پاکستان: برطانوی پولیس افسر کے مبینہ قاتل کو کیسے پکڑا گیا؟

Spartacus

Chief Minister (5k+ posts)
_110536250_gettyimages-56237373.jpg

وزارت داخلہ نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو کہا ہے کہ وہ برطانوی خاتون پولیس افسر کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث پاکستانی نژاد برطانوی شہری پیراں دتہ خان کو برطانیہ کے حوالے کرنے سے متعلق معاملات کا جائزہ لے۔

ملزم پیراں دتہ کو بدھ کے روز اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اسلام آباد کے نواحی علاقے میں پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ مکان کی تلاش میں موٹر سائیکل پر جارہے تھے۔

پراپرٹی ڈیلر ظہور الٰہی کے مطابق جب وہ پیراں دتہ کو ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر دکھانے لے جا رہے تھے تو اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار وہاں پر آئے اور انھیں قابو کرنے کے بعد اپنے ساتھ لے گئے۔

واضح رہے کہ حراست میں لیے جانے کے بعد ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا ہے اور اُنھیں 29 جنوری کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

برطانیہ میں قتل کے مقدمے میں اشتہاری قرار دیے جانے والے ملزم پیراں دتہ کے وکیل راؤ شہر یار کا کہنا ہے کہ ان کے موکل مصطفیٰ کے نام سے جانے جاتے تھے۔

اُنھوں نے کہا کہ گرفتاری سے پہلے اُنھوں نے کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ کسی خاتون کے قتل کے مقدمے میں اشتہاری ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ پیراں دتہ کا خاندان برطانیہ میں ہی مقیم ہے اور وہ پاکستان آنے کے بعد پراپرٹی کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے

راؤ شہریار کا کہنا تھا کہ ان کے بچے بھی برطانیہ سے انھیں خرچہ بھجواتے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ برطانیہ کی نیشل کرائم ایجنسی نے خاتون پولیس اہلکار کے قتل کے مقدمے میں اشتہاری قرار دیے جانے والے پیراں دتہ کی گرفتاری کے لیے 20 ہزار برطانوی پاونڈ انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔

پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلوں کا کوئی معائدہ موجود نہیں ہے تاہم ماضی میں پاکستان متعدد افراد کو برطانیہ کے حوالے کرتا رہا ہے جو مختلف مقدمات میں برطانیہ میں مطلوب تھے۔

پیراں دتہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کی حوالگی کا معاملہ عدالتوں میں زیر سماعت ہونے کے بعد عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہی برطانیہ کے حوالے کیا جائے گا۔

پیراں دتہ پر الزام کیا ہے؟
ویسٹ یارکشائر پولیس سے تعلق رکھنے والی افسر شیرن بشنوسکی کو ایک ڈکیتی کے دوران گولی مار دی گئی تھی اور خیال کیا جا رہا ہے کہ پیراں دتہ خان مبینہ طور پر ڈکیتی کرنے والے اس گروہ کے لیڈر تھے۔

یہ واقعہ بریڈفورڈ میں 18 نومبر سنہ 2005 کو پیش آیا تھا۔

پولیس افسر شیرن بشنوسکی کی عمر اس وقت 38 برس تھی اور انھیں پولیس میں بھرتی ہوئے صرف نو ماہ ہوئے تھے۔ جس دن ان کی چھاتی میں گولی لگی اس دن ان کی چھوٹی بیٹی لیڈیا کی چوتھی سالگرہ تھی۔

ان کی ساتھی پولیس افسر ٹریزا ملبرن کو بھی اس واقعے میں گولی لگی تھی لیکن وہ بچ گئی تھیں۔

 
Last edited by a moderator:

ranaji

President (40k+ posts)
حکومت پاکستان کے واسطے موقع اچھا ہے اسی کیس کو بنیاد بنا کر مجرمو ں کے تبادلے کا معاہدہ کر لے تاکہ جو حرام زادے خنزیر کے نطفے کنجر نسلکے چور لٹیرے اور مجرم یہاں بیٹھے ہیں ان حرام زادوں خنزیروں کو پاکستان بلا کر ان سے لوٹ مار کا پیسہ نکلوایا جائے اور قاتلوں کو بھی بلا کر سزا دلائی جا سکے