ifteeahmed
Chief Minister (5k+ posts)

رب نواز شاہدرہ لاہور کا رہائشی ہے۔ یہ تین مرلے کے گھر میں رہتا ہے جو پرانی اینٹوں سے بناہے۔ اہل خانہ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوں۔ رب نواز کی بیوی گردوں کی مریضہ ہے۔ ان کے چار بچے ہیں۔ دو بچے پیدائشی معزور ہیں۔ رب نواز گلی کی نکڑ پر سبزی کا ٹھیلہ لگاتا ہے۔ اس سے اس کی اتنی بچت ہو جاتی ہے کہ وہ اس اور اس کے اہل خانہ دو وقت کا کھانا کھاسکیں۔ سارے گھر میں ایک پنکھا اور دو بلب ہیں۔ فریج، یو پی ایس اور دیگر برقی آلات نام کی کوئی عیاشی موجود نہیں ۔ اس کے باوجود رب نواز کے ساتھ وہ ہوا جو اس نے سوچا نہ تھا۔ اس کا بجلی کا بل آگیا۔
یہ کل ملا کر اٹھاون ہزار روپے تھے۔ وہ کبھی بل کو دیکھتا اور کبھی اپنے چھت پر لگے بوسیدہ پنکھے کو اور کبھی زیرو کے بلب کو۔ وہ بجلی کے محکمے کے چکر لگا لگا کر تھک گیا لیکن کوئی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔ سب نے یہی کہا کہ بجلی استعمال کی ہے تو بل بھی ادا کرنا پڑے گا ۔ وہ افسروں کے پاوں بھی پڑا‘ خدا رسول کے واسطے بھی دیئے لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ بالاآخر ایک روز محکمے والے آئے اور اسکا میٹر کاٹ کر لے گئے۔ جاتے جاتے ایک کاغذ تھما گئے جس پر لکھا تھا فلاں تاریخ تک بل ادا کرو وگرنہ نادہندگی کے جرم میں جیل جانا پڑے گا۔ رب نواز نے دوست‘ رشتہ داروں سے پیسے اُدھار مانگے لیکن کوئی بھی مدد کو تیار نہ ہوا۔ رب نواز کے پاس اب کوئی چارہ نہ تھا کہ جیل جانے کو تیار ہوجائے۔
ایک روز محکمے والے آئے۔ ان کے ساتھ پولیس والے بھی تھے۔ انہوں نے رب نواز کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ رب نواز دروازہ کھولنے لگا تھا کہ اس کے پاوں سے اسکا معذور بیٹا چمٹ گیا۔ اسے شور سے پتہ چل گیا تھا کہ باہر پولیس ہے اور وہ اس کے باپ کو پکڑنے آئی ہے۔ باپ جیل چلا گیا تو اس کے معذور بچوں کو کون پالے گا۔ کون انکی والدہ کا خیال رکھے گا۔ گھر کا چولہا کیسے چلے گا۔ یہ دیکھ کر دوسرے بہن بھائی بھی دروازے کے آگےکھڑے ہوگئے ۔
اتنے میں پولیس نے دروازے کو ٹھڈے مارنے شروع کردئے۔ کسی پولیس والے نے کلہاڑی کا وار کیا تو نحیف سے دروازے کے درمیان بڑا سوراخ ہوگیا۔ پولیس نے ہاتھ ڈال کر کنڈی کھولی اور چند ’’جوان‘‘ دندناتے ہوئے اندر داخل ہوگئے۔ انہوں نے بچوں کو انہی کی بیساکھیوں کے بٹ مارے، انہیں رب نواز سے علیحدہ کیا اور اور اسے مکے اور گھونسے رسید کرتے ہوئے گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ معذور بچے خود کو گھسیٹتے ہوئے گاڑی کے پیچھے آئے اور روتے چیختے رہ گئے۔ رب نواز کو حوالات میں ڈالا گیا۔ اگلے دن اس کا چالان عدالت میں پیش ہوا۔ دوسری تیسری پیشی میں عدالت نے اسے آٹھ برس کی قید کی سزا سنادی۔
محمد کریم ساندہ کا رہائشی ہے۔ اس نے چند برس قبل درزی کا کام شروع کیا ۔ بیوی نے مدد کی۔ اپنا زیور بیچ کر اسے دیا اور یوں اس نے چھوٹی سی دوکان بنالی۔ ایک روز اسکی دوکان پر ایک چمکیلی گاڑی آکر رکی۔ ڈرائیور نے پچھلا دورازہ کھولا۔ زرق برق کپڑوں میں ملبوس ایک خاتون اپنا پرس سنھبالتے ہوئے اتری اور دوکان میں داخل ہوگئی۔ اس نے بتایا عید قریب آرہی ہے اور کوئی اس کے کپڑے نہیں لے رہا۔ جس پر محمد کریم نے ہامی بھرلی۔ خاتون نے ایک مردانہ ایک زنانہ سوٹ کا کپڑا اور ناپ کا سوٹ درزی کو دیا اور چلی گئی۔ کوئی دو گھنٹے بعد وہ خاتون دوبارہ دوکان پر آئی اور محمد کریم سے کہا کہ اس نے جو مردانہ سوٹ ناپ کے لئے دیا تھا اس میں سوسو ڈالر کے دس نوٹ تھے۔ محمد کریم ، جس نے ابھی ان کپڑوں کو کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا‘ جلدی سے تلاش کیا لیکن پیسے برآمد نہ ہوئے۔
خاتون سے شورمچا دیا کہ درزی نے ایک ہزار ڈالر چوری کرلئے ہیں۔ کریم نے ہزار قسمیں کھائیں لیکن خاتون کو یقین نہ آیا ۔ اس نے فورا اپنے خاوند کو فون کیا جو آدھے گھنٹے میں پولیس لے کر آگیا۔ پولیس نے محمد کریم کو اٹھا کر گاڑی میں پھینکا اور جاتے ہی پرچہ بھی کاٹ دیا۔ چند ہی روز میں اسے چھ برس قید کی سزا سنادی گئی۔
چھیا سٹھ سالہ نور دین لاہور کے نواحی علاقے کا رہائشی ہے۔ پیٹ پالنے کے لئے چار کنال کے خالی پلاٹ کے سامنے پھلوں کی ریڑھی لگاتا تھا۔ ایک روز ایل ڈی اے والے آئے
اور اسکی ریڑھی سڑک پر الٹا دی۔ پھلوں کے چھابے اور ریڑھی ٹرک میں رکھی اور نور دین کو پولیس کی گاڑی میں ڈال دیا۔ نوردین نے اپنا قصور پوچھا تو اسےکہا گیا کہ تم ناجائز قابض ہو اور پھل بیچنے کی آڑ میں چار کنال کے سرکاری پلاٹ پر قبضہ کرنا چاہتے ہو۔ اس نے لاکھ صفائیاں دیں کہ میں تو اپنی ریڑھی پر پھل بیچتا ہوں ‘ اس پلاٹ سے میرا کیا تعلق۔ نور دین جتنی صفائیاں دیتا اتنے ہی اس تھپڑ اور گھونسے پڑتے۔ اس کا چالان عدالت میں پہنچا تو جج صاحب نے یہاں بھی انصاف کے تقاضوں کو بروقت پورا کرتے ہوئے اسے سرکاری زمین اور کارسرکار میں مداخلت کے جرم میں چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔
گزشتہ روز نیب نے سپریم کورٹ میں ایک فہرست جمع کرائی۔ اس فہرست میں وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت چار سابق وزرائے اعظم‘ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف ، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، سابق صدر آصف علی زرداری ، حسین حقانی ، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین، سمیت دیگر افراد کے نام شامل ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال ، مالیاتی سکینڈل اور قیمتی اراضی کی خریدوفروخت میں گھپلوں سے متعلق کھربوں روپے مالیت کے 50 میگا کرپشن سکینڈلز میں ملوث ہونکے کے حوالے سے تفتیش برسوں سے جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے وزیر اعظم ، یہ وزیر اور یہ سیاستدان بھی اُسی ملک میں رہتے ہیں جس میں رب نواز، محمد کریم، اور نوردین رہتے ہیں ، یہ سب بھی انصاف کے جھنڈے اس طرح اُٹھاتے ہیں جس طرح عام آدمی انصاف کا حصول چاہتا ہے ۔ یہ سب بھی اسی قائد کو اپنا قائد مانتے ہیں جسے یہ غریب لوگ قائداعظم کہتے ہیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ رب نوازبجلی چوری نہ بھی کرے تو اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے
اور یہ کروڑوں اربوں کے ڈاکے مارنے کے بعد بھی پاک باز اور شریف کہلاتے رہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ محمد کریم پیسے چوری نہ کرے تب بھی اسے چھ سال جیل میں سڑنا پڑے اور نور دین پھلوں کی ریڑھی سڑک پر سے گزارے تو اسے قبضہ مافیا کہہ کر چودہ سال کے لئے جیل میں ڈال دیا جائے۔ ایسا کیوں ہے کہ ان تینوں کو سزا دینے کے لئے تو پولیس ، نیب اور عدالتیں پھرتیاں دکھائیں، ان کا مقدمہ تو دنوں میں مکمل ہوجائے اور ملک کا خون چوسنے والے ان چند سو لوگوں کے مقدمات کی تفتیش کئ کئی عشرے گزرنے کے بعد بھی مکمل نہ ہو۔
سنا تھا کفر کے ساتھ معاشرے زندہ رہ سکتے ہیں لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔ شاید یہ معاشرہ بھی اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔
http://dunya.com.pk/index.php/author/ammar-chaudhry/2015-07-09/11906/15541317#.VZ9f2V-qpHw
یہ کل ملا کر اٹھاون ہزار روپے تھے۔ وہ کبھی بل کو دیکھتا اور کبھی اپنے چھت پر لگے بوسیدہ پنکھے کو اور کبھی زیرو کے بلب کو۔ وہ بجلی کے محکمے کے چکر لگا لگا کر تھک گیا لیکن کوئی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔ سب نے یہی کہا کہ بجلی استعمال کی ہے تو بل بھی ادا کرنا پڑے گا ۔ وہ افسروں کے پاوں بھی پڑا‘ خدا رسول کے واسطے بھی دیئے لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ بالاآخر ایک روز محکمے والے آئے اور اسکا میٹر کاٹ کر لے گئے۔ جاتے جاتے ایک کاغذ تھما گئے جس پر لکھا تھا فلاں تاریخ تک بل ادا کرو وگرنہ نادہندگی کے جرم میں جیل جانا پڑے گا۔ رب نواز نے دوست‘ رشتہ داروں سے پیسے اُدھار مانگے لیکن کوئی بھی مدد کو تیار نہ ہوا۔ رب نواز کے پاس اب کوئی چارہ نہ تھا کہ جیل جانے کو تیار ہوجائے۔
ایک روز محکمے والے آئے۔ ان کے ساتھ پولیس والے بھی تھے۔ انہوں نے رب نواز کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ رب نواز دروازہ کھولنے لگا تھا کہ اس کے پاوں سے اسکا معذور بیٹا چمٹ گیا۔ اسے شور سے پتہ چل گیا تھا کہ باہر پولیس ہے اور وہ اس کے باپ کو پکڑنے آئی ہے۔ باپ جیل چلا گیا تو اس کے معذور بچوں کو کون پالے گا۔ کون انکی والدہ کا خیال رکھے گا۔ گھر کا چولہا کیسے چلے گا۔ یہ دیکھ کر دوسرے بہن بھائی بھی دروازے کے آگےکھڑے ہوگئے ۔
اتنے میں پولیس نے دروازے کو ٹھڈے مارنے شروع کردئے۔ کسی پولیس والے نے کلہاڑی کا وار کیا تو نحیف سے دروازے کے درمیان بڑا سوراخ ہوگیا۔ پولیس نے ہاتھ ڈال کر کنڈی کھولی اور چند ’’جوان‘‘ دندناتے ہوئے اندر داخل ہوگئے۔ انہوں نے بچوں کو انہی کی بیساکھیوں کے بٹ مارے، انہیں رب نواز سے علیحدہ کیا اور اور اسے مکے اور گھونسے رسید کرتے ہوئے گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ معذور بچے خود کو گھسیٹتے ہوئے گاڑی کے پیچھے آئے اور روتے چیختے رہ گئے۔ رب نواز کو حوالات میں ڈالا گیا۔ اگلے دن اس کا چالان عدالت میں پیش ہوا۔ دوسری تیسری پیشی میں عدالت نے اسے آٹھ برس کی قید کی سزا سنادی۔
محمد کریم ساندہ کا رہائشی ہے۔ اس نے چند برس قبل درزی کا کام شروع کیا ۔ بیوی نے مدد کی۔ اپنا زیور بیچ کر اسے دیا اور یوں اس نے چھوٹی سی دوکان بنالی۔ ایک روز اسکی دوکان پر ایک چمکیلی گاڑی آکر رکی۔ ڈرائیور نے پچھلا دورازہ کھولا۔ زرق برق کپڑوں میں ملبوس ایک خاتون اپنا پرس سنھبالتے ہوئے اتری اور دوکان میں داخل ہوگئی۔ اس نے بتایا عید قریب آرہی ہے اور کوئی اس کے کپڑے نہیں لے رہا۔ جس پر محمد کریم نے ہامی بھرلی۔ خاتون نے ایک مردانہ ایک زنانہ سوٹ کا کپڑا اور ناپ کا سوٹ درزی کو دیا اور چلی گئی۔ کوئی دو گھنٹے بعد وہ خاتون دوبارہ دوکان پر آئی اور محمد کریم سے کہا کہ اس نے جو مردانہ سوٹ ناپ کے لئے دیا تھا اس میں سوسو ڈالر کے دس نوٹ تھے۔ محمد کریم ، جس نے ابھی ان کپڑوں کو کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا‘ جلدی سے تلاش کیا لیکن پیسے برآمد نہ ہوئے۔
خاتون سے شورمچا دیا کہ درزی نے ایک ہزار ڈالر چوری کرلئے ہیں۔ کریم نے ہزار قسمیں کھائیں لیکن خاتون کو یقین نہ آیا ۔ اس نے فورا اپنے خاوند کو فون کیا جو آدھے گھنٹے میں پولیس لے کر آگیا۔ پولیس نے محمد کریم کو اٹھا کر گاڑی میں پھینکا اور جاتے ہی پرچہ بھی کاٹ دیا۔ چند ہی روز میں اسے چھ برس قید کی سزا سنادی گئی۔
چھیا سٹھ سالہ نور دین لاہور کے نواحی علاقے کا رہائشی ہے۔ پیٹ پالنے کے لئے چار کنال کے خالی پلاٹ کے سامنے پھلوں کی ریڑھی لگاتا تھا۔ ایک روز ایل ڈی اے والے آئے
اور اسکی ریڑھی سڑک پر الٹا دی۔ پھلوں کے چھابے اور ریڑھی ٹرک میں رکھی اور نور دین کو پولیس کی گاڑی میں ڈال دیا۔ نوردین نے اپنا قصور پوچھا تو اسےکہا گیا کہ تم ناجائز قابض ہو اور پھل بیچنے کی آڑ میں چار کنال کے سرکاری پلاٹ پر قبضہ کرنا چاہتے ہو۔ اس نے لاکھ صفائیاں دیں کہ میں تو اپنی ریڑھی پر پھل بیچتا ہوں ‘ اس پلاٹ سے میرا کیا تعلق۔ نور دین جتنی صفائیاں دیتا اتنے ہی اس تھپڑ اور گھونسے پڑتے۔ اس کا چالان عدالت میں پہنچا تو جج صاحب نے یہاں بھی انصاف کے تقاضوں کو بروقت پورا کرتے ہوئے اسے سرکاری زمین اور کارسرکار میں مداخلت کے جرم میں چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔
گزشتہ روز نیب نے سپریم کورٹ میں ایک فہرست جمع کرائی۔ اس فہرست میں وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت چار سابق وزرائے اعظم‘ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف ، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، سابق صدر آصف علی زرداری ، حسین حقانی ، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین، سمیت دیگر افراد کے نام شامل ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال ، مالیاتی سکینڈل اور قیمتی اراضی کی خریدوفروخت میں گھپلوں سے متعلق کھربوں روپے مالیت کے 50 میگا کرپشن سکینڈلز میں ملوث ہونکے کے حوالے سے تفتیش برسوں سے جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے وزیر اعظم ، یہ وزیر اور یہ سیاستدان بھی اُسی ملک میں رہتے ہیں جس میں رب نواز، محمد کریم، اور نوردین رہتے ہیں ، یہ سب بھی انصاف کے جھنڈے اس طرح اُٹھاتے ہیں جس طرح عام آدمی انصاف کا حصول چاہتا ہے ۔ یہ سب بھی اسی قائد کو اپنا قائد مانتے ہیں جسے یہ غریب لوگ قائداعظم کہتے ہیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ رب نوازبجلی چوری نہ بھی کرے تو اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے
اور یہ کروڑوں اربوں کے ڈاکے مارنے کے بعد بھی پاک باز اور شریف کہلاتے رہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ محمد کریم پیسے چوری نہ کرے تب بھی اسے چھ سال جیل میں سڑنا پڑے اور نور دین پھلوں کی ریڑھی سڑک پر سے گزارے تو اسے قبضہ مافیا کہہ کر چودہ سال کے لئے جیل میں ڈال دیا جائے۔ ایسا کیوں ہے کہ ان تینوں کو سزا دینے کے لئے تو پولیس ، نیب اور عدالتیں پھرتیاں دکھائیں، ان کا مقدمہ تو دنوں میں مکمل ہوجائے اور ملک کا خون چوسنے والے ان چند سو لوگوں کے مقدمات کی تفتیش کئ کئی عشرے گزرنے کے بعد بھی مکمل نہ ہو۔
سنا تھا کفر کے ساتھ معاشرے زندہ رہ سکتے ہیں لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔ شاید یہ معاشرہ بھی اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔
http://dunya.com.pk/index.php/author/ammar-chaudhry/2015-07-09/11906/15541317#.VZ9f2V-qpHw
Last edited by a moderator: