القاعدہ اور جہادی عمل کا تسلسل

ibneislam

Banned
1eiw04o7tykj.jpg
[/URL] adult upload image[/IMG]
القاعدہ اور جہادی عمل کا تسلسل

القاعدہ اور اس کی ہم خیال جہادی تنظیموں کو اپنے اہداف سے روکے رکھنا تقریباًامریکہ کے لیے ممکن نہیں رہا،دیکھنا یہ ہے کہ القاعدہ اور اس کی ہم خیال تنظیمیں خود ہی کسی ایک خطے کے حصول پر اکتفاء کرتی ہیں یا ۔۔۔۔۔
محمد زکریا خان حفظہ اللہ


ملکہ کیتھرین کی قیادت نے جیسے زار روس کے توسیعی عزائم کو چار چاند لگا دیے تھے۔ماسکو کی سرحدوں کا زیادہ پھیلاؤ وسطی ایشیاء کی طرف تھا۔سر کش منگول فرمانبردارخادموں کی طرح ملکہ کی فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ اگر نپولین کا ماسکو پر حملہ نہ ہوتا تو ملکہ کے نااہل بیٹے الیگزنڈر کا نام بھی تاریخ میں خوامخواہ فاتح فرماں روا کے طور پر جانا جاتا۔شاید الیگزنڈر کے بعد کم از کم یورپ میں روس کا اثر و نفوذ کم ہو جاتا مگر ایک شکست خوردہ قوم میں اشتراکی نظریے نے جان ڈال دی تھی۔

زار روس کا تختہ الٹنے کے بعد سائبریا کے بھوکے اقوام عالم کی بھوک مٹانے کے لیے د نیا بھر کے غریبوں کے لیے امید بن جاتے ہیں۔روس کے بھوکوں کو روٹی ملی یا نہ ملی البتہ مغرب کے سرمایہ کار کھاتوں کے منہ سے نوالا چھینتے جا رہےتھے۔اشتراکی نظریے میں جان کم تھی مگر مغربی ممالک کے سرمایہ داروں سے اپنے چھینے ہوئے نوالوں کو واپس لینے کی امید نے روس کے ساتھ مظلوموں کوملا دیا تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے دریائے آموں(جیحون) تک سرخ ریچھ کو کوئی نہ روک سکا۔آموں کے اُس پار ریچھ کی نظر گرم پانیوں پر تھی۔سمندر کے دوسرے کنارے ایک اور سمندر تھاجس کا رنگ نیلگوں نہیں سیاہ تھا۔کہا جاتا تھا کہ جس کا پاس یہ سیال ہو گا اس کے پاس سارا جہان ہو گا۔ماسکو میں غریبوں کی حالت اب تک نہ سدھر سکی تھی البتہ حکمران پارٹی واقعتا ایک سپر پاور کی طرح کر و فر رکھتی تھی۔انہوں نے قوم کو یقین دلایا ہوا تھا کہ ان کی غربت کا خاتمہ بلکہ کل دنیا کی غربت کے خاتمے کا راز اس سیال میں چھپا ہے،اس کے اپنے باشندے نکمے ہیں اور یہ سیال ہمیشہ اس کے تصرف میں رہا ہے جو اس پر قبضہ کر لے۔ جام اسی کا جو بڑھ کر تھام لے١٩٧٩ء میں جیسے ہی روس کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوتی ہیں تیل کے کنوؤں میں گویا بھونچال آ جاتا ہے۔ پاکستان سے کوئی خاص امید نہیں تھی کہ وہ اپنا دفاع ازخود کر لے گا۔ اگر روس کی فوجیں جلال آباد سے گزرتی ہوئی درہ خیبر پار کر لیتی ہیں تو پھر بحر ہند تک ان کو کوئی نہ روک سکتا۔

پاکستان کے شمال مغربی صوبے میں پہلے ہی ایک طبقہ روسی فوجوں کا استقبال کرنے کے لیے بے چین تھا۔فوج میں بھی سرخے پائے جاتے تھے۔جو کرنا تھا بس اس کوہستان میں بیٹھ کر کرنا تھا۔سب مغربی ممالک ایک دوسرے کو کوسنے لگے کہ اب تک ہم گھاس کھاتے رہے اور دشمن کے نتھنے پیٹرول کو سونگھ رہے ہیں۔پاکستان کی فوجوں کو روس کے خلاف لڑنے کی مشقیں ضرور کرائی گئی تھیں مگر اس فوج کی وفاداری پر سب کو شبہ تھا۔آخر ایسی فوج پر کیا اعتماد کیا جاتا جس نے کبھی اپنے عوام سے وفاداری نہیں کی۔روس کو روکنے کے لیے ڈھیرسارے سرمائے کی ضرورت تھی،اتنا سرمایہ فوجی ڈکٹیر کے ہاتھ میں دینامصلحت کے خلاف تھا۔کسی وقت سول حکومت آ کر افغان پالیسی پر نظرثانی کر سکتی تھی۔مغربی ممالک اسی سوچ بچار میں تھے اور ادھر افغانستان میں جیسے نئی زندگی نے جنم لے لیا تھا۔

ملک بھر کے سرکردہ ملاؤں نے متفقہ فتویٰ جاری کیا کہ ببرک کارمل اور 'خاد'نے افغانستان میں روس کو بلا کر کفر کا ارتکاب کیا ہے۔افغانستان پر کافر ملک کا قبضہ ہو گیا ہے اور ملک کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ دشمن کے خلاف جہاد کا علم بلند کرے۔عوام کے پاس اسلحہ کم ہی تھا جذبہ زیادہ تھا۔پرانی وضع کی بندوقیں ضرور تھیں ادھر کابل کی طرف دیکھتے تو جیسے ٹینکوں کاسیلاب امڈ آیا تھا۔اتنا اسلحہ دیکھ کر تو خود امریکہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا تھا عوام کا کیا حال ہو گا۔لفظ جہاد میں کچھ ایسا تھا کہ یہ ٹینک مجاہدین کو کھلونے لگتے تھے۔جلال آباد سے آگے نکلنا گویا آگ کو پھلانگنے کے مترادف تھا۔یقینا پنٹاگان کی طرف سے پاکستان میں تعینات امریکی سفیر سے کہا گیا ہو گا کہ وہ افغانستان کی صورت حال سے فی الفور مطلع کرے۔سفیر نے انٹیلی جنس سے پوچھا ہو گا کہ افغانوں کو کون لڑا رہا ہے ؟جواب تھا 'جہاد'۔سفیر نے پوچھا ہو گا کہ وہ کوئی افغانی ہے ؟!جواب تھا نہیں، بین الاقوامی۔ بین الاقوامی تو ہم ہوتے ہیں،صاف صاف بتائیں جہاد کون ہے ؟پاکستانی افسر ہنس کر:یہ مسلمانوں کے ہاں کافروں کے خلاف مقدس جنگ جیسی ایک اصطلاح ہے اور اس میں وہ اپنے ایمان اور عقیدے کی بنیاد پر لڑتے ہیں خواہ قوت میں ہم پلہ نہ بھی ہوں۔

پنٹاگان کےتھینک ٹینک نے اس سے یہ راہ نکالی کہ اس جذبے کو سب سے زیادہ مہمیز خلیجی ممالک دے سکتے ہیں۔پوری دنیا کے مسلمان وہاں عبادت کے لیے جاتے ہیں۔ دوسرا ان ممالک کا اور ہمارا مفاد بھی ایک ہے۔یہی فتویٰ اگر یہاں سے صادر ہو جائے تو پھر افغانستان میں سرمایہ کاری میں کوئی خسارہ نہیں۔اس طرح امریکہ کو سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کو اس جنگ میں شامل کرنے کا موقع مل گیا اورپاکستان کی انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے خفیہ ادارے بھی سر گرم ہو گئے۔امریکہ جنگ کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے صرف پاکستان پر انحصارنہیں کرنا چاہتاتھا۔ افغان مجاہدین کی قیادت جن شخصیات کے ہاتھ میں تھی ان سے امریکہ بلا واسطہ رابطے میں رہتا تھا۔سعودی عرب اور دوسرے ممالک کے غیر ملکی جو افغان جہاد میں شریک سمجھے جاتے تھے ان کا ریکارڈ رکھنا عموماً سعودی عرب کی انٹیلی جنس کا فرض تھا اور پاکستانی انٹیلی جنس پاکستانی مجاہدین کے اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھتی تھی۔اس سہ فریقی مثلث کا ایک دوسرے سے اشتراک عمل بھی تھا اور افتراق عمل بھی۔ جو فریق کسی راز کو اپنے تک ہی رکھنا چاہتا اس کا بھرپور اہتمام کرتا۔سب متعلقہ فریق جانتے تھے کہ اسے پوری معلومات نہیں دی گئی ہیں۔روس کو مار بھگانے میں سب کا اتفاق تھا مگر ما بعد کی صورت ہر فریق اپنے حق میں دیکھنا چاہتا تھا۔امریکہ کی کوشش تھی کہ روس کے انخلاء کے بعد وہاں مضبوط حکومت قائم نہ ہو۔امریکہ ہمیشہ مجاہد قیادت میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔پاکستان پختونوں کی ایسی حکومت چاہتا تھا جو پاکستان کے لیے کسی سرحدی تبدیلی کا مطالبہ نہ کرنے والی ہو۔اور سعودی عرب کو یہ فکر تھی کہ اس کے مجاہد جیسے کورے یہاں سے گئے ہیں ویسے ہی بھلے مانسوں کی طرح لوٹیں یا وہیں رچ بس جائیں اور اخراجات کے لیے شاہی حکومت کے محتاج رہیں۔

علمائے اسلام نے بھی خدا کی طرف سے اسے ایک موقع سمجھا۔جہاد تو یہ تھا ہی اگر سعودی حکومت کواس پر اعتراض نہ ہو بلکہ حکومت کی اپنی خواہش بھی یہی ہو تو کیوں نہ اسی سرزمین سے ایک بھلائے ہوئے فریضے کو زندہ کیا جائے۔حکومتیں اپنےمنصوبوں کے تحت اور علماء جذبے کے تحت افغانستان کی مزاحمت کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیتے ہیں اور افغانوں پر اسے فرض عین قرار دیا جاتا ہے اور دوسرے مسلمان ان کی نصرت کریں تو یہ ایک مستحب کام ہے اور اگر افغان مجاہدین دشمن کے مقابلے میں ناکافی ہوں تو پھر قرب و جوار کے مسلمانوں پر بھی فرض عین ہو گا یہاں تک کہ اگر سارے مسلمان مل کر اس کا مقابلہ کریں اور اس سے توازن پورا ہو تو پھر جہاد اہل دنیا کے تمام مسلمانوں پر فرض عین ہو جائے گا۔سعودی عرب اور دوسرے مسلم ممالک سے افغان جہاد کو ایک شرعی جہاد کہا گیا اور اس کے لیے ہر قسم کے تعاون کوحکومتوں نے بھرپور سراہا۔علماء کی زبان سے جہاد کا مطالبہ سنتے ہی نوجوان جوق درجوق اور شوق بر شوق ارض جہاد کی طرف دوڑے چلے آئے۔امریکہ اور اس کے اتحادی اس صورت کی توقع نہ رکھتے تھے۔توقع بھی کیا کرتے اب تک وہ مسلمانوں کی حالت سے خوب واقفیت حاصل کر چکے تھے۔کئی ممالک پر اب بھی راست یا خفیہ امریکہ یا اس کے اتحادی ملکوں کا قبضہ چلا آرہا تھا اور سب مسلمان خاموشی سے اسے سہہ رہے تھے۔مگر روس کے الحاد کے خلاف مسلمانوں کا ردعمل خلاف توقع اس قدر جان دار تھا کہ امریکہ نے بے دھڑک اپنا اسلحہ یہاں پہچانا شروع کر دیا۔مسلمان چہارسو سے یہاں پہنچنے لگے۔ان میں تنگ دست بھی تھے اور مال دار بھی۔مال دار مجاہدین میں ایک نوجوان بن لادن خاندان کا بھی تھا۔بن لادن کی اپنی دوستیاں بھی اپنے ہم پلہ خاندانوں سے تھیں۔افغانستان کی سر زمیں نے بن لادن میں ایسی روح پھونکی کہ دنیاوی سرمایہ کاری سے ان کا ذہن اخروی سرمایہ کاری میں لگ گیا۔اُدھر ایسے دردمند مسلمانوں کی تعداد بھی کم نہ تھی جو اخوان المسلمین کے طریقہ کار کو ناکام قرار دیتے تھے اور انقلاب پر یقین رکھتے تھے لیکن کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ آغاز کہاں سے کریں۔ڈاکٹر عبداللہ عزام رحمہ اللہ نے فقہ الجہاد کے ایسے ایسے موضوعات چھیڑے کہ جو سنتا بس جہاد کا ہو رہتا۔عالم اسلام جہاد کے لیے ایسا بے چین تھا جس کسی نے اَسی کی دہائی میں پشاور کا ماحول دیکھا ہو تو وہ پہلی نظر میں یہی سمجھے گا کہ وہ صحابہ کی دنیا میں آگیا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عزام کے پرمغز خطبے اور افغانوں کی جرات بن لادن کو ایسی پسندآئی کہ اس نے ایسا مجاہد بننا چاہا جو اپنا مال اور اپنی جان لے کر خدا کی راہ میں نکلتا ہے کہ ان دو میں سے کوئی ایک چیز بھی واپس نہ آنے پائے۔مال بھی خدا کا اور جان بھی اُسی کی !

روس کے لیے بھی یہ بالکل نئی صورت تھی۔وسطی ایشیاء تک اس کی فوجوں کے سیلاب کے سامنے اب تک کوئی بند نہ باندھ سکا تھا۔ وسطی ایشیاء کے مسلمانوں نے اپنے تئیں مزاحمت ضرور کی مگر کوئی بین الاقوامی سیناریو نہ بن سکا۔مغربی ممالک یہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ روس سے مقابلہ یورپ میں کرنا پڑے گا یا ایشیاء سے کیونکہ روس ہر سمت میں پھیل رہا تھا۔جب مشیّت الہی سے افغانستان میں بھر پور مزاحمتی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تو مغربی ممالک کو فیصلہ کرنے میں تردد نہ رہا کہ انہیں روس کے آگے بند باندھنے کے لیے آغاز کہاں سے کرنا ہے۔خلیجی ممالک بھی اس جنگ میں برابر کے شریک تھے اس لیے افغانستان میں پیدا ہونے والی مزاحمت نے بین الاقوامی صورت اختیار کر لی تھی۔ روس کے تھینک ٹینک بھی اسی مخمصے کا شکار تھے جس کا اس کا حریف شکار تھا کہ یہ جہاد کیا ہوتا ہے۔اور یہ صرف افغان ہی کیوں اتنی دلیری سے کر لیتے ہیں۔دریائے آموں کے اُس پار بھی تو مسلمان بستے تھے۔وسطی ایشیاء کا خطہ اس بنجر زمیں سے بڑا بھی تھا اور سر سبزو شاداب بھی تھا۔وہاں مسلمانوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔وسطی ایشیاء میں ایسی مزاحمت تو نہ تھی، معلوم توکرو یہ جہاد یہاں سے کیوں پھوٹ پڑا! اپنے مغربی حریفوں سے ہم نبڑنا جانتے ہیں۔مشرقی یورپ میں ہم ان کے گھر میں بیٹھے ہیں۔مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ ساری دنیا کے مسلمان افغانستان میں کیوں چلے آتے ہیں؟!

عام مسلمان سادہ دلی سے جہاد کے جذبے کے تحت آتا تھا۔اس بات سے اسے غرض نہیں تھی کہ حکومتوں کا اپنا مفاد بھی یہاں لگا ہے۔امریکہ کا اسلحہ بھی آرہا تھا لیکن بن لادن کی بھاگ دوڑ اور ڈاکٹر عبداللہ عزام کے علمی مباحث نے خود مسلمانوں کا اتنا سرمایہ جمع کرا دیا تھا کہ مسلم جہادی گروپ اپنے پلے سے امریکی اسلحہ خریدتے تھے۔افغان تنظیموں میں جب پاکستان کے توسط سے امریکی اسلحہ تقسیم ہوتا تو اس کا نصف سے زائد اگلے ہی روز بلیک مارکیٹ میں فروخت کے لیے دستیاب ہوتا۔مارکیٹ سے یہ اسلحہ مسلمان اپنی گرہ سے خریدتے تھے ۔امریکہ کو بھی یہ سب معلوم تھا مگر اسلحے کی بے دریغ سخاوت سے امریکہ کو کئی فوائد حاصل ہوتے تھے۔اسلحہ افغانستان کے مخصوص قائدین کو دیا جاتا تھا،اس تقسیم کار سے امریکہ کبھی کسی ایک گروہ کو مضبوط کرتا اور کسی گروہ کی رسد کم کر کے اسے کمزور کرتا عرب مجاہدین براہ راست بھی اسلحہ خریدتے تھے جس سے امریکی اسلحہ ساز اداروں کو مالی فائدہ بھی ہوتا تھا ۔علاوہ اس کے افغان مجاہدین کی قیادت کرنے والوں کے باہمی اختلافات بھی امریکہ کے علم میں آ جاتے۔

افغان جہاد حجاز کے علماء کرام کے فتوے،ڈاکٹر عبداللہ عزام کے پر زور دلائل اور بن لادن کی دعوت سے بین الاقوامی حثیت اختیار کر چکا تھا۔مسلمانوں کی جہادی تنظیموں نے تقریباً اَسی کی نصف دہائی میں جہاد کے لئے کافی رقومات فراہم کر لی تھیں۔جہادی تنظیموں اور القاعدہ نے اتنے رضاکار فراہم کر دیے تھے کہ ملک ہا ملک سے شہادت کا درجہ پانے کے لیے مجاہدین اپنے کمانڈر کی منتیں کرتے کہ اسے سب سے زیادہ خطرناک محاذ پر بھیجا جائے اور کمانڈر بے بسی سے کہتے کہ ہمیں پہلے ہی آڈر دیا جا چکا ہے کہ محاذ پر مزید افراد کی ضرورت نہیں ہے۔اس وقت اگر امریکہ اپنی امداد بند بھی کر دیتا تو جہاد پر اس کا کچھ اثر نہ پڑتا البتہ پاکستان ،امریکہ اور غیر سرکاری تنظیموں کا ضرو نقصان ہوتا۔پاکستان پر الزام تھا کہ وہ اسلحے میں خورد برد کرتا ہے ۔ظاہر ہے پاکستان کی یہی کوشش رہی ہو گی کہ اسلحے کی مقدار کو ہمیشہ ضرورت سے کم بتائے۔امریکہ خود بھی افغان سیناریو سے متعدد وجوہات کی بنیاد پر لا تعلق نہیں رہنا چاہتا تھا۔اقوام متحدہ اور دوسری غیر ملکی امدادی تنظیموں کو اپنی سر گرمی دکھلانے کے لیے کچھ تو کرنا ہوتا ہے،اقوام متحدہ تو اب کرتی ہی یہی کام ہے۔ان امدادی تنظیموں کو امداد لینے کے لیے سر گرم عمل رہنا پڑتا ہے۔ان وجوہات اور دوسری اور وجوہات کی بنیاد پر روس کے آخری سپاہی کے نکلنے تک اور سویٹ یونین کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے تک امریکہ کی افغان پالیسی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔

جہاد کی پیاس نے عام مسلمان میں تو جذبہ بھر ہی دیا تھا ،بیرونی ممالک سے یہاں وارد ہونے والے سب یکساں صلاحیت کے مالک نہ تھے۔کچھ بلا کے خطیب نکلے تو کچھ بلا کے سمجھدار اور کچھ دلیری اور سر فروشی میں اپنی مثال آپ تھے تو کچھ علم و عمل کے پیکر۔سعودی عرب کی کوشش تھی کہ سب مجاہدین ایک سسٹم کے تحت جہاد میں شریک ہوں اور ان کی کوئی سر گرمی سعودی عرب کے خفیہ اداروں سے پوشیدہ نہ ہو۔اگرامریکہ کی یہ ضرورت تھی کہ مجاہدین کسی ایک قیادت پر جمع نہ ہوں تو سعودی عرب کو اس کی ضرورت امریکہ سے بھی زیادہ تھی کیونکہ اس کے اپنے نوجوان اس میدان میں اترے ہوئے تھے اور ان کا کسی ایک قیادت پر اعتماد سعودیہ کے لیے خطرناک ہو سکتا تھا۔ابتداء میں سعودی عرب سے آئے ہوئے مجاہدین یہی سمجھتے تھے کہ سعودی عرب حقیقی معنوں میں اسلامی ملک ہے اور کچھ سادہ لوح ایسے بھی تھے جو یہ تک سمجھتے تھے کہ عالم اسلام میںجہاں کسی مسلم خطے میں مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تو ان کی 'نصرت' کرنے والا سب سے پہلا ملک سعودی عرب ہو گا۔بن لادن کی تربیت بھی کچھ اس طرح ہوئی تھی کہ سعودی عرب کا ان کے دل میں بہت احترام تھا خصوصا جبکہ بن لادن کو افغان جہاد کے لیے سرمایہ اور نوجوان لینے میں حکومتی ادارے خاصی دلچسپی دکھلاتے تھے۔افغان جہاد میں دوسرے ممالک کی تجربہ کار شخصیات کی دلچسپی اس وجہ سے بڑھی کہ اپنے ملکوں میں حکومت کے جبر نے صحیح معنوں میں انہیں کام کا موقع نہیں دیا تھا۔اخوان المسلمین اور اس کی ہم خیال تنظیمیں ایک پٹی ہوئی ڈگر پر چل رہی تھیں جس سے نوجوانان اسلام زیادہ پر امید نہیںتھے۔ نئی دنیا البتہ افغانستان میں بن رہی تھی۔اپنی تحریکوں سے نالاں یا اس میں لگی بندھی زندگی سے اکتائے ہوئے بیدار دماغ اس طرف آتے ہیں۔عالم اسلام بلکہ اقلیتی مسلم آبادی والے ملکوں میں بسنے والی جہاں دیدہ شخصیات بھی ادھر کا رخ کرتی ہیں اور تقریباً اَسی کی نصف دہائی میں چند اور بحثیں چھڑتی ہیں۔جوباتیں ایجنسیوں کوسمجھ آ رہی تھیں بیدار دماغوں نے وہ مجاہدین کے کانوں میں بھی ڈالنا شروع کر دیں تھیں۔

پشاور کی سر زمین میں ابھی تک دو مین سٹریم پائی جاتی تھیں اور ان میں کوئی بڑا اختلاف بھی نہ تھا۔اخوان کی فکر میں جہا دی عنصر کو شامل کرنا، اس کے داعی عبداللہ عزام تھے اور دوسری سعودی عرب کی سلفیت جس میں نیک جذبات کے ساتھ عبادات کو عین حدیث کے مطابق کرنے کا جذبہ بھی پایا جاتا تھا،حدیثوں کا تتبع کرنا بھی ان کی پہچان تھا اور جہاں کوئی خلاف شریعت کام ہوتا سب سے پہلے سلفی اس کے آڑے آتے۔اگر کسی اعجمی مجاہد نے تعویذ لٹکا رکھا ہوتا تھا تو سلفی اسے برداشت نہ کرتے۔دوسری طرف سلفیوں نے دینی مدارس کا جال بچھا دیا۔پشاور تا باجوڑ اور روس کے کمزور پڑتے ہی پاکستان سے ملحقہ افغانستان میں بھی دینی مدارس کا جال بچھ گیا۔ان مدارس میں تعلیم سعودی عرب کے سرکاری نصاب کے مطابق دی جاتی تھی مگر یہیں سے ان دو سٹریم کے درمیان سے ایک نئی سلفیت جنم لیتی ہے ۔ملک ملک سے آئے تجربہ کار ذہنوں نے سعودی ساختہ سلفیت پر اکتفاء نہ کیا اور دوسرے علمی مباحث چھیڑ دیے۔اسلام اورسیاست کا رشتہ۔اللہ کے نظام کو چھوڑ کر غیر اللہ کے نظام کو مسلم عوام پر لاگوں کرنے والے حکمرانوں کا شریعت میں کیا حکم ہے۔اقوام متحدہ کی شرعی حیثیت اور اسلامی ملک کا اقوام متحدہ کی رکنیت لینے کی کیا شرعی حیثیت ہے۔سعودی عرب میں پورا اسلام ہے یا نہیں ۔ علماء اب تک امت کو سیاست شرعیہ سے بے خبر کیوں رکھتے رہے ہیں۔سرکاری خفیہ ادارے کیا ہوتے ہیں اور کس طرح کام کرتے ہیں۔افغان جہاد میں امریکہ سے مدد لینا جائز تھا یا نہیں۔خلیجی ممالک میں امریکہ کس قدر اثر انداز ہے ۔خلیجی ممالک آزاد ہیں بھی یا محض امریکہ کے آلہ کار!؟جن مدارس میں از کار رفتہ سلفیت پڑھائی جا رہی تھی وہاں نوواردوں نے شریعت کی نصوص کی تشریح اپنی نئی اپج سے کرنا شروع کردی۔اس کے نتیجے میں نئے موضوعات زیر بحث آئے اور پرانے خانقاہی نطام پر مبنی دین میں سیندھ لگ گئی۔پرانی عمارت گرنے کی دیر تھی اس کے ساتھ ہی فروعی مسائل پر جھگڑنے کی عصبیت آپ سے آپ نا پید ہو گئی۔افغانی اب بھی حنفی تھے مگر متعصب نہیں،عرب حنبلی ہی رہے مگر اُس احمد بن حنبل کے پیروکار جو سیاست میں دخیل ہوتا تھا اور اپنے وقت کی زبان کو سمجھتا تھا۔ اب تک جہاد کی سر زمین میں فضائل جہاد ہی زیر بحث رہے تھے یہ نئے موضوعات آہستہ آہستہ پختہ ہونے لگے مگر اس وقت تک روس دم دبا کر بھاگ چکا تھا۔امریکہ کا سرمایہ کام لگ گیا۔امریکہ کو اب مسلمان اور ان کے جہاد سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔خلیج کا تیل امریکہ کے ہاتھ میں محفوط ہو گیا تھا،اس لیے خلیجی ریاستوں کی دلچسپی کی کوئی وجہ باقی نہ رہی تھی۔ بظاہراس ساری محنت کا صلہ یوں لگتا تھا جیسے امریکہ لے گیا ہو !
مجاہدین کی مخلص قیادت نئے سوالوں کے جوابوں کی کوئی عملی صورت نکالنا چاہتی تھی۔روس کے نکلنے کے بعد افغانوں کی قیادت اقتدار کی رسہ کشی میں برسر پیکار تھی۔ڈاکٹر عبداللہ عزام رحمہ اللہ کی شاید مزید ضرورت نہ تھی وہ دن کی روشنی میں جمعہ کے خطبہ سے قبل پشاور کی مصروف ترین شاہراہ'ارباب روڈ 'پرایک بم دھماکے میں شہید کر دیے گئے۔بن لادن اور دوسرے سرکردہ قائدین اپنے اپنے ملکوں یا یورپی ممالک کی طرف چلے گئے۔سعودی عرب کے مجاہدین اپنے ملک میں لوٹ آئے مگر بھلے مانسوں کی طرح نہیں۔ارض جہاد میں جو نئے موضوعات چھڑے تھے اس سے ہر ایک نے کچھ نہ کچھ ضرور اخذ کیا تھا،اپنی اپنی وسعتقلبی کے مطابق ہر ایک کا ظرف چھلک رہا تھا۔ ان موضوعات کے شافی جوابات کے لیے سرکاری اداروں کا اچھا خاصا کھپنا پڑا اور نیاعلم کلام مرتب کرنا پڑا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔سعودی عرب میں بن لادن نے ایک عرصہ گزارنے کے بعد سوڈان کا رخ کیا جہاں کہا جا رہا تھا کہ اسلام کے لیے فضاء ساز گار ہے۔بن لادن کو اب زیادہ دلچسپی اس بات سے تھی کہ امریکہ کے ان مفادات کو نقصان پہنچایا جائے جن کا تعلق مسلمانوں کی سر زمین اور مسلمانوں کے مقدسات سے ہے ۔اگرچہ سعودی عرب میں مجاہدین کی کثیر تعداد موجود تھی مگر پھر بھی بن لادن سعودی عرب سے امریکی مفادات کے خلاف آغاز نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ۔ انہیں دنوں میں سعودی عرب نے حفظ ما تقدم کے طورپر افغان پلٹ سعودیوں کو نہ صرف قید کر دیا بلکہ ان پر بد ترین تشدد بھی کیا۔سعودی عرب کے خفیہ اداروں کا خیال تھا کہ افغان پلٹ سعودیوں کو عراق کے خلاف امریکہ کو اپنی سرزمیں استعمال کرنے دینا گوارا نہیں ہو گا۔دوسری طرف سوڈان میں صورت حال وہ نہیں تھی جس کا سوچ کر وہاں ہجرت کی گئی تھی۔بن لادن اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ عالم اسلام کا اصل مسئلہ ہمارے ملکوں میں امریکہ کی مداخلت ہے۔اگر امریکہ کمزور ہو جائے تو خلیجی ممالک کے حکام خود بخود کمزور ہو جائیں گے اور اس کا حل مسلم اکثریت والے خطوں میں امریکی مفادات کے خلاف جہاد ہے۔اس سوچ کے پیدا ہونے میں ایمن الظواہری نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ڈاکٹر عبداللہ عزام کے بعد ایمن الظواہری نے بن لادن کی فکر پر دیرپا اثر ڈالا تھا۔

اللہ تعالی کو یہ منظور نہ تھا کہ رنگ و نسل سے بالائے طاق ہو کر دنیا بھر کے مسلمانوں نے جس طرح افغانستان میں قربانیاں دی تھیں وہ یوں ہی رائیگاں چلی جائیں۔خفیہ اداروں کے مرتب کردہ اعداد و شمار دھرے کے دھرے رہ گئے اور طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔یہ طالبان تھے جو صرف اس لیے اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کی قربانیوں کا ثمر دینا چاہتا تھا۔اس وقت کے حالات کو سامنے رکھیں تو طالبان افغانستان کی سر زمین میں تمام مجاہدین کی دل کی آواز بن کر آئے تھے۔ادھر بن لادن نے خفیہ پرواز سے افغانستان کا رخ کیا تو اُدھر امریکہ کو احساس ہوا کہ حکومت سازی کے مرحلے میں سابق افغان قیادتوں سے لا تعلق رہ کر امریکہ شدید غلطی کا مرتکب ہوا ہے۔طالبان، جب تک ان کی صفحوں میں بن لادن موجود ہیں اپنی سرحدوں تک محدود نہیں رہیں گے۔اسامہ وہاں پہنچ چکے ہیں اس نوخیز مملکت کو ابھی مٹا دینا ہی پرانی غلطی کا ازالہ ہے لیکن بل کلنٹن کو خفیہ اداروں کی رپورٹ پر اطمنان نہیں تھا۔بل کلنٹن نے اسے مبالغہ آمیزقرار دے کر بھرپور حملے کی اجازت نہ دی اور محض ان جگہوں تک امریکی فائٹرز کو کارروائی کرنے کی اجازت دی جہاں اسامہ بن لادن کے ہونے کی اطلاع تھی۔

نیروبی،دارالسلام اور صومالیہ میں امریکہ کو القاعدہ کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تھے۔سن ١٩٩٨ء میں القاعدہ نے یہودو نصاریٰ کے ساتھ جہاد کا آغاز کرنے کے لیے ایک تنظیم'الجبہة الاسلامیة العالمیة لقتال الیہود و الصلیبیین 'تشکیل دی تھی۔ گیارہ ستمبر ٢٠٠١ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے زمیں بوس ہونے کا الزام پنٹاگان نے بلا توقف القاعدہ پر لگایا اور اس کے ساتھ ہی افغانستان پر حملہ کر دیا۔القاعدہ کی قیادت پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ اسلام کا اصل معرکہ اور فیصلہ کن معرکہ امریکہ کے ساتھ ہے۔گیارہ ستمبر کے نتیجے میں وہ سب کچھ عیاں ہو گیا جو پہلے صرف خاص لوگوں کو معلوم تھا۔یہ کہ اسلام کے ازلی دشمن یہود اور نصاریٰ ہیں۔عالم اسلام میں موجود بر سر اقتدار طبقہ در اصل امریکہ کا منظور نظر ہے اور ان کے مسلسل اقتدار میں رہنے کی وجہ بھی امریکہ کی پشت پناہی ہے۔مسلم خطوں میں بالعموم اور خلیجی ریاستوں میں بالخصوص امریکہ کے فضائی اور بحری اڈے موجود ہیں۔مسلم ممالک میں بر سر اقتدار طبقہ اور یہاں کی فوجیں امریکہ سے حد درجے خائف ہیں اور یہ کسی صورت میں اپنا دفاع کرنے کے لیے ہاتھ پیر نہیں ماریں گے۔

القاعدہ نے جہاد افغانستان کے دوران ہی تقریباً اَسی کی دہائی کے آخر میں چند اہداف مقرر کر لیے تھے :

.1 روس کے افغانستان سے نکلنے کے باوجود جہاد ختم نہیں ہو گا بلکہ اسلام کو اگر اس کا اصل مقام دینا ہے تو اس کا طریقہ صرف جہاد ہے۔

.2 القاعدہ انتخابی طریقہ کار کو اسلام کے نفاذ کے لیے غیر شرعی طریقہ سمجھتی ہے۔

.3 امریکہ کی خلیج کے ذخائر تک رسائی مشکل سے مشکل تر بنا ئی جائے۔

.4 امریکہ کے اصل چہرے کو دنیا کے سامنے ننگا کیا جائے۔

افغانسان پر امریکی حملے نے اسامہ بن لادن کو ایک مرتبہ پھر مجاہدین کا قائد بنا دیا اس فرق کے ساتھ کہ اَسی کی دہائی میں وہ بیشتر غیر افغانی عناصر کے قائد تھے اور اس مرتبہ پشتون اور پنجابیوں کے بھی۔افغانستان کے پشتونوں کے بھی اور پاکستان کے پشتونوں کے بھی۔بن لادن کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔اسلامی ملکوں کے سبھی فرمارواؤں نے امریکہ کا ساتھ دیا۔جابروںکے سامنے کلمہ حق کہنے والے علماء حق نے مسلمانوں کے خلاف کافر کا ساتھ دینے والے کے احکام نشر کر دیے۔جو موضوعات پشاور کی سر زمین میں تشنہ رہ گئے تھے اس بار کے مسلمانوں کے خون نے انہیں سیراب کر دیا۔'تورابورا' کی چوٹیوں پر قدوسیوں پر اتنا بارود پھینکا گیاجو ہیروشیما پر گرائے جانے والے بارود سے بھی زیادہ تھا۔فمنہم من قضی نحبہ فمنہم من ینتظر۔عراق پر حملے کے ساتھ ہی مقامی اور رضاکاروں کے اشتراک سے القاعدہ کی شاخیں عراق کے سنی شہروں میں نمودار ہو گئیں۔امریکہ کا خیال تھا کہ عراق کے عوام صدام حسین کے ظلم کی کی وجہ سے اسے خوش آمدید کہیں گے۔اور اس پر پھولوں کی بارش ہو گی۔بارش ضرور ہوئی مگر پھولوں کی نہیں گولیوں کی۔تیل کے بیوپاریوں سے اس وعدے کے ساتھ کہ وہ جلد ہی عراق کے کنوئوں کے مالک ہوں گے امریکہ کے وارلارڈز نے کرائے کے ٹٹو فوجی جلد بازی میں بھرتی کیے۔یہ بے اصل کرائے کے ٹٹو خاندانی شرفاء سے ان کی ازلی میراث چھیننے آئے تھے۔امریکہ کا خیال تھا کہ وہ عراق کی جنگ لونڈوں کو بھرتی کر کے جیت لے گا۔اگر ایسا ہو جاتا تو اس معتدل کائنات کے اندر یہ ایک بد ترین واقعہ ہوتا۔مسلمان تو اپنے خوبروپلوٹھوں کو میدان میں لے کر آئے تھے جن کا نسب سات پشتوں تک محفوظ تھا اور اگر وہ عرب ہوں تو اپنا نسب نامہ کھڑے کھڑے اسماعیل علیہ السلام تک سنا دیں،اور خدا انہیں مروا دیتا، اُن حرام کے پلوں سے جن کا نسب ماں سے آگے نہیں جاتا۔أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ ٭ افغانستان پر حملے کا بہانہ اسامہ بن لادن کی'تخریب کاری 'کو بنایا گیا تھا اور عراق پر صدام حسین کی'تخریب کاری'کو مگر اسامہ بن لادن امریکہ کے مقابلے میں ابلاغ عامہ میں کامیاب رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ سانچ کو آنچ نہیں۔امریکہ نے دونوں جگہ جھوٹ بولا۔امریکہ خود مسلم خطوں پر قابض ہے۔اپنے خطوں کو قابض فوجوں سے چھڑانا مسلمانوں کا جائز حق ہے۔عراق میں پٹرول کی جنگ تھی اس پر دو رائیں پائی ہی نہیں جاتی ہیں۔مگر جہاد نے اس شرمناک جنگ کو با مقصد بنا دیا ہے۔اب یہ جنگ جھوٹ اور سچ کی جنگ ہے۔قدوسیوں اور فریبیوں کے درمیان جنگ ہے۔انسان کی خدائی اور حقیقی خدائی کے درمیان جنگ ہے۔لٹے ہوئے اور لوٹنے والوں کی جنگ ہے۔نہتےاور آہنی ہاتھوں کی جنگ ہے۔راتوں کو رنگ رلیاں منانے والے اور راتوں کو گڑ گڑانے والوں کی جنگ ہے۔خدا فراموشوں اور خدا شناساؤں کی جنگ ہے۔یہ بربریت پھیلانے والے اور شائستگی پھیلانے والوں کی جنگ ہے۔یہ طالوت اور جالوت کی جنگ ہے۔آخری معرکہ روس کے ساتھ نہیں تھانسل پرستوں کے ساتھ ہے۔چمڑی کو پوجنے والوں کا تو اب اللہ بھی دشمن ہے۔دیکھو تو ان نسل پرستوں کی نسل اللہ کیسے سکیڑتا جا رہا ہے۔یہ جنگ تو وہ جیتے گا جس کی نسل ریت کے ذروں کے برابر ہو گی۔ایک نظریاتی گروہ ہی ایسا ہو سکتا ہے جس کی نسل ابد آباد تک باقی رہے۔جن میں کالا بھی سما جائے اور گورا بھی،آریائی بھی اور ہندوستان کا شودر بھی ایمان لا کر ابراہیم کی ذریت میں ہونے کا شرف پائے۔دیکھو ان مجاہدین کو ،ان میں تمہیں کون سا رنگ نہیں ملتا،کس خطے کاباشندہ نہیں ملتا،کتنوں کو تم مار چکے اور کتنے مرنے پر تیار کھڑے۔تم ایک اسامہ کو پکڑنے چلے تھے یہاں ہر گھرمیں اسامہ پیدا ہو رہا ہے۔اپنی بچی کچھی نسل کو بچائو۔ یسوع مسیح کے لیے بھی تو کچھ بچا کر رکھنا ہے !

جس جنگ کی ابتداء میں مسلمانوں پر مسلط حکمرانوں کے کلیجے حلق کو آگئے تھے آج وہ القاعدہ کی کامیابیوں کو دیکھ کر ان سے روابط بڑھانے کے جتن کر رہے ہیں۔سرخ ریچھ سے تو سب بِڑھ گئے تھے کیونکہ وہ سائبریا سے چل کر یہاں تک آ کر تھک گیا تھا،سفید ذرا تازہ دم اور بھپراہوا تھا سب سہم گئے مگر جو ریچھ کے شکاری تھے ان کے لیے رنگ سے زیادہ جنس کا مسئلہ تھا اور اپنی سرزمین کو درندوں سے پاک کرنے کاعزم۔دونوں درندوں نے ہی غلط جگہ کا انتخاب کیا تھا۔جن سے کوئی نہ لڑ سکا اس سے چھوٹے سے گائوں نے ٹکر لے لی۔دنیا حیران ہے بالکل اسی طرح جیسے اَسی کی دہائی میں حیران ہوئی تھی۔سچ ہے کہ کَم مِّن فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةً باذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْن''َ کتنی ہی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹا سا جتھا اللہ کے اذن سے بہت بڑے جتھے پر غالب آ جاتا ہے۔(ایسا اس لیے ہو جاتا ہے کہ)اللہ ان کے ساتھ ہو جاتا ہے جو صابر(اپنے اندر صبر کامستقل وصف پیدا کر لیتے ہیں)ہوا کرتے ہیں''۔

افغانستان سے امریکہ کے نکلنے کی صورت میں اسلامی خراسان کی سرحدیں پہلے سے وسیع تر ہوں گی۔ڈیورنڈ لائن جسے طالبان کی پہلی قیادت نے نہیں چھیڑا تھا خودبخود ٹوٹ چکی ہے۔صومالیہ میں وارلارڈز کی حکومت امریکہ کے زور پر موغادیشو تک محدود ہے۔امریکہ کے کمزور پڑتے ہی 'اسلامی حبشہ'براعظم افریقہ میں بہار بن کر پھیل جائے گا۔عراق میں اگر صدام حسین جیتا رہتا تو شاید عراق کی تقدیر نہ بدلتی۔'حکمران بعث پارٹی' اگر حکومت سے بے دخل کر دی جاتی تو پھر بھی عراق کے لادین حکومت بناتے۔عراق سے امریکہ کے انخلاء کی صورت میں صرف ایک ہی متبادل ہے۔'اسلامی سنی عراق'۔امریکہ کے اب تک عراق سے نہ نکلنے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ یہاں سے نکلنا نہیں چاہتا،اصل وجہ یہ ہے کہ حکومت کسے سونپ کر جائے!سنی عراق کے لیے صرف ایران خطرہ ہو گا۔ امریکہ کے انخلاء کے بعد ایران شیروں کی کچھار میں جانے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔عراق کے جتنے علاقے وہ امریکہ کے ہوتے ہوئے ہتھیا سکتا ہے انہیں پر اکتفاء کرے گا۔

القاعدہ اور اس کی ہم خیال تنظیموں کے ساتھ عالم اسلام کا بہت کچھ جڑا ہوا ہے۔مسلمانوں کا اپنی افواج پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ مجاہدین کو پہلے کون سا خطہ ملتا ہے اور مسلمانوں کے عوام اور علماء اس نئی صورت سے کس طرح پیش آتے ہیں ۔

مسلمان دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جہاں بھی مزاحمت کر رہے ہیں ان کے جہاد کا پہلا مکتب اَسی کی دہائی میں افغانستان رہا ہے،امریکہ کی مغرور ناک کے نیچے یہ کام ہوا اور اب صیاد خود اپنے جال میں پھنس گیا ہے ۔

٭٭٭٭٭
 

lafatah

Minister (2k+ posts)
Allah hum sab ki hidayat kar aur jo log teray diye hoye deen kay naam pay maal bana rahen hain unko nist-o-nabood kar dey !
 
Alqaida played as a stooge of US / West. Over a million muslim died . 2 countries completely destroyed and still we dont know anything
 

Back
Top