Well deserved treatment for Saudi's . The way they treat Pkistani's in Saudi Arabia its nothing . Good Job ASF!!
Bahot acha howa iss arbi chalay k saath, yeh hamaray Pakistani bahn bhaion se iss se bhi ziada bura salook kartay hein. Arab nation is the most racist nation on the face of earth. Aur khuda ki qasam mujhay tu Israel pasand hey jisnein Arabs ko sidha kia howa hay.
Maroo inn Arbion ko jitna marr saktay ho, salay duffer, gomandi. Inki oil resources jub katam hoon gi tu inshallah Lahore ki galion mein bheek mangein gey. Inshallah
گذشتہ روز اسلام آباد ایئرپورٹ پر ائیر پورٹ سیکورٹی فورس کے اہلکاروں اور سعودی فوجی افسر سعید الشری کے درمیان جھگڑے کی مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری سیکورٹی فورس اور گلی میں لڑنے والے عام افراد میں کوئی فرق نہیں ہے اور وہ کسی بھی خصوصی صورتحال میں کسی تربیت یافتہ فورس کے بجائے عام افراد کی طرح جھگڑنا شروع کردیتی ہیں۔ مثلا کل کے واقعے میں فورس کو سعودی اہلکارکو بے بس کر کے حراست میں لینا چاہئے تھا مگر اس کے بجائے سب سپاہی اور افسر مل کر اس ادھیڑ عمر سعودی فوجی افسر کو اس کے بچوں کے مارتے رہے۔ سب سےدلچسپ بات یہ ہےکہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جس شخص کو وہ بے دردی سے مار رہےہیں وہ اہم سعودی فوجی افسر ہے اور اسلام آباد میں تعینات ہیں۔ کیونکہ یہ فوجی افسر عام مسافروں کے راستے سے اپنے بیٹوں کو سعودی ائیر لائن کے کائونٹر تک چھوڑنے جا رہا تھا حالانکہ اسے وی آئی پی لائونج سے جانے کا اختیار تھا جہاں سے صرف وزرا، صدر، اور غیر ملکی سفیر وغیرہ جاتے ہیں۔ اصل کہانی سنانے سے پہلے ہم یہ بتاتے چلیں کہ کل ہوا کیا تھا۔ کل شام کے وقت اسلام آباد ائرپورٹ پر ایک سعودی شہری کو پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں نے بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گرفتار کیا اور افسران بالاکو اطلاع دی کہ انہوں نے ایک سعودی شہری جو اپنے کو فوجی اہلکار ظاہر کررہا ہے اس کو اس وقت روکا جب وہ سیٹ کنفرم نہ ہونےکے باوجود جہاز پر جانے کیلئے بضد تھا۔سعودی فوجی اہلکار کو واک تھرو گیٹ سے گزرنے کو کہا گیا لیکن انہوں نے اے ایس ایف اہلکار کی بات نہیں سنی اور ہدایت کے برعکس سائیڈ سے گزرنا چاہا جس پر اے ایس ایف کے اہلکار نے انہیں روکا تو سعودی فوجی اہلکار نے اسے دھکا دے کر ایکسرے مشین پر گرا دیا ۔ساتھ میں سعودی فوجی اہلکار کے بیٹوں نے بھی اے ایس ایف کے اہلکار کو تھپٹر مارے جس پر اے ایس ایف کے دیگر اہلکار بھی اپنے ساتھی کی مدد کو آئے اور اس کے بعد سعودی اہلکار کی ہلکی پٹائی کر ڈالی ۔ جس پر سعودی اہلکار کو جسم پر 9زخم آئے۔ واقعہ کے بعد اعلی حکام نے سعودی شہری کی تصدیق کے لئے سعودی سفارتخانے سے رابطہ کیا تو صورتحال بدل گئی کیونکہ انکشاف یہ ہوا کہ جس شخص کو بےدردی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ اہم فوجی افسر ہے اور سعودی سفیر فوری طور پر ایئر پورٹ پہنچے اور واقعہ کی تفصیل معلوم کی۔سعودی سفیر کے ائیرپورٹ پہبچنے پر حکومت ہل گی ۔ سیکرٹری دفاع نے واقعہ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی اے ایس ایف کو طلب کر لیا اور 24 گھنٹوں میں واقعہ کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ۔ وزیر دفاع احمد مختار اور رحمان ملک نے سعودی سفیر سے فوری رابطہ کیا واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ اب تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ سعودی عرب اسلام آباد ایئر پورٹ پر ہونے والے ناخوشگوار واقعے پر پاکستان سے سرکاری سطح پر احتجاج کرے گا؛ جمعرات کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر سعودی شہری پر ایئر پورٹ سیکورٹی فورس کے اہلکاروں نے بغیر کسی وجہ اس کے دو بیٹوں کے سامنے تشدد کیا تھا۔ شکری سعید الشہری اپنے دو بیٹوں کو ایئر پورٹ پر چھوڑنے آیا تھا جو سعودی عرب جا رہے تھے؛ اس کے پاس درست دستاویزات بھی تھیں لیکن اس کے باوجود وہ اے ایس ایف کے اہلکاروں کا نشانہ بن گیا۔ اے ایس ایف کے اہلکاروں نے پہلے سعودی شہری سے جھگڑا کیا، اسے گالیاں دیں اور اس کے بعد رائفل کے بٹ، ڈنڈے اور گھونسوں سے اس کی ٹھکائی کردی۔ اے ایس ایف کے اہلکار بھرے ایئر پورٹ پر سعودی شہری کو مار رہے تھے، ا گر عام شہری مداخلت نہ کرتے تو اے ایس ایف کے اہلکار شکری سعید کی جان ہی لے لیتے۔ علیل ہونے کے باوجود پاکستان میں متعین سعودی سفیر ایئر پورٹ پہنچے اور سعودی باشندے تک رسائی حاصل کی جس کے بعد لہو لہان شکری سعید کو راولپنڈی کے ایک اسپتال لے جایا گیا وہاں سے انہیں پمز اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں ان کے ناک کا ہلکا آپریشن کیا گیا۔ یہ سارا واقعہ کس طرح پیش آیا؟ اس بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کو معلوم ہی نہ تھا ان کے سامنے کون ہے۔اسلام آباد ائیر پورٹ پر بیرون ملک پروازوں کے لئے دو لائونج ہیں۔ ان میں سےایک عام شہریوں کے لئے ہے جب کہ دوسرا لائونج وی آئی پی لائونج کہلاتا ہے جہاں سے خصوصی لوگ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے عام لائونج سے جانے والے تمام افراد کو سیکورٹٰی کا عملہ عام فرد سمجھ ہی سختی سے برتائو کرتا ہے۔ سعودی فوجی افسر نے اپنے دو بیٹوں کو سعودی عرب بھیجنا تھا اور اس کے لئےاس نے سعودی ائیر لائن میںسیٹیں بک کرا رکھی تھیں۔اس نے اور اس کے بیٹوں نے بھی عربی لباس کے بجائے عام سی پینٹ اور شرٹ پہن رکھی تھی جس کےباعث وہ حلیئے سے کوئی پٹھان لگ رہا تھا۔ عام شہریوں کے لائونج میں ائیر لائن کے کائونٹر تک پہنچنے کے لئے چار بار تلاشی کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ سعودی فوجی افسر بھی اپنے بیٹوں کے ساتھ تین سیکورٹی پوائنٹس سے گزر چکا تھا، اس کے پاس اپنا ٹکٹ نہیں تھا مگر بیٹوں کے ٹکٹس تھے اور وہ انہیں سعودی ائیر لائن کے کائونٹر تک پہنچا کر کسی کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ جب وہ چوتھے سیکورٹی چیک پر پہنچا تو اس نے جسمانی تلاشی دینے سے انکار کردیا۔ دراصل اسلام آباد ائیر پورٹ پر واک تھرو گیٹس نصب ہیں مگر ان سے گزرنے کے بعد بھی ہاتھ اوپر اٹھا کر جسمانی تلاشی دینی پڑتی ہے جس میں سیکورٹی حکام شرمگاہ کی بھی تلاشی لیتے ہیں اور یہی عمل سعودی فوجی افسر کو منظور نہ تھا۔ آخری واک تھرو گیٹ سے گزرنے کےبعد جب اے ایس ایف کے سب انسپکٹر نے معمول کے مطابق اس کی جسمانی تلاشی لینے کے لئے اس کے جسم کو چھوا تو وہ بھڑک اٹھا۔ اور اس نے انگلش میں زور زور سے کہنا شروع کردیا کہ بار بار میری شرمگاہ میں کیا ڈھونڈ رہے ہو۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں اس طرح کی تلاشی کو سخت معیوب سمجھا جاتا ہے اور ہر ائیر پورٹ پر جدید اسکینر نصب ہیں جن میں گزرنے والا خوبخود ہی اسکین ہوجاتا ہے اور صرف انہیں افراد کو الگ کیا جاتا ہے جو اسکینر میں مشتبہ ٹھہریں۔اسلام آباد ائیر پورٹ پر بھی تین بار اپنی جسمانی تلاشی دینے کےبعد سعودی فوجی افسر کافی غصے میں تھا اس لئے چوتھے اسکینر پر اس نے اپنی تلاشی لینے کی کوشش کرنے والے سب انسپکٹر کو دھکا دے کر ایک طرف ہٹایا اور زور زور سے انگلش میں کہنا لگا کہ بار بار میری شرمگاہ میں کیا ڈھونڈ رہے ہو۔ جب سیکورٹی اہلکار نے یہ سنا تو اسے یہی سمجھ میں آیا کہ سعودی افسر اسے گالیاں دے رہا ہے پھر وہ اس شاک میں بھی تھا کہ کیسے ایک مسافر نے اسے تلاشی دینے کے بجائے دھکا دے کر گرادیا۔ یہ بات اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی عام مسافروں کے راستے سے کوئی اہم مسافر جا رہا ہے۔ اس موقع پر ہونا یہ چاہئے تھا کہ سیکورٹی اہلکار فوری طور پر اس مشتبہ سعودی کو بے بس کر کے حراست میں لےلینا چاہئے تھا اور پھراس ک تفتیش کرتے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ سعودی شہری نے جیسے ہی انگلش میں زور زور سے شرمگاہ کا نام لینا اور اس کی طرف اشارے کئے توسیکورٹی اہلکار نے اٹھتے ہی آئو دیکھا نا تائو اور تیری ماں کی اور تیری بہن کی کرنا شروع کردیا اور سعودی پر پل پڑا۔ اس پر اس کی بیٹے بھی آگے بڑھے مگر اپنے والد کو نہیں بچا سکے۔ جیسے ہی مار کٹائی شروع ہوئی اے ایس ایف کے دیگر اہلکار بھی موقع پر جمع ہوگئے اور کسی نے یہ تک نہیں پوچھا کہ ہوا کیا تھا بلکہ جس کے بعد بندوق تھی اس نے اسی سے مارنا شروع کردیا اور جس کےبعد ڈنڈا تھا وہ اس سےپل پڑا اور کوئی مکوں اور لاتوں سے کام چلانے لگا۔ اس دوران سعودی شہری چلاتا رہا کہ وہ سعودی فوجی افسر ہے اور اس کے سفارتخانے فون کیا جائے مگر کسی نے اس کی بات نہیں سنی اور اس کی کپڑے پھاڑ کر اسے نیم برہنہ کردیا۔ اس دوران وہاں موجود مسافروں نے اسے چھڑایا۔ یہ بلکل ایسا ہی منظر تھا جیسے کسی سڑک پر جھگڑا ہوتا ہے۔ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کسی تربیت یافتہ فورس کے اہلکار کسی مشتبہ شخص کو حراست میں لے رہے ہیں۔ مار کٹائی کےبعد جب بات کچھ ٹھنڈی ہوئی اور یہ پتہ چلا کہ تشدد کا نشانہ بننے والا اپنے آپ کو ایک اعلی سعودی عہدے دار بتا رہا ہے تو سیکورٹی اہلکاروں کو ماتھا ٹھنکا وہ اب تک اسے کوئی پٹھان سمجھ رہے جو انگلش بول کر رعب جھاڑ رہا تھا۔ فوری طور پر سعودی ائیرلائن کے کائونٹر پر چیک کیا گیا تو پتہ چلا کہ اسی نام کا ایک اعلی سعودی فوجی افسر اپنے بچوں کو چھوڑنے آنے والا تھا اور اس کے بچوں کو ریسیو کرنے کے احکامات ائیر لائن کے پاس موجود ہیں۔ اس پر اعلی افسران کو بتایا گیا اور انہوں نے سعودی سفارتخانے سے رابطہ کیا جس پر سعودی سفیر جو کہ بیمار تھے فوری پر خود ہی ائیر پورٹ پر پہنچ گئے۔ سعودی سفیر کے یوں ائیر پورٹ پہنچے پر حکومت ہل گئی اور وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے فون آنے لگے اور پوری حکومت حرکت میں آگئی۔ سیکورٹی فورس کے اہلکاروں نے یہ موقف اختیار کیا کہ سعودی فوجی افسر نے واک تھرو گیٹ سے گزرنے اورتلاشی دینے سےمنع کرتے ہوئے سیکورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا اور انہیں گالیاں دیں جس پر اسے حراست میں لینے کی کوشش کی گئی اوراس میں وہ زخمی ہو گیا۔ اس پر سعودی افسر کا کہنا تھا کہ وہ تین جگہ تلاشی دینے کےبعد اندرپہنچا تھا تو بار بار اس کی شرمگاہ کی تلاشی کیوں لی جا رہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی کی فوٹیج نکال کر دیکھی جائیں وہ واک تھرو گیٹ اوراسکینر سے گزرا تھا مگر اپنی شرمگاہ کی جسمانی تلاشی دینے سے منع کررہا تھا کیونکہ پہلے ہی وہ تین بار یہ عمل دہرا چکے تھے۔ جب سعودی فوجی افسر سے یہ پوچھا گیا کہ اس نے وی آئی پی گیٹ کے بجائے عام گیٹ کیوں اسعتمال کیا؟ تو اس کا کہنا تھا کہ اپنے بیٹوں کو جہاز میں بٹھانے جا رہا تھا اور اس کے بیٹے وی آئی پی نہیں تھے اس لئے وہ عام گیٹ سے اندر گیا، اس کے پاس ائیر لائن کےکائونٹر تک جانے کا اجازت نامہ موجود تھا مگر سیکورٹی اہلکاروں نے اس سے بد تہذیبی کی اور یہ واقعہ پیش آیا۔ سعودی سفارتخانے کے ذرائع کاکہنا ہے کہ اس حوالے سے سعودی حکومت نے تیز قسم کا احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے
تو آپ کب جا رہے ہیں اسرایل ؟
Mujhay Israel janain ka koi shaoq nahien, aur Israel ka meray pyaray watan Pakistan se koi jhagra nahien iss leeay nafrat ki bhi koi waja nahien, haan Israel ko pasand karnein ka zaroor jawaz hay, wo yeh keh inn Arbion ko wo jootay ki noke per rakhtay hein kion keh Arbi hamaray watan k doshman hein.
Iran aur Saudi doonoo haram zaday mulk apni firqa wareeyat ki jang meri Pak sirzameen per lartay hein.
These two contries Iran and Suadi Arabia are more dangerous than India.