
سینئر تجزیہ کار اور اینکر پرسن کامران خان نے ملک کی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو خدا حافظ کہہ دیا، اور ساتھ ہی میں مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کو خوش آمدید کا پیغام دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق اینکر پرسن کامران خان نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ الوداع عمران خان الوداع، ویلکم شہباز شریف ویلکم، چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا۔
https://twitter.com/x/status/1509851000445693955
ان کا کہنا تھا کہ دیکھیں نواز، زرداری اور فضل الرحمن سرکار کتنی جلد پیٹرول، ڈیزل بجلی اور خوردنی اشیا قیمتیں کم کرتی ہے، کب آئی ایم ایف بستر گول کرتی ہے، نئی آنے والی مخلوط حکومت کس طرح کیسے ان کے بقول پاکستان دشمن آئی ایم ایف پروگرام سے جان چھڑاتی ہے، ان کو دن میں تاریں دکھیں گے۔
کامران خان نے کہا کہ ایک اور منتخب وزیراعظم کے اقتدار کا سورج قبل از وقت ڈوب رہا ہے۔ 42 ماہ پرانی عمران خان حکومت کا اختتام آئندہ 48 گھنٹوں میں متوقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی نواز، زرداری اور فضل الرحمان مخلوط حکومت کا سورج نکلے گا۔ شہباز شریف نئے وزیراعظم پاکستان ہونگے۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف اور کئی کابینہ وزرا، مخلوط حکومت کے سرپرست نواز شریف، آصف زرداری، مریم نواز یا تو متعدد کرپشن کیسز میں ملوث ہیں اور یا سزا یافتہ ہیں۔ سب سے بڑا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا نئی حکومت ان تمام بڑوں کے مقدمات ازخود دفن کر دے گی، نیب کو سپرد خاک کر دے گی یا معمول کی کارروائی جاری رہے گی؟
انہوں نے کہا کہ یہ بات طے ہے کہ یہی نواز اور زرداری حکومت کا پہلا تنازع ہوگا۔ میرا خدشہ ہے کہ نواز، زرداری اور فضل الرحمان حکومت کو دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔ کیونکہ یہ مخلوط حکومت مہنگائی کو ختم کرنے کے وعدوں پر اقتدار میں آ رہی ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ مہنگائی کا تنہا ذمہ دار عمران خان تھا۔ عوام دیکھیں گے کہ اپوزیشن کتنی جلد پیٹرول، ڈیزل اور خوردنی اشیاء وغیرہ کی قیمتیں کم کرتی ہے۔ گھروں اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کتنی کمی آتی ہے۔
کامران خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ معاشی ماہرین دیکھنا چاہتے ہیں کہ عمران خان کو اقتدار سے نکال کر آنے والی یہ حکومت کیسے ان کے بقول پاکستان مخالف آئی ایم ایف سے جان چھڑاتی ہے۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ کیا کبھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ماہرین سر جوڑ کے بیٹھیں گے کہ پاکستان کا نظام کیسے چلائیں گے۔ جس کی آمدن 6 ہزار ارب جبکہ خرچے 12 ہزار ارب سے تجاوز ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو آئندہ چند دنوں میں اقتدار میں آنے کی بے چینی ضرور ہے لیکن کیا اس بات کی عرق ریزی کی گئی ہے کہ کیسے پاکستان کے ذمہ 2700 ارب کے گردشی قرضوں سے نمٹیں گی۔ بلاول بھٹو بتائیں کہ تحریک طالبان پاکستان کی حالیہ جنگ کے اعلان کو روکنے کا ان کے پاس کیا فارمولہ ہے۔ طالبان کیساتھ مذاکرات تو وہ کم وبیش 40 بار وہ مسترد کر چکے ہیں۔ یہ صرف جھلک ہے، ان سوالوں اور ان مسائل کی جو آئندہ حکومت کو درپیش ہونگے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/13kamrankhanshahbazkhan.jpg