کیا اسلام تلوار کے زور پر پھیلا؟

Citizen X

President (40k+ posts)
they don't have an argument just going to ask you a question in response to your question.
Same old tactics to dodge having to explain their twisted beliefs, I don't know if you can, because I certainly can't that has even cultist every been able to given even one satisfactory answer or logical argument in defense of all their baatil aqeedas and pagan acts of worship?
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
Did "there is only 1" , respond to your questions ?
جی ہاں
کئی بار انہیں آیات پیش کی ہیں
ہر بار یہ بات چیت بیچ میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ، اور پھر اگلے دن سب بھول کر نئے سرے سے سوال کرتے ہیں
تازہ ترین واقعہ دو اگست کو پیش آیا ، جب میں نے انہیں ایک آیت پیش کی ، انہوں نے جواب میں اپنے اعتراضات پیش کیے پھر جب دیکھا کہ ان کا نقطہ نظر کمزور پڑ رہا ہے تو آخر میں بحث کا رخ موڑنے کی کوشش کی اور بھاگ گئے
آپ اس بات چیت کو پڑھیں ، تقریبا بیس پچیس پوسٹیں ہیں . تھریڈ کا لنک . دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا
 

Qalumkar

Senator (1k+ posts)

اگر آج کا انسان کسی تلوار، بندوق، بھوک اور خوف کی وجہ سے مسلمان ہے تو آغاز میں بھی ایسے ہی مسلمان ہوا ہو گا اور اگر آج انسان اپنی عقل اور سمجھ استعمال کر کے اپنی مرضی سے مسلمان ہے تو چودہ سو سال پہلے بھی ایسے ہی مسلمان ہوا ہو گا۔
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
huzoor ke babarkat dor ke baad to deene islam sirf aur sirf quraan hi main simat ker reh gayaa aur aaj tak yun hi rahaa hai.

deene islam talwaar se nahin phela warna jin logoon ne sab se pehle deene islam qabool kiya tha un per kis ne tawaar chalayee thi? agar un logoon ne baghair talwaar ke deene islam ko qabool ker liye tha to baaqi logoon per talwaar chalaane ki kia zaroorat pesh ayee?

lihaaza sab aise qisse kahaaniyan ghalat hen jin main deen islam ko phelaane ke liye talwaar ka ziker hai.

agar kisi ne talwaar chalyee to woh khud kuffaar the jo deene islam ke phelaao ko apni apni taaqat se rokna chahte the apne apne iqtadaarun ko bachaane ke liye. issi ke jawaab main huzoor aur aap ke saathiyun ko bhi talwaar uthaana padi.

huzoor ke baad jab logoon ko aisho araam ki zindagi mili deene islam ki wajah se to unhu ne aur baatun main ulajh ker quraan ke asal paighhaam ko hi bhulaa diya. issi liye kingdom of God collapse ho gayaa. magar ab sawaal peda hota hai khudayee nizaam dobaara is duniya main kyun qaaim nahin kiya jaa saka?

is ki wajah sirf ye hai keh jab deene islam per mabni maashra hi khatam ho gayaa to her koi apni apni sochne main lag gayaa aur yun un taaqatoon ko moqa mil gayaa jin ko malukiyati taaqten kehte hen. lihaaza jab woh log iqtadaar main aa gaye to unhune sab se pehla kaam ye kiya keh deene islam ko mazhab main tabdeel ker diya mullah tabqa peda ker ke aur yun deene islam ka asal paighaam hi logoon ke zehnoo se door ker diya.

abhi tak aisa hi ho rahaa tha yahaan tak keh hindostan main sir syed peda huwa jis ne musalmaanu ko quraan ke us paighaam se aik had tak dobaara mutaarif karaaya jis ko musalmaan bhool chuke the. yahee kaam hameed uddin farahi ne aage badhaaya phir iqbal aa gayaa aur phir jinnah aur parwez aaye aur kerte kerte aaj main khud is baat ko logoon ko samjhaane ki koshish ker rahaa hun keh islam deen hai mazhab nahin hai.

ab dekhte hen log kab tak is paighaam per apni apni tehqeeq kerte hen aur is ke asal paighaam ko samajhne ki poori poori koshish kerte hen aur is paighaam ko aage pohnchaate hen. jab log quraan ke asal paighaam ko samajh jaayen ge the inqilaab inevitable hai. For a detailed explanation of things about the quran, deen of islam and pakistan see HERE, HERE, HERE, HERE and HERE.

 
Last edited:

Khair Andesh

Chief Minister (5k+ posts)

. . . .
اس کے بعد حضرت علی نے صبر کیا کہ حاکم وقت خود جرم میں ملوث ہو تو بندہ صبر ہی کر سکتا ہے جیسا کہ سرداران مکہ کے رسول پاک اور ان کے خاندان پر ظلم و ستم پر رسول پاک نے صبر کیا تھا

آپ کیوں خود کو اور دوسروں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہو؟ مکہ کے زمانے میں صبر کرنے کا حکم تھا، اس لئے صبر کیا گیا۔ہجرت کرنے کے بعد،جب جہاد کا حکم آ گیا، تو اس کے بعد غزوات و سرایہ کی ایک طویل داستان ہے۔اور اپنی ذات کا بدلہ بے شک نہیں لیا، مگر دوسرے پر ظلم برداشت نہیں کیا، جیسا کہ بیعت رضوان، کہ ایک قتل کی وجہ سے ہزاروں سے موت پر بیعت کر لی۔
دوسری بات یہ کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جگہ رحم دلی کا مظاہرہ کیا ہے، تو وہ اپنے رحمت للعالمین نبی ہونے کی وجہ سے کیا ہے، نہ کہ کمزوری اور طاقت نہ ہونے کی وجہ سے، جیسا کہ طائف میں آپشن تھی کہ شرارتی لوگوں کا سورما بنا دیا جاتا، مگر اللہ کے نبی نے درگزر اور صبر سے کام لیا
۔​
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
Did "there is only 1" , respond to your questions ?

معاف کیجئے گا میں آپ کو رسپانس نہیں کیا تھا- آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ممبر دیئر اس اونلی ون نے کبھی بھی بحث میں اپنے کسی بھی باطل عقیدے کو ثابت نہیں کیا- نیچے میں اپنی ایک پوسٹ کو کاپی کر رہا ہوں جس میں میں نے کئی بحثوں کے ہائپر لنک دئیے هوئے ہیں

میرا مشورہ آپ کو ہے کہ میرے پچھلے تھریڈ کی پوسٹ نمبر ٢٢ سے لے کر پوسٹ نمبر ٣٧ تک ضرور پڑھیں- اس بحث سے آپ کو شیعہ کے امامت کے عقیدہ کا بھرکس نکلتے هوئے دیکھیں گے - پہلے یہ صاحب بضد تھے کہ سوره النباء کی آیات ١-٧ سے ان کا امامت کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے اور کہتے ہیں اس سوره کی آیت نمبر ٧ میں لفظ " أَهْلَ الذِّكْرِ" سے مراد اس کے خیالی امام ہیں- اس کے جواب میں میں نے قرآن دو اور آیات پیش کیں - سورة الإسراء, سوره ١٧، آیت ١٠١ ، سے ثابت کیا کہ اس میں واضح طور پر لفظ "بَنِي إِسْرَائِيلَ" استمعال ہوا ہے اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اللہ نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دی تھیں اس کے بارے میں "بَنِي إِسْرَائِيلَ" سے پوچھ لو- بڑی مشکل سے یہ مانے لیکن پھر بھی کہنے لگے کہ ترجمہ غلط ہے' ترجمہ "پوچھو لو " سہی نہیں ہے بلکہ صحیح ترجمہ "تصدیق" کر لو - میں نے کہا کہ چلیں اپنے شیعہ عالم کا ترجمہ قرآن کا لنک دے دیں، بڑی حیل و حجت کے بعد شیعہ ترجمہ کا لنک دیا، وہ بھی سکین کیا ہوا ترجمہ کا لنک تھا کہ سرچ کرنے میں دقت ہو - بہر حال میں شیعہ ترجمہ سے وہی ترجمہ دکھا دیا کہ "بَنِي إِسْرَائِيلَ سے پوچھو لو"- قرآن میں بَنِي إِسْرَائِيلَ سے پوچھنے کا ایک تاریخی واقعہ کے بارے میں ہے جو کہ بَنِي إِسْرَائِيلَ کے اہل علم کو معلوم ہے نہ کہ ان سے نماز ، روزے یا مسلمانوں کے عقیدوں کے بارے میں پوچھنے کا کہا گیا ہے- پھر میں نے سورة النحل,سوره ١٦، آیات نمبر ٤٣-٤٤ سے ثابت کیا کہ اس آیت میں لفظ "أَهْلَ الذِّكْرِ" سے مراد "اہل کتاب" ہے، " یعنی "اہل کتاب" یا "اہلِ علم " سے پوچھ لو- یہاں "أَهْلَ الذِّكْرِ" سے کسی طور شیعہ کے باطل امام نہیں لیا جا سکتا کیوں کہ ان آیات میں بھی اوپر بیان کی گئی سورة الإسراء, سوره ١٧، آیت ١٠١ کی طرح تاریخی حقیقت کے بارے میں اہل کتاب یا اہل علم سے پوچھنے کا کہا گیا ہے اور کسی طور پر شیعہ کے خالی امام مرد نہیں ہو سکتے- اس کے میں نے سورة الأنبياء, سوره ٢١، آیات ١-٧ میں بیان کئے گئے لفظ " أَهْلَ الذِّكْرِ" سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان تاریخی حقیقت سے واقف ہیں جو ان آیات میں بین کی گئی ہیں، ان تاریخی حقائق کو یہود اور نصاریٰ دونوں کے عالم جانتے تھے- یعنی اگر تمہیں رسول اللہ کی بات پر ابھی یقین نہیں آ رہا ہے تو اپنے ہی اہل علم سے پوچھ لو ان تاریخی حقائق کے بارے میں جو پچھلی قوموں پر گزرے تھے- ان آیات سے بھی کسی طور پر شیعہ کا باطل عقیدہ امامت ثابت نہیں ہوتا- ان تمام بحث مباحثہ کے باوجود یہ مجھے بے شرمی سے "بَنِي إِسْرَائِيلَ سے پوچھو لو" کا طعنہ دیتے ہیں-ہ

[21:7]
تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تم (خود) نہ جانتے ہو
امت کی کم بختی ہے کہ اس نے اہل ذکر لوگوں کو اپنا امام ماننے سے انکار کر دیا ہے ، لہٰذا جھگڑے تو ہوں گے
براے مہربانی میرے ساتھ وہی کھیل دوبارہ نہ شروع کریں جو آپ نے اپنا باطل عقیدہ امامت ثابت کرنے کے لئے مجھے وہ آیات پیش کیں جن میں صرف لفظ "امام" موجود تھا ورنہ وہ آیات کسی طور پر آپکے باطل عقیدہ امامت کو ثابت نہیں کرتیں - کبھی آپ "سورة البقرة, آیت 124" میں لفظ "إِمَامًا" یا کبھی "سورة يس, آیت نمبر 12" میں لفظ "إِمَامٍ" دکھا کر اپنے باطل عقیدہ امامت ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں-مزید پڑھئے---کبھی سوره النساء، آیت نمبر 59 میں لفظ " الْأَمْرِ مِنكُمْ" دکھا کر اپنے باطل عقیدہ امامت ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں-مزید پڑھئے---کبھی سوره الاحزاب، آیت نمبر 33 میں لفظ "اہل بیت "دکھا کر اپنے باطل عقیدہ امامت ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں, باوجود اس کہ قرآن میں امامت کی کوئی دلیل نہیں-مزید پڑھئے--- وہی فارمولا آپ نے اپنے خلاف قرآن عقیدہ تبرّا کو ثابت کرنے کے لئے اپنایا-مزید پڑھئے---- اب مذکورہ آیت میں لفظ "أَهْلَ الذِّكْرِ" کو اپنے خیالی اماموں پر چسپاں کرنے کی ناکام کوشش نہ کریں- مزید پڑھیے

(Qur'an 21:7) وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۖ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
Mohsin Khan: And We sent not before you (O Muhammad صلى الله عليه وسلم) but men to whom We revealed. So ask the people of the Reminder [Scriptures - the Taurat (Torah), the Injeel (Gospel)] if you do not know.
جالندھری ترجمہ : اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو

اگر آپ پہلی آیت سے یہ سورہ پڑھیں تو واضح ہو جاۓ گا کہ "أَهْلَ الذِّكْرِ" سے کون مراد ہیں

ترجمہ سوره الانبیا، آیات ١ - ٧: لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیر رہے ہیں- ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی مگر وہ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں- ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ظالم لوگ (آپس میں) چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں کہ یہ (شخص کچھ بھی) نہیں مگر تمہارے جیسا آدمی ہے۔ تو تم آنکھوں دیکھتے جادو (کی لپیٹ) میں کیوں آتے ہو- (پیغمبر نے) کہا کہ جو بات آسمان اور زمین میں (کہی جاتی) ہے میرا پروردگار اسے جانتا ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے- بلکہ (ظالم) کہنے لگے کہ (یہ قرآن) پریشان (باتیں ہیں جو) خواب (میں دیکھ لی) ہیں۔ (نہیں) بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے (نہیں) بلکہ (یہ شعر ہے جو اس) شاعر (کا نتیجہٴ طبع) ہے۔ تو جیسے پہلے (پیغمبر نشانیاں دے کر) بھیجے گئے تھے (اسی طرح) یہ بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لائے- ان سے پہلے جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا وہ ایمان نہیں لاتی تھیں۔ تو کیا یہ ایمان لے آئیں گے- اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو

اوپر بیان کی گئی سوره الانبیا، آیات 1 - 7 میں گزری ہوئی قوموں کا ذکر ہو رہا ہے جنہوں نے اپنے نبیوں کا یہ اعتراض کر کے کہ انسان رسول نہیں ہوسکتا ہے اور یہی دلیل کفار نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور نبی قبول نہ کرنے کے جواز میں پیش کی- اللہ تعالیٰ ان آیات میں ان بستیوں کے ہلاک ہونے کا واقعہ بیان کرتے هوئے کہتے ہیں کہ اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے (ان واقعیات کے بارے میں) پوچھ لو- یہاں "أَهْلَ الذِّكْرِ" سے مراد عیسائی اور یہودی ہیں جن پر تورات اور زبور نازل ہوئی اور ان کے علماء ان واقعات سے بخوبی واقف تھے
ان آیات کو شیعہ اپنے بارہ خیالی اماموں کو ثابت کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں جو کہ انتہائی زیادتی ہے کیونکہ ان آیات کے مخاطب رسول اللہ کی نبوت کا انکار کرنے والے کفار تھے

نوٹ: اس آیت میں لوگوں کے "نا جاننے " کا دائرہ غیر محدود ہے لہٰذا اہل ذکر کے جاننے کا دائرہ بھی لا محدود ہے
(Qur'an 21:7) فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ - اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو


جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ سوره الانبیا، آیات 1 - 7 میں گزری ہوئی قوموں کا ذکر ہو رہا ہے جنہوں نے اپنے نبیوں کا یہ اعتراض کر کے کہ انسان رسول نہیں ہوسکتا ہے اور یہی دلیل کفار نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور نبی قبول نہ کرنے کے جواز میں پیش کی- اللہ تعالیٰ ان آیات میں ان بستیوں کے ہلاک ہونے کا واقعہ بیان کرتے هوئے کہتے ہیں کہ اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے (ان واقعیات کے بارے میں) پوچھ لو- یہاں "أَهْلَ الذِّكْرِ" سے مراد عیسائی اور یہودی ہیں جن پر تورات اور زبور نازل ہوئی اور ان کے علماء ان واقعات سے بخوبی واقف تھے- کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کفار سے مخاطب ہیں اسی وجہ سے ان سے کہا گیا کہ اپنے اہل کتاب کے علماء سے پوچھ لو ، ظاہر ہے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ محمّد ﷺ، جو ان کے درمیان موجود تھے، سے پوچھ لو - شیعہ کے خیالی اماموں سے پوچھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا - اگر یہ کہا جاۓ کہ قرآن کی آیات ابدی ہیں تو زیادہ سے زیادہ اس سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جنھیں معلوم نہیں وہ اہل علم سے پوچھ لیں-اور اس فہم سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں - آپ ان آیات کو اپنے خیالی اماموں پر صرف اس صورت میں چسپاں کر سکتے ہیں اگر آپ قرآن کی کسی بھی واضح آیت سے اپنے خیالی اماموں ثابت کر سکیں - جو کہ آپ قیامت تک ثابت نہ کر پایئں گے کیونکہ ایسی کوئی آیت ہے ہی نہیں
(والله أعلم)
 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
آپ کیوں خود کو اور دوسروں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہو؟ مکہ کے زمانے میں صبر کرنے کا حکم تھا، اس لئے صبر کیا گیا۔ہجرت کرنے کے بعد،جب جہاد کا حکم آ گیا، تو اس کے بعد غزوات و سرایہ کی ایک طویل داستان ہے۔اور اپنی ذات کا بدلہ بے شک نہیں لیا، مگر دوسرے پر ظلم برداشت نہیں کیا، جیسا کہ بیعت رضوان، کہ ایک قتل کی وجہ سے ہزاروں سے موت پر بیعت کر لی۔
دوسری بات یہ کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جگہ رحم دلی کا مظاہرہ کیا ہے، تو وہ اپنے رحمت للعالمین نبی ہونے کی وجہ سے کیا ہے، نہ کہ کمزوری اور طاقت نہ ہونے کی وجہ سے، جیسا کہ طائف میں آپشن تھی کہ شرارتی لوگوں کا سورما بنا دیا جاتا، مگر اللہ کے نبی نے درگزر اور صبر سے کام لیا
۔​
رسول پاک نے کبھی ذاتی انتقام نہیں لیا ، اور کبھی انتقام لینے کے لئے حملہ نہیں کیا
حضرت علی کو بھی رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے شر پر صبر کرنا
. . . . .
آپ نے اگر سارا تھریڈ پڑھا ہے تو صرف ایک سوال کا جواب دے دیں
کہ
کیا شریعت محمدی اچھی صحت کی ضمانت دیتی ہے ؟
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

اگر یہ کہا جاۓ کہ قرآن کی آیات ابدی ہیں تو زیادہ سے زیادہ اس سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جنھیں معلوم نہیں وہ اہل علم سے پوچھ لیں-اور اس فہم سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں -(والله أعلم)
جتھے دی کھوتی ، اوتھے آ کھلوتی
.. . . .
میں نے تو پہلے ہی کمنٹ میں کہا تھا کہ لوگوں کے "نا جاننے " کا دائرہ لا محدود ہے ، اس لئے اہل ذکر کے جاننے کا دائرہ بھی غیر محدود ہونا چاہیے
اس لئے ایک بار پھر سوچ لیں کہ اس وضاحت کو ماننا ہے کہ نہیں
 

Khair Andesh

Chief Minister (5k+ posts)

رسول پاک نے کبھی ذاتی انتقام نہیں لیا ، اور کبھی انتقام لینے کے لئے حملہ نہیں کیا
حضرت علی کو بھی رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے شر پر صبر کرنا
. . . . .
آپ نے اگر سارا تھریڈ پڑھا ہے تو صرف ایک سوال کا جواب دے دیں
کہ
کیا شریعت محمدی اچھی صحت کی ضمانت دیتی ہے ؟
شریعت کے اصول کیوں کہ فطرت کے قریب ہیں، لہذا اصولا اس پر عمل کرنے والے کی صحت اچھی ہونی چاہئے، مگر ہر کیس میں ہونا ضروری بھی نہیں۔مثال کے طور پر ایتھلیٹس، فوجی اور فٹ بالروں کی صحت اور عمر دوسروں کے مقابلے میں اچھی ہونی چاہئے، مگر کتنی ہی مثالیں ایسی ہیں کہ ان گروہ کے لوگ جوانی میں ہی چل بسے۔
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
میں نے تو پہلے ہی کمنٹ میں کہا تھا کہ لوگوں کے "نا جاننے " کا دائرہ لا محدود ہے ، اس لئے اہل ذکر کے جاننے کا دائرہ بھی غیر محدود ہونا چاہیے
اس لئے ایک بار پھر سوچ لیں کہ اس وضاحت کو ماننا ہے کہ نہیں

چلیں، آپ کو ایک نئے اور مزید آسان انداز سے سا ری بات دوبارہ سمجھا دیتے ہیں- امید ہے کہ اللہ آپ کو اور ہمیں ہدایت دے گا- آمین
١- نیچے بیان کی گئی سورة الإسراء کی آیت میں مخاطب مشرکین مکہ ہیں اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ بنی اسرائیل سے حضرت موسیٰ عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ کی نو کھلی نشانیوں کے بارے میں پوچھو- غور طلب بات ہے لفظ "فَاسْأَلْ" یعنی "تو پوچھو" استمعال ہوا ہے، کس سے پوچھو؟ بنی اسرائیل سے پوچھو ، نہ کہ شیعوں کے خیالی اماموں سے پوچھو

(Qur'an 17:101) وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا
اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دی تھیں پھر بھی بنی اسرائیل سےبھی پوچھ لو جب موسیٰ ان کے پاس آئے تو فرعون نے اسے کہا اے موسیٰ میں تو تجھے جادو کیا ہوا خیال کرتا ہوں- سورة الإسراء, سوره ١٧، آیت ١٠١

٢- نیچے بیان کی گئی سورة ابراهيم کی آیات میں مشرکین مکہ کو مخاطب کر کے لفظ "اذْكُرُوا" یعنی "تم یاد کرو" استمعال کیا گیا ہے- کسی طور پر یہاں بھی شیعہ کے خیالی اماموں سے پوچھنے کا نہیں کہا گیا -کیونکہ مشرکین مکہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا انکار کر رہے تھے لہذا یہ نہیں کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ یا حضرت علی رضي الله عنه سے پوچھ لو- یہاں اگر کوئی لفظ "اذْكُرُوا" سے اپنی خیالی امام ثابت کرنے کی کوشش کرے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے

(Qur'an 14:6-10) وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَ‌ٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ-وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ-وَقَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ-أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ-أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ- قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
اورجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا الله کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تمہیں فرعون کی قوم سے چھڑا یا وہ تمہیں برا عذاب چکھاتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اسمیں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی- اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے- اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور جو لوگ زمین میں ہیں سارے کفر کرو گے تو الله بے پروا تعریف کیا ہوا ہے- کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جوتم سے پہلے تھے نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اورجو ان کے بعد ہوئے الله کےسوا جنہیں کوئی نہیں جانتا ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے پھرانہوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لوٹائے اور کہا ہم نہیں مانتے جو تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے اور جس دین کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہمیں تو اس میں بڑا شک ہے- ان کے رسولوں نے کہا کیا تمہیں الله میں شک ہے جس نے آسمان او زمین بنائے وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے کچھ گناہ بخشے اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دے انہوں نے کہا تم بھی تو ہمارے جیسے انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان چیزوں سے روک دو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے رہے سو کوئی کھلا ہوامعجزہ لاؤ- سورة ابراهيم, -سوره ١٤، آیت ٦-١٠

٣- نیچے بیان کی گئی سورة النحل کی آیات میں اللہ تعالیٰ مشرکین مکہ سے مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم لوگ نہیں جانتے تو "أَهْلَ الذِّكْرِ" یعنی "اہل کتاب" یا ان کے "اہلِ علم " سے پوچھ لو -کسی طور پر یہاں بھی شیعہ کے خیالی اماموں سے پوچھنے کا نہیں کہا گیا -کیونکہ مشرکین مکہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا انکار کر رہے تھے لہذا یہ نہیں کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ یا حضرت علی رضي الله عنه سے پوچھ لو


(Qur'an 16:43-44) وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ-بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اور ہم نے تم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو- اور ہم نے تجھ سے پہلے بھی تو انسان ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے سو اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو- سورة النحل,سوره ١٦، آیات نمبر ٤٣-٤٤

(قرآن 17: 101) ، (قرآن 14: 6-10) اور (قرآن 16: 43-44) میں ایک چیز مشترک ہے۔ یعنی "گزرے ہوۓ رسولوں" کے بارے میں پوچھو ۔ (قرآن 17: 101) میں کہا کہ بنی اسرائیل سے پوچھ لو اور لفظ "فَاسْأَل" استعمال ہوا ہے جس کے معنی "تو پوچھو" ہیں ، (قرآن 14: 6-10) کہا کہ اپنی قوم سے پوچھو اور "اذْكُرُوا" کے لفظ کا استعمال کیا ہے یعنی "تم یاد کرو" "، (قرآن 16: 43-44) میں کہا " فَاسْأَلُوا َْهْلَ الذِّكْرِ "جس کا مطلب ہے" اہل کتاب سے پوچھ لو "۔

اگر تینوں آیات کا "گزرے ہوۓ رسولوں" کے تناظر میں خلاصہ کیا جاۓ تو یہ بنتا ہے کہ تم اللہ کے گزرے ہوۓ رسولوں کے بارے میں "اپنے" اہل علم میں سے ان سے پوچھو جو کہ ان تاریخی واقعات کے بارے میں جانتے ہیں وہ بنی اسرائیل بھی ہیں، وہ اہل کتاب بھی ہیں اور وہ بھی ہیں جنہیں یہ باتیں یاد ہیں جو ان تک دوسروں سے پہنچیں- یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان تینوں آیات میں ان لوگوں کو مخاطب کر کے پوچھنے کا کہا جا رہا ہے کہ جو ابھی رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لاۓ تھے. ورنہ کہہ دیا جاتا کہ اپنے نبی ﷺ سے پوچھ لو۔
ہ

اس تمہید کے ساتھ ان آیات کی جانب بڑھتے ہیں جن سے آپ اپنا باطل عقیدہ امامت ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں- وہ آیات یہ ہیں:
ہ


(Qur'an 21:1-7) اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ- مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ- لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ- قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ- بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ- مَا آمَنَتْ قَبْلَهُم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا ۖ أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ- وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۖ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیر رہے ہیں- ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی مگر وہ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں- ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ظالم لوگ (آپس میں) چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں کہ یہ (شخص کچھ بھی) نہیں مگر تمہارے جیسا آدمی ہے۔ تو تم آنکھوں دیکھتے جادو (کی لپیٹ) میں کیوں آتے ہو- (پیغمبر نے) کہا کہ جو بات آسمان اور زمین میں (کہی جاتی) ہے میرا پروردگار اسے جانتا ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے- بلکہ (ظالم) کہنے لگے کہ (یہ قرآن) پریشان (باتیں ہیں جو) خواب (میں دیکھ لی) ہیں۔ (نہیں) بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے (نہیں) بلکہ (یہ شعر ہے جو اس) شاعر (کا نتیجہٴ طبع) ہے۔ تو جیسے پہلے (پیغمبر نشانیاں دے کر) بھیجے گئے تھے (اسی طرح) یہ بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لائے- ان سے پہلے جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا وہ ایمان نہیں لاتی تھیں۔ تو کیا یہ ایمان لے آئیں گے- اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو- سورة الأنبياء, سوره ٢١، آیات ١-٧

اوپر سوره الانبیا، آیات 1 - 7 میں بھی وہی بات مشترک ہے جو اوپر کی تین آیات میں تمہید کے طور پر بیان کی گئی تھیں یعنی مخاطب غیر مسلم ہیں اور دوسرا ان سے اپنے ہی لوگوں میں سے ان سے اللہ کے رسولوں کے بارے میں پوچھنے کا کہا جا رہا ہے جو پچھلی قوموں پر آۓ تھے ۔ اور کہا گیا اگر تم نہیں جانتے تو ان سے "اپنے ہی لوگوں میں سے" پوچھ لو ، جو (ان واقعیات کو جانتے ہیں ) یاد رکھتے ہیں - ظاہر ہے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ محمّد ﷺ، جو ان کے درمیان موجود تھے، سے پوچھ لو - شیعہ کے خیالی اماموں سے پوچھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

اگر یہ کہا جاۓ کہ قرآن کی آیات ابدی ہیں تو زیادہ سے زیادہ اس سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آج بھی اگر اہل کتاب کو تبلیغ کرنا مقصود ہو تو ان سے بھی کہا جا سکتا ہے جنھیں اللہ گزرے ہوۓ رسولوں کے واقعات کے بارے میں معلوم نہیں وہ "اپنے ہی" اہل علم سے پوچھ لیں-اور اس فہم سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
ہ

(واللہ أعلم)
 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
شریعت کے اصول کیوں کہ فطرت کے قریب ہیں، لہذا اصولا اس پر عمل کرنے والے کی صحت اچھی ہونی چاہئے، مگر ہر کیس میں ہونا ضروری بھی نہیں۔مثال کے طور پر ایتھلیٹس، فوجی اور فٹ بالروں کی صحت اور عمر دوسروں کے مقابلے میں اچھی ہونی چاہئے، مگر کتنی ہی مثالیں ایسی ہیں کہ ان گروہ کے لوگ جوانی میں ہی چل بسے۔
آپ کو کیا معلوم شریعت کے اصولوں کا ؟
اسی لئے آپ نے کھلاڑیوں کی مثالیں دیں
اب سنیں
شریت موت تک علم حاصل کرنے کی تلقین ہے اور کھلاڑی اس پر عمل نہیں کرتے لہٰذا ان کا دماغ کمزور ہوتا جاتا ہے
اس لئے
یہ کہنا غلط ہے کہ شریعت پر عمل کرنا اچھی صحت کا ضامن نہیں
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)


چلیں، آپ کو ایک نئے اور مزید آسان انداز سے سا ری بات دوبارہ سمجھا دیتے ہیں- امید ہے کہ اللہ آپ کو اور ہمیں ہدایت دے گا- آمین
١- نیچے بیان کی گئی سورة الإسراء کی آیت میں مخاطب مشرکین مکہ ہیں اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ بنی اسرائیل سے حضرت موسیٰ عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ کی نو کھلی نشانیوں کے بارے میں پوچھو- غور طلب بات ہے لفظ "فَاسْأَلْ" یعنی "تو پوچھو" استمعال ہوا ہے، کس سے پوچھو؟ بنی اسرائیل سے پوچھو ، نہ کہ شیعوں کے خیالی اماموں سے پوچھو

(Qur'an 17:101) وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا
اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دی تھیں پھر بھی بنی اسرائیل سےبھی پوچھ لو جب موسیٰ ان کے پاس آئے تو فرعون نے اسے کہا اے موسیٰ میں تو تجھے جادو کیا ہوا خیال کرتا ہوں- سورة الإسراء, سوره ١٧، آیت ١٠١

٢- نیچے بیان کی گئی سورة ابراهيم کی آیات میں مشرکین مکہ کو مخاطب کر کے لفظ "اذْكُرُوا" یعنی "تم یاد کرو" استمعال کیا گیا ہے- کسی طور پر یہاں بھی شیعہ کے خیالی اماموں سے پوچھنے کا نہیں کہا گیا -کیونکہ مشرکین مکہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا انکار کر رہے تھے لہذا یہ نہیں کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ یا حضرت علی رضي الله عنه سے پوچھ لو- یہاں اگر کوئی لفظ "اذْكُرُوا" سے اپنی خیالی امام ثابت کرنے کی کوشش کرے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے

(Qur'an 14:6-10) وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَ‌ٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ-وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ-وَقَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ-أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ-أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ- قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
اورجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا الله کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تمہیں فرعون کی قوم سے چھڑا یا وہ تمہیں برا عذاب چکھاتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اسمیں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی- اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے- اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور جو لوگ زمین میں ہیں سارے کفر کرو گے تو الله بے پروا تعریف کیا ہوا ہے- کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جوتم سے پہلے تھے نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اورجو ان کے بعد ہوئے الله کےسوا جنہیں کوئی نہیں جانتا ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے پھرانہوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لوٹائے اور کہا ہم نہیں مانتے جو تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے اور جس دین کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہمیں تو اس میں بڑا شک ہے- ان کے رسولوں نے کہا کیا تمہیں الله میں شک ہے جس نے آسمان او زمین بنائے وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے کچھ گناہ بخشے اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دے انہوں نے کہا تم بھی تو ہمارے جیسے انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان چیزوں سے روک دو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے رہے سو کوئی کھلا ہوامعجزہ لاؤ- سورة ابراهيم, -سوره ١٤، آیت ٦-١٠

٣- نیچے بیان کی گئی سورة النحل کی آیات میں اللہ تعالیٰ مشرکین مکہ سے مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم لوگ نہیں جانتے تو "أَهْلَ الذِّكْرِ" یعنی "اہل کتاب" یا ان کے "اہلِ علم " سے پوچھ لو -کسی طور پر یہاں بھی شیعہ کے خیالی اماموں سے پوچھنے کا نہیں کہا گیا -کیونکہ مشرکین مکہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا انکار کر رہے تھے لہذا یہ نہیں کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ یا حضرت علی رضي الله عنه سے پوچھ لو


(Qur'an 16:43-44) وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ-بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اور ہم نے تم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو- اور ہم نے تجھ سے پہلے بھی تو انسان ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے سو اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو- سورة النحل,سوره ١٦، آیات نمبر ٤٣-٤٤

(قرآن 17: 101) ، (قرآن 14: 6-10) اور (قرآن 16: 43-44) میں ایک چیز مشترک ہے۔ یعنی "گزرے ہوۓ رسولوں" کے بارے میں پوچھو ۔ (قرآن 17: 101) میں کہا کہ بنی اسرائیل سے پوچھ لو اور لفظ "فَاسْأَل" استعمال ہوا ہے جس کے معنی "تو پوچھو" ہیں ، (قرآن 14: 6-10) کہا کہ اپنی قوم سے پوچھو اور "اذْكُرُوا" کے لفظ کا استعمال کیا ہے یعنی "تم یاد کرو" "، (قرآن 16: 43-44) میں کہا " فَاسْأَلُوا َْهْلَ الذِّكْرِ "جس کا مطلب ہے" اہل کتاب سے پوچھ لو "۔

اگر تینوں آیات کا "گزرے ہوۓ رسولوں" کے تناظر میں خلاصہ کیا جاۓ تو یہ بنتا ہے کہ تم اللہ کے گزرے ہوۓ رسولوں کے بارے میں "اپنے" اہل علم میں سے ان سے پوچھو جو کہ ان تاریخی واقعات کے بارے میں جانتے ہیں وہ بنی اسرائیل بھی ہیں، وہ اہل کتاب بھی ہیں اور وہ بھی ہیں جنہیں یہ باتیں یاد ہیں جو ان تک دوسروں سے پہنچیں- یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان تینوں آیات میں ان لوگوں کو مخاطب کر کے پوچھنے کا کہا جا رہا ہے کہ جو ابھی رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لاۓ تھے. ورنہ کہہ دیا جاتا کہ اپنے نبی ﷺ سے پوچھ لو۔
ہ

اس تمہید کے ساتھ ان آیات کی جانب بڑھتے ہیں جن سے آپ اپنا باطل عقیدہ امامت ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں- وہ آیات یہ ہیں:
ہ


(Qur'an 21:1-7) اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ- مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ- لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ- قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ- بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ- مَا آمَنَتْ قَبْلَهُم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا ۖ أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ- وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۖ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیر رہے ہیں- ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی مگر وہ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں- ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ظالم لوگ (آپس میں) چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں کہ یہ (شخص کچھ بھی) نہیں مگر تمہارے جیسا آدمی ہے۔ تو تم آنکھوں دیکھتے جادو (کی لپیٹ) میں کیوں آتے ہو- (پیغمبر نے) کہا کہ جو بات آسمان اور زمین میں (کہی جاتی) ہے میرا پروردگار اسے جانتا ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے- بلکہ (ظالم) کہنے لگے کہ (یہ قرآن) پریشان (باتیں ہیں جو) خواب (میں دیکھ لی) ہیں۔ (نہیں) بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے (نہیں) بلکہ (یہ شعر ہے جو اس) شاعر (کا نتیجہٴ طبع) ہے۔ تو جیسے پہلے (پیغمبر نشانیاں دے کر) بھیجے گئے تھے (اسی طرح) یہ بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لائے- ان سے پہلے جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا وہ ایمان نہیں لاتی تھیں۔ تو کیا یہ ایمان لے آئیں گے- اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو- سورة الأنبياء, سوره ٢١، آیات ١-٧

اوپر سوره الانبیا، آیات 1 - 7 میں بھی وہی بات مشترک ہے جو اوپر کی تین آیات میں تمہید کے طور پر بیان کی گئی تھیں یعنی مخاطب غیر مسلم ہیں اور دوسرا ان سے اپنے ہی لوگوں میں سے ان سے اللہ کے رسولوں کے بارے میں پوچھنے کا کہا جا رہا ہے جو پچھلی قوموں پر آۓ تھے ۔ اور کہا گیا اگر تم نہیں جانتے تو ان سے "اپنے ہی لوگوں میں سے" پوچھ لو ، جو (ان واقعیات کو جانتے ہیں ) یاد رکھتے ہیں - ظاہر ہے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ محمّد ﷺ، جو ان کے درمیان موجود تھے، سے پوچھ لو - شیعہ کے خیالی اماموں سے پوچھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

اگر یہ کہا جاۓ کہ قرآن کی آیات ابدی ہیں تو زیادہ سے زیادہ اس سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آج بھی اگر اہل کتاب کو تبلیغ کرنا مقصود ہو تو ان سے بھی کہا جا سکتا ہے جنھیں اللہ گزرے ہوۓ رسولوں کے واقعات کے بارے میں معلوم نہیں وہ "اپنے ہی" اہل علم سے پوچھ لیں-اور اس فہم سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
ہ

(واللہ أعلم)
اتنی لمبی پوسٹ سے پتہ نہیں چلتا کہ کس کا جواب دینا ہے کس کا نہیں
آپ کی پوسٹ میں سابقہ دعوے بھی ہوتے ہیں ، اعلان فتح بھی ہوتا ہے اور ادھر ادھر کی باتیں بھی ہوتی ہیں
لہٰذا میرے لئے سمجھنا ناممکن ہو جاتا ہے
کوشش کریں کہ مختصر پوسٹ لکھیں
جس طرح میں بحث کے دوران سادہ سا سوال کرتا ہوں
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)

اتنی لمبی پوسٹ سے پتہ نہیں چلتا کہ کس کا جواب دینا ہے کس کا نہیں
آپ کی پوسٹ میں سابقہ دعوے بھی ہوتے ہیں ، اعلان فتح بھی ہوتا ہے اور ادھر ادھر کی باتیں بھی ہوتی ہیں
لہٰذا میرے لئے سمجھنا ناممکن ہو جاتا ہے
کوشش کریں کہ مختصر پوسٹ لکھیں
جس طرح میں بحث کے دوران سادہ سا سوال کرتا ہوں
چلیں، آپ کو وارم اپ کرنے کے لئے ایک ویڈیو ہے - زیادہ لمبی نہیں دو منٹ سے کچھ اوپر ہے - کوئی کوممنٹس ہوں تو ضرور نوازئیے گا

 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
چلیں، آپ کو وارم اپ کرنے کے لئے ایک ویڈیو ہے - زیادہ لمبی نہیں دو منٹ سے کچھ اوپر ہے - کوئی کوممنٹس ہوں تو ضرور نوازئیے گا

یہ تو الگ موضوع ہے کل اس پر تھریڈ بھی بنا تھا اور ایڈمن نے ہمارا جواب آنے سے پہلے تھریڈ بند کر دیا تھا
میں ماتم کے حق میں بیسیوں عقلی دلائل پیش کر سکتا ہوں ، لیکن تھریڈ بنایا تو فورا ڈیلیٹ ہو جائے گا اس لئے صبر کر رہا ہوں
آپ پچھلا موضوع مکمل کریں میں کلی طور پر وارم اپ ہوں. الحمد الله
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)

یہ تو الگ موضوع ہے کل اس پر تھریڈ بھی بنا تھا اور ایڈمن نے ہمارا جواب آنے سے پہلے تھریڈ بند کر دیا تھا
میں ماتم کے حق میں بیسیوں عقلی دلائل پیش کر سکتا ہوں ، لیکن تھریڈ بنایا تو فورا ڈیلیٹ ہو جائے گا اس لئے صبر کر رہا ہوں
آپ پچھلا موضوع مکمل کریں میں کلی طور پر وارم اپ ہوں. الحمد الله
بات ماتم کی نہیں بلکہ آپ کے آیت اللہ صاحب تو کہہ رہے ہیں کہ تلواروں سے سر میں سے خون نکالنا خلاف اسلام ہے اور اس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں- اگر دو بول لکھ دیں تو مہربانی ہوگی
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
بات ماتم کی نہیں بلکہ آپ کے آیت اللہ صاحب تو کہہ رہے ہیں کہ تلواروں سے سر میں سے خون نکالنا خلاف اسلام ہے اور اس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں- اگر دو بول لکھ دیں تو مہربانی ہوگی
یعنی موضوع بدل دیا جائے
ٹھیک ہے
. . . . . .
مسلمان کو جنگ کے لئے تیار رہنا چاہیے
ذہنی طور پر
جسمانی طور پر
جسمانی طور پر تیار رہنے کے لئے جسم کو سخت مشقت کا عادی ہونا چاہیے
اور
دشمن کے وار سہنے کا بھی عادی ہونا چاہیے .تاکہ میدان جنگ میں بندہ زخمی ہو کر ہمت نہ ہار بیٹھے
لہٰذا
ماتم کے ساتھ اپنے آپ کو شدید صدمے ، زخمی حالت کے لئے تیار کیجئے
 
Last edited: