردار دھماکوں سے قریب ہونا بتائی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق افغانستان سے واپس آنے والے فوجی اور معاون دستوں میں سے 22ہزار اہلکار دہشت وخوف میں مبتلا ہیں۔ ہر 5 فوجیوں میں سے 4 اہلکار ایسے ہیں، جنہیں قتل کرنے کے احکامات ملے تھے، ان کی نگاہوں کے سامنے ان کے ساتھی مارے گئے یا زخمی ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان بیماریوں کے باعث ان فوجیوں کے اپنے گھر والوں اور دوست احباب کے ساتھ لڑائی جھگڑے اور بداخلاقیوں کی شرح صف اوّل کے فوجیوں میں 3.5فیصد سے 14فیصد تک بڑھ گئی ہے جبکہ معاون دستوں میں 4سے 21فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق فوجی کیمپوں میں طبی سہولیات ناکافی ہونے کی وجہ سے 50 فیصد بیمار فوجیوں کا علاج نہیں ہوسکا ہے اور کثیر تعداد میں بیمارفوجیوں کے علاج معالجہ کے اخراجات ان کے گھر والوں نے خود اٹھائے ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے 2006ء میں جنگ سے لوٹنے والے ایک لاکھ 94ہزار 2سو 54فوجی اہلکار بے گھر ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر زندگی گزاررہے ہیں۔ 2007ء کے ایک سروے رپورٹ کے مطابق فٹ پاتھوں پر زندگی گزارنے والوں میں سے ہر 3افراد میں ایک فوجی ہے جو میدانِ جنگ سے واپس آیا ہوا ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے امریکی حکومت نے 15ہزار مکانات اور رفاہی اداروں نے 8ہزارگھر ان فوجیوں کے لیے فراہم کیے ہیں لیکن اب بھی ہزاروں فوجی غربت کی وجہ سے گھٹیا حرکتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکی عدالت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق7ملین قیدیوں میں سے 12فیصد وہ فوجی ہیں جو میدانِ جنگ میں تعینات رہے ہیں اور ان قیدی فوجیوں میں سے ہر 5میں سے 4فوجی منشیات نوشی میں مبتلا ہیں۔ امریکی وزیر طب وصحت نے بتایا افغانستان سے واپس آنے والے فوجیوں کی نفسیاتی بیماری ان کے گھروالوں پر اثر انداز ہوگئی ہے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ
 
سوفوجی کس طرح ایک لاکھ بیس ہزارفوجوں کی حو&#15

امریکی اخبار نیو یارک ٹایمز کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون روان سال کے دوران مزید1400 سو تازہ دم فوجیوں کو افغانستان بھیجنا چاہتا ہے ،تاکہ اس نئی کمک کے ذریعے اس خلاءاور کمزوری کو دور کیا جائے جو گزشتہ سال مجاہدین کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے سامنے آئی۔


اگر چہ پینٹاگون نے اس نئی کمک کو افغانستان میں مجایدین کیخلاف روان سال کے دوران موثر حملوں اور خاص فوجی حکمت عملی سے تعبیر کیا،مگر حقیت اس کے برعکس ہے،کیونکہ گزشتہ سال امریکی فوجیوں کو افغانستان میں اس حد تک جانی اور مالی نقصان پہنچ چکاہے جس کی مثال گزشتہ نو سالوں میں امریکی حکام کو بھی نظر نہیں آتی ، تو اب یہ بات لازم ہے کہ امریکی حکام اپنے ہلاک شدہ فوجیوں کی اس خلاءکو پر کرنے کے لئے کسی حد تک نئے فوجیوں کو بھیج دینگے۔
پینٹاگون کا یہ کہنا کہ وہ ان 1400تازہ فوجیوں کے ذریعے مجایدین کیخلاف موثر کاروائی کرینگے ،ان کا یہ دعوی اس لئے بے معنی ہے کیونکہ گزشتہ دس سال کے دوران پینٹاگون کے وحشی دماغ نے ہرقسم کے اقدامات کیے، مجاہدین کے کیخلاف جنگ،تعذیبی کاروائیاں،انٹیلی جنس اور سیاسی چالوں کے ساتھ ساتھ افغان عوام کا قتل عام،گرفتاریاں ان کے گھروں اور کھیتوں کو تباہ کرنے سمیت کس بھی قسم کے جرائم کے ارتکاب سے باز نہیں آئے ہیں،اب لگتا ہے کہ پینٹاگون کا ان نئے فوجیوں کے ارسال کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں کہ اس سے وہ گزشتہ سال پہنچنے والے جانی خسارے کو پورا کریں اس کے علاوہ اس نئی عسکری کمک کا کوئی اور مفہہوم اور مطلب نہیں۔
اگر ہم حقایق کا بغور جائزہ لے تو پینٹاگون کھبی بھی 1400فوجیوں کے بھیجنےکی صورت میں اس خسارے کو پورانہیں کرسکتا ہے، کیونکہ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ گزشتہ سال ملک بھر میں مجاہدین کی جانب سے ایسی کاروائیاں ہوئیں جن کو نہیں چھپایا جاسکتا ہے اور ان واقعات پر امریکی حکام اور بگرام میں موجودان کے ترجمان بھی اعتراف کرتے ہیں،بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال مرنے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 3000سے تجاوز کرچکی ہے،جب دیگرموثق شواہداورمجاہدین کے معلومات کی رو سے یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔
اگر ہم فرض کرلیں کہ ان1400فوجیوں کے ارسال سے امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے اس خلاءکو پر کیا جاسکتا ہے،مگر اس خلاءاورضرورت کو کیسے پوراکیا جائے گاجو افغانستان میں ہے اور جس کا سامنا ایک لاکھ بیس ہزار امریکی فوجی روزانہ کر رہے ہیں،حواس باختہ اور جنگ سے خوف زدہ ان فوجیوں کے بارے میں پینٹاگون کا کیا خیال ہے کہ وہ اس خلاءکو ان چودہ سو فوجیوں کے ارسال سے پورا کرلینگے اورپھر ان چودہ سوفوجیوں میں سرخاب کا کونسا پر لگا ہے کہ وہ سال 2011 میں کمال کرکےدیکھائیگا ،کھبی بھی نہیں بلکہ اگر یہ چودہ سو فوجی اگران ایک لاکھ بیس ہزار فوجیوں میں شامل ہوجاتے ہیں اور یہ ان کے واقعات اور طالبان کے جنگ کے قصے سن لے، تو پھر یہ سب ایک ساتھ ہی چیخ اٹھےینگے اور ایک ماہ کے اندر اندرافغانستان کی جہادی فضاءان کو اس طرح لپٹ لے گی کہ پھر یہ فرق کرنا مشکل ہوگا کہ ان میں تازہ دم فوجی کونسے ہیں اور پرانے کونسے ہیں ،یعنی یہ پرانے اور نئے فوجی، افغان مجاہدین کی اعلی حوصلہ مندی کے سامنے اتنے مغلوب ہوچکے ہونگے اور ان کو اتنی ضربیں لگ چکی ہونگی کہ ان کی خاص جنگی حکمت عملی ختم ہوچکی ہوگی اور ان کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہوگا کہ وہ کسی طرح افغانستان سے دم دباکر راہ فرار اختیار کرلے۔

آخری تازہ کاری ( جمعہ, 21 جنوری 2011 16:58 )
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا.
سلام ہے ان پر
یہ الله کا احسان ہے جس نے اس قوم کو مسلمان کر دیا تھا
چنگیز خان نے مسلمانو کو تباہ کیا تھا -الله نے اس کے بیٹوں کو ہی مسلمان کر دیا
اور اپنے دین کو تقویت دی
اب پھر دنیا میں تبدیلی کا وقت آ گیا ہے
 

Bangash

Chief Minister (5k+ posts)
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا.
سلام ہے ان پر
یہ الله کا احسان ہے جس نے اس قوم کو مسلمان کر دیا تھا
چنگیز خان نے مسلمانو کو تباہ کیا تھا -الله نے اس کے بیٹوں کو ہی مسلمان کر دیا
اور اپنے دین کو تقویت دی
اب پھر دنیا میں تبدیلی کا وقت آ گیا ہے

ایک پختوں نے ١٠٠ سال بعد دوشمن سے بدلہ لیا تو اسکا دوست اسکو کہتا ہے بہت جلد بازی سے کام لیا. یہی تو موقع ہوتا ہے دشمن کو تڑپانے کا جیسے مچھلی بغیر پانی کے.اوریہاں سے جب دشمن جنگ ہار کر بچے کچے اپنے گھر واپس جائینگے. تو وہاں ایک اور نفرت کا مقابلہ نہیں کرسکیںگےاپنے ہی عوام سے.نتیجہ ہوگا خودکشی یا اپنے ملک میں دہشت گردی یا انقلاب
 
Last edited:

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
ایک پختوں نے ١٠٠ سال بعد دوشمن سے بدلہ لیا تو اسکا دوست اسکو کہتا ہے بہت جلد بازی سے کام لیا. یہی تو موقع ہوتا ہے دشمن کو تڑپانے کا جیسے مچھلی بغیر پانی کے.اوریہاں سے جب دشمن جنگ ہار کر بچے کچے اپنے گھر واپس جائینگے. تو وہاں ایک اور نفرت کا مقابلہ نہیں کرسکیںگےاپنے ہی عوام سے.نتیجہ ہوگا خودکشی یا اپنے ملک میں دہشت گردی یا انقلاب

It will be inqilab in their countries before they will leave insha Allah.

Huge migration of Muslims to their countries means some thing.
 

Back
Top