افغانستان کی بھارت سے وفاداری

Syed Anwer Mahmood

MPA (400+ posts)
تاریخ: 9 مئی، 2017​
29vc5fl.jpg

افغانستان کی بھارت سے وفاداری
ت�*ریر: سید انور م�*مود
پاکستان نے تو اپنے دو فوجی آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد سے کافی �*د تک دہشتگردی پر قابو پالیا ہے، لیکن افغانستان میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک میں ہونے والی دہشتگردی پر قابو پاسکے۔ پاکستان سے فرار ہونے والے دہشتگرد بھی افغانستان میں پناہ �*اصل کرتے ہیں۔ کابل میں کسی کی بھی �*کومت ہو اس کا جھکاوہمیشہ نئی دہلی کی طرف ہی رہا ہے، اسلام آباد سے اسے خدا واسطے کا بیر ہے، لیکن �*قیقت یہ ہے کہ کابل کو دہشتگردی کو روکنے کے لیے بھارت کی نہیں پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان ہمیشہ اُس کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، لیکن بھارت کی گرفت افغان �*کومت پر اتنی سخت ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اچھے تو کیا معمول پر بھی نہیں آنے دیتا۔ بھارت نے کشمیریوں کا جینا مزید مشکل کردیا ہے۔ پوری مقبوضہ وادی کا بھارتی فوجیوں نے م�*اصرہ کیا ہواہے اور دنیا سے یہ ظلم چھپانے کے لیے اورپاکستانی فوج کو الجھانے کے لیے بھارت افغانستان کو استمال کررہا ہے ۔ افغان �*کومت شاید اتنی بھی بے خبر نہیں ہوگی کہ جب امریکہ نے سب سے بڑا بم افغان پہاڑی سلسلے پر گرایا جہاں بقول اس کے داعش کے اڈے تھے وہاں سے دہشتگردت�*ریک طالبان پاکستان کے کئی رہنماوں اور پندرہ بھارتیوں کی لاشیں بھی ملی تھیں۔ امریکہ جس کا جھکاو بھی بھارت کی طرف ہے، اس کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے�*ال ہی ہونے والی پاکستان کے سفیر سے سفارتی اسناد وصول کرنے کی تقریب کے موقعہ پرشاید پاکستانی سفیر کو دہشتگردی کے خلاف مل کر جنگ لڑنے کا عندیہ دیا ہے۔

پاکستان نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ کی �*مایت یافتہ دہشتگرد تنظیم ت�*ریک طالبان پاکستان کو افغان انٹیلی جنس کی بھی �*مایت �*اصل ہے اور وہ اس کی مدد سے پاکستان میں وارداتیں کرتی ہے، افغانستان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنی مکمل مدد کا یقین دلانے کی خاطر گذشتہ ماہ اپریل میں اپنے فوجی اور پارلیمانی وفود افغانستان بھیجے، ان دوروں سے افغانستان کو یہ سمجھانا بھی مقصود تھا کہ دونوں ملکوں کا ایک دوسرے کے خلاف کام کرنا دونوں کے لیے ہی نقصان دہ ہے۔ افغانستان پر امریکی ڈرون �*ملے کے بعد پاکستان کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر نے افغانستان کادورہ کیا اُن سے تعزیت کی اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں ایک پارلیمانی وفد نے افغانستان دورہ کیا اور پھر 2مئی 2017ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نےدورہ کیا، جو اِس ل�*اظ سے اہم تھا کہ ایک عرصے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان رابطہ ہوا۔ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی ملاقات کی۔ افغانستان کی تازہ صورت�*ال یہ ہے موجودہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور سابق صدر�*امد کرزئی کے تعلقات انتہاہی خراب ہیں۔ پاکستانی وفد نے ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ ساتھ سابق صدر�*امد کرزئی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی ۔ افغان صدر کو سابق صدر کو دعوت دینا پسند نہیں آیا۔ انہوں نے پاکستانی وفد کے دورے پر کوئی بھی مثبت بیان جاری نہیں کیا اور ابھی پاکستانی وفد واپس لوٹا ہی تھا کہ انہوں نے دورہ پاکستان کی دعوت مسترد کرنے کا بیان جاری کردیا ۔

بھارتی اور افغان �*کمرانوں کا گٹھ جوڑ آج کا نہیں ہے یہ پاکستان بننے کے فوراً بعد یوں ظاہر ہوا کہ افغان �*کمرانوں نے پاکستان کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تھا۔چار دسمبر2016 کوکو بھارت کے شہر امرتسرمیں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس منقعد ہوئی۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس کانفرنس کے موقع پر اپنی بھارت میں موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان سے بھارتی زبان میں بات کی۔ افغان صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن بہتر ہو گا کہ یہ رقم پاکستان میں دہشتگرد گروہوں کے خلاف استعمال ہو۔ پاکستانی مشیر خارجہ کو براہ راست مخاطب کرکے افغان صدر نے کہا کہ ’’مسٹر عزیز، یہ رقم انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے‘‘۔پاکستان کی مخالف میں بولتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے بارئے میں کانفرنس کے کچھ شرکا کہنا تھا کہ افغان صدرمکمل طور پر بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ بھارت کے پاکستان کے بارئے میں عزائم کہیں زیادہ خطرناک ہیں بھارت افغانستان کا کندھا پاکستان کے خلاف استعمال کرکے اپنے کئی مذموم مقاصد �*اصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ سوال قابل غور ہے کہ آیا اس گٹھ جوڑ سے افغانستان کو بھی کوئی فائدہ ہوتاہے، اس کا جواب تو شایدنفی میں ہے لیکن کابل کے �*کمران اکثرنئی دہلی کے �*کمرانوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہتے ہیں ۔

آئیے افغانستان کی بھارت سے وفاداری کے ساتھ ساتھ اس کی بہادری کا ذکر بھی کرلیتے ہیں۔ 28 اپریل 2017 کو پاکستانی فوج نے افغان �*کام کو اطلاع دی کہ وہ چمن سر�*د کے قریب دو دیہاتوں میں مردم شماری کے لیے جا رہے ہیں۔ وہاں افغان فورسز نے انہیں روک دیا اور کہا کہ یہ افغان علاقہ ہے۔ اس پر پاکستانی �*کام نے انہیں نقشوں کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن تنازع �*ل نہ ہوا۔ اس کے بعد متعدد مرتبہ افغان �*کام سے رابطہ کیا گیا لیکن چار مئی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ مردم شماری کی ٹیم 5مئی 2017کو دوبارہ وہاں گئی اور پھر جھڑپ ہوئی جس میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے اور 30 سے زیادہ زخمی جس کے بعد پاکستان نے چمن سر�*د بند کردی ہے اور پاک افغان تعلقات ایک مرتبہ پھر تلخی کی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاک افغان سر�*د پر جو کچھ بھی ہوا وہ نئی دہلی اور کابل کا گٹھ جوڑ ہے۔اس جھڑپ کے جواب میں پاکستان کی فوج نے ان پانچ چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں سے شہری آبادی پر فائر کیے گئے تھے۔ افغان بارڈر کی پانچ چیک پوسٹیں مکمل طور پر تباہ کی گئیں۔افغان بارڈر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے 50 اہلکار ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔جبکہ افغانی سفیر نے دعوی کیا ہے کہ صرف دو افغان فوجی ہلاک اور سات کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔افغان سفیر نے کہا کہ اگر اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کی ہماری خواہش �*قیقی ہے اور ہم ایک دوسرے کے خیرخواہ ہیں تو دو فوجیوں کی موت بھی بہت بڑی بات ہے۔ افغان سفیر کی اس بات سے پورا اتفاق ہے لیکن بہتر ہوگا افغان سفیر اپنی اس خواہش کا اظہار اپنی �*کومت سے کریں۔

بھارت اور افغانستان دونوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج موجود ہے، لیکن شایدافغانستان ایسی کارروائیاں بھارت کے کشمیرمیں ہونے والے ظلم اور اپنے اندرونی �*الات سے توجہ ہٹانے کے لیے کررہا ہے۔ کابل کے �*کمرانوں کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ برداشت کی بھی ایک �*د ہوتی ہے اور جیسا کہ پاک فوج کے میجر جنرل ندیم ا�*مد نے کہا ہے کہ یہ ہمارا اٹل فیصلہ ہے کہ پاکستان کی بین الاقوامی سر�*د پر ب�*ث نہیں ہوسکتی اور ہم اس پر کسی قسم کی خلاف ورزی کو قبول نہیں کریں گے اور اس کے دفاع کے لیے جس �*د تک جانا پڑا جائیں گے۔ پوری پاکستانی فوج میجر جنرل ندیم ا�*مدکے اس بیان کی �*مایت کرتی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کو چاہیے کہ وہ اپنی قوم کے بارئے میں سوچیں جو ایک طرف تو امریکہ کی غلامی کررہی ہے تو دوسری طرف دہشتگرد بھارت کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان ایک پر امن ملک ہے اور اس کی ہمیشہ ایک پرامن افغانستان کی خواہش رہی ہے لیکن بھارت اور افغانستان اس کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھیں۔

 

Imran Virk

Politcal Worker (100+ posts)
پاکستان کو چاہیے کہ تمام افغان پناہ گزین انڈیا بھیج دے لیکن ایسا ہو گا نہیں کیونکہ حکومت کو اقوام متحدہ پیسے دیتی مہاجرین کی دیکھ بھال کے بدلے اور پیسوں کے لیے ھمارے وزیراعظم کچھ بھی کر سکتے ہیں
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
یہ وفاداری افغانستان کی نہیں ان عناصر کی ہے جو امریکا سے جمہوریت کے ساتھ جہیز میں آئے ہیں. وہ کہتے ہیں نا ہور چوپو، ہن چوپو بےکے، جمہوریت
 

Back
Top