آدھا تیتر، آدھا بٹیر

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
حال ہی میں یہ بات منظر عام پر ایک مرتبہ پھر آئی کہ این ایل سی نے پپرا کے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے اور اسطرح عوام کو بارہ کروڑ کا چونا لگایا ہے۔

لیکن کوئی اس بات کو نہیں سمجھ پا رہا کہ پپرا کے قواعد کیا ہیں اور انکا استعمال کب اور کہاں کیا جاتا ہے؟ اور این ایل سی بذاتِ خود کیسے کام کرتی ہے اور کیا اس پر پیپرا کے قواعد کا اطلاق ہونا چاہیئے؟

پیپرا کے قوانین کا اطلاق حکومت کے اداروں پر ہوتا ہے، جو ٹیکس کے پیسے سے کام کرواتی ہیں۔ مثلاً اگر این ایچ اے نے کہیں کوئی سڑک عوامی فنڈ سے تعمیر کروانی ہے تو وہ پیپرا کے قواعد کے پابند ہیں کہ اس کے مطابق کم از کم تین ٹینڈر اشتہار کے بعد موصول کریں اور پھر ان میں سے سب سے کم قیمت والے کنٹریکٹر کو کام دے دیں۔

لیکن جس کنٹریکٹر کو کام ملتا ہے، وہ اگر آگے کسی کو کام ٹھیکے پر دیتا ہے تو اسے پیپرا کے قوانین سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے کیونکہ کنٹریکٹر کا ادارہ ایک پرائیویٹ ادارہ ہوتا ہے۔

این ایل سی ایک عجیب سا ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ اسکو گورنمنٹ اپنا ادارہ بتاتی ہے، لیکن اسکو کام کے سلسلے میں کوئی فنڈ جاری نہیں کیئے جاتے بلکہ الٹا اسکو کہا جاتا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے کنٹریکٹر کے ساتھ مقابلہ کر کے ٹھیکہ حاصل کریں اور بعد از اگر کوئی کام آگے ٹھیکے پر دینا ہو تو پھر پیپرا کے قوانین کی بھی پاسداری کریں۔

اب ایسے میں یا تو این ایل سی اپنے ریٹ کم رکھنے اور جلدی کام کرنے پر توجّہ دے کر مارکیٹ میں اپنے مد مقابل پرائیویٹ کنٹریکٹر کا مقابلہ کرے یا پھر حکومت کی بے جاہ قسم کی پیچیدگیوں میں پڑی رہے اور اس کے ہاتھ سے کام بھی جاتا رہے؟

یہ ہے اصل کہانی جو این ایل سی کے بارے میں عرصہ دراز سے آڈت کے محکموں میں مشہور ہے کہ یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن چکے ہیں۔ نہ تو انکو ترقیاتی فنڈ کے نام پر کام کرنے کے لیئے پیسہ ملتا ہے اور نہ ہی انھیں کوئی گورنمنٹ کے قوانین سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ کام ان کو پرائیوٹ کمپنی کی طرح کرنا پڑتا ہے۔

اب سیاست پی کے کی اس خبر کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ لوگوں کی اس سلسلے میں معلومات کی کمی کا سہارا لے کر فوج کو ایک بار پھر سے کرپٹ ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جبکہ اس بات کا ادراک نہیں کیا جارہا کہ بے ضابطگی اور فراڈ یا کرپشن میں بہت فرق ہوتا ہے۔


جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیپرا کے قوانین اور اس کے زیر اثر آنے والے اداروں کو دیکھنا چاہیئے اور پیپرا رولز اور آڈٹ کے محکموں کو گریبان سے پکڑنا چاہیئے کہ یہ مسئلہ آپ خود لے کر وزارت کو کیوں نہیں پہنچاتے؟

اگر ایک قانون ہی غلط ہے تو صحیح کام کرنے پر ہمیشہ اس قانون کی پاسداری ممکن نہیں رہے گی۔ اس پر صحیح کام کرنے والے کو قانون شکن اور پھر قانون شکن سے کرپٹ بنانے میں ہم ایک منٹ نہیں لگاتے۔
 
Last edited:

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)

آدھا تیتر، آدھا بٹیر​


لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئی گُم
ایک کی چونچ ایک کی دُم

کچھ یاد آیا سہیل؟؟؟
کچھ نہیں، بہت کچھ یاد آیا ڈاکٹر صاحب، بلکہ اس کے ساتھ تو یادوں کی بارات ہی آگئی۔

لیکن یہاں مجھے لگتا ہے کہ تیتر نے بٹیر کی دم میں اپنے چونچ ڈال دینی ہے۔ پھر دونوں گُم گشتہ پائے جائیں گے
 

Back
Top