knowledge88
Chief Minister (5k+ posts)
Can't you see? He is holding a 4 barrel rocket Launcher on his shoulder.ہاہاہا…...تمہاری تشدد کرنے کی عادت گیی نہیں ابھی. ?
Last edited:
Can't you see? He is holding a 4 barrel rocket Launcher on his shoulder.ہاہاہا…...تمہاری تشدد کرنے کی عادت گیی نہیں ابھی. ?
سر جی! اگراس واقعہ کے پس منظر کی حد تک بات کریں تو اور آپ ہمارے معاشرے کی طبقاتی، سماجی اور مختلف العمری کا
باریک بینی سے مشاہدہ کریں تو کچھ حقیقتیں بالکل واضع نظر آنے لگتی ہیں۔۔خصوصا نوجوان نسل کی سوچوں میں پلنے والے انتشار اور جنسی عزائم کے خلفشار کا سارا کچا چٹھا انکےموبائل فونز میں چھپا ہوا ملے گا۔۔۔ ٹک ٹاک سٹارزکی بھڑکیلی کھال، وی لاگرز کی چمکیلی چال،باہمی کیمونیکیشن کیلئے سستی کال، اور اپنی جوانی کے لشکارے دکھاکر شہرت و مال کمانے کی آس نےاس قوم کے سہانے مستقبل کو دھیمک زدہ بنا دیا ہے
اب اگر طبقاتی تقسیم کا تنقیدی جائزہ لیں تو۔۔ایک اشرافیہ کا خرانٹ طبقہ ہے جس نے عمومی طور پر آہستہ آہستہ ڈیٹنگ، لِیو اِن ریلیشن شِپ اور باہمی چُما چاٹی کیلئے کمپرومائزڈ حصار بنا کر اپنی پریم کہانیوں کو قابل قبول بنا لیا ہے( نور مقدم اور جعفرکے باہمی تعلقات)۔۔۔
اس کے بعد مڈل کلاسیئے ہیں جن کے سپنوں میں کبھی حلیمہ خاتون کی شرم وحیا کے جلوے نظر آئیں گے اور کبھی مئیا خلیفہ کے ہوشربا بلوے نظر آئیں گے۔۔لیکن یہ طبقہ بیچارہ اپنا جذباتی سئیم برقرار رکھتے ہوئے جلتا کُڑھتا ہوا زندگی کو دھکا دئیے جا رہا ہے۔۔۔اس تھریڈ پر بھی زیادہ تراسی طبقے کی نمائندگی کرنے والے مجبورمسکینوں کے ججباتی اظہار ملیں گے۔۔
اب آپ آتے ہیں کثیر النفوس طبقے کی طرف۔۔ یعنی لوئر مڈل کلاس اور غریب طبقہ جن کی جوانی فرسٹریشن، غصے اور بدحالی کے وبال کی جکڑن سےبندھی ہوئی ہے اور یہی لوگ عموما وحشی ہجوم بن کر ہر اخلاقی تقاضے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔۔۔اوراپنے نفس اور شہوت کو انسانی زنجیروں سے آزاد کرکے وقتی طور پر حیوان بن جاتے ہیں۔
ایک حکمران ہیں جو انتظامی بدحالی سے بے نیاز اپنےعشرت کدوں میں چرس کے سُوٹے لگا کر تمثیلی ٹائیگرز بنے بیٹھے ہیں۔۔ کسی بریکنگ نیوز یا سوشل میڈیا پر چلنے والے چپت سے جُزوی بیداری ہوتی ہے اور پھر نیرو کی بانسری بجاتے ہوئے سو جاتے ہیں۔۔۔
یہ حکومتی نظام اور معاشرتی کارِحیات ۔۔ ایک انقلابی سرجری کے بغیر اخلاقی و رفاحی پٹڑی پر نہیں چڑھ پائے گا۔۔۔بے حسی اوربد حالی اتنی بڑھ چکی ہے کہ کسی شرعی، سیاسی، اور واعظی بھاشن سے اس ناسور کا علاج ممکن نہیں۔۔
Teray jaisa hi loog wahan thay, jo saray din totay dekthay hain aur koi aurat nazar ajayee tu pagal hojatay hain.
Kya Pakistan sırf beghairat mardoon ka hai?
ab kay koi aurat 14 August ko bahar nikalnay ka soochay gi?
Tik Tok say loog kharab nahi hotay, tarbiat sahi nahi ho to aisay hi darinday paida hotay hain.
سر جی! اگراس واقعہ کے پس منظر کی حد تک بات کریں تو اور آپ ہمارے معاشرے کی طبقاتی، سماجی اور مختلف العمری کا
باریک بینی سے مشاہدہ کریں تو کچھ حقیقتیں بالکل واضع نظر آنے لگتی ہیں۔۔خصوصا نوجوان نسل کی سوچوں میں پلنے والے انتشار اور جنسی عزائم کے خلفشار کا سارا کچا چٹھا انکےموبائل فونز میں چھپا ہوا ملے گا۔۔۔ ٹک ٹاک سٹارزکی بھڑکیلی کھال، وی لاگرز کی چمکیلی چال،باہمی کیمونیکیشن کیلئے سستی کال، اور اپنی جوانی کے لشکارے دکھاکر شہرت و مال کمانے کی آس نےاس قوم کے سہانے مستقبل کو دھیمک زدہ بنا دیا ہے
اب اگر طبقاتی تقسیم کا تنقیدی جائزہ لیں تو۔۔ایک اشرافیہ کا خرانٹ طبقہ ہے جس نے عمومی طور پر آہستہ آہستہ ڈیٹنگ، لِیو اِن ریلیشن شِپ اور باہمی چُما چاٹی کیلئے کمپرومائزڈ حصار بنا کر اپنی پریم کہانیوں کو قابل قبول بنا لیا ہے( نور مقدم اور جعفرکے باہمی تعلقات)۔۔۔
اس کے بعد مڈل کلاسیئے ہیں جن کے سپنوں میں کبھی حلیمہ خاتون کی شرم وحیا کے جلوے نظر آئیں گے اور کبھی مئیا خلیفہ کے ہوشربا بلوے نظر آئیں گے۔۔لیکن یہ طبقہ بیچارہ اپنا جذباتی سئیم برقرار رکھتے ہوئے جلتا کُڑھتا ہوا زندگی کو دھکا دئیے جا رہا ہے۔۔۔اس تھریڈ پر بھی زیادہ تراسی طبقے کی نمائندگی کرنے والے مجبورمسکینوں کے ججباتی اظہار ملیں گے۔۔
اب آپ آتے ہیں کثیر النفوس طبقے کی طرف۔۔ یعنی لوئر مڈل کلاس اور غریب طبقہ جن کی جوانی فرسٹریشن، غصے اور بدحالی کے وبال کی جکڑن سےبندھی ہوئی ہے اور یہی لوگ عموما وحشی ہجوم بن کر ہر اخلاقی تقاضے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔۔۔اوراپنے نفس اور شہوت کو انسانی زنجیروں سے آزاد کرکے وقتی طور پر حیوان بن جاتے ہیں۔
ایک حکمران ہیں جو انتظامی بدحالی سے بے نیاز اپنےعشرت کدوں میں چرس کے سُوٹے لگا کر تمثیلی ٹائیگرز بنے بیٹھے ہیں۔۔ کسی بریکنگ نیوز یا سوشل میڈیا پر چلنے والے چپت سے جُزوی بیداری ہوتی ہے اور پھر نیرو کی بانسری بجاتے ہوئے سو جاتے ہیں۔۔۔
یہ حکومتی نظام اور معاشرتی کارِحیات ۔۔ ایک انقلابی سرجری کے بغیر اخلاقی و رفاحی پٹڑی پر نہیں چڑھ پائے گا۔۔۔بے حسی اوربد حالی اتنی بڑھ چکی ہے کہ کسی شرعی، سیاسی، اور واعظی بھاشن سے اس ناسور کا علاج ممکن نہیں۔۔
سارے بے شرم عمرانی جب عمران خان نے ریپ کیسز میں عورت کے لباس کا ذکر کیا تو سب واہ واہ کر رہے تھے درحالانکہ ریپ کا لبا س سے تعلق نہیں ریپ کا شکار خواتیں عام پاکستانی لباس میں ملبوس ہوتی ہیں ۔ ریپ کا تعلق سماجی روئیوں سے نہیں ۔ اب جب
Socrates Khan
نے ہمارے معاشرے کی مخصوص ہئیت کے سبب خاتون ٹک ٹاکر کے نادان روئیے (پبلک جگہ پہ وڈیو بنانا )کے نتیجے میں ہونے والی ہراسانی کا شکار عورت کی نادانی کا ذکر کر دیا تو سب باولے ہو گئے ۔