عمران خان کا شہبازشریف کو اردلی کہنے کا بیان آج کل سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے، اس بیان پر ن لیگی رہنما شدید غصے میں ہیں اور عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس قسم کے بیانات سے مذاکرات سبوتاژ ہونیکا خدشہ ہے۔
صحافی انصارعباسی کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان نے اپنے ’’جارحانہ‘‘ بیانات جاری رکھے تو حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا جاری رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف پر عمران خان کی تازہ تنقید پہلے ہی مذاکراتی عمل پر منفی اثر ڈال چکی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے کچھ رہنما بھی عمران خان کے حالیہ بیانات پر تحفظات رکھتے ہیں۔ مذاکراتی عمل کے دوران ان بیانات کو غیرضروری اور نقصان دہ سمجھا جا رہا ہے۔
انصار عباسی نے عرفان صدیقی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان، سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ عمران خان نے مذاکرات کے اہم موقع پر اتنے سخت اور تلخ ٹویٹس کیوں کیے۔ عمران خان نے ایک بار پھر حمود الرحمان کمیشن، یحییٰ خان، اور موجودہ حالات کو ماضی کے ادوار سے تشبیہ دی، اور وزیراعظم شہباز شریف کو جنرل عاصم منیر کی کٹھ پتلی اور اردلی قرار دیا۔
جاوید چوہدری کے شو میں عرفان صدیقی نے کہا کہ وزیر اعظم جس کو آپ نے اردلی کا لقب دیا ،اس کی قائم کردہ کمیٹی کی کیا حیثیت ہو گی ؟آپ نے درست کہا وہ " تو اردلیوں سے بھی گئی گزری ہوگی
https://twitter.com/x/status/1877417746939699435
عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ بیانات مذاکراتی عمل پر مہلک اثر ڈال رہے ہیں اور حکومت کی خلوص پر مبنی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے ایسے بیانات حیران کن اور تکلیف دہ ہیں۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ اگر ایسا بیان کسی حکومتی رہنما کی جانب سے آتا تو تحریک انصاف یقیناً مذاکرات ترک کر دیتی۔
انصارعباسی نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کے کچھ سرکردہ رہنما بھی عمران خان اور پارٹی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے رویے سے ناخوش ہیں۔ ذرائع کے مطابق، کچھ رہنما ماضی میں عمران خان سے درخواست کر چکے ہیں کہ وہ پارٹی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ذمہ داری کسی ٹیم کو سونپ دیں۔ تاہم، عمران خان نے اس حوالے سے مثبت ردعمل نہیں دیا۔
حال ہی میں اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے والے فواد چوہدری نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پارٹی کی توجہ افراد کی بجائے مسائل پر مرکوز کریں اور فوج کے ساتھ کشیدگی کم کریں تاکہ تحریک انصاف کو سیاست میں جگہ مل سکے۔
فواد چوہدری نے عمران خان کو یہ بھی کہا کہ وہ اپنے ’’ایکس‘‘ (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ کا کنٹرول پاکستان منتقل کریں، جو کہ آرمی چیف اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
دوسری جانب صحافی حسن ایوب نے دعویٰ کیا کہ "مُذاکراتی ٹیم نے عمران خان سے کہا اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور سوشل میڈیا Access پاکستان میں لے آئیں، جِس سے عمران خان نے انکار کر دیا۔۔عمران خان نے اپنی سوشل میڈیا کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے"۔
https://twitter.com/x/status/1877366120849494138
عمران خان کا شہبازشریف کو اردلی کہنے کا بیان آج کل سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے، اس بیان پر ن لیگی رہنما شدید غصے میں ہیں اور عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس قسم کے بیانات سے مذاکرات سبوتاژ ہونیکا خدشہ ہے۔
صحافی انصارعباسی کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان نے اپنے ’’جارحانہ‘‘ بیانات جاری رکھے تو حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا جاری رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف پر عمران خان کی تازہ تنقید پہلے ہی مذاکراتی عمل پر منفی اثر ڈال چکی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے کچھ رہنما بھی عمران خان کے حالیہ بیانات پر تحفظات رکھتے ہیں۔ مذاکراتی عمل کے دوران ان بیانات کو غیرضروری اور نقصان دہ سمجھا جا رہا ہے۔
انصار عباسی نے عرفان صدیقی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان، سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ عمران خان نے مذاکرات کے اہم موقع پر اتنے سخت اور تلخ ٹویٹس کیوں کیے۔ عمران خان نے ایک بار پھر حمود الرحمان کمیشن، یحییٰ خان، اور موجودہ حالات کو ماضی کے ادوار سے تشبیہ دی، اور وزیراعظم شہباز شریف کو جنرل عاصم منیر کی کٹھ پتلی اور اردلی قرار دیا۔
جاوید چوہدری کے شو میں عرفان صدیقی نے کہا کہ وزیر اعظم جس کو آپ نے اردلی کا لقب دیا ،اس کی قائم کردہ کمیٹی کی کیا حیثیت ہو گی ؟آپ نے درست کہا وہ " تو اردلیوں سے بھی گئی گزری ہوگی
https://twitter.com/x/status/1877417746939699435
عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ بیانات مذاکراتی عمل پر مہلک اثر ڈال رہے ہیں اور حکومت کی خلوص پر مبنی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے ایسے بیانات حیران کن اور تکلیف دہ ہیں۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ اگر ایسا بیان کسی حکومتی رہنما کی جانب سے آتا تو تحریک انصاف یقیناً مذاکرات ترک کر دیتی۔
انصارعباسی نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کے کچھ سرکردہ رہنما بھی عمران خان اور پارٹی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے رویے سے ناخوش ہیں۔ ذرائع کے مطابق، کچھ رہنما ماضی میں عمران خان سے درخواست کر چکے ہیں کہ وہ پارٹی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ذمہ داری کسی ٹیم کو سونپ دیں۔ تاہم، عمران خان نے اس حوالے سے مثبت ردعمل نہیں دیا۔
حال ہی میں اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے والے فواد چوہدری نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پارٹی کی توجہ افراد کی بجائے مسائل پر مرکوز کریں اور فوج کے ساتھ کشیدگی کم کریں تاکہ تحریک انصاف کو سیاست میں جگہ مل سکے۔
فواد چوہدری نے عمران خان کو یہ بھی کہا کہ وہ اپنے ’’ایکس‘‘ (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ کا کنٹرول پاکستان منتقل کریں، جو کہ آرمی چیف اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
دوسری جانب صحافی حسن ایوب نے دعویٰ کیا کہ "مُذاکراتی ٹیم نے عمران خان سے کہا اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور سوشل میڈیا Access پاکستان میں لے آئیں، جِس سے عمران خان نے انکار کر دیا۔۔عمران خان نے اپنی سوشل میڈیا کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے"۔
https://twitter.com/x/status/1877366120849494138