ملا عبدالسلام ضعیف اپنی کتاب ’مائی لائف ود دا طالبان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں 20 نومبر 2001 کو (قندھار سے) اسلام آباد واپس آیا تو مجھے پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے ایک باقاعدہ خط دیا گیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’’وہ امارات اسلامیہ افغانستان کو اب تسلیم نہیں کرتے ہیں‘‘ مگر اس کے سفیر، یعنی مجھے ’’پاکستان میں رہنے کی اجازت ہے جب تک کہ افغانستان میں ایمرجنسی کی صورت حال ختم نہیں ہو جاتی ہے‘‘۔ ۔ ۔ ۔ یہ نئے سال کا دوسرا دن تھا۔ پاکستان نے ابھی 2002 کی آمد کا جشن منایا تھا اور میں گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ موجود تھا۔ اچانک میرا محافظ نمودار ہوا اور اس نے مجھے بتایا کہ پاکستانی افسران دروازے پر موجود ہیں اور مجھے ملنے کے خواہاں ہیں۔ یہ رات کے آٹھ بجے کا وقت تھا جو کہ میرے گھر پر میٹنگ کے لئے ایک غیر معمولی وقت تھا۔ میں چھوٹے مہمان خانے کی طرف گیا۔ کمرے میں تین افراد موجود تھے۔ انہوں نے خود کو متعارف کروایا۔ ایک گلزار نامی پشتون تھا جبکہ دوسرے دو اردو بول رہے تھے۔ اس (گلزار) نے کہا ’’عزت مآب، اب آپ عزت مآب نہیں رہے۔ امریکہ ایک سپر پاور ہے، کیا آپ کو اس کا علم تھا؟ اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا ہے، نہ ہی اس سے مذاکرات کر سکتا ہے۔ امریکہ آپ سے سوالات پوچھنا چاہتا ہے اور ہم آپ کو اسے کے حوالے کرنے آئے ہیں‘‘۔ ‘