tariisb
Chief Minister (5k+ posts)
جون کی مصروف شام تھی یا جولائی کی نم نم سی دھند زدہ شام ، معمول کا گشت اور خریداری ، ٹہلنا ، سلام دعا اور حال احوال سب چلتے چلتے ، مری مال روڈ پر ایک ہی بک شاپ ہے ، جرائد ، رسائل ، سمیت سب کچھ ہی مل جاتا ہے ، حسب عادت متخب شمارے خریدے اور چلتا رہا ، چلتا بنا ، چال پروقار نگاہیں بے اختیار ، قدم میرے ہی پابند ، جس طرف کا دھیان ہوتا ، اٹھتے جاتے ، مگر ان آنکھوں کا کیا ؟ چہل پہل ، رنگ و نقش کا طلسم دیکھ کر پتھر کی ہو جاتی ہیں ، نیلم و مرجان کی طرح چمکنے لگتی ہیں ، میری ہوتی ہیں ، مگر میری رہتی نہیں ، کبھی کہیں سے کھینچ نکالتا ہوں ، کبھی کس سے واپس لیتا ہوں ، سائنس نے کہا آنکھوں پر دماغ کا بس ہے ، مگر سب کہتے ہیں دل ابلتا ہو تو آنکھیں امڈ ہی آتی ہیں ، قلب و چشم کا گٹھ جوڑ ہے ، دونوں ملے ہوے ہیں ، دل مچلتا ہو تو آنکھیں بہکتی ہیں ، دل ہی میں سکوت ہو تو نگاہیں بھی جھکی جھکی رہتی ہیں ، پتہ نہیں کیا ہے ؟ کیوں ہے ؟ ہجوم زیادہ ہو ، بولتی آنکھیں ہر طرف ہوں ، کتابی چہرے (پیش) کھلے کھلے ، نقش (زیر) کھلے کھلے سے ہوں تو یہ کھلتی چلی جاتی ہیں ، بچھی چلی جاتی ہیں ، یہ چشم نا ہوتی تو احساس کیسا ہوتا ؟ خیال کیسا ہوتا ، شکر گزاری کیسی ہوتی ، جب یاد ہوتی ؟ دل کس نے دیکھا ، دماغ میں بھونچال کس نے دیکھا ، بس آنکھ دکھا دیتی ہے ، دیکھی جاتی ہے ، صاف پکڑے جاتے ہیں ، کیا ہوا ؟ جواب بن نہیں پڑتا ، لفظ پکڑائ نہیں دیتے ، بس ، کچھ بھی نہیں ، ہوا سرد ہے ، ماحول میں گرد ہے ، بدتمیز آنکھ تاب نہیں لا سکی ، بس چھلک پڑی ، سو بار کہا ، دماغ کی طرح سخت ، دل کی طرح بردبار بن ، مگر سنتی نہیں ، ہر بار شرمندہ کیے دیتی ہے ، چھچھوری کہیں کی
ایک بار ماں جی ، سے کہا آپ ہر بار دل کی بات سمجھ جاتی ہیں ، میں سوال بنا رہا ہوتا ہوں ، آپ پہلے ہی جواب دے کر لاجواب کر دیتی ہیں ، میں نہیں بولتا بس ، سارا تجسس بکھر جاتا ہے ، سب اہتمام بھاگ جاتا ہے ، بتائیں بس ، کیسے پتہ چلتا ہے ، کون بتا جاتا ہے ، کہنے لگیں ، یہ بتاؤ ، جب بول نہیں سکتے تھے ، کہہ نہیں پاتے تھے ، میں مدعا سمجھ جاتی تھی نا ، اب تمھارے کہنے سے پہلے ، تمھاری آنکھیں سب مجھے سمجھا دیتی ہیں ، دل میں کیا ، الله جانتا ہے ، مرضی ہے کیا ؟ منشا ہے کدھر ؟ آنکھیں فرفر بتا رہی ہوتی ہیں ، لب بھاری ، الفاظ مشکل ، مگر نگاہیں شوق ، رضا ، انس ، بیزاری سب اظہار بلا جھجک ، بے دھڑک کرتی جاتی ہیں ، اسی لیے آنکھوں کی حفاظت کا حکم ہے ، اکثر شرمندہ کر دیتی ہیں ، لاجواب کردیتی ہیں ، آنکھوں میں اشک ہوں ، چہرے پر مسکراہٹ ہو ، کسی نے یقین نہیں کرنا ، چشم نفرت سے سرخ ہو ، لفظوں میں غزل بن رہی ہو ، کوئی نہیں مانے گا ، آنکھوں کی حفاظت کیا کرو ، اکثر سب بتا دیتی ہیں ،
میں بھی نا ؟ بات کہاں کی تھی ، تفصیل کیا لے بیٹھا ؟ چلیں پھر سے ، مال روڈ ١٩٩٩، مہینہ جون کا ، شائد شائد ، یا پھر جولائی کا ، شام پر متفق ، اطراف ہجوم ابھی تک یاد ، معمول کا گشت ، رسل ، رسائل ، خبر و اخبار خریدے ، چند دوستوں سے حال احوال ، اور عشائیہ ، پھر واپسی ، ہفت روزہ نداۓ ملت ، نواے وقت گروپ کا ایک مستند جریدہ ، سر ورق پر ہی طاہر القادری صاحب کی تصویر اور تفصیلی انٹرویو کی ایک سطری جھلک ، فرمانا تھا ، "میں لکھ کر دیتا ہوں ، (نواز) حکومت اکتوبر سے آگے نہیں جاے گی " ، اتنی غیر سنجیدہ بڑھک ہی کافی تھی ، اسلامی پنڈت جی نے بہت بڑا دعوی کیا تھا ، یہی بہت تھا ، میں نے اندر کے صفحات پر تفصیلی زائچہ بلکل نا پڑھا ، سیاست میں مذہبی نجومیوں کا کیا کام ، بشارتوں کا کیا کام ، ٹوٹ پھوٹ ، اکھاڑ پچھاڑ ،محلاتی سازشیں ، یہ سب لمحۂ با لمحۂ بدلتا رہتا ہے ، ہوتا رہتا ہے ، مگر ؟ یہ کون سا طریقہ ہے ، پیشگی وفات ، قبل از وقت ملاپ کا اعلان کیے جانا ، آپ کا اتنا اختیار تو نہیں ، نا آپ کی اس قدر دسترس ، پھر ؟ اکتوبر ، ١٩٩٩ ، نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ، فوج نے عزیز ہموطنو کو آدھی رات پیغام دیا ، پتہ نہیں اس وقت قادری صاحب مصلے پر ہوں گے یا بستر پر دراز ، میں البتہ ٹی وی دیکھ رہا تھا ، نواز کیا تھا ؟ مشرف کیسا تھا ؟ بیچ کیا تھا ؟ یہ قادری نے اتنا بڑا دعوی کیوں کیا تھا ؟ شاید نواز سے زیادہ ، مشرف کی آنکھوں میں غور کیا ہو گا ، سامنے بیٹھے ہوں گے ، چپ چاپ ، مشرف نے مدعا دیکھا ہو گا ، قادری صاحب نے آنکھوں میں چھپی ہوس پہچانی ہو گی ، شائد ، شائد ، بدتمیز آنکھیں سب بتا دیتی ہیں ، آنکھوں کی چمک سب بتا دیتی ہے ، گستاخ آنکھیں ، بہت باتونی ہوتی ہیں ، سب راز فاش کیے جاتی ہیں
Last edited: