بدنیتی
آئے روز خبریں آتیں ہے کہ ڈاکٹر یا ہسپتال کے عملے نے کسی مریضہ کے ساتھ ذیادتی کر ڈالی، بلکہ بعض اوقات مردہ کو بھی نہیں بخشا جاتا۔
یونیورسٹی کے پروفیسروں اور پرنسپلوں کی حوالے سے یہ خبریں آتی ہیں،کہ وہ نمبروں اور پروموشنوں کے لئےطالبات یا اساتذہ کو جنسی طور سے ہراساں کرتے ہیں،ان سےسیکس کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔
کبھی پتا لگتا ہے کہ کالج کے لڑکوں نے گرلز باتھ روم میں خفیہ کیمرے لگائے ہوئے ہیں۔
وغیرہ وغیرہ
مگراس سب کے باوجود آپ نے کبھی کسی کو یہ کہتے نہیں سنا ہو گاکہ اپنے بچوں یا لواحقین کو ہسپتال سکول یا کالج وغیرہ بھیجنا بند کر دو۔ البتہ اگر ملک میں موجود لاکھوں مساجد و مدارس میں سے چند ایک کے حوالے سے کبھی کوئی ناگوار خبر یا ویڈیو آ جائے، تو فورا ہی کچھ لوگوں کو دین سے اپنے بغض کے اظہار کا موقع مل جاتا ہے،اور پھر کوئی کہتا ہے کہ(نعوذ باللہ) مساجد و مدارس کو ڈھا دو۔کوئی مشورہ دیتا ہے کہ اپنے بچوں کو مسجد و مدارس سے دور رکھو وغیرہ وغیرہ۔ان لوگوں کی بد نیتی تب ہی واضح ہو جاتی ہے کہ جب یہ کسی ایک فرد کے عمل کی وجہ سے پورے طبقے کو مطعون کرتے ہیں، یاویڈیو اور تصاویر کسی "مولوی"کی دکھاتے ہیں، مگر نشانہ داڑھی اور پگڑی اور دیگر شعائر اسلام کو بناتے ہیں۔
یہ کون لوگ ہیں
یہاں یہ جاننا بھی ضرور ہے کہ یہ کون لوگ ہیں، اور ان کا ایجنڈا کیا ہے۔
ان کی اکثریت بنیادی طور پر دو طرح کے طبقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ایک تو وہی لبرل فاشسٹ ہیں، جو اپنی کسی شامت اعمال کے سبب خود بھی دین اور اس کی روشنی سے دور ہیں، اور دوسروں کے لئے بھی چاہتے ہیں کہ وہ بھی ان کی طرح راندہ درگاہ ہو جائیں۔ جبکہ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جنہیں ہم لبرلزم کے منافق کہہ سکتے ہیں (اس میں ذیادہ تر قادیانی اور روافض آتے ہیں)۔ یہ لوگ بظاہر لبرلزم کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں،مگر خود کٹر فرقہ پرست ہوتے ہیں، البتہ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کا تعلق مسجدو مدارس اور علماء سے کاٹ دیا جائے تا کہ پھر یہ اپنا زہر لوگوں کی رگوں میں اتار سکیں۔کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اگر کسی شخص کا تعلق مسجد اور علماء سے مضبوط ہے، تو یہ بہت مشکل ہے کہ وہ ان کے دام فریب پھنس جائے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایمان کے ان لٹیروں سے ہشیار رہا جائے۔اور یہ بات یاد رکھی جائے کہ آج کل کے پر فتن دور میں جس شخص کا تعلق علماء اور مسجد سے کٹ گیا، وہ اپنے ایمان و یقین کی بربادی کا خودذمہ دار ہے۔
آئے روز خبریں آتیں ہے کہ ڈاکٹر یا ہسپتال کے عملے نے کسی مریضہ کے ساتھ ذیادتی کر ڈالی، بلکہ بعض اوقات مردہ کو بھی نہیں بخشا جاتا۔
یونیورسٹی کے پروفیسروں اور پرنسپلوں کی حوالے سے یہ خبریں آتی ہیں،کہ وہ نمبروں اور پروموشنوں کے لئےطالبات یا اساتذہ کو جنسی طور سے ہراساں کرتے ہیں،ان سےسیکس کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔
کبھی پتا لگتا ہے کہ کالج کے لڑکوں نے گرلز باتھ روم میں خفیہ کیمرے لگائے ہوئے ہیں۔
وغیرہ وغیرہ
مگراس سب کے باوجود آپ نے کبھی کسی کو یہ کہتے نہیں سنا ہو گاکہ اپنے بچوں یا لواحقین کو ہسپتال سکول یا کالج وغیرہ بھیجنا بند کر دو۔ البتہ اگر ملک میں موجود لاکھوں مساجد و مدارس میں سے چند ایک کے حوالے سے کبھی کوئی ناگوار خبر یا ویڈیو آ جائے، تو فورا ہی کچھ لوگوں کو دین سے اپنے بغض کے اظہار کا موقع مل جاتا ہے،اور پھر کوئی کہتا ہے کہ(نعوذ باللہ) مساجد و مدارس کو ڈھا دو۔کوئی مشورہ دیتا ہے کہ اپنے بچوں کو مسجد و مدارس سے دور رکھو وغیرہ وغیرہ۔ان لوگوں کی بد نیتی تب ہی واضح ہو جاتی ہے کہ جب یہ کسی ایک فرد کے عمل کی وجہ سے پورے طبقے کو مطعون کرتے ہیں، یاویڈیو اور تصاویر کسی "مولوی"کی دکھاتے ہیں، مگر نشانہ داڑھی اور پگڑی اور دیگر شعائر اسلام کو بناتے ہیں۔
یہ کون لوگ ہیں
یہاں یہ جاننا بھی ضرور ہے کہ یہ کون لوگ ہیں، اور ان کا ایجنڈا کیا ہے۔
ان کی اکثریت بنیادی طور پر دو طرح کے طبقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ایک تو وہی لبرل فاشسٹ ہیں، جو اپنی کسی شامت اعمال کے سبب خود بھی دین اور اس کی روشنی سے دور ہیں، اور دوسروں کے لئے بھی چاہتے ہیں کہ وہ بھی ان کی طرح راندہ درگاہ ہو جائیں۔ جبکہ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جنہیں ہم لبرلزم کے منافق کہہ سکتے ہیں (اس میں ذیادہ تر قادیانی اور روافض آتے ہیں)۔ یہ لوگ بظاہر لبرلزم کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں،مگر خود کٹر فرقہ پرست ہوتے ہیں، البتہ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کا تعلق مسجدو مدارس اور علماء سے کاٹ دیا جائے تا کہ پھر یہ اپنا زہر لوگوں کی رگوں میں اتار سکیں۔کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اگر کسی شخص کا تعلق مسجد اور علماء سے مضبوط ہے، تو یہ بہت مشکل ہے کہ وہ ان کے دام فریب پھنس جائے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایمان کے ان لٹیروں سے ہشیار رہا جائے۔اور یہ بات یاد رکھی جائے کہ آج کل کے پر فتن دور میں جس شخص کا تعلق علماء اور مسجد سے کٹ گیا، وہ اپنے ایمان و یقین کی بربادی کا خودذمہ دار ہے۔