الوداع الوداع، پی ٹی آئی الوداع،سلیم صافی

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
safiahahaa.jpg

سیاست میں عمران خان کی مثال اس لاڈلے بچے کی سی تھی جسے باپ نے ہر سہولت فراہم کرکے نہ صرف سر چڑھا رکھا ہو بلکہ اسے دوسروں پر رعب جمانے اور بے عزت کرنے کی بھی مکمل آزادی دے رکھی ہو۔ 2010ءسے اس کا آغاز ہوا تھا اور 2022ء کے اواخر تک جاری رہا لیکن جنرل قمر باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد یہ عمل عروج کو پہنچا۔

وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد عمران خان کے اندر کا بے رحم اور سفاک انسان باہر نکل آیا ۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید بوجوہ ان کا ہر لاڈ اٹھاتے رہے۔ عدلیہ، میڈیا اور نیب کو ان کے قدموں میں لابٹھایا گیا۔ ان کو وہ کام کرنے کی بھی اجازت تھی جو ماضی کے وزرائے اعظم کیلئے ناقابل معافی جرم سمجھے جاتے تھے ۔

مثلاً زرداری کیلئے حسین حقانی کے ذریعے امریکہ سے براہ راست رابطہ ناقابل معافی جرم بن گیا تھا لیکن عمران خان کو برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے زلفی بخاری کے ذریعے ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ ان کے اسرائیل نواز داماد جیریڈ کروشنر سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کار بنایا گیا تھا۔ نواز شریف کی حکومت میں ڈی جی آئی ایس پی آر حکومت وقت کے ساتھ مقابلے میں مگن رہتے تھے لیکن عمران خان کے دور میں ڈی جی آئی ایس پی آر فوج کے کم اور عمران کے زیادہ ترجمان بنے تھے۔

کسی وزیراعظم کو اپنے حلف کے مطابق ریاستی راز اپنی بیوی کے ساتھ ڈسکس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن عمران خان ٹی وی پر خطابات میں کہتے رہے کہ وہ ہر فیصلہ اپنی اہلیہ سے مشورہ کرکے کرتے ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور ریاست سے متعلق معاملات میں اپنی اہلیہ کے خوابوں اور فالوں کے ذریعے فیصلے کرنا شروع کئے ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں تنازع انہوں نے بشریٰ بی بی کے ساتھ ایک اور لیفٹیننٹ جنرل کی ساز باز کے نتیجے میں پیدا کیا۔

اسی طرح اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے قاسم سوری کے ذریعے دھڑلے سے آئین شکنی کی لیکن لاڈلا ہونے کی بنیاد پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ ہوئی۔ میں ستمبر 2022کو اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کی ایوان صدر میں ملاقات صدر عارف علوی نے نہیں بلکہ زلمے خلیل زاد نے کروائی تھی۔ آج میں آپ کو ایک اور خبر دے رہا ہوں کہ مذکورہ ملاقات کے علاوہ بھی جنرل باجوہ کے ساتھ عمران خان کی مزید تین خفیہ ملاقاتیں ہوئیں جن میں اور لوگ بھی موجود تھے ۔ اب ایک طرف وہ جنرل باجوہ سے ملاقاتیں کرکے اقتدار کی بھیک مانگتے رہے اور دوسری طرف میڈیا میں انہیں میرجعفر اور میر صادق کہہ کر بلیک میل کرتے رہے ۔

آرمی قیادت میں تبدیلی کے بعد بھی عمران خان نے وہی لاڈلے والا رویہ برقرار رکھا۔ ایک طرف وہ جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی سے رابطے کرکے منت ترلہ کرتے رہے اور دوسری طرف میڈیا یا جلسوں میں ان پر طرح طرح کے الزامات لگاکر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔انہوں نے ہر طریقے اور ہر ذریعے سے منت ترلہ کیا لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے انہیں یہی جواب ملتارہا کہ ان کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں اور وہ وزیراعظم شہباز شریف سے رابطہ کریں۔ یہی عمران خان کی بنیادی غلطی تھی کہ وہ جنرل عاصم منیر کو جنرل قمر باجوہ اور جنرل ندیم انجم کو جنرل فیض حمید سمجھ بیٹھے، حالانکہ وہ ایک ساتھ کام کرنے کے باوجود مزاج ، طرز زندگی اور ڈیوٹی نبھانے میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

یہ دونوں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی طرح ناجائز طریقوں سے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے جرم میں براہ راست ملوث یا کسی احساس جرم کا شکار بھی نہیں تھے۔ ابتدا میں وہ دونوں کافی صبر سے کام لیتے رہے اور انتقام کی بجائے انہوں نے سیاسی حل کیلئے انتظار کیا لیکن عمران خان مقبولیت کے زعم میں مبتلا رہے اور الٹا ایسے اقدامات شروع کئے جو حکومت نہیں بلکہ ریاست مخالف بھی تھے۔9مئی کو بعض بیرونی قوتوں اور بعض ریٹائرڈ جرنیلوں کے ورغلانے پر پی ٹی آئی نے اس زعم میں آخری وارکیا اور حکومت کی بجائے فوج پر حملہ آور ہوئی۔

کور کمانڈرز میٹنگ، پھر فارمیشنز کمانڈرز اور پھر کابینہ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے متفقہ فیصلوں کے مطابق پی ٹی آئی نے سیکورٹی فورسز کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ ستر سال میں ازلی دشمن ملک بھی نہیں کرسکا تھا۔سیکورٹی فورسز کو یقین ہے کہ نہ صرف یہ پی ٹی آئی کا منظم منصوبہ تھا بلکہ اس کے پیچھے بیرونی، پاکستان دشمن عناصر کا ہاتھ بھی تھا۔ چنانچہ اب پی ٹی آئی کو سیکورٹی ادارے اندرونی سیاست کے آئینے میں نہیں بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت کی کوشش کے مجرم کی نظر سے دیکھ رہےہیں۔پہلے اشارے کنائیوں سے یہ پیغام دیا گیا کہ جو عمران خان کے ساتھ کھڑا رہے گا ، اسے فوج کو لڑانے کی سازش کرنیوالوں کی طرح ڈیل کیا جائے گا لیکن کچھ لوگوں نے اس معاملے کو ہلکا لیاحالانکہ 9مئی کے بعدکچھ وقت تحقیقات میں لگا ۔ کچھ وقت اپنی صفوں کو درست کرنے میں لگا اور اب لگتا ہے کہ عید کے بعد فیصلہ کن کارروائیاں شروع ہوں گی ۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اچھا ہورہا ہے یا برا ہورہا ہے لیکن یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ عمران خان کو اب اسی طرح ڈیل کیا جائے گا جس طرح ریاست کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کو ڈیل کیا جاتا ہے اور ان کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جوالطاف حسین کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ ہوتا رہا۔’ عمرانداروں‘ یا پھر بعض میڈیا پرسنز کے’ عمراندارانہ‘ رویے سے جو تھوڑا بہت اشکال پیدا ہوگیا تھا، اسے گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں دور کردیا۔انکی طویل پریس کانفرنس نہ صرف کورکمانڈرز میٹنگ اور فارمیشن کمانڈر میٹنگز کی پریس ریلیز کی تشریح تھی بلکہ ان اداروں اور افراد کیلئے واشگاف پیغام بھی، جو اَب بھی یہ خواب دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی بچ جائیگی یا پھر عمران خان اگلے الیکشن میں بھی ایک کردار ہوں گے ۔

تفصیل دے کر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتا دیا کہ ہم نے اگر اپنے تھری اور ٹو اسٹار جرنیلوں کو نہیں چھوڑا تو سویلین کردار یہ خیال دل سے نکال دیں کہ انہیں کسی بھی صورت معاف کردیا جائے گا۔ مستقبل کا حال اللہ جانتا ہے لیکن سردست میرا اندازہ ہے کہ اگلے الیکشن میں عمران خان میدان میں ہوں گے اور نہ ان کی پارٹی۔ جو ان کے ساتھ ہوگا، وہ بیرون ملک فرار ہوگا یا پھر جیل کے اندر۔ پی ٹی آئی کے وابستگان اور’ عمرانداروں‘ کیلئے میرا پیغام ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل عاصم منیر یا پھر جنرل فیض حمید اور جنرل ندیم انجم کی شخصیات اور ترجیحات میں فرق جان کر جیو۔ جو یہ فرق نہ کرسکا وہ مارا جائے گا۔

 

Nice2MU

President (40k+ posts)
safiahahaa.jpg

سیاست میں عمران خان کی مثال اس لاڈلے بچے کی سی تھی جسے باپ نے ہر سہولت فراہم کرکے نہ صرف سر چڑھا رکھا ہو بلکہ اسے دوسروں پر رعب جمانے اور بے عزت کرنے کی بھی مکمل آزادی دے رکھی ہو۔ 2010ءسے اس کا آغاز ہوا تھا اور 2022ء کے اواخر تک جاری رہا لیکن جنرل قمر باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد یہ عمل عروج کو پہنچا۔

وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد عمران خان کے اندر کا بے رحم اور سفاک انسان باہر نکل آیا ۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید بوجوہ ان کا ہر لاڈ اٹھاتے رہے۔ عدلیہ، میڈیا اور نیب کو ان کے قدموں میں لابٹھایا گیا۔ ان کو وہ کام کرنے کی بھی اجازت تھی جو ماضی کے وزرائے اعظم کیلئے ناقابل معافی جرم سمجھے جاتے تھے ۔

مثلاً زرداری کیلئے حسین حقانی کے ذریعے امریکہ سے براہ راست رابطہ ناقابل معافی جرم بن گیا تھا لیکن عمران خان کو برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے زلفی بخاری کے ذریعے ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ ان کے اسرائیل نواز داماد جیریڈ کروشنر سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کار بنایا گیا تھا۔ نواز شریف کی حکومت میں ڈی جی آئی ایس پی آر حکومت وقت کے ساتھ مقابلے میں مگن رہتے تھے لیکن عمران خان کے دور میں ڈی جی آئی ایس پی آر فوج کے کم اور عمران کے زیادہ ترجمان بنے تھے۔

کسی وزیراعظم کو اپنے حلف کے مطابق ریاستی راز اپنی بیوی کے ساتھ ڈسکس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن عمران خان ٹی وی پر خطابات میں کہتے رہے کہ وہ ہر فیصلہ اپنی اہلیہ سے مشورہ کرکے کرتے ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور ریاست سے متعلق معاملات میں اپنی اہلیہ کے خوابوں اور فالوں کے ذریعے فیصلے کرنا شروع کئے ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں تنازع انہوں نے بشریٰ بی بی کے ساتھ ایک اور لیفٹیننٹ جنرل کی ساز باز کے نتیجے میں پیدا کیا۔

اسی طرح اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے قاسم سوری کے ذریعے دھڑلے سے آئین شکنی کی لیکن لاڈلا ہونے کی بنیاد پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ ہوئی۔ میں ستمبر 2022کو اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کی ایوان صدر میں ملاقات صدر عارف علوی نے نہیں بلکہ زلمے خلیل زاد نے کروائی تھی۔ آج میں آپ کو ایک اور خبر دے رہا ہوں کہ مذکورہ ملاقات کے علاوہ بھی جنرل باجوہ کے ساتھ عمران خان کی مزید تین خفیہ ملاقاتیں ہوئیں جن میں اور لوگ بھی موجود تھے ۔ اب ایک طرف وہ جنرل باجوہ سے ملاقاتیں کرکے اقتدار کی بھیک مانگتے رہے اور دوسری طرف میڈیا میں انہیں میرجعفر اور میر صادق کہہ کر بلیک میل کرتے رہے ۔

آرمی قیادت میں تبدیلی کے بعد بھی عمران خان نے وہی لاڈلے والا رویہ برقرار رکھا۔ ایک طرف وہ جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی سے رابطے کرکے منت ترلہ کرتے رہے اور دوسری طرف میڈیا یا جلسوں میں ان پر طرح طرح کے الزامات لگاکر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔انہوں نے ہر طریقے اور ہر ذریعے سے منت ترلہ کیا لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے انہیں یہی جواب ملتارہا کہ ان کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں اور وہ وزیراعظم شہباز شریف سے رابطہ کریں۔ یہی عمران خان کی بنیادی غلطی تھی کہ وہ جنرل عاصم منیر کو جنرل قمر باجوہ اور جنرل ندیم انجم کو جنرل فیض حمید سمجھ بیٹھے، حالانکہ وہ ایک ساتھ کام کرنے کے باوجود مزاج ، طرز زندگی اور ڈیوٹی نبھانے میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

یہ دونوں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی طرح ناجائز طریقوں سے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے جرم میں براہ راست ملوث یا کسی احساس جرم کا شکار بھی نہیں تھے۔ ابتدا میں وہ دونوں کافی صبر سے کام لیتے رہے اور انتقام کی بجائے انہوں نے سیاسی حل کیلئے انتظار کیا لیکن عمران خان مقبولیت کے زعم میں مبتلا رہے اور الٹا ایسے اقدامات شروع کئے جو حکومت نہیں بلکہ ریاست مخالف بھی تھے۔9مئی کو بعض بیرونی قوتوں اور بعض ریٹائرڈ جرنیلوں کے ورغلانے پر پی ٹی آئی نے اس زعم میں آخری وارکیا اور حکومت کی بجائے فوج پر حملہ آور ہوئی۔

کور کمانڈرز میٹنگ، پھر فارمیشنز کمانڈرز اور پھر کابینہ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے متفقہ فیصلوں کے مطابق پی ٹی آئی نے سیکورٹی فورسز کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ ستر سال میں ازلی دشمن ملک بھی نہیں کرسکا تھا۔سیکورٹی فورسز کو یقین ہے کہ نہ صرف یہ پی ٹی آئی کا منظم منصوبہ تھا بلکہ اس کے پیچھے بیرونی، پاکستان دشمن عناصر کا ہاتھ بھی تھا۔ چنانچہ اب پی ٹی آئی کو سیکورٹی ادارے اندرونی سیاست کے آئینے میں نہیں بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت کی کوشش کے مجرم کی نظر سے دیکھ رہےہیں۔پہلے اشارے کنائیوں سے یہ پیغام دیا گیا کہ جو عمران خان کے ساتھ کھڑا رہے گا ، اسے فوج کو لڑانے کی سازش کرنیوالوں کی طرح ڈیل کیا جائے گا لیکن کچھ لوگوں نے اس معاملے کو ہلکا لیاحالانکہ 9مئی کے بعدکچھ وقت تحقیقات میں لگا ۔ کچھ وقت اپنی صفوں کو درست کرنے میں لگا اور اب لگتا ہے کہ عید کے بعد فیصلہ کن کارروائیاں شروع ہوں گی ۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اچھا ہورہا ہے یا برا ہورہا ہے لیکن یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ عمران خان کو اب اسی طرح ڈیل کیا جائے گا جس طرح ریاست کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کو ڈیل کیا جاتا ہے اور ان کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جوالطاف حسین کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ ہوتا رہا۔’ عمرانداروں‘ یا پھر بعض میڈیا پرسنز کے’ عمراندارانہ‘ رویے سے جو تھوڑا بہت اشکال پیدا ہوگیا تھا، اسے گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں دور کردیا۔انکی طویل پریس کانفرنس نہ صرف کورکمانڈرز میٹنگ اور فارمیشن کمانڈر میٹنگز کی پریس ریلیز کی تشریح تھی بلکہ ان اداروں اور افراد کیلئے واشگاف پیغام بھی، جو اَب بھی یہ خواب دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی بچ جائیگی یا پھر عمران خان اگلے الیکشن میں بھی ایک کردار ہوں گے ۔

تفصیل دے کر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتا دیا کہ ہم نے اگر اپنے تھری اور ٹو اسٹار جرنیلوں کو نہیں چھوڑا تو سویلین کردار یہ خیال دل سے نکال دیں کہ انہیں کسی بھی صورت معاف کردیا جائے گا۔ مستقبل کا حال اللہ جانتا ہے لیکن سردست میرا اندازہ ہے کہ اگلے الیکشن میں عمران خان میدان میں ہوں گے اور نہ ان کی پارٹی۔ جو ان کے ساتھ ہوگا، وہ بیرون ملک فرار ہوگا یا پھر جیل کے اندر۔ پی ٹی آئی کے وابستگان اور’ عمرانداروں‘ کیلئے میرا پیغام ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل عاصم منیر یا پھر جنرل فیض حمید اور جنرل ندیم انجم کی شخصیات اور ترجیحات میں فرق جان کر جیو۔ جو یہ فرق نہ کرسکا وہ مارا جائے گا۔


اس جاہل کو پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم میں فرق نظر نہیں آتا ۔۔

اور جاہل بھڑوے، عمران کے بغض میں بھرے جاہل، ایم کیو ایم ایک شہر کی جماعت تھی جبکہ پی ٹی آئی سارے پاکستان کی جماعت یے۔۔ اسے ختم کرنے میں ساری فوج کی پھٹ جائیگی لیکن اسے ختم نہیں کر سکتے ۔۔
 

bahmad

Minister (2k+ posts)
safiahahaa.jpg

سیاست میں عمران خان کی مثال اس لاڈلے بچے کی سی تھی جسے باپ نے ہر سہولت فراہم کرکے نہ صرف سر چڑھا رکھا ہو بلکہ اسے دوسروں پر رعب جمانے اور بے عزت کرنے کی بھی مکمل آزادی دے رکھی ہو۔ 2010ءسے اس کا آغاز ہوا تھا اور 2022ء کے اواخر تک جاری رہا لیکن جنرل قمر باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد یہ عمل عروج کو پہنچا۔

وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد عمران خان کے اندر کا بے رحم اور سفاک انسان باہر نکل آیا ۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید بوجوہ ان کا ہر لاڈ اٹھاتے رہے۔ عدلیہ، میڈیا اور نیب کو ان کے قدموں میں لابٹھایا گیا۔ ان کو وہ کام کرنے کی بھی اجازت تھی جو ماضی کے وزرائے اعظم کیلئے ناقابل معافی جرم سمجھے جاتے تھے ۔

مثلاً زرداری کیلئے حسین حقانی کے ذریعے امریکہ سے براہ راست رابطہ ناقابل معافی جرم بن گیا تھا لیکن عمران خان کو برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے زلفی بخاری کے ذریعے ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ ان کے اسرائیل نواز داماد جیریڈ کروشنر سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کار بنایا گیا تھا۔ نواز شریف کی حکومت میں ڈی جی آئی ایس پی آر حکومت وقت کے ساتھ مقابلے میں مگن رہتے تھے لیکن عمران خان کے دور میں ڈی جی آئی ایس پی آر فوج کے کم اور عمران کے زیادہ ترجمان بنے تھے۔

کسی وزیراعظم کو اپنے حلف کے مطابق ریاستی راز اپنی بیوی کے ساتھ ڈسکس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن عمران خان ٹی وی پر خطابات میں کہتے رہے کہ وہ ہر فیصلہ اپنی اہلیہ سے مشورہ کرکے کرتے ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور ریاست سے متعلق معاملات میں اپنی اہلیہ کے خوابوں اور فالوں کے ذریعے فیصلے کرنا شروع کئے ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں تنازع انہوں نے بشریٰ بی بی کے ساتھ ایک اور لیفٹیننٹ جنرل کی ساز باز کے نتیجے میں پیدا کیا۔

اسی طرح اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے قاسم سوری کے ذریعے دھڑلے سے آئین شکنی کی لیکن لاڈلا ہونے کی بنیاد پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ ہوئی۔ میں ستمبر 2022کو اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کی ایوان صدر میں ملاقات صدر عارف علوی نے نہیں بلکہ زلمے خلیل زاد نے کروائی تھی۔ آج میں آپ کو ایک اور خبر دے رہا ہوں کہ مذکورہ ملاقات کے علاوہ بھی جنرل باجوہ کے ساتھ عمران خان کی مزید تین خفیہ ملاقاتیں ہوئیں جن میں اور لوگ بھی موجود تھے ۔ اب ایک طرف وہ جنرل باجوہ سے ملاقاتیں کرکے اقتدار کی بھیک مانگتے رہے اور دوسری طرف میڈیا میں انہیں میرجعفر اور میر صادق کہہ کر بلیک میل کرتے رہے ۔

آرمی قیادت میں تبدیلی کے بعد بھی عمران خان نے وہی لاڈلے والا رویہ برقرار رکھا۔ ایک طرف وہ جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی سے رابطے کرکے منت ترلہ کرتے رہے اور دوسری طرف میڈیا یا جلسوں میں ان پر طرح طرح کے الزامات لگاکر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔انہوں نے ہر طریقے اور ہر ذریعے سے منت ترلہ کیا لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے انہیں یہی جواب ملتارہا کہ ان کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں اور وہ وزیراعظم شہباز شریف سے رابطہ کریں۔ یہی عمران خان کی بنیادی غلطی تھی کہ وہ جنرل عاصم منیر کو جنرل قمر باجوہ اور جنرل ندیم انجم کو جنرل فیض حمید سمجھ بیٹھے، حالانکہ وہ ایک ساتھ کام کرنے کے باوجود مزاج ، طرز زندگی اور ڈیوٹی نبھانے میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

یہ دونوں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی طرح ناجائز طریقوں سے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے جرم میں براہ راست ملوث یا کسی احساس جرم کا شکار بھی نہیں تھے۔ ابتدا میں وہ دونوں کافی صبر سے کام لیتے رہے اور انتقام کی بجائے انہوں نے سیاسی حل کیلئے انتظار کیا لیکن عمران خان مقبولیت کے زعم میں مبتلا رہے اور الٹا ایسے اقدامات شروع کئے جو حکومت نہیں بلکہ ریاست مخالف بھی تھے۔9مئی کو بعض بیرونی قوتوں اور بعض ریٹائرڈ جرنیلوں کے ورغلانے پر پی ٹی آئی نے اس زعم میں آخری وارکیا اور حکومت کی بجائے فوج پر حملہ آور ہوئی۔

کور کمانڈرز میٹنگ، پھر فارمیشنز کمانڈرز اور پھر کابینہ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے متفقہ فیصلوں کے مطابق پی ٹی آئی نے سیکورٹی فورسز کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ ستر سال میں ازلی دشمن ملک بھی نہیں کرسکا تھا۔سیکورٹی فورسز کو یقین ہے کہ نہ صرف یہ پی ٹی آئی کا منظم منصوبہ تھا بلکہ اس کے پیچھے بیرونی، پاکستان دشمن عناصر کا ہاتھ بھی تھا۔ چنانچہ اب پی ٹی آئی کو سیکورٹی ادارے اندرونی سیاست کے آئینے میں نہیں بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت کی کوشش کے مجرم کی نظر سے دیکھ رہےہیں۔پہلے اشارے کنائیوں سے یہ پیغام دیا گیا کہ جو عمران خان کے ساتھ کھڑا رہے گا ، اسے فوج کو لڑانے کی سازش کرنیوالوں کی طرح ڈیل کیا جائے گا لیکن کچھ لوگوں نے اس معاملے کو ہلکا لیاحالانکہ 9مئی کے بعدکچھ وقت تحقیقات میں لگا ۔ کچھ وقت اپنی صفوں کو درست کرنے میں لگا اور اب لگتا ہے کہ عید کے بعد فیصلہ کن کارروائیاں شروع ہوں گی ۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اچھا ہورہا ہے یا برا ہورہا ہے لیکن یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ عمران خان کو اب اسی طرح ڈیل کیا جائے گا جس طرح ریاست کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کو ڈیل کیا جاتا ہے اور ان کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جوالطاف حسین کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ ہوتا رہا۔’ عمرانداروں‘ یا پھر بعض میڈیا پرسنز کے’ عمراندارانہ‘ رویے سے جو تھوڑا بہت اشکال پیدا ہوگیا تھا، اسے گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں دور کردیا۔انکی طویل پریس کانفرنس نہ صرف کورکمانڈرز میٹنگ اور فارمیشن کمانڈر میٹنگز کی پریس ریلیز کی تشریح تھی بلکہ ان اداروں اور افراد کیلئے واشگاف پیغام بھی، جو اَب بھی یہ خواب دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی بچ جائیگی یا پھر عمران خان اگلے الیکشن میں بھی ایک کردار ہوں گے ۔

تفصیل دے کر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتا دیا کہ ہم نے اگر اپنے تھری اور ٹو اسٹار جرنیلوں کو نہیں چھوڑا تو سویلین کردار یہ خیال دل سے نکال دیں کہ انہیں کسی بھی صورت معاف کردیا جائے گا۔ مستقبل کا حال اللہ جانتا ہے لیکن سردست میرا اندازہ ہے کہ اگلے الیکشن میں عمران خان میدان میں ہوں گے اور نہ ان کی پارٹی۔ جو ان کے ساتھ ہوگا، وہ بیرون ملک فرار ہوگا یا پھر جیل کے اندر۔ پی ٹی آئی کے وابستگان اور’ عمرانداروں‘ کیلئے میرا پیغام ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل عاصم منیر یا پھر جنرل فیض حمید اور جنرل ندیم انجم کی شخصیات اور ترجیحات میں فرق جان کر جیو۔ جو یہ فرق نہ کرسکا وہ مارا جائے گا۔

Lagtha ha iss mother ny iss KO shadi sy phele jnaa ha, pechan k liye I'd card pr name buss's likhwa dia
 

xafiro

MPA (400+ posts)

میں نہیں جانتا سلیم صافی کا خان صاحب نے کیا بگاڑا ہے۔لیکن یہ بات طے ہے کہ اگر ہر تیسرے دن سلیم صافی عمران خان کے خلاف نہ لکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ کہیں اسے بغض عمران میں لقوہ تو نہیں مار گیا۔سیاست دانوں سے ہمارے نسبت ملک اور قوم کے حوالے سے ہوتی ہے۔جبکہ سلیم صافی کے تمام کالم عمران خان کی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں۔خان بہت ظالم کینہ پرور ، مطلبی ، گھمڈی وغیرہ وغیر

کچھ عرصے پہلے تک کے کالم مولانا فضل الرحمن کی زبان میں لکھے جاتے تھے جن میں مذہب کارڈ ، شخصیت کارڈ ، اخلاقی کارڈ اور کردار کارڈ کثرت سے کھلا جاتا تھا۔

اج کل موسم کمپنی سرکار کا ہے لہذا بیشتر کالم کمپنی سرکار کی زبان میں لکھے جاتے ہیں لہذا غداری کارڈ کثرت سے کھیلا جاتا ہے اور نو مئی کے کمپنی کے بیانیے کو پوری قوت سے تقویت دی جاتی ہے۔

میرا یہ ماننا ہے کہ اج کی تاریخ تک پاکستان میں جتنے بھی منفی کلچر متعارف ہوئے ان کا صحرا امپورٹڈ سرکار میں موجود تمام پارٹیوں کے سر ہے۔جبکہ سلیم صحافی کے بقول خان کے انے سے پہلے ہم ایک تہذیب یافتہ معاشرے میں رہتے تھے جہاں ،جھوٹ ، فریب ، مکاری ، اقربا پروری ،ہارس ٹریڈنگ، رشوت غداری ، فحاشی ، عریانیت ، مافیہ راج اور عسکری کمپنی کے ساتھ سازشوں کا دور تک شائبہ تک نہیں تھا ۔

عسکری سرکار نے خان کی 23 سال کی محنت سے کمائی مقبولیت کو ہائی جیک کر کے مبینہ طور پر اس سے "پرجیکٹ عمران " کا نام دے کر لاڈلے کی پخ لگا دی۔سلیم صافی اتنے معصوم ہین کہ وہ پروجیکٹ بھٹو منجانب ایوب خان اور پروجیکٹ نواز شریف منجانب ضیاء الحق کو یکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر انے والی تمام حکومتیں عسکری پروجیکٹ ہی ہوا کرتے ہیں ۔

عسکری انتظامیہ کی زیر سایہ پاکستان لیمٹڈ کمپنی اور کشمیر لمٹڈ میں سیاست دانوں کی حیثیت درباری یا ملازمین سے زیادہ نہیں۔اپنی تروتازہ کالم میں جناب سلیم صافی صاحب نے زلفی بخاری کا موازنہ حسین حقانی سے کر کے خان کے خلاف ایک اور غداری کارڈ کھیلنے کہ کوشش کی ۔زلفی بخاری پر الزام یہ ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کے ساتھ واٹس ایپ کے ذریع راپطے میں تھے ۔جبکہ ٹرمپ کا داماد اسرائیل نواز ہے۔ ٹرمپ بازات خود یہ سابقہ امریکی صدور اسرائیل نوز نہیں یہ این پیٹرسن اسرائیل نواز نہیں جسکے قڈموں میں گر کر مولانا فضل الرحمان وزارت کی بھیک مانگ تہا تھا اور بقول این پیٹرسن مولانا بکائو مال ھے ۔

بہرحال خان کا یہ گناہ حسین حقانی کے میوں گیٹ سازش سے زیادہ سنگین ہے۔اس وقت حسین حقانی سے بڑا معلوم غدار کوئی نہیں اگر یقین نہ ہو تو ہندوستانی بلاگز پر لکھے حسین حقانی کے ارٹیکل پڑھ کر لیں۔پھر وہ اجمل قادری اور احمد قریشی کے دورہ اسرائیل کو بھی گول کر جاتے ہیں۔

سلیم صافی کی بولتی ڈان لیک اور نواز مودی خوفیہ ملاقاتوں پر بھی خاموش۔خان صاحب اپنی حکومت واپس لینے کے لیے جنرلوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاہم کار کی ڈگی اور رات کی تاریکی میں میں چھپ چھپ کر جنرلوں سے مل کر سازشیں رچانے والے شہباز جوکر اعظم ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے قوم کو ننگا کرنے پر تل گئے ہیں ۔حیرت اس بات پر ہے کہ جوکرے اعظم کی ملعون فرانسیسی صدر سے جھپیاں بھی سلیم صافی صاحب کی پٹھانی غیرت کو نیند سے جگانے میں ناکام رہی ہیں۔

سلیم صافی صاحب خان کی شخصیت کے سحر سے نکل کر قومی ایشوز پر ائیں قوم کو یہ بتائیں کہ خان نے اس ملک کو کیا نقصان پہنچاہا ھے ۔خان کی حکومت تو گئی لیکن اللہ نے خان کی ساکھ بچا لی۔اور نظام میں موجود تما کالی بھیڑوں کو قوم کے سامنے ننگا کر دیا۔

اپ دن رات سوشل میڈیا پر خان کے ٹائیگر سے گالیاں کھاتے اور کھسیاہٹ خان کے خلاف اپنے کالمز میں نکالتے ہیں۔ اور جب ایک پٹھان کی غیرت مر جاتی ہے تو وہ خواتین ( بشریٰ بی بی )کا ذکر بھی بے اپنے کالمز میں بے شری سے کرنے لگتا ہے۔​
 

Bebabacha

Senator (1k+ posts)
P
safiahahaa.jpg

سیاست میں عمران خان کی مثال اس لاڈلے بچے کی سی تھی جسے باپ نے ہر سہولت فراہم کرکے نہ صرف سر چڑھا رکھا ہو بلکہ اسے دوسروں پر رعب جمانے اور بے عزت کرنے کی بھی مکمل آزادی دے رکھی ہو۔ 2010ءسے اس کا آغاز ہوا تھا اور 2022ء کے اواخر تک جاری رہا لیکن جنرل قمر باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد یہ عمل عروج کو پہنچا۔

وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد عمران خان کے اندر کا بے رحم اور سفاک انسان باہر نکل آیا ۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید بوجوہ ان کا ہر لاڈ اٹھاتے رہے۔ عدلیہ، میڈیا اور نیب کو ان کے قدموں میں لابٹھایا گیا۔ ان کو وہ کام کرنے کی بھی اجازت تھی جو ماضی کے وزرائے اعظم کیلئے ناقابل معافی جرم سمجھے جاتے تھے ۔

مثلاً زرداری کیلئے حسین حقانی کے ذریعے امریکہ سے براہ راست رابطہ ناقابل معافی جرم بن گیا تھا لیکن عمران خان کو برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے زلفی بخاری کے ذریعے ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ ان کے اسرائیل نواز داماد جیریڈ کروشنر سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کار بنایا گیا تھا۔ نواز شریف کی حکومت میں ڈی جی آئی ایس پی آر حکومت وقت کے ساتھ مقابلے میں مگن رہتے تھے لیکن عمران خان کے دور میں ڈی جی آئی ایس پی آر فوج کے کم اور عمران کے زیادہ ترجمان بنے تھے۔

کسی وزیراعظم کو اپنے حلف کے مطابق ریاستی راز اپنی بیوی کے ساتھ ڈسکس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن عمران خان ٹی وی پر خطابات میں کہتے رہے کہ وہ ہر فیصلہ اپنی اہلیہ سے مشورہ کرکے کرتے ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور ریاست سے متعلق معاملات میں اپنی اہلیہ کے خوابوں اور فالوں کے ذریعے فیصلے کرنا شروع کئے ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں تنازع انہوں نے بشریٰ بی بی کے ساتھ ایک اور لیفٹیننٹ جنرل کی ساز باز کے نتیجے میں پیدا کیا۔

اسی طرح اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے قاسم سوری کے ذریعے دھڑلے سے آئین شکنی کی لیکن لاڈلا ہونے کی بنیاد پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ ہوئی۔ میں ستمبر 2022کو اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کی ایوان صدر میں ملاقات صدر عارف علوی نے نہیں بلکہ زلمے خلیل زاد نے کروائی تھی۔ آج میں آپ کو ایک اور خبر دے رہا ہوں کہ مذکورہ ملاقات کے علاوہ بھی جنرل باجوہ کے ساتھ عمران خان کی مزید تین خفیہ ملاقاتیں ہوئیں جن میں اور لوگ بھی موجود تھے ۔ اب ایک طرف وہ جنرل باجوہ سے ملاقاتیں کرکے اقتدار کی بھیک مانگتے رہے اور دوسری طرف میڈیا میں انہیں میرجعفر اور میر صادق کہہ کر بلیک میل کرتے رہے ۔

آرمی قیادت میں تبدیلی کے بعد بھی عمران خان نے وہی لاڈلے والا رویہ برقرار رکھا۔ ایک طرف وہ جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی سے رابطے کرکے منت ترلہ کرتے رہے اور دوسری طرف میڈیا یا جلسوں میں ان پر طرح طرح کے الزامات لگاکر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔انہوں نے ہر طریقے اور ہر ذریعے سے منت ترلہ کیا لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے انہیں یہی جواب ملتارہا کہ ان کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں اور وہ وزیراعظم شہباز شریف سے رابطہ کریں۔ یہی عمران خان کی بنیادی غلطی تھی کہ وہ جنرل عاصم منیر کو جنرل قمر باجوہ اور جنرل ندیم انجم کو جنرل فیض حمید سمجھ بیٹھے، حالانکہ وہ ایک ساتھ کام کرنے کے باوجود مزاج ، طرز زندگی اور ڈیوٹی نبھانے میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

یہ دونوں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی طرح ناجائز طریقوں سے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے جرم میں براہ راست ملوث یا کسی احساس جرم کا شکار بھی نہیں تھے۔ ابتدا میں وہ دونوں کافی صبر سے کام لیتے رہے اور انتقام کی بجائے انہوں نے سیاسی حل کیلئے انتظار کیا لیکن عمران خان مقبولیت کے زعم میں مبتلا رہے اور الٹا ایسے اقدامات شروع کئے جو حکومت نہیں بلکہ ریاست مخالف بھی تھے۔9مئی کو بعض بیرونی قوتوں اور بعض ریٹائرڈ جرنیلوں کے ورغلانے پر پی ٹی آئی نے اس زعم میں آخری وارکیا اور حکومت کی بجائے فوج پر حملہ آور ہوئی۔

کور کمانڈرز میٹنگ، پھر فارمیشنز کمانڈرز اور پھر کابینہ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے متفقہ فیصلوں کے مطابق پی ٹی آئی نے سیکورٹی فورسز کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ ستر سال میں ازلی دشمن ملک بھی نہیں کرسکا تھا۔سیکورٹی فورسز کو یقین ہے کہ نہ صرف یہ پی ٹی آئی کا منظم منصوبہ تھا بلکہ اس کے پیچھے بیرونی، پاکستان دشمن عناصر کا ہاتھ بھی تھا۔ چنانچہ اب پی ٹی آئی کو سیکورٹی ادارے اندرونی سیاست کے آئینے میں نہیں بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت کی کوشش کے مجرم کی نظر سے دیکھ رہےہیں۔پہلے اشارے کنائیوں سے یہ پیغام دیا گیا کہ جو عمران خان کے ساتھ کھڑا رہے گا ، اسے فوج کو لڑانے کی سازش کرنیوالوں کی طرح ڈیل کیا جائے گا لیکن کچھ لوگوں نے اس معاملے کو ہلکا لیاحالانکہ 9مئی کے بعدکچھ وقت تحقیقات میں لگا ۔ کچھ وقت اپنی صفوں کو درست کرنے میں لگا اور اب لگتا ہے کہ عید کے بعد فیصلہ کن کارروائیاں شروع ہوں گی ۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اچھا ہورہا ہے یا برا ہورہا ہے لیکن یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ عمران خان کو اب اسی طرح ڈیل کیا جائے گا جس طرح ریاست کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کو ڈیل کیا جاتا ہے اور ان کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جوالطاف حسین کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ ہوتا رہا۔’ عمرانداروں‘ یا پھر بعض میڈیا پرسنز کے’ عمراندارانہ‘ رویے سے جو تھوڑا بہت اشکال پیدا ہوگیا تھا، اسے گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں دور کردیا۔انکی طویل پریس کانفرنس نہ صرف کورکمانڈرز میٹنگ اور فارمیشن کمانڈر میٹنگز کی پریس ریلیز کی تشریح تھی بلکہ ان اداروں اور افراد کیلئے واشگاف پیغام بھی، جو اَب بھی یہ خواب دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی بچ جائیگی یا پھر عمران خان اگلے الیکشن میں بھی ایک کردار ہوں گے ۔

تفصیل دے کر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتا دیا کہ ہم نے اگر اپنے تھری اور ٹو اسٹار جرنیلوں کو نہیں چھوڑا تو سویلین کردار یہ خیال دل سے نکال دیں کہ انہیں کسی بھی صورت معاف کردیا جائے گا۔ مستقبل کا حال اللہ جانتا ہے لیکن سردست میرا اندازہ ہے کہ اگلے الیکشن میں عمران خان میدان میں ہوں گے اور نہ ان کی پارٹی۔ جو ان کے ساتھ ہوگا، وہ بیرون ملک فرار ہوگا یا پھر جیل کے اندر۔ پی ٹی آئی کے وابستگان اور’ عمرانداروں‘ کیلئے میرا پیغام ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل عاصم منیر یا پھر جنرل فیض حمید اور جنرل ندیم انجم کی شخصیات اور ترجیحات میں فرق جان کر جیو۔ جو یہ فرق نہ کرسکا وہ مارا جائے گا۔

Pu
safiahahaa.jpg

سیاست میں عمران خان کی مثال اس لاڈلے بچے کی سی تھی جسے باپ نے ہر سہولت فراہم کرکے نہ صرف سر چڑھا رکھا ہو بلکہ اسے دوسروں پر رعب جمانے اور بے عزت کرنے کی بھی مکمل آزادی دے رکھی ہو۔ 2010ءسے اس کا آغاز ہوا تھا اور 2022ء کے اواخر تک جاری رہا لیکن جنرل قمر باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد یہ عمل عروج کو پہنچا۔

وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد عمران خان کے اندر کا بے رحم اور سفاک انسان باہر نکل آیا ۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید بوجوہ ان کا ہر لاڈ اٹھاتے رہے۔ عدلیہ، میڈیا اور نیب کو ان کے قدموں میں لابٹھایا گیا۔ ان کو وہ کام کرنے کی بھی اجازت تھی جو ماضی کے وزرائے اعظم کیلئے ناقابل معافی جرم سمجھے جاتے تھے ۔

مثلاً زرداری کیلئے حسین حقانی کے ذریعے امریکہ سے براہ راست رابطہ ناقابل معافی جرم بن گیا تھا لیکن عمران خان کو برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے زلفی بخاری کے ذریعے ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ ان کے اسرائیل نواز داماد جیریڈ کروشنر سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کار بنایا گیا تھا۔ نواز شریف کی حکومت میں ڈی جی آئی ایس پی آر حکومت وقت کے ساتھ مقابلے میں مگن رہتے تھے لیکن عمران خان کے دور میں ڈی جی آئی ایس پی آر فوج کے کم اور عمران کے زیادہ ترجمان بنے تھے۔

کسی وزیراعظم کو اپنے حلف کے مطابق ریاستی راز اپنی بیوی کے ساتھ ڈسکس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن عمران خان ٹی وی پر خطابات میں کہتے رہے کہ وہ ہر فیصلہ اپنی اہلیہ سے مشورہ کرکے کرتے ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور ریاست سے متعلق معاملات میں اپنی اہلیہ کے خوابوں اور فالوں کے ذریعے فیصلے کرنا شروع کئے ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں تنازع انہوں نے بشریٰ بی بی کے ساتھ ایک اور لیفٹیننٹ جنرل کی ساز باز کے نتیجے میں پیدا کیا۔

اسی طرح اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے قاسم سوری کے ذریعے دھڑلے سے آئین شکنی کی لیکن لاڈلا ہونے کی بنیاد پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ ہوئی۔ میں ستمبر 2022کو اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کی ایوان صدر میں ملاقات صدر عارف علوی نے نہیں بلکہ زلمے خلیل زاد نے کروائی تھی۔ آج میں آپ کو ایک اور خبر دے رہا ہوں کہ مذکورہ ملاقات کے علاوہ بھی جنرل باجوہ کے ساتھ عمران خان کی مزید تین خفیہ ملاقاتیں ہوئیں جن میں اور لوگ بھی موجود تھے ۔ اب ایک طرف وہ جنرل باجوہ سے ملاقاتیں کرکے اقتدار کی بھیک مانگتے رہے اور دوسری طرف میڈیا میں انہیں میرجعفر اور میر صادق کہہ کر بلیک میل کرتے رہے ۔

آرمی قیادت میں تبدیلی کے بعد بھی عمران خان نے وہی لاڈلے والا رویہ برقرار رکھا۔ ایک طرف وہ جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی سے رابطے کرکے منت ترلہ کرتے رہے اور دوسری طرف میڈیا یا جلسوں میں ان پر طرح طرح کے الزامات لگاکر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔انہوں نے ہر طریقے اور ہر ذریعے سے منت ترلہ کیا لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے انہیں یہی جواب ملتارہا کہ ان کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں اور وہ وزیراعظم شہباز شریف سے رابطہ کریں۔ یہی عمران خان کی بنیادی غلطی تھی کہ وہ جنرل عاصم منیر کو جنرل قمر باجوہ اور جنرل ندیم انجم کو جنرل فیض حمید سمجھ بیٹھے، حالانکہ وہ ایک ساتھ کام کرنے کے باوجود مزاج ، طرز زندگی اور ڈیوٹی نبھانے میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

یہ دونوں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی طرح ناجائز طریقوں سے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے جرم میں براہ راست ملوث یا کسی احساس جرم کا شکار بھی نہیں تھے۔ ابتدا میں وہ دونوں کافی صبر سے کام لیتے رہے اور انتقام کی بجائے انہوں نے سیاسی حل کیلئے انتظار کیا لیکن عمران خان مقبولیت کے زعم میں مبتلا رہے اور الٹا ایسے اقدامات شروع کئے جو حکومت نہیں بلکہ ریاست مخالف بھی تھے۔9مئی کو بعض بیرونی قوتوں اور بعض ریٹائرڈ جرنیلوں کے ورغلانے پر پی ٹی آئی نے اس زعم میں آخری وارکیا اور حکومت کی بجائے فوج پر حملہ آور ہوئی۔

کور کمانڈرز میٹنگ، پھر فارمیشنز کمانڈرز اور پھر کابینہ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے متفقہ فیصلوں کے مطابق پی ٹی آئی نے سیکورٹی فورسز کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ ستر سال میں ازلی دشمن ملک بھی نہیں کرسکا تھا۔سیکورٹی فورسز کو یقین ہے کہ نہ صرف یہ پی ٹی آئی کا منظم منصوبہ تھا بلکہ اس کے پیچھے بیرونی، پاکستان دشمن عناصر کا ہاتھ بھی تھا۔ چنانچہ اب پی ٹی آئی کو سیکورٹی ادارے اندرونی سیاست کے آئینے میں نہیں بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت کی کوشش کے مجرم کی نظر سے دیکھ رہےہیں۔پہلے اشارے کنائیوں سے یہ پیغام دیا گیا کہ جو عمران خان کے ساتھ کھڑا رہے گا ، اسے فوج کو لڑانے کی سازش کرنیوالوں کی طرح ڈیل کیا جائے گا لیکن کچھ لوگوں نے اس معاملے کو ہلکا لیاحالانکہ 9مئی کے بعدکچھ وقت تحقیقات میں لگا ۔ کچھ وقت اپنی صفوں کو درست کرنے میں لگا اور اب لگتا ہے کہ عید کے بعد فیصلہ کن کارروائیاں شروع ہوں گی ۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اچھا ہورہا ہے یا برا ہورہا ہے لیکن یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ عمران خان کو اب اسی طرح ڈیل کیا جائے گا جس طرح ریاست کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کو ڈیل کیا جاتا ہے اور ان کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جوالطاف حسین کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ ہوتا رہا۔’ عمرانداروں‘ یا پھر بعض میڈیا پرسنز کے’ عمراندارانہ‘ رویے سے جو تھوڑا بہت اشکال پیدا ہوگیا تھا، اسے گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں دور کردیا۔انکی طویل پریس کانفرنس نہ صرف کورکمانڈرز میٹنگ اور فارمیشن کمانڈر میٹنگز کی پریس ریلیز کی تشریح تھی بلکہ ان اداروں اور افراد کیلئے واشگاف پیغام بھی، جو اَب بھی یہ خواب دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی بچ جائیگی یا پھر عمران خان اگلے الیکشن میں بھی ایک کردار ہوں گے ۔

تفصیل دے کر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتا دیا کہ ہم نے اگر اپنے تھری اور ٹو اسٹار جرنیلوں کو نہیں چھوڑا تو سویلین کردار یہ خیال دل سے نکال دیں کہ انہیں کسی بھی صورت معاف کردیا جائے گا۔ مستقبل کا حال اللہ جانتا ہے لیکن سردست میرا اندازہ ہے کہ اگلے الیکشن میں عمران خان میدان میں ہوں گے اور نہ ان کی پارٹی۔ جو ان کے ساتھ ہوگا، وہ بیرون ملک فرار ہوگا یا پھر جیل کے اندر۔ پی ٹی آئی کے وابستگان اور’ عمرانداروں‘ کیلئے میرا پیغام ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل عاصم منیر یا پھر جنرل فیض حمید اور جنرل ندیم انجم کی شخصیات اور ترجیحات میں فرق جان کر جیو۔ جو یہ فرق نہ کرسکا وہ مارا جائے گا۔

Putr yh tu Allah ko hi pta hai ke agay kia huney wala hai kun rhta hai kun jata hai waqt hi btaye ga