اداکار افضال احمد پاکستان کے لیجنڈری اداکار ہیں جنہوں نے 200 سے زائد ڈراموں اور فلموں میں کام کیا، انکی بے ساختہ اداکاری ہر ایک کے دل موہ لیتی تھی،ان کی مشہور فلموں میں شعلے، شریف بدمعاش، وحشی جٹ، عشق نچاوے گلی گلی ، دہلیز، فیصلہ ، بلندی، کالے چور ، بہشت، ور دیگر فلمیں شامل ہیں۔
افضال احمد نے نہ صرف بطور ولن بلکہ ہیرو کے طور پر بھی کام کیا، انہوں نے کئی شاہکار ڈرامے بھی کئے جن میں جزیرہ، چل سوچل، فشار شامل ہیں۔کچھ سال پہلے انہیں فالج کا اٹیک ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے لیکن کسی نے بھی انکی خبر نہ لی اور وہ کئی سال تک بے بسی کی تصویر بنے رہے۔
جمعہ کے روز افضال احمد برین ہیمبرج کے باعث انتقال کرگئے، اداکار افضال احمد کی موت کئی سوالات چھوڑگئی کہ کیا ہم اتنے بے حس ہیں کہ اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرتے؟
ان کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انہیں ایک ایسے بیڈ پر لٹایا گیا جہاں پہلے سے مریض موجود تھا،افضال احمد نے دوسرے مریض کیساتھ تڑپتے تڑپتے جان دیدی۔
سہیل احمد عزیزی نے اس تصویر کو بڑے دکھ میں شئیر کیاجس پرعرفان ہاشمی نے تبصرہ کیا کہ سہیل بھائی۔۔۔ہم اچھے لوگوں کا یہ ہی حال کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔اس ملک میں قاتلوں ۔۔اشتہارویوں کو وی آئی پی وارڈز میں رکھتے ہیں۔۔۔۔۔مگر اداکاروں کو خود ہاتھوں سے مار دیتے ہیں۔۔۔
پارس جہانزیب کا کہنا تھا کہ برین ہیمبرج کے باعث انہیں ہسپتال لایا گیا تو انتظامیہ کا رویہ انتہائی ہتک آمیز تھا۔ افضال احمد کو کمرہ تو کیا۔ایک بیڈ بھی نہ دیا اور ایک ہی بیڈ پر دوسرے مریض کو بھی افضال احمد کے ساتھ لٹا دیا گیا
مقدس فاروق اعوان کا کہنا تھا کہ افسوس کا مقام ہے۔۔عام آدمی کی تو ویسے ہی کوئی حیثیت نہیں لیکن پڑوسی ملک بھارت سے ہی آرٹسٹ کی قدر کرنا سیکھو بےحس لوگوں۔عزت سے مرنے تودو۔
ایکسپریس نیوز کے صحافی ارشد چوہدری نے تبصرہ کیا کہ لیجنڈ اداکار افضال احمد دنیا سے چلے گئے ،لیکن ہسپتال میں ان کو الگ بیڈ نہ مل سکا،وہ ایک بیڈ پر دوسرے مریض کے ساتھ تڑپتے ہوئے حکومت کی بے حسی کی تصویر بنے رہے
شاکرمحموداعوان کاکہنا تھا کہ ہم اپنے ہیروز کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتے ہیں ۔ اللہ پاک اداکار افضال احمد کی اگلی منزلیں آسان فرمائے ۔
شہربانو کا کہنا تھا کہ افسوس صد افسوس۔جو لوگ اس چیز پر افسوس کر رہے ہیں کہ افضال احمد کو آخری وقت میں ایک مناسب ہسپتال تک نہیں ملا ۔۔ان سے سوال بنتا ہے کہ آپ لوگ اس وقت کہاں تھے؟؟ جب وہ زندہ تھا؟؟۔جب وہ کرب میں تھا؟؟۔زندگی کی تکلیفیں ثابت کرنے کے لئے مرنا کیوں ضروری ہے۔بحیثیت معاشرہ ہم بے حس کیوں ہیں ؟
دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی ہسپتال انتظامیہ پر تنقید کی