UsmanSial
Senator (1k+ posts)
اردو لشکری زبان ہے جو مغل دور میں زبانوں کی آمیزش سے پیدا ہوئی۔ .I
اگرچہ اردو کی ابتدا کے بارے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی جاسکتی مگر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اردو اور ہندی جڑواں زبانیں ہیں جن کی ابتدا ان لہجوں سے ہوئی جو دہلی اور اس کے گردونواح میں ایک ہزار سال پہلے بولے جاتے تھے۔یہ لہجےاسی طرح پراکرت سے پیدا ہوئے۔قوی خیال ہے کہ کھڑی بولی وہ لہجہ تھا جس سے تیرویں صدی یا اس کےآس پاس مسلمانوں کی آمد کے بعد اردو وجود میں آئی۔ لہذا یہ خیال کرنا کہ اردو مغل بادشاہ شاہ جہاں متوفی 1666ءکے دور میں وجود آئی محظ خام خیالی ہے۔
ثانیا ماہر لسانیات کے نزدیک دو یا اس سے زیادہ زبانیں یکسرایک نئی زبان نہیں پیدا کر سکتیں۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اردو میں مختلف زبانوں کے الفاظ ملتے ہیں تو دنیا میں کوئی ایسی زبان نہیں جس میں بیرونی الفاظ نہ ملتےہوں۔بعد کے آنے والے ادوار میں مسلمانوں میں عربی اور فارسی الفاظ کے استعمال کی رغبت اور ہندوں میں سنسکرت اور پرکرت الفاظ کی رغبت دکھائی دیتی ہے۔ انیسویں صدی میں ہندی اور سنسکرت خط کی بحالی کی اور فارسی عربی خط( جس کو ہندو مسلمان اب تک مشترکہ طور پر استعمال کرتےآ رہے تھے) کو ترک کرنے کی تحریک نے اردو ہندی تنازعہ کو جنم دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو ترکی زبان کا لفظ ہےجس کا مطلب ہے قلعہ، آرمی کیمپ یا لشکرلیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اردولشکری زبان ہے۔اردو کو اس کا موجودہ نام اٹھارویں صدی تک نہیں ملا اور اس کے پہلے یہ مختلف ناموں سے جانی جاتی تھی مثلا ہندی، ہندوی، ہندوستانی، دہلوی، گجری،دکنی، لاہوری اور یہاں تک کے مورز۔اگرچہ یہ اس سے پہلے جنم لے چکی تھی۔
ء1930ء میں محی الدین قادری نے اپنی کتاب"ہندوستانی لسانیات" میں لکھا کہ اردو ہند یورپی زبان ہےاور اس کی جغرافیائی سرحدوں کا تعین کیا۔ مگر شوکت سبزواری اور مرزا خلیل بیگ جیسے ماہر لسانیات نےلشکری زبان تھیوری کی سخت تردید کی ہے۔ لہذا اردو لشکری زبان نہیں ہے اورنہ یہ زبانوں کا آمیزہ ہے۔اس کے برعکس یہ ایک جدید ہندآریائی زبان ہے جس کی جڑیں مغل دور سےپرانی ہیں۔
پاکستان کے قومی ترانے میں اردوکا صرف ایک لفظ "کا" شامل ہے۔ .II
پاکستانی قومی ترانے میں ایک بھی ایسا لفظ شامل نہیں جو اردو میں عام طور پر استعمال نہ ہوتا ہو۔اگرچہ الفاظ کی ایک کثیر تعداد عربی اور فارسی سے ادھار لی گئی ہے۔جس طرح انگریزی زبان نےجو الفاظ فرانسیسی یا اولڈ سیکسن سے ادھار لیے تھے وہ اب یقینا انگریزی کا حصہ بن چکے ہیں اور کوئی بھی شیکسپئر پر یہ الزام نہیں عائد کر سکتا کہ اس نے بہت سارے"خارجی" الفاظ کا استعمال کیا۔اسی طرح وہ الفاظ جو اردو نے عربی اور فارسی سے مستعار لیے ،اب عام طور پر اردو میں استعمال ہوتے ہیں اورہر اصول کے تحت اردو کا حصہ مانیں جائیں گے۔چنانچہ ہم غالب اور اقبال کو اس بات پر موردالزام نہیں ٹھہرا سکتے کہ انہوں نے "غیر اردوالفاظ" کا استعمال کیا۔اس کے باوجودبہت سے لوگ یہ غیر منطقی بات دہراتےرہتے ہیں۔
ایک مرتبہ کچھ طالب علموں نے راقم الحرف سے سوال کیا کہ پاکستان کے قومی ترانے میں اردو کا صرف ایک لفظ ہی کیوں موجود ہے۔ انہیں جواب دینے سے پہلے میں نے سوال کیا کہ آپ کو یہ تاثر کہاں سے ملا۔انہوں نے جواب دیا کہ مستنصر حسین تارڑ، جو کہ ایک جانے مانے اور مقبول اردو لکھاری ہیں، نےاردو روزنامے جنگ میں ان خیالات کا اظہار کیا تھا۔ میرا جواب تھا کہ اسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے تو خود ان کےنام میں اردو کا صرف ایک لفظ موجود ہے کیونکہ مستنصراور حسین دونوں عربی الفاظ ہیں۔اس شریف آدمی کو اپنا نام تبدیل کر لینا چاہیے یا ایسے بےڈھنگے نظریات پھیلانے سے پہلےزبان اور لسانیات کے بارے میں کچھ پڑھ لینا چاہیے۔
اردو مسلمانوں کی زبان ہے .III
مولوی عبدالحق(1873-1961)کے مطابق اردو وہ زبان نہیں جو مسلمان برصغیر پاک و ہند میں اپنے ساتھ لائے تھے۔وہ مسلمان جوصدیوں پہلے عرب، ایران اور دوسرے ممالک سے انڈیا آئے وہ اردو نہیں بولتے تھے بلکہ عربی، فارسی، ترکی زبان یہاں تک کہ پشتو بولتے تھے۔وہ لوگ جو اردو کی تخلیق اوراس کو وجود میں لانےمیں حصہ دار تھے وہ زیادہ تر ہندو تھے کیونکہ اردو ایسی نحوی اور شکلی ساخت رکھتی ہے جو اساسی طور پر ہندی جیسی ہے۔اردوکے ننانوے فیصد افعال کے ماخذ مقامی ہیں۔آپ اسے ہندی یا کھڑی بولی یا پرکرت یا جو چاہے کہہ لیں۔اردو کے اسم اور اسم صفت بڑی حد تک عربی اور فارسی سے ہیں لیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اردو ایک خارجی زبان ہے۔یہ اسم مقامی لہجوں میں ڈھل گئے اور جب ان لہجوں کو لکھنے کے لیے فارسی عربی خط کاانتخاب کیا گیا تو اردو اپنی شکل میں نمودار ہونا شروع ہوئی۔
اردو شعرا کی ایک بڑی تعداد ہندو تھی بالکل اسی طرح مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے ہندی میں لکھا۔15صدی کی بھگتی تحریک کے عظیم شاعر کبیر نے اردو میں شاعری کی۔خود ان کا نام بھی عربی سے ماخوذ ہے۔ سکھ مذہب کی مقدس کتاب گرو گرنت صاحب میں کئی اردو کے الفاظ شامل ہیں۔ عیسائی مشنریوں نے انڈیا میں اردو میں تبلیغ کی اور بائبل کا اردو میں ترجمہ کیا۔
اردو بادشاہوں کی زبان تھی نہ عام لوگوں کی۔ .IV
اٹھاریوں صدی تک اردو لوگوں کی ایک مشترکہ زبان بن چکی تھی جسے ہر خاص وعام استعمال کرتا تھا اور اسے ایک عام خط میں لکھا جاتا تھا۔ جان گلکراسٹ نے اس حقیقت کا ذکر اپنی تصنیفات میں کیا۔ اس کے اردو کو سیکھنے کے فیصلے کی وجہ تھی عام لوگوں سے انہی کی زبان میں بات چیت کرنا۔مغل عدالتوں کی زبان فارسی تھی مگر عام لوگ، مرد، عورتیں اور بچے اردو بولتے تھے۔ 1837 میں انگریزوں نے اردو کو فارسی کی جگہ سرکاری زبان بنا دیا۔
اگرچہ اردو کی ابتدا کے بارے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی جاسکتی مگر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اردو اور ہندی جڑواں زبانیں ہیں جن کی ابتدا ان لہجوں سے ہوئی جو دہلی اور اس کے گردونواح میں ایک ہزار سال پہلے بولے جاتے تھے۔یہ لہجےاسی طرح پراکرت سے پیدا ہوئے۔قوی خیال ہے کہ کھڑی بولی وہ لہجہ تھا جس سے تیرویں صدی یا اس کےآس پاس مسلمانوں کی آمد کے بعد اردو وجود میں آئی۔ لہذا یہ خیال کرنا کہ اردو مغل بادشاہ شاہ جہاں متوفی 1666ءکے دور میں وجود آئی محظ خام خیالی ہے۔
ثانیا ماہر لسانیات کے نزدیک دو یا اس سے زیادہ زبانیں یکسرایک نئی زبان نہیں پیدا کر سکتیں۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اردو میں مختلف زبانوں کے الفاظ ملتے ہیں تو دنیا میں کوئی ایسی زبان نہیں جس میں بیرونی الفاظ نہ ملتےہوں۔بعد کے آنے والے ادوار میں مسلمانوں میں عربی اور فارسی الفاظ کے استعمال کی رغبت اور ہندوں میں سنسکرت اور پرکرت الفاظ کی رغبت دکھائی دیتی ہے۔ انیسویں صدی میں ہندی اور سنسکرت خط کی بحالی کی اور فارسی عربی خط( جس کو ہندو مسلمان اب تک مشترکہ طور پر استعمال کرتےآ رہے تھے) کو ترک کرنے کی تحریک نے اردو ہندی تنازعہ کو جنم دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو ترکی زبان کا لفظ ہےجس کا مطلب ہے قلعہ، آرمی کیمپ یا لشکرلیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اردولشکری زبان ہے۔اردو کو اس کا موجودہ نام اٹھارویں صدی تک نہیں ملا اور اس کے پہلے یہ مختلف ناموں سے جانی جاتی تھی مثلا ہندی، ہندوی، ہندوستانی، دہلوی، گجری،دکنی، لاہوری اور یہاں تک کے مورز۔اگرچہ یہ اس سے پہلے جنم لے چکی تھی۔
ء1930ء میں محی الدین قادری نے اپنی کتاب"ہندوستانی لسانیات" میں لکھا کہ اردو ہند یورپی زبان ہےاور اس کی جغرافیائی سرحدوں کا تعین کیا۔ مگر شوکت سبزواری اور مرزا خلیل بیگ جیسے ماہر لسانیات نےلشکری زبان تھیوری کی سخت تردید کی ہے۔ لہذا اردو لشکری زبان نہیں ہے اورنہ یہ زبانوں کا آمیزہ ہے۔اس کے برعکس یہ ایک جدید ہندآریائی زبان ہے جس کی جڑیں مغل دور سےپرانی ہیں۔
پاکستان کے قومی ترانے میں اردوکا صرف ایک لفظ "کا" شامل ہے۔ .II
پاکستانی قومی ترانے میں ایک بھی ایسا لفظ شامل نہیں جو اردو میں عام طور پر استعمال نہ ہوتا ہو۔اگرچہ الفاظ کی ایک کثیر تعداد عربی اور فارسی سے ادھار لی گئی ہے۔جس طرح انگریزی زبان نےجو الفاظ فرانسیسی یا اولڈ سیکسن سے ادھار لیے تھے وہ اب یقینا انگریزی کا حصہ بن چکے ہیں اور کوئی بھی شیکسپئر پر یہ الزام نہیں عائد کر سکتا کہ اس نے بہت سارے"خارجی" الفاظ کا استعمال کیا۔اسی طرح وہ الفاظ جو اردو نے عربی اور فارسی سے مستعار لیے ،اب عام طور پر اردو میں استعمال ہوتے ہیں اورہر اصول کے تحت اردو کا حصہ مانیں جائیں گے۔چنانچہ ہم غالب اور اقبال کو اس بات پر موردالزام نہیں ٹھہرا سکتے کہ انہوں نے "غیر اردوالفاظ" کا استعمال کیا۔اس کے باوجودبہت سے لوگ یہ غیر منطقی بات دہراتےرہتے ہیں۔
ایک مرتبہ کچھ طالب علموں نے راقم الحرف سے سوال کیا کہ پاکستان کے قومی ترانے میں اردو کا صرف ایک لفظ ہی کیوں موجود ہے۔ انہیں جواب دینے سے پہلے میں نے سوال کیا کہ آپ کو یہ تاثر کہاں سے ملا۔انہوں نے جواب دیا کہ مستنصر حسین تارڑ، جو کہ ایک جانے مانے اور مقبول اردو لکھاری ہیں، نےاردو روزنامے جنگ میں ان خیالات کا اظہار کیا تھا۔ میرا جواب تھا کہ اسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے تو خود ان کےنام میں اردو کا صرف ایک لفظ موجود ہے کیونکہ مستنصراور حسین دونوں عربی الفاظ ہیں۔اس شریف آدمی کو اپنا نام تبدیل کر لینا چاہیے یا ایسے بےڈھنگے نظریات پھیلانے سے پہلےزبان اور لسانیات کے بارے میں کچھ پڑھ لینا چاہیے۔
اردو مسلمانوں کی زبان ہے .III
مولوی عبدالحق(1873-1961)کے مطابق اردو وہ زبان نہیں جو مسلمان برصغیر پاک و ہند میں اپنے ساتھ لائے تھے۔وہ مسلمان جوصدیوں پہلے عرب، ایران اور دوسرے ممالک سے انڈیا آئے وہ اردو نہیں بولتے تھے بلکہ عربی، فارسی، ترکی زبان یہاں تک کہ پشتو بولتے تھے۔وہ لوگ جو اردو کی تخلیق اوراس کو وجود میں لانےمیں حصہ دار تھے وہ زیادہ تر ہندو تھے کیونکہ اردو ایسی نحوی اور شکلی ساخت رکھتی ہے جو اساسی طور پر ہندی جیسی ہے۔اردوکے ننانوے فیصد افعال کے ماخذ مقامی ہیں۔آپ اسے ہندی یا کھڑی بولی یا پرکرت یا جو چاہے کہہ لیں۔اردو کے اسم اور اسم صفت بڑی حد تک عربی اور فارسی سے ہیں لیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اردو ایک خارجی زبان ہے۔یہ اسم مقامی لہجوں میں ڈھل گئے اور جب ان لہجوں کو لکھنے کے لیے فارسی عربی خط کاانتخاب کیا گیا تو اردو اپنی شکل میں نمودار ہونا شروع ہوئی۔
اردو شعرا کی ایک بڑی تعداد ہندو تھی بالکل اسی طرح مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے ہندی میں لکھا۔15صدی کی بھگتی تحریک کے عظیم شاعر کبیر نے اردو میں شاعری کی۔خود ان کا نام بھی عربی سے ماخوذ ہے۔ سکھ مذہب کی مقدس کتاب گرو گرنت صاحب میں کئی اردو کے الفاظ شامل ہیں۔ عیسائی مشنریوں نے انڈیا میں اردو میں تبلیغ کی اور بائبل کا اردو میں ترجمہ کیا۔
اردو بادشاہوں کی زبان تھی نہ عام لوگوں کی۔ .IV
اٹھاریوں صدی تک اردو لوگوں کی ایک مشترکہ زبان بن چکی تھی جسے ہر خاص وعام استعمال کرتا تھا اور اسے ایک عام خط میں لکھا جاتا تھا۔ جان گلکراسٹ نے اس حقیقت کا ذکر اپنی تصنیفات میں کیا۔ اس کے اردو کو سیکھنے کے فیصلے کی وجہ تھی عام لوگوں سے انہی کی زبان میں بات چیت کرنا۔مغل عدالتوں کی زبان فارسی تھی مگر عام لوگ، مرد، عورتیں اور بچے اردو بولتے تھے۔ 1837 میں انگریزوں نے اردو کو فارسی کی جگہ سرکاری زبان بنا دیا۔
نوٹ ۔ یہ مضمون ڈان نیوز کی ویب سائٹ پر جناب رؤف پاریکھ نے تحریر کیا۔ یہ انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا جس کا اردو ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ آپ اس مضمون کواوپر دیےگئے لنگ پر کلک کر کے براہ راست پڑھ سکتے ہیں۔
Last edited: