وبالوالدين إحسانا | Fathers Day

tariisb

Chief Minister (5k+ posts)


happy-fathers-day-2016-94.png



وبالوالدين إحسانا

گھر رات بہت دیر سے پہنچا ، آپ کی دادی نے کہا ، آج بہت دیر کر دی ،آٹا بلکل ختم ہے ،مکئی کے دانوں کا تھیلہ پہلے سے بندھا پڑا تھا ،میں وہ لے کر چل پڑا ، ہم لوگ بازار سے آٹا نہیں خرید پاتے ، ایک تو غربت ، دوسرا اس وقت یہ رواج بھی نا تھا ، اپنی زمین کاشت کرتے ، اور جو فصل ہوتی وہی سارا سال ہمارا پیٹ بھرتی رہتی ، آٹا پسوانے کے لیے ، پانی کے بڑے نالے کے ساتھ ایک چکی ہوتی تھی ، آبادی سے بہت دور ، پہاڑ کے آخر بلکل آخر میں ، پانی کی اس چکی کو مقامی زبان میں "جندر" کہتے ہیں ، پانی کے بہاؤ سے چکی کے پاٹ چلتے رہتے ، آٹا پستا جاتا ، آٹا پسوانے کے بعد ، ہر کوئی اپنے آٹے کا ایک حصہ ، چکی کے مالک کو دے دیتا ، یہی اس کی اجرت ہوتی تھی ، روپیہ ، پیسہ نہیں ہم ان سے اتنا واقف نا ہوے تھے ، قریب ایک گھنٹے کا پیدل سفر ، اترائی کی جانب ، ذرا ہی فاصلے پر سے جنگل شروع ہو جاتا تھا تھا ، گھپ اندھیرا ، سناٹا ، اورساتھ ساتھ چلتا ، شرارتیں کرتا خوف ، میں جندر تک پہنچ گیا ، اتنے وقت میں موسم بھی خراب ہونا شروع ہو گیا ، بادل ، بجلی ، تیز ہوا ، جلدی سے نالہ پار کیا ، جندر بند تھا ، میں اسے چلانا جانتا تھا ، جلدی جلدی تھیلے سے دانے نکالتا ، پیستا جاتا ، آخر آٹا تیار تھا ، تھیلہ پھر سے تیار کیا ، کندھے پر لاد لیا ، لیکن ؟ لیکن ؟ جندر کا مالک تو موجود نہیں ، اس کا حصہ بھی تو دینا ہے ، مالک کا گھر قریب ہی تھا ، میں تھیلا اٹھاے اس کے گھر کی طرف چل پڑا ، کافی رات بیت چکی تھی ، اور بارش بھی شروع ، گھر کے دروازے پر پہنچ کر ، لوہے کی زنجیر سے کھٹکھٹایا ، اندر سے سوال ہوا ، میں نے جواب دیا ، دروازہ کھلا ، بوڑھا مالک آنکھیں ملتا سامنے کھڑا تھا ، میں نے چکی سے آٹا پیسا ہے ، آپ کا حصہ دینے آیا ہوں ، بوڑھے مالک نے مجھے غور سے دیکھا ، شکریہ یا شکوہ معلوم نہیں اس کے چہرے پر کیا لکھا تھا ، اس نے مجھے جلدی جلدی نالہ پار کر جانے کو کہا ، بارش جاری تھی ، پانی کسی بھی وقت چڑھ سکتا تھا ، پھر ؟ پار جانا بہت مشکل ہو گا ، جلدی کرو ، شاباش بیٹا ، جلدی کرو ، دیر مت کرنا ، ماں دیکھتی ہو گی ، میں وہاں سے نکل آیا ، آدھی رات روٹی بنی ، کھا پی ، کر الله کا لاکھ لاکھ شکر کیا

ہم بچپن میں ، ان دنوں زیادہ دیر تک ، رات گئے پڑھا کرتے تھے ، جب چاند مکمل ہوتا تھا ، چودھویں کی رات تو ہماری پڑھائی کی رات ہوا کرتی تھی ، چاند کی روشنی ہمارے لیے " دیا ، بلب ، نور" سب کچھ تھی ، گھر میں لالٹین کے لیے تیل خریدنا محال تھا ، اسی لیے خدا کی دی ہوئی روشنی کو ضائع نہیں کیا کرتے تھے ، خوب دل لگا کر پڑھتے ، محنت کرتے ، مشقت کرتے ، ساتھ ساتھ پڑھتے رہتے ، جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کرنا ، گٹھا بنا کر ، شہر لے جانا ، فروخت کرنا ، یہ روز کا معمول ہوا کرتا تھا ، لکڑیاں فروخت کر کے ، سکول بھی پہنچنا ہوتا تھا ، اکثر صبح شہر میں جا کر ہوتی ، وہیں سے سکول کی طرف چلے جاتے ، سکول سے واپسی پر مزید کسی مزدوری کو تلاش کرتے ، کبھی ملتی ، کبھی نا ملتی ، شام یا پھر رات گیے گھر لوٹنا ہوتا

رمضان ، رمضان آج بھی ہے ، رمضان تب بھی ہوتا تھا ، ایک بار سہ پہر ، پیسوں کی ضرورت تھی ، لکڑیوں کا گٹھا تیار کیا ، شہر کی طرف چل پڑا ، پیٹ روزہ ، دل مظبوط ، سر پر بوجھ ، چل پڑا ، شہر کے دائیں جانب "کینٹ" کا علاقہ تھا ، امیر گھرانے چند ہی ہوا کرتے تھے ، ایک ہندو فیملی کو وہ بوجھ فروخت کیا ، چند آنے ، ٹکے ہاتھ پر آ گرے ، باہر نکلا تو ، اذان مغرب ، وقت افطار ہو گیا ، ذرا فاصلے پر بیٹھ گیا ، کھانے کو کچھ نہیں ، پینے کو بھی کچھ نہیں ، ارے نہیں ، نظر دوڑائی تو الله کی دی ہوئی سفید سفید برف جگہ جگہ جمی ، پڑی تھی ، میں نے وہیں سے برف لی ، برف سے روزہ افطار کیا ، الله کی ذات کتنی عظیم ہے ، جس نے مجھے بھوکا نا چھوڑا ، برف کھاتے ہوے ، ذات عظیم کا شکر کیا ، اسی اثنا میں ہندو گھرانے کی ایک خاتون باہر آچکی تھی ، اس کے ہاتھ کھانا تھا ، جن کو مالک سمجھ کر سامان فروخت کیا ، الله نے انہیں میری خدمت پر لگا دیا ، سیر ہو کر کھانا کھایا ، خاتون ، باقی گھرانے کے افراد کا شکریہ ادا کیا ، پھر گھر کی طرف چل پڑا
___________________________________________________

پھر وقت گزرتا گیا ، قسمت نے سفر بتا دیا ، کراچی کی طرف آ گیا ؟ کراچی بلکہ ؟ پاکستان کی سب سے طویل قامت عمارت کے ایک فلور پر ، ایک بڑے مالیاتی ادارے میں ، اعلی عہدے تک پہنچ چکا تھا ، محنت نے کبھی مایوس نا کیا ، مشقت نے کبھی پریشان نا کیا ، غربت نے ایک شاندار مقام پر آن پہنچایا ، اسی لیے کبھی تکبر کو پاس بھی نا پھٹکنے دیا ، ہمیشہ عاجزی کو اختیار کیا ، بس نصیحتیں باندھ لو ، کبھی نا شکری نا کرنا ، مشقت سے نا شرمانا ، الله کا شکر ہر حال میں ادا کرنا ، خیانت کبھی نا کرنا ، کم از کم پر جینا سیکھو ، کبھی رزق حرام کی ضرورت محسوس نا ہو گی ، بازار سے کھانا پینا ، مجبوری کے سوا نا کرنا ، ایک ناشتہ اور ایک کھانا روز کا یہی معمول رکھو ، سوال مت کرنا ، سوال کرنے سے انسان کمزور ہو جاتا ہے ، اپنے کام خود کرنا ، وقت ؟ ہاں وقت سب سے بڑی دولت ہے ، اس کی ہمیشہ قدر کرنا ، رشتہ دار ، ضرورت مند و مساکین کی مدد میں کنجوسی نہیں کرنا ، دوسروں کی مدد کر کے حقیقی خوشی محسوس کرو گے ، لباس اجلا پہننا ، اپنے جوتے خود پالش کیا کرنا ، گھر کے کام کرنے میں کبھی عار نا محسوس کرنا ، یہ سنت نبوی ، شیوہ پیغمبری ہے
_____________________________________________________________

آج عزت مآب جناب والد محترم کے تمام احسانات لوٹانا چاہتا ہوں ، مگر موقع ہی نہیں دیتے ، طبیعت کیسی ہے ؟ جواب ملتا ہے الله کا شکر ہے ، ٹھیک ہوں ، پیسے ہیں آپ کے پاس ؟ یہ لیجئے ، رکھ لیں ، جواب ملتا ہے ، نہیں بیٹا ، مجھے نہیں ضرورت ، آپ کی زمہ داریاں زیادہ ہیں ، آپ پاس رکھو ، کام آئیں گے ، ریٹائرمنٹ کا وقت آیا ، گھر بیٹھنے کو راضی نا تھے ، نہیں ، بیکار سے بیگار اچھا ، فارغ رہنا اچھی بات نہیں ، بڑی مشکل سے قائل کیا ، اب آپ آرام کریں ، میں ہوں نا ، ریٹائرمنٹ کے تھوڑے عرصے بعد ، پاس بٹھایا ، تمام اکاؤنٹس ، حساب میرے حوالے کر دیا ، وجہ یہ بتائی ؟ یہ سب آپ سنبھالو ، آبائی زمین ، متفرق اثاثے اور پلاٹس ، سب آپ کے نام کروا دیتا ہوں ، یہ اب آپ کے کام کی چیزیں ہیں ، میری نہیں ، آپ کی ہیں ، میری توجہ صرف عبادت پر ہے ، فضول خرچی نا کرنا ، اسراف کبھی نا کرنا ، بھوکا بھی سونا پڑے تو ، الله کا لاکھ لاکھ شکر ادا کئیے بغیر نا سونا ، نماز کبھی نا قضا کرنا ، روز ایک سپارہ ضرور پڑھنا ، زمانے کی تلخیوں کو نظر انداز کر دیا کرو ، جہاں جھگڑا کا امکان ہو ، رکنا مت ، وہاں سے سر جھکا کر ، مطمئن قلب کی طرح گزر جایا کرو ، مصنوعی زندگی سے بچنا ، جو ہو وہی دکھنا ، جو نہیں ہو وہ اس کا اظہار مت کرنا ، ریا کاری ایک مصیبت ہے ، جب اس کا شکار ہو گے زندگی بے چین ہو جاۓ گی
_______________________________________________________

الله پاک سے دعا ہے ، میرے والد محترم کو ہر تنگی ، ہر تکلیف ، ہر بیماری سے محفوظ رکھ ، آمین ،
جنہوں نے ہمارے لیے تمام عمر مشقت کی ، ہماری بہترین پرورش کی ، ہمیں ان کی خدمت کا بہت سا وقت عطا ہو ،
حق ادا کرنے کی توفیق ملے ، اف تک کہنے کا امکان نا ہو ، والدین کی ہمارے لیے ہر دعا قبول ہو ، (آمین)

8351115658_eed14c2190_b.jpg




 

Aphlah

Banned

آپ کے ابو بہت اچھے انسان ہیں
حضرت نوح علیہ السلام کی طرح
اللہ ان کی منزل آسان فرمائے
 
Last edited:

Atif

Chief Minister (5k+ posts)
ترجمانی کا شکریہ مرشد، آپ ہمیشہ آگے بڑھ جاتے ہیں اور میں بس ارادے ہی باندھتا رہ جاتا ہوں

اللہ تعالیٰ آپکے والد محترم کو زندگی اور صحت عطا فرمائے ۔ اس نعمت کا سایہ آپ کے سر پر سلامت رکھے۔ آمین

جن کے والد اس دنیا میں نہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جن کی زندگیاں اس نعمت سے خالی نہیں ہوئیں انہیں اپنے والد کی خدمت اور فرمانبرداری کی توفیق عطا فرمائے۔

دل چاہتا ہے باپ کے مقام پر بہت کچھ لکھوں لیکن ہمیشہ لفظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، بس لفظ بہتے چلے جاتے ہیں کاغذ پر نہیں اتر پاتے۔ ہاتھوں کی لرزش آنکھوں کی نمی لکھنے ہی نہیں دیتی ، حق ادا نہیں ہوپاتا۔ حق ادا ہوبھی نہیں سکتا چاہے کندھوں پر بٹھا حج کرادیا جائے ۔

یقین ہی نہیں آتا کہ جس ہاتھ کو تھام کر تحفظ کا احساس جانا وہ مضبوط ہاتھ اب مٹی کا ڈھیر ہے۔ اب پیشانی محروم ہے اس پیار کے لمس سے جو روح تک سکون بھر دیا کرتا تھا۔ آئی مِس یو ابو جی
۔​
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
شاید سب کے باپ ایسے ہی ہوتے ہیں ...ایک روشنی کے مینار کی طرح ..جن کے پاس ہمارے ہر مسلے کا حل موجود ہوتا ہے ..جن کو ہر بات معلوم ہوتی ہے ..جو پوچھنا ہے ..والد صاحب سے پوچھ لیں ..ہمیشہ تسلی بخش جواب ملے گا ..
 

Annie

Moderator
دنیا میں ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں جو ہمارے دوست بنتے ہیں کچھ خیر خواہ ہوتے ہیں ... لیکن اس دنیا میں ہمارا درد محسوس کرنے والے صرف ہمارے والدین ہی ہوتے ہیں ...جو محبت ، تڑپ اور بے چینی والدین اپنی اولاد کے لیے رکھتے ہیں وہ اس دنیا کا کوئی فرد ہمارے لیے نہیں رکھ سکتا ..اسی لیے تو والدین اولاد کے لیے سایہ ہیں ...نعمت ہیں .جو گرمی سردی سے اپنی اولاد کو محفوظ رکھتے ہیں ... اور ہمارے لیے ہمیشہ اچھا ہی چاہتے ہیں
 

tariisb

Chief Minister (5k+ posts)
ترجمانی کا شکریہ مرشد، آپ ہمیشہ آگے بڑھ جاتے ہیں اور میں بس ارادے ہی باندھتا رہ جاتا ہوں

اللہ تعالیٰ آپکے والد محترم کو زندگی اور صحت عطا فرمائے ۔ اس نعمت کا سایہ آپ کے سر پر سلامت رکھے۔ آمین

جن کے والد اس دنیا میں نہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جن کی زندگیاں اس نعمت سے خالی نہیں ہوئیں انہیں اپنے والد کی خدمت اور فرمانبرداری کی توفیق عطا فرمائے۔

دل چاہتا ہے باپ کے مقام پر بہت کچھ لکھوں لیکن ہمیشہ لفظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، بس لفظ بہتے چلے جاتے ہیں کاغذ پر نہیں اتر پاتے۔ ہاتھوں کی لرزش آنکھوں کی نمی لکھنے ہی نہیں دیتی ، حق ادا نہیں ہوپاتا۔ حق ادا ہوبھی نہیں سکتا چاہے کندھوں پر بٹھا حج کرادیا جائے ۔

یقین ہی نہیں آتا کہ جس ہاتھ کو تھام کر تحفظ کا احساس جانا وہ مضبوط ہاتھ اب مٹی کا ڈھیر ہے۔ اب پیشانی محروم ہے اس پیار کے لمس سے جو روح تک سکون بھر دیا کرتا تھا۔ آئی مِس یو ابو جی
۔​

AAmeeeeennnnnnnnnnnnnn..................:jazak:

یہ حق ہی ایسا جو کبھی ادا ہو ہی نہیں پاتا ، یہ رشتہ ہی ایسا ، اس جیسا کوئی ہو ہی نہیں سکتا

shof_585ef23580a8f77.jpg


ebb2f8787c62d3d0b228d6d96300eb0f.jpg


father-and-son-relationship-quotes.jpg
 
Last edited:

tariisb

Chief Minister (5k+ posts)
شاید سب کے باپ ایسے ہی ہوتے ہیں ...ایک روشنی کے مینار کی طرح ..جن کے پاس ہمارے ہر مسلے کا حل موجود ہوتا ہے ..جن کو ہر بات معلوم ہوتی ہے ..جو پوچھنا ہے ..والد صاحب سے پوچھ لیں ..ہمیشہ تسلی بخش جواب ملے گا ..

images
 

tariisb

Chief Minister (5k+ posts)
دنیا میں ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں جو ہمارے دوست بنتے ہیں کچھ خیر خواہ ہوتے ہیں ... لیکن اس دنیا میں ہمارا درد محسوس کرنے والے صرف ہمارے والدین ہی ہوتے ہیں ...جو محبت ، تڑپ اور بے چینی والدین اپنی اولاد کے لیے رکھتے ہیں وہ اس دنیا کا کوئی فرد ہمارے لیے نہیں رکھ سکتا ..اسی لیے تو والدین اولاد کے لیے سایہ ہیں ...نعمت ہیں .جو گرمی سردی سے اپنی اولاد کو محفوظ رکھتے ہیں ... اور ہمارے لیے ہمیشہ اچھا ہی چاہتے ہیں


See-your-parents-smiling.jpg


944238050-appreciate-your-parents.jpg
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
کہانی تو کہانی ہوتی ہے، قلمکار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ کہانی کو نبھائے، اس پر کچھ تنقید کی لائن تحریر کررہا ہوں، کہانی بنتے وقت جو چوک ہوگئی ہے۔
پہلی بات گاؤں میں آدھی رات کو رات کا کھانا نہیں پکایا جاتا ہے، نہ اس ٹائم گندم پسوایا جاتا ہے، یہ سب کام سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے۔۔۔
چاند کی روشنی میں نہیں پڑھا جاتا ہے، ویسے بھی یہ چار دن کی ہوتی ہے، ابھی تک ادیب اس پڑھائی کو کھمبے کی روشنی میں انجام دیتے آئے ہیں،
اسکول جانے سے پہلے پہلے لکڑیاں جنگل سے چن کر فروخت کرنا؟ بات فٹ نہیں ہورہی ہے۔

کہانی کے اختتام پر معلوم ہوتا ہے کہ والد صاحب سرکاری ملازم بھی تھے، پینشن، جائیداد، سب کچھ تھا۔ ۔ ۔ ۔ یہاں آکر کہانی دم توڑدیتی ہے۔
 

hmkhan

Senator (1k+ posts)

آپ کی ابو بہت اچھے انسان ہیں
حضرت نوح علیہ السلام کی طرح
اللہ ان کی منزل آسان فرمائے

بھائی صاحب! حضرت نوح علیہ اسلام کا بیٹا گستاخ ،نافرمان اور منکر خدا تھا چنانچہ جب طوفان آیا اور حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو کشتی میں بیٹھنے کو کہا تو بیٹے نے نافرمانی اور گستاخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی تکبر سے یہ کہا "کہ میں تیری کشتی میں ہرگز نہ بیٹھوں گا اور دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا"
قول تعالٰی و نادی ناح ابنہ و کان فی معزل یبنی ارکب معنا ولا تکن مع الکافرین ، ترجمہ: اور پکارا نوحؑ نے اپنے بیٹے کو اور وہ ہو رہاتھا کنارے، اے بیٹے سوار ہو ساتھ ہمارے، اور نہ رہ ساتھ منکروں کے۔
اس گستاخ اور کم ظرف بیٹے نے جواب دیا
قولہ قالا ساوی الی جبل یعصنی من المآء ، ترجمہ: اور کنعان نے کہا کہ میں کسی پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا اور وہ پہاڑ مجھے سیلاب سے بچا لے گا۔
حضرت نوح نے پکار کر کہا
قولہ تعالٰی قال عاصم الیوم من امر اللہ الا من رحم ، ترجمہ: کوئی بچانے والا نہیں آج کے دن سے، اللہ کے سوا مگر، جس پر وہ رحم کرےاور وہ مومن ہو۔
لیکن گستاخ،نافرمان،کم ظرف ،ضدی اور منکر خدا ناخلف بیٹا نہ مانا اور اسے پہاڑ بھی ڈوبنے اور غرق ہونے سے نہ بچا سکا
دعاء ہے کہ اللہ ہر والدین کو ایسے ناخلف،بے دین،گستاخ اورنافرمان بیٹے سے محفوظ رکھے
آمین! یا رب العالمین

 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)

بھائی صاحب! حضرت نوح علیہ اسلام کا بیٹا گستاخ ،نافرمان اور منکر خدا تھا چنانچہ جب طوفان آیا اور حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو کشتی میں بیٹھنے کو کہا تو بیٹے نے نافرمانی اور گستاخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی تکبر سے یہ کہا "کہ میں تیری کشتی میں ہرگز نہ بیٹھوں گا اور دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا"
قول تعالٰی و نادی ناح ابنہ و کان فی معزل یبنی ارکب معنا ولا تکن مع الکافرین ، ترجمہ: اور پکارا نوحؑ نے اپنے بیٹے کو اور وہ ہو رہاتھا کنارے، اے بیٹے سوار ہو ساتھ ہمارے، اور نہ رہ ساتھ منکروں کے۔
اس گستاخ اور کم ظرف بیٹے نے جواب دیا
قولہ قالا ساوی الی جبل یعصنی من المآء ، ترجمہ: اور کنعان نے کہا کہ میں کسی پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا اور وہ پہاڑ مجھے سیلاب سے بچا لے گا۔
حضرت نوح نے پکار کر کہا
قولہ تعالٰی قال عاصم الیوم من امر اللہ الا من رحم ، ترجمہ: کوئی بچانے والا نہیں آج کے دن سے، اللہ کے سوا مگر، جس پر وہ رحم کرےاور وہ مومن ہو۔
لیکن گستاخ،نافرمان،کم ظرف ،ضدی اور منکر خدا ناخلف بیٹا نہ مانا اور اسے پہاڑ بھی ڈوبنے اور غرق ہونے سے نہ بچا سکا
دعاء ہے کہ اللہ ہر والدین کو ایسے ناخلف،بے دین،گستاخ اورنافرمان بیٹے سے محفوظ رکھے
آمین! یا رب العالمین



رمضان میں بغض و کینہ قابو میں رکھنا چاہیے
باپ کا ذکر خیر ہے اور باپ اور ماں ایسی ہستیاں ہیں کہ
ان کے حوالے سے ذاتی بغض نہ نکالا جائے تو بہتر


رہا نوح علیہ السلام کا نا خلف بیٹا تو قرآن نے اس کا ذکر اس کے کفر کے سبب کیا
اور میرا نہیں خیال کے جتنا ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی الله کے ساتھ شرک
کرنے والا ہے


اور یقیناً نوح علیہ السلام کی صالح نرینہ اولاد بھی تھی جس سے انبیاء کی نسل چلی
اور حضرت ابراہیم تا محمّد صل الله علیہ وسلم پر منتج هوئی


لہذا سوچ کو مثبت رکھو
 

Jack Sparrow

Minister (2k+ posts)
Every old man has a story to tell. He was a superman in his childhood and teenage like knights and warriors of medieval ages. Most of them are made up stories for self glorification.
 

Haris Abbasi

Minister (2k+ posts)
کہانی تو کہانی ہوتی ہے، قلمکار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ کہانی کو نبھائے، اس پر کچھ تنقید کی لائن تحریر کررہا ہوں، کہانی بنتے وقت جو چوک ہوگئی ہے۔
پہلی بات گاؤں میں آدھی رات کو رات کا کھانا نہیں پکایا جاتا ہے، نہ اس ٹائم گندم پسوایا جاتا ہے، یہ سب کام سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے۔۔۔
چاند کی روشنی میں نہیں پڑھا جاتا ہے، ویسے بھی یہ چار دن کی ہوتی ہے، ابھی تک ادیب اس پڑھائی کو کھمبے کی روشنی میں انجام دیتے آئے ہیں،
اسکول جانے سے پہلے پہلے لکڑیاں جنگل سے چن کر فروخت کرنا؟ بات فٹ نہیں ہورہی ہے۔

کہانی کے اختتام پر معلوم ہوتا ہے کہ والد صاحب سرکاری ملازم بھی تھے، پینشن، جائیداد، سب کچھ تھا۔ ۔ ۔ ۔ یہاں آکر کہانی دم توڑدیتی ہے۔

:)غلطی سے آپ کی بیکار پوسٹ لائیک کردی ،معزرت
 
باپ کسی بھی بچے کا پہلا ٹیچر، اس کا رول ماڈل، اس کا فیورٹ سپر ہیرو، اس کا انسائیکلوپیڈیا، اس کا ملجا، اس کا پراعتماد ساتھیاور اس کی ڈھال ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سب کے والدین کو صحت و سلامتی والی لمبی عمر عطا فرمائے اور جو گزر چکے ہیں انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائےآمین
 
کہانی تو کہانی ہوتی ہے، قلمکار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ کہانی کو نبھائے، اس پر کچھ تنقید کی لائن تحریر کررہا ہوں، کہانی بنتے وقت جو چوک ہوگئی ہے۔
پہلی بات گاؤں میں آدھی رات کو رات کا کھانا نہیں پکایا جاتا ہے، نہ اس ٹائم گندم پسوایا جاتا ہے، یہ سب کام سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے۔۔۔
چاند کی روشنی میں نہیں پڑھا جاتا ہے، ویسے بھی یہ چار دن کی ہوتی ہے، ابھی تک ادیب اس پڑھائی کو کھمبے کی روشنی میں انجام دیتے آئے ہیں،
اسکول جانے سے پہلے پہلے لکڑیاں جنگل سے چن کر فروخت کرنا؟ بات فٹ نہیں ہورہی ہے۔

کہانی کے اختتام پر معلوم ہوتا ہے کہ والد صاحب سرکاری ملازم بھی تھے، پینشن، جائیداد، سب کچھ تھا۔ ۔ ۔ ۔ یہاں آکر کہانی دم توڑدیتی ہے۔
لگتا ہے آنجناب کو تنقید کی اتنی جلدی تھی کہ ایک بار بھی کہانی غور سے نہ پڑھ سکے۔ جتنی توانائی تنقید کرنے میں خرچ کی ہے اس سے آدھی بھی کہانی سمھنے میں کرتے تو جناب اختلافی نوٹ دینے کی ضرورت نہ پیش آتی۔
۱۔ بے شک گاؤں میں عموماً سرشام ہی کھانا پک جاتا ہے۔ لیکن غور سے پڑھیں لکھا ہے کہ گھر میں پکانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔
۲۔ آٹا پسوائی وغیرہ کام شام سے پہلے ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب وہ بندہ پہنچا ہی رات دیر سے گھر ہے تو شام کو کیسے پسوا لیتا؟
۳۔ جی بالکل آٹا پسوانے کا وقت نہیں تھا۔ اور وہ بندہ بتا بھی رہا ہے کہ جندر بند ہوچکی تھی۔ لہٰذا اس نے خود آتا پیسا کیونکہ وہ یہ کام جانتا تھا۔
۴۔ حضرت جب کھمبے نہیں ہوتے تھے تب ادیب کیا کرتے تھے؟؟؟؟
علم میں اضافے کے لیے عرض ہے کہ آج بھی بعض علاقوں مییں لال ٹین یا دیئے کی روشنی میں پڑھا جاتا ہے۔
اس سے قبل چاند کی روشنی میں پڑھا جاتا تھا۔ اگر آپ کو کبھی پورا چاند دیکھنے کا اتفاق ہو تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کی روشنی پڑھائی کے لیے کافی ہوتی ہے۔
یہ امر بھی ملحوظ خاطر رپے کہ وہ بندہ کوئی پی ایچ ڈی نہیں کررہا تھا ابتدائی تعلیم تھی۔
آج کے ماحول میں بے شک یہ بات فٹ نہ ہو لیکن گاؤں کے ماحول میں جہاں لوگ نماز فجر سے بھی پہلے کھیتوں میں پہنچے ہوتے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
اور ویسے بھی اس بندہ نے کہیں نہیں لکھا کہ یہ سارے کام وہ سکول جانے سے پہلے کیا کرتا تھا، سکول جانے سے پہیلے صرف لکڑیوں کو فروخت کرنے کا ذکر ہے۔ اکٹھی ممکن ہے شام کو کرلیتا ہو۔
۵۔ بھائی صاحب والد صاحب کے پاس سب تھا لیکن شروع سے نہیں تھا۔ یہ سب انہوں نے ایک طویل مسلسل محنت کے بعد کمایا تھا۔
پہلے بیانات لکھاری کے والد صاحب کی زبانی ہیں۔ اور آخری بیان لکھاری کی طرف سے ہے۔
:)
 

tariisb

Chief Minister (5k+ posts)
کہانی تو کہانی ہوتی ہے، قلمکار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ کہانی کو نبھائے، اس پر کچھ تنقید کی لائن تحریر کررہا ہوں، کہانی بنتے وقت جو چوک ہوگئی ہے۔
پہلی بات گاؤں میں آدھی رات کو رات کا کھانا نہیں پکایا جاتا ہے، نہ اس ٹائم گندم پسوایا جاتا ہے، یہ سب کام سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے۔۔۔
چاند کی روشنی میں نہیں پڑھا جاتا ہے، ویسے بھی یہ چار دن کی ہوتی ہے، ابھی تک ادیب اس پڑھائی کو کھمبے کی روشنی میں انجام دیتے آئے ہیں،
اسکول جانے سے پہلے پہلے لکڑیاں جنگل سے چن کر فروخت کرنا؟ بات فٹ نہیں ہورہی ہے۔

کہانی کے اختتام پر معلوم ہوتا ہے کہ والد صاحب سرکاری ملازم بھی تھے، پینشن، جائیداد، سب کچھ تھا۔ ۔ ۔ ۔ یہاں آکر کہانی دم توڑدیتی ہے۔


:jazak:تنقید و سوالات کا شکریہ



کہانی تو کہانی ہوتی ہے، قلمکار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ کہانی کو نبھائے، اس پر کچھ تنقید کی لائن تحریر کررہا ہوں، کہانی بنتے وقت جو چوک ہوگئی ہے۔
پہلی بات گاؤں میں آدھی رات کو رات کا کھانا نہیں پکایا جاتا ہے، نہ اس ٹائم گندم پسوایا جاتا ہے، یہ سب کام سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے۔۔۔


جی گاؤں دیہات میں ، یہ سب کام اپنے وقت پر کئیے جاتے ہیں ، لیکن ؟ ایک روز ایسا نا ہوا ، ایک واقعہ ہے ، نا کہ معمول کا ذکر ہے


چاند کی روشنی میں نہیں پڑھا جاتا ہے، ویسے بھی یہ چار دن کی ہوتی ہے، ابھی تک ادیب اس پڑھائی کو کھمبے کی روشنی میں انجام دیتے آئے ہیں،



چار دن کی چاندنی ، مقولہ / ضرب المثل میں ہوتی ہے ، حقیقت میں زیادہ ہی ہوتی ہے ،
پہاڑی علاقے میں چاند ، تاروں کا منظر کبھی دیکھیں تو آپ کو ضرور یقین آے گا ،


اسکول جانے سے پہلے پہلے لکڑیاں جنگل سے چن کر فروخت کرنا؟ بات فٹ نہیں ہورہی ہے۔


آپ یقین ہی نہیں کر پائیں گے ، صبح نماز سے قبل اٹھنا ، جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کرنا ، اور شہر کا رخ کرنا ، جی یہی معمول تھا ، یہی زندگی تھی ، آپ غربت اور اس دور کا تصور نہیں کر پا رہے ، جس طرح ہم بچوں کو کوئی بات کہیں تو ، موجود دور میں رہتے ہوے ، ان کے لیے بہت سی چیزیں سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے


کہانی کے اختتام پر معلوم ہوتا ہے کہ والد صاحب سرکاری ملازم بھی تھے، پینشن، جائیداد، سب کچھ تھا۔ ۔ ۔ ۔ یہاں آکر کہانی دم توڑدیتی ہے


میٹرک کے بعد ، کراچی کا رخت سفر ، اس کے بعد کی زندگی کے کئی رنگ ہیں ، سرکاری ملازم یا کسی عہدے تک پہنچنے کی بہت تگ و دو ہے ، زندگی مشقت ، محنت ، سے بھرپور رہی ، یہی انتہا تھی ، لیکن ؟ عزت مآب ، ہمیشہ اپنی ابتدا و بنیاد پر فخر کرتے ہیں ، انتہا کا ذکر نہیں کرتے
__________________________________________________
:)