WatanDost
Chief Minister (5k+ posts)
بہ حیثیت پاکستانی شہری ہمارا حق ہے کہ ہم چیف جسٹس سے پوچھیں کہ
حضور ایسی کون سی مجبوری تھی کہ جناب نے عین ایسے موقع پر آسیہ مسیح کیس کا فیصلہ صادر فرمانا ضروری و واجب سمجھا
جب وطن عزیز پاکستان کا کامیاب معاشی آپریشن آخری مراحل میں تھا اور بیمار و تباہ حال معاشی ملک چند پاور بوسٹر انجیکشن
لینے کے بعد آنکھیں کھول کر سانس بحال کر چکا تھا اور ایک موثر پاور بوسٹر چین سے مستعار لینے کا سفر ٢ دن کیدوری پر تھا
جس سے قوی امکان تھا کہ ١٠سالہ مریض ناتواں بستر سے اٹھ کر چلنے کے قابل ہو جاے لیکن جناب نے بحال ہوتے مریض
کو ایک زہر بھرا انجیکشن لگانے کے لیے مولویوں کو آپریشن تھیٹر میں گھس آنے کا جواز مہیا کر دیا ... ایسی کون سی قیامت آ گئی
تھی یا آنے والی تھی کہ فیصلہ ابھی ہی سنانا ضروری تھا ؟؟؟
میری معلومات جو میں نے سوشل میڈیا سے ہی حاصل کی ہیں کے مطابق ملکی ایجینسیوں نے چیف جسٹس صاحب کو مختلف اوقات
میں ٤ خطوط لکھ کر فلحال فیصلہ موخر کرنے کا احسن مشورہ دیا اور فیصلہ کی رات متعلقہ محکمہکے ذمہ دار نے ٹیلیفونک رابطہ کرکے
درخواست کی کہ جناب اگر فیصلہ سنانا واجب ہی ٹہرا تو براہ مہربانی فیصلہ لکھ کر چند ماہ کے لیے محفوظ کر دیں کیونکہ ٹیک آف کی
پوزیشن میں آیا ملک نا قابل تلافی نقصانات کا شکار بھی ہو سکتا ہے اور مڈل ٹاؤن قتل عام میں ایسا ہو چکا ہے جہاں ملکی و قومی مفاد
میں انصاف کے تقاضوں کو پس پشت ڈالا گیا اور ہنوز انصاف نہیں مل سکا _ آسیہ مسیح فیصلہ ، ایسی کون سی قیامت درپیش تھی ؟؟؟