آرمی چیف کو یہ اختیار کس قانون کے تحت حاصل ہے ؟
برما میں مارشل لاء لگ چکا ہے جبکہ پاکستان میں ابھی تک جمہوریت ہے . وزیراعظم پاکستان عمران خان اور چیف جسٹس گلزار احمد صاحب سے میرے چند سوالات ہیں
آرمی چیف جنرل باجوہ کو کس قانون کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کے وہ قومی مجرموں کے ساتھ کوئی معاہدہ کریں اور جس پر عملدرآمد کرنے پر ریاست پاکستان بھی مجبور ہو ؟
کیا ایسے کسی معاہد ے کی کوئی قانونی حثیت ہے ؟
اگر ریاست پاکستان کی نمائندگی کرنے والا سرکاری افسر ایسا کوئی معاہدہ وزیراعظم پاکستان کے علم میں لائے بغیر کرتا ہے تو کیا اسے قانون کی گرفت میں لایا جا سکتا ہے ؟
اگر بی بی فاطمہ قانون سے مبرا نہیں تو آرمی چیف پر قانون کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا ؟
اگر فوج میں احتساب کا نظام ہے تو وہ نظام آج تک حرکت میں کیوں نہیں آیا ؟
قصہ ایڈمرل منصور الحق کا
سیاست پی کے پر پوسٹنگ کو لے کر گڑ بڑ چل رہی ہے . دو تھریڈس اکھٹے کھلتے ہیں اور دونوں میں کمنٹس شروع ہو جاتے ہیں . ایک کمینٹ شروع میں آیا تو جواب کو بلاگ کا حصہ بنا رہا ہوں . پاکستان میں زومبی نسل اتنی احمق ہے کے انہیں آسان اردو بھی سمجھ میں نہیں اتی
١- سوال آرمی چیف کی کرپشن کا نہیں ہے کیونکے انکی کوئی کرپشن سامنے نہیں آئی ہے . سوال بطور آرمی چیف این آر او دینے کا ہے . کیا یہ سوال سمجھنا راکٹ سائنس ہے ؟
١- مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو نیوی چیف کا نام نہیں پتا . اگر گوگل کر کے ڈھونڈھ بھی لیا تو ١٠ منٹ بعد پھر بھول جائیں گے . پاکستان میں رہنے والے احمقوں اور جاہلوں کو آرمی چیف اور نیول چیف میں بنیادی فرق کا معلوم ہی نہیں ہے . بھائی صاحب ، وہ نیول چیف تھا اسلئے تو پکڑا گیا . پکڑا امریکہ
میں گیا تھا ، پاکستان میں نہیں . پوری کہانی پڑھ لو اور اپنا سر دھنو
لو کوئلے کی دلالی میں اپنا مونہ مزید کالا کروا لو
ان پرآبدوزوں کی خریداری میں بھی ایک کثیر رقم خرد برد کرنے کا الزام تھا.، میاں نواز شریف نے یکم مئی 1997ء کو انھیں نوکری سے برخاست کر دیا اور ان کے خلاف تحقیقات شروع کرا دیں جبکہ منصور الحق 1998ء میں ملک سے فرار ہو گئے اور یہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں پناہ گزین ہو گئے، ملک میں ان کے خلاف مقدمات چلتے رہے، جنرل پرویز مشرف نے جب ’’نیب‘‘ بنائی تو یہ مقدمات نیب میں منتقل ہو گئے اور اتفاق سے اسی دوران امریکہ میں اینٹی کرپشن قوانین پاس ہو گئے، ان قوانین کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک کا کوئی سیاستدان، بیوروکریٹ یا کوئی تاجر کرپشن کے بعد فرار ہو کر امریکا آئے گا تو اسے پناہ ملے گی اور نہ ہی رہائشی سہولتیں بلکہ یہ کرپٹ شخص امریکا میں گرفتار بھی ہوگا اورمریکی حکومت اس کے خلاف مقدمہ بھی چلائے گی، نیب نے اس قانون کی روشنی میں امریکی حکومت کوخط لکھ اور امریکہ نے 17 اپریل 2001ء کو منصور الحق کو آسٹن سے گرفتار کرکے انھیں جیل میں بند کیا اور ان کے خلاف مقدمہ شروع کر دیا گیا منصور الحق کو جیل میں عام قیدیوں کے ساتھ جیل میں رکھا گیا، انھیں ہتھکڑی پہنا کر عدالت لایا جاتا‘ یہ سلوک منصور الحق برداشت نہ کر سکے اور انھوں نے امریکی حکومت کو لکھ کر دے دیا کہ ’’مجھے پاکستان کے حوالے کر دیا جائے جہاں میں اپنے ملک میں مقدمات کا سامنا کروں گا‘‘ امریکی جج نے یہ درخواست منظور کرلی یوں منصور الحق کو ہتھکڑی لگا کر جہاز میں سوار کر دیا گیا نیز سفر کے دوران ان کے ہاتھ بھی سیٹ سے بندھے ہوئے تھے مگر جوں ہی یہ جہاز پاکستانی حدود میں داخل ہوا تو نہ صرف منصور الحق کے ہاتھ کھول دیے گئے بلکہ انھیں وی آئی پی لائونج کے ذریعے ائیر پورٹ سے باہر لایا گیا اور نیوی کی شاندار گاڑی میں بٹھایا گیا، پولیس، ایف آئی اے اور نیب کے افسروں نے انھیں سیلوٹ بھی کیا، پھر یہ سہالہ لائے گئے جہاں سہالہ کے ریسٹ ہائوس کو سب جیل قرار دیا گیا اور منصور الحق کو اس ’’جیل‘‘ میں ’’قید‘‘ کر دیا گیا، منصور الحق کی ’’جیل‘‘ میں نہ صرف اے سی کی سہولت بھی تھی بلکہ انھیں خانساماں بھی دیا گیا، بیگم صاحبہ اور دوسرے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت بھی تھی اورمنصور الحق لان میں چہل قدمی بھی کر سکتے تھے، یہ نیب اور ایف آئی اے کے دفتر نہیں جاتے تھے بلکہ تفتیشی ٹیمیں ان سے تفتیش کے لیے ریسٹ ہائوس آتی تھیں، یہ عدالت بھی تشریف نہیں لے جاتے تھے، عدالت چل کر ان کے ریسٹ ہائوس آتی تھی اور ان کے وکیل کی صفائی سنتی تھی، منصور الحق نے کرپشن کی دولت کا 25 فیصد سرکار کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا‘ صدر مشرف نے ان کی ’’پلی بارگیننگ‘‘ منظور کر لی اور یوں منصور الحق کو بقیہ 75 فیصد کرپشن کے ساتھ رہا کر دیا گیا، ان اثاثوں میں 14 انتہائی مہنگے پلاٹس بھی شامل تھے،
خلاصہ
ایڈمرل منصور الحق اس کے بعد مزے سےاپنے گھر شفٹ ہو گئے
برما میں مارشل لاء لگ چکا ہے جبکہ پاکستان میں ابھی تک جمہوریت ہے . وزیراعظم پاکستان عمران خان اور چیف جسٹس گلزار احمد صاحب سے میرے چند سوالات ہیں
آرمی چیف جنرل باجوہ کو کس قانون کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کے وہ قومی مجرموں کے ساتھ کوئی معاہدہ کریں اور جس پر عملدرآمد کرنے پر ریاست پاکستان بھی مجبور ہو ؟
کیا ایسے کسی معاہد ے کی کوئی قانونی حثیت ہے ؟
اگر ریاست پاکستان کی نمائندگی کرنے والا سرکاری افسر ایسا کوئی معاہدہ وزیراعظم پاکستان کے علم میں لائے بغیر کرتا ہے تو کیا اسے قانون کی گرفت میں لایا جا سکتا ہے ؟
اگر بی بی فاطمہ قانون سے مبرا نہیں تو آرمی چیف پر قانون کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا ؟
اگر فوج میں احتساب کا نظام ہے تو وہ نظام آج تک حرکت میں کیوں نہیں آیا ؟
قصہ ایڈمرل منصور الحق کا
سیاست پی کے پر پوسٹنگ کو لے کر گڑ بڑ چل رہی ہے . دو تھریڈس اکھٹے کھلتے ہیں اور دونوں میں کمنٹس شروع ہو جاتے ہیں . ایک کمینٹ شروع میں آیا تو جواب کو بلاگ کا حصہ بنا رہا ہوں . پاکستان میں زومبی نسل اتنی احمق ہے کے انہیں آسان اردو بھی سمجھ میں نہیں اتی
١- سوال آرمی چیف کی کرپشن کا نہیں ہے کیونکے انکی کوئی کرپشن سامنے نہیں آئی ہے . سوال بطور آرمی چیف این آر او دینے کا ہے . کیا یہ سوال سمجھنا راکٹ سائنس ہے ؟
١- مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو نیوی چیف کا نام نہیں پتا . اگر گوگل کر کے ڈھونڈھ بھی لیا تو ١٠ منٹ بعد پھر بھول جائیں گے . پاکستان میں رہنے والے احمقوں اور جاہلوں کو آرمی چیف اور نیول چیف میں بنیادی فرق کا معلوم ہی نہیں ہے . بھائی صاحب ، وہ نیول چیف تھا اسلئے تو پکڑا گیا . پکڑا امریکہ
میں گیا تھا ، پاکستان میں نہیں . پوری کہانی پڑھ لو اور اپنا سر دھنو
لو کوئلے کی دلالی میں اپنا مونہ مزید کالا کروا لو
ان پرآبدوزوں کی خریداری میں بھی ایک کثیر رقم خرد برد کرنے کا الزام تھا.، میاں نواز شریف نے یکم مئی 1997ء کو انھیں نوکری سے برخاست کر دیا اور ان کے خلاف تحقیقات شروع کرا دیں جبکہ منصور الحق 1998ء میں ملک سے فرار ہو گئے اور یہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں پناہ گزین ہو گئے، ملک میں ان کے خلاف مقدمات چلتے رہے، جنرل پرویز مشرف نے جب ’’نیب‘‘ بنائی تو یہ مقدمات نیب میں منتقل ہو گئے اور اتفاق سے اسی دوران امریکہ میں اینٹی کرپشن قوانین پاس ہو گئے، ان قوانین کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک کا کوئی سیاستدان، بیوروکریٹ یا کوئی تاجر کرپشن کے بعد فرار ہو کر امریکا آئے گا تو اسے پناہ ملے گی اور نہ ہی رہائشی سہولتیں بلکہ یہ کرپٹ شخص امریکا میں گرفتار بھی ہوگا اورمریکی حکومت اس کے خلاف مقدمہ بھی چلائے گی، نیب نے اس قانون کی روشنی میں امریکی حکومت کوخط لکھ اور امریکہ نے 17 اپریل 2001ء کو منصور الحق کو آسٹن سے گرفتار کرکے انھیں جیل میں بند کیا اور ان کے خلاف مقدمہ شروع کر دیا گیا منصور الحق کو جیل میں عام قیدیوں کے ساتھ جیل میں رکھا گیا، انھیں ہتھکڑی پہنا کر عدالت لایا جاتا‘ یہ سلوک منصور الحق برداشت نہ کر سکے اور انھوں نے امریکی حکومت کو لکھ کر دے دیا کہ ’’مجھے پاکستان کے حوالے کر دیا جائے جہاں میں اپنے ملک میں مقدمات کا سامنا کروں گا‘‘ امریکی جج نے یہ درخواست منظور کرلی یوں منصور الحق کو ہتھکڑی لگا کر جہاز میں سوار کر دیا گیا نیز سفر کے دوران ان کے ہاتھ بھی سیٹ سے بندھے ہوئے تھے مگر جوں ہی یہ جہاز پاکستانی حدود میں داخل ہوا تو نہ صرف منصور الحق کے ہاتھ کھول دیے گئے بلکہ انھیں وی آئی پی لائونج کے ذریعے ائیر پورٹ سے باہر لایا گیا اور نیوی کی شاندار گاڑی میں بٹھایا گیا، پولیس، ایف آئی اے اور نیب کے افسروں نے انھیں سیلوٹ بھی کیا، پھر یہ سہالہ لائے گئے جہاں سہالہ کے ریسٹ ہائوس کو سب جیل قرار دیا گیا اور منصور الحق کو اس ’’جیل‘‘ میں ’’قید‘‘ کر دیا گیا، منصور الحق کی ’’جیل‘‘ میں نہ صرف اے سی کی سہولت بھی تھی بلکہ انھیں خانساماں بھی دیا گیا، بیگم صاحبہ اور دوسرے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت بھی تھی اورمنصور الحق لان میں چہل قدمی بھی کر سکتے تھے، یہ نیب اور ایف آئی اے کے دفتر نہیں جاتے تھے بلکہ تفتیشی ٹیمیں ان سے تفتیش کے لیے ریسٹ ہائوس آتی تھیں، یہ عدالت بھی تشریف نہیں لے جاتے تھے، عدالت چل کر ان کے ریسٹ ہائوس آتی تھی اور ان کے وکیل کی صفائی سنتی تھی، منصور الحق نے کرپشن کی دولت کا 25 فیصد سرکار کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا‘ صدر مشرف نے ان کی ’’پلی بارگیننگ‘‘ منظور کر لی اور یوں منصور الحق کو بقیہ 75 فیصد کرپشن کے ساتھ رہا کر دیا گیا، ان اثاثوں میں 14 انتہائی مہنگے پلاٹس بھی شامل تھے،
خلاصہ
ایڈمرل منصور الحق اس کے بعد مزے سےاپنے گھر شفٹ ہو گئے