اسٹبلشمنٹ کا صرف ایک مقصد ہے کہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہو،رانا ثنا اللہ

4ranansnannkjskjskj.png


پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کہتے ہیں ملک میں سیاسی صورتحال اچھی نہیں ہے، 8 فروری کے بعد جو سیاسی استحکام ملنا چاہئے تھا، نہیں ملا,محسن نقوی، فیصل واوڈا اور انوار الحق کاکڑ ایک ہی خاندان سے ہیں۔

سابق وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ محسن نقوی جو عہدہ لینا چاہیں وہ لے سکتے ہیں، ان کا کافی محاسبہ ہو چکا ہے، محسن نقوی، فیصل واوڈا اور انوار الحق کاکڑ ایک ہی سیاسی قبیلہ سے ہیں جبکہ وزیر خزانہ کو ان کا کزن کہا جا سکتا ہے ۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا اتحادی حکومت کی بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں، ہم دو تہائی اکثریت سے آتے تو مشکل فیصلے نہ کرنا پڑتے، الیکشن میں عوام نے اپنا فیصلہ سنایا جسے تسلیم کرتے ہیں ۔

رانا ثنا نے کہا کچھ جماعتیں اور رہنما پارلیمنٹ میں تو موجود ہیں لیکن سیاسی عدم استحکام کیلئے بھی کوشاں ہیں، ملک اس وقت معاشی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، 2017 میں ملک ٹریک پر چل رہا تھا پھر اس وقت کی اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ نے پراجیکٹ عمران خان لانچ کیا، اس وقت کی حکومت کو ڈی ٹریک کیا گیا اور الیکشن میں دھاندلی کی گئی.

انہوں نے کہا کہ معاشی مسائل گھمبیر ہیں تاہم شہباز شریف ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت سے دور ہونے کا تاثر بے بنیاد ہے ، الیکشن کے بعد ہونے والی تمام پارٹی میٹنگز میں شامل رہا ہوں ، پارٹی کی پنجاب میں صدارت بہت اہم ذمہ داری ہے، کسی بھی پارٹی میں جیتنے والے امیدواروں کو ہی حکومت میں ذمہ داریاں ملنی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا رول ہمیشہ رہتا ہے، اسٹبلشمنٹ کی اس وقت کی لیڈر شپ چاہے عدلیہ سے ہو یا دوسرے اداروں سے ہوں لیڈر شپ دیانتدار ہے، اسٹبلشمنٹ کا بھی صرف ایک مقصد ہے کہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہو.


رانا ثنا کا کہنا تھا پچھلے دس سال سے سیاست میں ایسے عناصر آئے ہیں جو اپنی ذات کے باہر نہیں دیکھتے، ایسے عناصر نہ سیاستدانوں سے بات چیت کیلئے تیار نہیں ہوتے بس یہ کہتے ہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، ان کی پارٹی کا سربراہ نہ اپنی جماعت کا موقف سنتا ہے نہ رائے لیتا ہے، اس الیکشن کے بعد وہ پارٹی اگر حکومت بنانا چاہتی تو ہم سے پہلے بنا لیتے۔

انہوں نے کہا یہ وہ جماعت ہے جو حکومت میں ہو تو اپوزیشن کیخلاف اور اپوزیشن میں ہو تو حکومت کیخلاف کام کرتی ہے، انہوں نےکہا کہ مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم ماضی میں ہمارے ساتھی رہے ہیں، اگر مولانا صاحب کو کوئی گلہ ہے تو انکا گلہ دور کیا جانا چاہئے۔

صدر مسلم لیگ ن پنجاب نے کسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک سیاسی جماعت یہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اس کا لیڈر اپنی جماعت کے لوگوں کی بھی نہیں سنتا، اس انتخابات کے بعد اگر وہ حکومت بنانا چاہتے تو بنا سکتے تھے، ایسی سیاسی قوت جب تک موجود رہے گی ملک مستحکم نہیں ہو سکتا۔
 

انقلاب

Chief Minister (5k+ posts)
4ranansnannkjskjskj.png


پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کہتے ہیں ملک میں سیاسی صورتحال اچھی نہیں ہے، 8 فروری کے بعد جو سیاسی استحکام ملنا چاہئے تھا، نہیں ملا,محسن نقوی، فیصل واوڈا اور انوار الحق کاکڑ ایک ہی خاندان سے ہیں۔

سابق وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ محسن نقوی جو عہدہ لینا چاہیں وہ لے سکتے ہیں، ان کا کافی محاسبہ ہو چکا ہے، محسن نقوی، فیصل واوڈا اور انوار الحق کاکڑ ایک ہی سیاسی قبیلہ سے ہیں جبکہ وزیر خزانہ کو ان کا کزن کہا جا سکتا ہے ۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا اتحادی حکومت کی بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں، ہم دو تہائی اکثریت سے آتے تو مشکل فیصلے نہ کرنا پڑتے، الیکشن میں عوام نے اپنا فیصلہ سنایا جسے تسلیم کرتے ہیں ۔

رانا ثنا نے کہا کچھ جماعتیں اور رہنما پارلیمنٹ میں تو موجود ہیں لیکن سیاسی عدم استحکام کیلئے بھی کوشاں ہیں، ملک اس وقت معاشی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، 2017 میں ملک ٹریک پر چل رہا تھا پھر اس وقت کی اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ نے پراجیکٹ عمران خان لانچ کیا، اس وقت کی حکومت کو ڈی ٹریک کیا گیا اور الیکشن میں دھاندلی کی گئی.

انہوں نے کہا کہ معاشی مسائل گھمبیر ہیں تاہم شہباز شریف ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت سے دور ہونے کا تاثر بے بنیاد ہے ، الیکشن کے بعد ہونے والی تمام پارٹی میٹنگز میں شامل رہا ہوں ، پارٹی کی پنجاب میں صدارت بہت اہم ذمہ داری ہے، کسی بھی پارٹی میں جیتنے والے امیدواروں کو ہی حکومت میں ذمہ داریاں ملنی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا رول ہمیشہ رہتا ہے، اسٹبلشمنٹ کی اس وقت کی لیڈر شپ چاہے عدلیہ سے ہو یا دوسرے اداروں سے ہوں لیڈر شپ دیانتدار ہے، اسٹبلشمنٹ کا بھی صرف ایک مقصد ہے کہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہو.


رانا ثنا کا کہنا تھا پچھلے دس سال سے سیاست میں ایسے عناصر آئے ہیں جو اپنی ذات کے باہر نہیں دیکھتے، ایسے عناصر نہ سیاستدانوں سے بات چیت کیلئے تیار نہیں ہوتے بس یہ کہتے ہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، ان کی پارٹی کا سربراہ نہ اپنی جماعت کا موقف سنتا ہے نہ رائے لیتا ہے، اس الیکشن کے بعد وہ پارٹی اگر حکومت بنانا چاہتی تو ہم سے پہلے بنا لیتے۔

انہوں نے کہا یہ وہ جماعت ہے جو حکومت میں ہو تو اپوزیشن کیخلاف اور اپوزیشن میں ہو تو حکومت کیخلاف کام کرتی ہے، انہوں نےکہا کہ مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم ماضی میں ہمارے ساتھی رہے ہیں، اگر مولانا صاحب کو کوئی گلہ ہے تو انکا گلہ دور کیا جانا چاہئے۔

صدر مسلم لیگ ن پنجاب نے کسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک سیاسی جماعت یہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اس کا لیڈر اپنی جماعت کے لوگوں کی بھی نہیں سنتا، اس انتخابات کے بعد اگر وہ حکومت بنانا چاہتے تو بنا سکتے تھے، ایسی سیاسی قوت جب تک موجود رہے گی ملک مستحکم نہیں ہو سکتا۔
حکیم کو تو خود حکیم کی ضرورت پڑ گئی
 

Digital_Pakistani

Chief Minister (5k+ posts)
محسن نقوی، فیصل واوڈا اور انوار الحق کاکڑ ایک ہی سیاسی قبیلہ سے ہیں جبکہ وزیر خزانہ کو ان کا کزن کہا جا سکتا ہے ۔

محسن نقوی کا تعلق اس بے غیرت اسٹیبلشمنٹ سے ہے جو ملک کی مقبول ترین پارٹی کو ختم کرنے پر لگی ہوئی ہے - جو لوگ معاشی ترقی چاہتے ہیں وہ ایسے کام نہیں کرتے
 

Azpir

MPA (400+ posts)
4ranansnannkjskjskj.png


پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کہتے ہیں ملک میں سیاسی صورتحال اچھی نہیں ہے، 8 فروری کے بعد جو سیاسی استحکام ملنا چاہئے تھا، نہیں ملا,محسن نقوی، فیصل واوڈا اور انوار الحق کاکڑ ایک ہی خاندان سے ہیں۔

سابق وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ محسن نقوی جو عہدہ لینا چاہیں وہ لے سکتے ہیں، ان کا کافی محاسبہ ہو چکا ہے، محسن نقوی، فیصل واوڈا اور انوار الحق کاکڑ ایک ہی سیاسی قبیلہ سے ہیں جبکہ وزیر خزانہ کو ان کا کزن کہا جا سکتا ہے ۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا اتحادی حکومت کی بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں، ہم دو تہائی اکثریت سے آتے تو مشکل فیصلے نہ کرنا پڑتے، الیکشن میں عوام نے اپنا فیصلہ سنایا جسے تسلیم کرتے ہیں ۔

رانا ثنا نے کہا کچھ جماعتیں اور رہنما پارلیمنٹ میں تو موجود ہیں لیکن سیاسی عدم استحکام کیلئے بھی کوشاں ہیں، ملک اس وقت معاشی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، 2017 میں ملک ٹریک پر چل رہا تھا پھر اس وقت کی اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ نے پراجیکٹ عمران خان لانچ کیا، اس وقت کی حکومت کو ڈی ٹریک کیا گیا اور الیکشن میں دھاندلی کی گئی.

انہوں نے کہا کہ معاشی مسائل گھمبیر ہیں تاہم شہباز شریف ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت سے دور ہونے کا تاثر بے بنیاد ہے ، الیکشن کے بعد ہونے والی تمام پارٹی میٹنگز میں شامل رہا ہوں ، پارٹی کی پنجاب میں صدارت بہت اہم ذمہ داری ہے، کسی بھی پارٹی میں جیتنے والے امیدواروں کو ہی حکومت میں ذمہ داریاں ملنی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا رول ہمیشہ رہتا ہے، اسٹبلشمنٹ کی اس وقت کی لیڈر شپ چاہے عدلیہ سے ہو یا دوسرے اداروں سے ہوں لیڈر شپ دیانتدار ہے، اسٹبلشمنٹ کا بھی صرف ایک مقصد ہے کہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہو.


رانا ثنا کا کہنا تھا پچھلے دس سال سے سیاست میں ایسے عناصر آئے ہیں جو اپنی ذات کے باہر نہیں دیکھتے، ایسے عناصر نہ سیاستدانوں سے بات چیت کیلئے تیار نہیں ہوتے بس یہ کہتے ہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، ان کی پارٹی کا سربراہ نہ اپنی جماعت کا موقف سنتا ہے نہ رائے لیتا ہے، اس الیکشن کے بعد وہ پارٹی اگر حکومت بنانا چاہتی تو ہم سے پہلے بنا لیتے۔

انہوں نے کہا یہ وہ جماعت ہے جو حکومت میں ہو تو اپوزیشن کیخلاف اور اپوزیشن میں ہو تو حکومت کیخلاف کام کرتی ہے، انہوں نےکہا کہ مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم ماضی میں ہمارے ساتھی رہے ہیں، اگر مولانا صاحب کو کوئی گلہ ہے تو انکا گلہ دور کیا جانا چاہئے۔

صدر مسلم لیگ ن پنجاب نے کسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک سیاسی جماعت یہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اس کا لیڈر اپنی جماعت کے لوگوں کی بھی نہیں سنتا، اس انتخابات کے بعد اگر وہ حکومت بنانا چاہتے تو بنا سکتے تھے، ایسی سیاسی قوت جب تک موجود رہے گی ملک مستحکم نہیں ہو سکتا۔
Oay chootiyay mulk khushaal logo ki opinion ki respect se hota ha. Logo ko bhair bakriyan samajnay se nahi. Uchaka kahi ka