
کینین حکام نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل سے متعلق سرکاری تحقیقاتی رپورٹ جاری کردی، رپورٹ کے مطابق ارشد شریف پر قتل سے پہلے یا بعد میں کوئی تشدد نہیں کیا گیا، صحافی ارشد شریف کا قتل غلط شناخت کا نتیجہ تھا، قتل کی منصوبہ بندی کے شواہد نہیں ملے۔
کینین حکام کی رپورٹ رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی گاڑی پر فائر اس لیے کیا گیا کہ وہ ناکے پر نہیں رکی، ارشد شریف کی گاڑی سے فائر کیے جانے کا دعویٰ بھی غلط قرار دیا گیا۔
حکام نے فائرنگ کرنے والے افسران کے نشے میں ہونے کی ابتدائی رپورٹ کی بھی تردید کی،کینیا کی سرکاری رپورٹ میں لاپروائی سے فائرنگ کرنے والے 2 افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی،تحقیقات کے لیے کینیا جانے والے 2 پاکستانی افسران عمر شاہد حامد اور اطہر وحید اپنی رپورٹ میں قتل کو منصوبہ بندی کا نتیجہ قرار دے چکے ہیں۔
پاکستانی افسران کی رپورٹ میں کینیا کی پولیس پر قتل کے جرم کے پردہ پوشی کرنےکا الزام بھی لگایا گیا تھا جب کہ کینیا کی انسانی حقوق کمیشن کا بھی خیال ہےکہ پولیس ارشد شریف کے قتل میں ملوث ہوسکتی ہے۔
اسلام آباد پولیس نے ارشد شریف کے قتل کا الزام کینیا میں ان کے میزبانوں وقار اور خرم احمد پرلگایا تھا جب کہ وقار اور خرم اپنے وکیل کے ذریعے قتل میں ملوث ہونے کے الزام سے انکار کرچکے ہیں۔