الطاف حسین ثانی کے جملہ معتقدین سے گزارش ہے کہ وہ ایسی کسی صورت حال کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار کر لیں. ویسے تو ہمیں علم ہے کہ میاں صاحب کو صرف کھانے کا ہی شوق ہے لیکن کسی روز ساغر صدیقی کی طرح تلخی حیات سے گھبرا کر پی گئے تو مریدین کو کچھ ایسی کیفیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے
دروغ بہ گردن راوی اور مبالغہ آرائی بہ گردن خاکسار. الطاف بھائی غروب آفتاب کے وقت ناشتے کے فورا بعد شربت انگوری لبوں سے لگا لیا کرتے تھے. آٹھ بجے تک عالم سرمستی کی کیفیت کچھ یوں ہوجاتی کہ موصوف لتا کی آواز میں نورجہاں اور مکیش کی آواز میں محمد رفیع کے نغمے گنگنانا شروع کر دیتے. درمیان میں وقفے وقفے سے موسیقی کے رموز و اسرار پر ہلکے پھلکے لیکچرز بھی دیئے جاتے. کبھی کبھی حلاج کی مانند نعرہ مستانہ لگا کر جذب کی کیفیت میں چلے جاتے اور چند نوآموز سامعین اسے مرگی سمجھ کر انہیں جوتے سنگھانے لگ جاتے, اسی اثنا میں ان میں شیما کرمانی کی روح حلول کر جاتی اور وہ کمرے میں مرغ بسمل کی طرح تڑپنا شروع کر دیتے. اس مسحورکن رقص پر ڈھیروں داد سمیٹنے کے بعد الطاف بھائی چند ناقابل اشاعت قسم کی گالیاں ارشاد فرما کر کارپٹ پر پچکاریاں مارنا شروع کر دیتے جو دراصل غرارے ہوتے تھے. یہ اس چیز کی علامت تھی کہ اب وہ خطاب فرمانے کے لیے بالکل تیار ہیں اور انتظامات کو حتمی شکل دی جائے.
فورا لندن سے کراچی جہاں اس وقت رات کے دو ڈھائی بجے کا وقت ہوچکا ہوتا, وہاں کے سیکٹر اور یونٹ کمانڈرز کو فون کھڑکھائے جاتے, جو علی الصبح لوگوں کو اپنے بستروں سے کھینچ کر اتارتے اور گھسیٹ کر عزیز آباد میں اکٹھا کرتے. ٹی وی رپورٹرز کی الگ سے کمبختی آجاتی. یوں مدہوشی کی حالت میں دیا گیا یہ خطبہ غنودگی کی حالت میں سنا جایا کرتا
نیلسن منڈیلا سے الطاف حسین بننے تک کا یہ سفر میاں صاحب کے لیے ذاتی طور پر تو بہت پر لطف رہا ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ دربار عالیہ رائیونڈ شریف کے بسیار خور مریدین کیا اتنے چونچلے برداشت کر سکیں گے اور علی الصبح بیدار ہو پائیں گے? اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا