سابق وزیر اعظم اپنے سیاسی جنازے کی تدفین کا عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق تیزی سے مکمل کررہے ہیں،وہ اب تاریخ کا ایک باب بن گئے ہیں،سیاہ یا روشن، اس کا فیصلہ آنے والے ہی کریں گے۔نواز شریف روز اوّل سے ہی اپنے مفادات کے اسیر تھے، لیکن غضب کے ذہین، ان کا معصوم چہرہ ان کا سب سے مؤثر ہتھیار تھا،ہمدردی اور ووٹ حاصل کرنے کا فن ان کو خوب آتا تھا،پاکستانی قوم کی نفسیات سے باخبر تھے،اس لیے وفاداریاں حاصل کرنا ان کے لیے مشکل نہیں تھا۔ دھیمی آواز اور نرم لہجہ سے کئی لوگ متاثر ہوئے تاہم حکمرانی کی اہلیت،بات کرنے اور سمجھانے کی صلاحیت،حاضر دماغی کا تعلق ان سے بہت کم تھا،قدرت ان پر سیاسی زندگی میں مہربان رہی۔ خوش قسمتی سے وہ کئی بڑے مسائل سے نکل میں کامیاب ہوئے،مسند اقتدار پر بارہا فائز ہوئے،لیکن جوں ہی قسمت نے ساتھ چھوڑا عدالت پہنچے اور تاحیات نااہل ٹھہرے۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ میاں صاحب کا انجام ان کے مشیروں کے غلط مشوروں کے باعث ہوا۔ سوال یہ ہے کہ مشیروں کا انتخاب کس نے کیا؟خوشامدیوں کے جھرمٹ میں کیسے پھنس گئے؟یقیناً اپنے اختیار اور اپنی مرضی سے،لندن فلیٹ خریدنے پر مجبور مشیروں نے تو نہیں کیا تھا،اقامہ حاصل کرنا مشیروں کا کارنامہ تو نہیں تھا،قوم سے غلط بیانی کرنے کا سبب مشیر تو نہیں تھے،پھر مشیروں سے کیسا گلہ،میاں صاحب نے وہی کاٹا جو بویا تھا،بچپن میں ہم نے صحیح ہی سنا
تھا،جیسی کرنی ویسی بھرنی!
نا اہلی کے بعد البتہ صورتحال خراب کرنے میں مشیروں نے یقیناً کردار ادا کیا،میاں صاحب نے ووٹ کے تقدس کے نام پر اداروں کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی،اور تو اور آئین میں تبدیلی کا مطالبہ کردیا،کیونکہ میاں صاحب کے مشیروں نے ان کو یہ سمجھا رکھا تھا کہ ان کو کچھ نہیں ہوسکتا۔ اب جب میاں صاحب نااہل ہوگئے تو ان کو یہ حقیقت تسلیم کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔ ان کو یقین نہیں آرہا کہ وہ اب پاکستان کے وزیر اعظم نہیں ہیں،وہ اب سرکاری خرچ پر غیر ملکی دورے نہیں کرسکتے، وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے،اس لیے میاں صاحب کبھی اداروں کو دھمکاتے ہیں، کبھی ججز کو برا بھلا کہتے ہیں اور کبھی ملک ٹوٹنے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا نعرہ ووٹ کا تقدس ہے، لیکن ہدف کرسی کا حصول ہے۔ کیونکہ ماضی میں خود میاں صاحب ووٹ کا تقدس پامال کرتے رہے ہیں،جونیجو، بینظیراور گیلانی حکومت ووٹ کے ذریعے ہی قائم ہوئی تھی، میاں صاحب ان حکومتوں کو توڑنے والوں میں شامل تھے،بلکہ میاں صاحب کی سیاست کی ابتداء ہی ضیاء الحق کی مدد سے ہوئی تھی،جو کہ ووٹ کا تقدس پامال کرکے اقتدار پر قابض ہوئے تھے،ان سب باتوں کو قوم کیسے بھلا سکتی ہیں؟؟اور میاں صاحب پر کیسے یقین کرسکتی ہیں؟
Source:
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ میاں صاحب کا انجام ان کے مشیروں کے غلط مشوروں کے باعث ہوا۔ سوال یہ ہے کہ مشیروں کا انتخاب کس نے کیا؟خوشامدیوں کے جھرمٹ میں کیسے پھنس گئے؟یقیناً اپنے اختیار اور اپنی مرضی سے،لندن فلیٹ خریدنے پر مجبور مشیروں نے تو نہیں کیا تھا،اقامہ حاصل کرنا مشیروں کا کارنامہ تو نہیں تھا،قوم سے غلط بیانی کرنے کا سبب مشیر تو نہیں تھے،پھر مشیروں سے کیسا گلہ،میاں صاحب نے وہی کاٹا جو بویا تھا،بچپن میں ہم نے صحیح ہی سنا
تھا،جیسی کرنی ویسی بھرنی!
نا اہلی کے بعد البتہ صورتحال خراب کرنے میں مشیروں نے یقیناً کردار ادا کیا،میاں صاحب نے ووٹ کے تقدس کے نام پر اداروں کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی،اور تو اور آئین میں تبدیلی کا مطالبہ کردیا،کیونکہ میاں صاحب کے مشیروں نے ان کو یہ سمجھا رکھا تھا کہ ان کو کچھ نہیں ہوسکتا۔ اب جب میاں صاحب نااہل ہوگئے تو ان کو یہ حقیقت تسلیم کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔ ان کو یقین نہیں آرہا کہ وہ اب پاکستان کے وزیر اعظم نہیں ہیں،وہ اب سرکاری خرچ پر غیر ملکی دورے نہیں کرسکتے، وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے،اس لیے میاں صاحب کبھی اداروں کو دھمکاتے ہیں، کبھی ججز کو برا بھلا کہتے ہیں اور کبھی ملک ٹوٹنے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا نعرہ ووٹ کا تقدس ہے، لیکن ہدف کرسی کا حصول ہے۔ کیونکہ ماضی میں خود میاں صاحب ووٹ کا تقدس پامال کرتے رہے ہیں،جونیجو، بینظیراور گیلانی حکومت ووٹ کے ذریعے ہی قائم ہوئی تھی، میاں صاحب ان حکومتوں کو توڑنے والوں میں شامل تھے،بلکہ میاں صاحب کی سیاست کی ابتداء ہی ضیاء الحق کی مدد سے ہوئی تھی،جو کہ ووٹ کا تقدس پامال کرکے اقتدار پر قابض ہوئے تھے،ان سب باتوں کو قوم کیسے بھلا سکتی ہیں؟؟اور میاں صاحب پر کیسے یقین کرسکتی ہیں؟
Source: