mehwish_ali
Chief Minister (5k+ posts)
الطاف حسین صاحب کے اس خط کے متعلق شکوک ہیں کہ یہ خط جعلی ہے اور کچھ پتا نہیں کہ ٹونی بلیئر کی جگہ مخالفین کے پاس کیسے یہ خط ارسال ہوا ۔
بہرحال، فرض کر لیتے ہیں کہ یہ خط جعلی نہیں ہے، بلکہ اصلی ہے۔
مگر اسکے باوجود یہ خط الطاف حسین کی پاکستان سے وفاداری کا ثبوت ہے۔
چنانچہ ذیل کی بحث اس مفروضہ پر ہے کہ یہ خط جعلی نہیں بلکہ اصلی ہے۔
خط میں شامل صرف "دو" نکات پر اعتراضات
اگر خط کو سچ مانا جائے تب بھی بنیادی طور پر خط میں صرف دو نکات پر اعتراضات ہیں، وگرنہ بقیہ ڈیمانڈز کے حوالے سے متحدہ مخالفین بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ڈیمانڈز بالکل جائز اور انصاف پر مبنی ہیں۔
پہلا نکتہ: الطاف حسین نے دہشتگردی کے خلاف انٹرنیشنل کمیونٹی کو انٹیلیجنس مہیا کرنے کی آفر کیوں کی؟
دوسرا نکتہ: الطاف حسین نے آئی ایس آئی کو ختم کرنے کی بات کیوں کی؟
ان دو نکات کو سمجھنے کے لیے ستمبر 2001 کے حالات پہلے سمجھئیے، اسکے بعد یہ دو شرائط خود بخود سمجھ آ جائیں گی۔
ستمبر 2001 کے وقت کے حالات
۔ اس وقت پاکستان، امارات اور سعودیہ دنیا کے واحد تین ممالک تھے جو طالبان حکومت کو تسلیم کر رہے تھے۔
۔ پوری دنیا میں اس وقت یہ تاثر تھا کہ پاکستانی آئی ایس آئی سال ہا سال سے عملی طور پر طالبان کی افغانستان میں جاری جنگ میں مدد کر رہی تھی۔ آئی ایس آئی طالبان کو سٹریٹیجک ڈیپتھ کے نام پر اپنا سرمایہ قرار دیتی تھی اور طالبان کی مدد سے افغانستان میں پراکسی حکومت قائم کرنا چاہتی تھی۔
۔ ایم کیو ایم کو آئی ایس آئی کی اس پالیسی پر شدید اختلاف تھا اور وہ اسے پاکستان کے لے زہر قاتل سمجھتی تھی۔ یہ ناقابل تردید فیکٹ ہے کہ آئی ایس آئی کی اس پالیسی کی وجہ سے دہشتگرد عناصر پاکستانی مدارس اور پاکستان اور افغانستان میں موجود دہشتگردی کے اڈوں میں پل رہے تھے۔
۔ یہ خط گیارہ ستمبر کے واقعے کے تقریبا فورا بعد بھیجا گیا اور اس وقت تک کسی کو پتا نہیں تھا کہ آئی ایس آئی طالبان کا ساتھ چھوڑتی ہے یا نہیں، ان دہشتگردوں اور انکے اڈوں کے متعلق انٹیلیجنس مہیا کرتی ہے یا نہیں۔
۔ چنانچہ اگر آئی ایس آئی طالبان کی سرپرستی کرتی رہتی تو عالمی برادری آئی ایس آئی اور ان دہشتگرد عناصر کے خلاف کیا قدم اٹھاتی؟ اور ان اقدامات کا پاکستان پر کیا اثر پڑتا؟
۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد الطاف حسین نے عالمی برادری کو یقین دلایا کہ عام پاکستانی کی سوچ جنونی ملا والی نہیں ہے اور وہ دہشتگردی کی اس جنگ میں بطور پاکستان عالمی برادری کا ساتھ دیں گے۔ اسی میں پاکستان اور عوام کی بھلائی تھی، اسی میں دنیا کی بھلائی تھی۔
۔ الطاف حسین اور متحدہ کا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کا ساتھ دینے کا فیصلہ بالکل درست تھا، اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ بذات خود آئی ایس آئی اور فوج کو اس بات کا اندازہ ہو گیا اور انہوں نے بھی وہی فیصلہ کیا جو الطاف حسین اور متحدہ نے کیا۔
۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر فوج اور آئی ایس آئی اس وقت غلط فیصلہ لے لیتی (یعنی طالبان کا ساتھ دیتی) تو پھر کیا ہوتا؟ ایسی صورتحال میں پھر پاکستان کی عوام کو باہر نکل کر یہ جنگ لڑنا تھی، اور اس لحاظ سے الطاف حسین اور متحدہ کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا کہ پاکستان کو پھر مذہبی جنونیوں اور انکی حامی آئی ایس آئی کے حال پر نہیں چھوڑا جا سکتا اور اس جنگ کو پھر عام پاکستانی نے لڑنا تھا۔ اور اس جنگ کا طریقہ کار وہی ہونا تھا جو الطاف حسین نے بیان کیا ہے۔ یعنی مذہبی دہشتگردوں کے خلاف انٹیلیجنس کی فراہمی، اور دوسرا آئی ایس آئی کا خاتمہ تاکہ وہ مفادات کے نام پر مزید اسامہ بن لادن پیدا نہ کرے۔
الطاف حسین کی گواہی کہ خط پاکستان کی بھلائی، اور دنیا کی بھلائی کے لیے ہے
اس خط میں تمام تر تجزیہ نگار خط کے سب سے اہم حصے کو بالکل نظر انداز کر رہے ہیں، اور وہ الطاف حسین کی اپنی گواہی ہے کہ انہیں پاکستان کا مفاد عزیز ہے اور اسی سے دنیا کا مفاد جڑا ہوا ہے۔
بہرحال، فرض کر لیتے ہیں کہ یہ خط جعلی نہیں ہے، بلکہ اصلی ہے۔
مگر اسکے باوجود یہ خط الطاف حسین کی پاکستان سے وفاداری کا ثبوت ہے۔
چنانچہ ذیل کی بحث اس مفروضہ پر ہے کہ یہ خط جعلی نہیں بلکہ اصلی ہے۔
خط میں شامل صرف "دو" نکات پر اعتراضات
اگر خط کو سچ مانا جائے تب بھی بنیادی طور پر خط میں صرف دو نکات پر اعتراضات ہیں، وگرنہ بقیہ ڈیمانڈز کے حوالے سے متحدہ مخالفین بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ڈیمانڈز بالکل جائز اور انصاف پر مبنی ہیں۔
پہلا نکتہ: الطاف حسین نے دہشتگردی کے خلاف انٹرنیشنل کمیونٹی کو انٹیلیجنس مہیا کرنے کی آفر کیوں کی؟
دوسرا نکتہ: الطاف حسین نے آئی ایس آئی کو ختم کرنے کی بات کیوں کی؟
ان دو نکات کو سمجھنے کے لیے ستمبر 2001 کے حالات پہلے سمجھئیے، اسکے بعد یہ دو شرائط خود بخود سمجھ آ جائیں گی۔
ستمبر 2001 کے وقت کے حالات
۔ اس وقت پاکستان، امارات اور سعودیہ دنیا کے واحد تین ممالک تھے جو طالبان حکومت کو تسلیم کر رہے تھے۔
۔ پوری دنیا میں اس وقت یہ تاثر تھا کہ پاکستانی آئی ایس آئی سال ہا سال سے عملی طور پر طالبان کی افغانستان میں جاری جنگ میں مدد کر رہی تھی۔ آئی ایس آئی طالبان کو سٹریٹیجک ڈیپتھ کے نام پر اپنا سرمایہ قرار دیتی تھی اور طالبان کی مدد سے افغانستان میں پراکسی حکومت قائم کرنا چاہتی تھی۔
۔ ایم کیو ایم کو آئی ایس آئی کی اس پالیسی پر شدید اختلاف تھا اور وہ اسے پاکستان کے لے زہر قاتل سمجھتی تھی۔ یہ ناقابل تردید فیکٹ ہے کہ آئی ایس آئی کی اس پالیسی کی وجہ سے دہشتگرد عناصر پاکستانی مدارس اور پاکستان اور افغانستان میں موجود دہشتگردی کے اڈوں میں پل رہے تھے۔
۔ یہ خط گیارہ ستمبر کے واقعے کے تقریبا فورا بعد بھیجا گیا اور اس وقت تک کسی کو پتا نہیں تھا کہ آئی ایس آئی طالبان کا ساتھ چھوڑتی ہے یا نہیں، ان دہشتگردوں اور انکے اڈوں کے متعلق انٹیلیجنس مہیا کرتی ہے یا نہیں۔
۔ چنانچہ اگر آئی ایس آئی طالبان کی سرپرستی کرتی رہتی تو عالمی برادری آئی ایس آئی اور ان دہشتگرد عناصر کے خلاف کیا قدم اٹھاتی؟ اور ان اقدامات کا پاکستان پر کیا اثر پڑتا؟
۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد الطاف حسین نے عالمی برادری کو یقین دلایا کہ عام پاکستانی کی سوچ جنونی ملا والی نہیں ہے اور وہ دہشتگردی کی اس جنگ میں بطور پاکستان عالمی برادری کا ساتھ دیں گے۔ اسی میں پاکستان اور عوام کی بھلائی تھی، اسی میں دنیا کی بھلائی تھی۔
۔ الطاف حسین اور متحدہ کا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کا ساتھ دینے کا فیصلہ بالکل درست تھا، اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ بذات خود آئی ایس آئی اور فوج کو اس بات کا اندازہ ہو گیا اور انہوں نے بھی وہی فیصلہ کیا جو الطاف حسین اور متحدہ نے کیا۔
۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر فوج اور آئی ایس آئی اس وقت غلط فیصلہ لے لیتی (یعنی طالبان کا ساتھ دیتی) تو پھر کیا ہوتا؟ ایسی صورتحال میں پھر پاکستان کی عوام کو باہر نکل کر یہ جنگ لڑنا تھی، اور اس لحاظ سے الطاف حسین اور متحدہ کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا کہ پاکستان کو پھر مذہبی جنونیوں اور انکی حامی آئی ایس آئی کے حال پر نہیں چھوڑا جا سکتا اور اس جنگ کو پھر عام پاکستانی نے لڑنا تھا۔ اور اس جنگ کا طریقہ کار وہی ہونا تھا جو الطاف حسین نے بیان کیا ہے۔ یعنی مذہبی دہشتگردوں کے خلاف انٹیلیجنس کی فراہمی، اور دوسرا آئی ایس آئی کا خاتمہ تاکہ وہ مفادات کے نام پر مزید اسامہ بن لادن پیدا نہ کرے۔
الطاف حسین کی گواہی کہ خط پاکستان کی بھلائی، اور دنیا کی بھلائی کے لیے ہے
اس خط میں تمام تر تجزیہ نگار خط کے سب سے اہم حصے کو بالکل نظر انداز کر رہے ہیں، اور وہ الطاف حسین کی اپنی گواہی ہے کہ انہیں پاکستان کا مفاد عزیز ہے اور اسی سے دنیا کا مفاد جڑا ہوا ہے۔

الطاف حسین کی نیت صاف ہے۔ متحدہ کے حوالے سے انہوں نے کوئی بھی غلط ڈیمانڈ نہیں کی بلکہ ساری ڈیمانڈز انصاف پر مبنی ہیں۔
اینٹیلیجنس کی فراہمی دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے ہے کیونکہ فوج اگر ان دہشتگردوں کی حمایت جاری رکھتی تو پھر پاکستان کے لیے یہ جنگ عام پاکستانی کو لڑنی تھی۔
آئی ایس آئی کا خاتمہ بھی براہ راست متحدہ کے کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں تھا، بلکہ بنیادی طور پر اس لیے ہے تاکہ آئی ایس آئی مزید اسامہ نہ پیدا کرے۔
چنانچہ اس خط کو صحیح مانا جائے تب بھی الطاف حسین پر پاکستان سے غداری ثابت نہیں ہوتی۔ اسے غداری اُس وقت تسلیم کیا جاتا جب وہ یہ انٹیلیجنس پاکستان کے مفاد میں نہیں بلکہ پاکستان کو توڑنے کے لیے فراہم کرنے کی بات کی گئی ہوتی۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہے، بلکہ خط میں تو خود پاکستان کے مفاد کی بات کی گئی ہے تاکہ پاکستان کو مذہبی جنونی دہشتگردوں سے نجات دلائی جا سکے۔
چنانچہ اگر یہ خط اصل ہے، تب بھی یہ خط فقط اور فقط الطاف حسین کی پاکستان کے مفادات کی حفاظت اور پاکستان سے وفاداری کو ثابت کر رہا ہے۔
اور اگر غداری کا الزام دینا ہے تو پھر پاکستان سے نہیں، بلکہ آئی ایس آئی اور مذہبی جنونی دہشتگردوں سے غداری کا الزام دو۔