علمائے دین اور حکمرانوں کے دربار

CANSUK

Chief Minister (5k+ posts)
مولانا نہ تو سياست ميں ہيں اور نہ چيف جسٹس بنے کی خواہش ہو گی کيونکہ شريف آدمی تو وکيل ہی بننا پسند نہی کرے گا۔
مولانا نواز شريف اور مُشرف سے بھی ملتے رہے ہيں اور نہ کوئی فوائد اُٹھائے حکمرانوں سےورنہ اينکر اس بات کو ضرور اُچھالتے ۔
ميں مولانا طارق جميل صاحب کا فين نہی پر مولانا کی جو دُنيا بھر ميں عزت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہی اور يہ دو ٹکے کے لئے جھوٹ بولنے والے لفافے تبليغی جماعت کے عام سے کارکن کے برابر نہی اور چلے ہيں مولانا سے معافی منگوانے ميں نے سوشل ميڈيا اور پر جو ريسپانس ديکھا مولانا کی حمايت ميں وہ شائد دوبارہ ديکھنے کو نہ ملے ۔
ميں بھائی بارود کی پوسٹ پر کومنٹ نہی کرتا اور نہ انکو کبھی جواب ديتا ہوں ۔ميں اس پر عمل بھی کرتا ہوں۔صرف جناب عزت ماب مولانا طارق جميل صاحب کی وجہ سے اور حق اور سچ کی لڑائی ميں حصہ ڈالنے کی وجہ سے اس تھيريڈ پر آيا ہوں، اور ميں لوگوں سے اس فورم پر مودبانہ گزارش کرونگا کے بھائی بارود کی پوسٹ کو ہميشہ اگنور کريں ايسے لوگوں کو جواب نہ ديں۔
اور عوام کو چاہيے کے حامد مير اور مالک جيسے لفافوں کو روڈ پر روک چھترول کريں تاکہ آئيندہ کسی کی ايسی ہمت نہ ہو۔
خليفہ ہارون رشيدکے پاس کافی مذہبی اسکالر رہے تھے اور نجاشی کے دربارميں وہ تقرير جو حضرت جعفر صادق نے کی وہ تو بچوں کو بھی پتہ ہے۔​
 
Last edited:

NCP123

Minister (2k+ posts)
https://jang.com.pk/writer/hamid-mir
علمائے دین اور حکمرانوں کے دربار



ایک طاقتور حکمران اپنے زمانے کے ایک نامور عالمِ دین کو اپنی حکومت کا چیف جسٹس بنانا چاہتا تھا لیکن اُس عالمِ دین نے انکار کر دیا جس پر اُنہیں جیل بھیج دیا گیا۔ اُس عالمِ دین کا نام تھا امام ابو حنیفہؒ اور اُنہیں جیل بھجوانے والے حکمران کا نام ابو جعفر عبداللہ بن محمد المنصور، جو دوسرا عباسی خلیفہ تھا۔ امام ابو حنیفہؒ حکمرانِ وقت کے دربار سے دور رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب المنصور نے اُنہیں چیف جسٹس کا عہدہ پیش کیا تو امام ابو حنیفہؒ نے کہا کہ میں اپنے آپ کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا۔ یہ سن کر خلیفہ طیش میں آگیا کیونکہ اس زمانے میں چیف جسٹس کی حیثیت خلیفہ کے نائب کی تھی۔ خلیفہ نے گستاخ لہجے میں کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ یہ سن کر امام ابو حنیفہؒ نے خلیفہ سے کہا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو پھر واقعی میں اِس عہدے کے قابل نہیں۔ اِس جواب کے بعد امام ابو حنیفہؒ کو جیل بھیج دیا گیا اور اُن کے ایک شاگرد ابو یوسف کو چیف جسٹس بنا دیا گیا۔ جیل میں امام ابو حنیفہؒ پر تشدد کیا جاتا تھا تاکہ وہ خلیفہ کا حکم مان لیں لیکن اُنہوں نے وقت کے حکمران کی خواہش کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور پھر جیل سے ہی اُن کا جنازہ اٹھا۔ بغداد میں اُنکے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ المنصور نے امام جعفر صادقؒ کو بھی زبردستی اپنی اطاعت پر مجبور کیا اور انہیں بھی گرفتار کر لیا۔ بعض روایات کے مطابق المنصور کے حکم پر امام جعفر صادقؒ کو زہر دیدیا گیا تھا۔ اسی دور میں ایک اور عالمِ دین امام مالک بن انسؒ نے بھی خلیفہ المنصور کے جبر کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ جب گورنر مدینہ نے حکم دیا کہ خلیفہ کی اطاعت کا حلف لینا سب پر واجب ہے تو امام مالکؒ نے فتویٰ دیا کہ زبردستی خلیفہ کی اطاعت پر مجبور کرنا جائز نہیں۔ یہ فتویٰ امام مالکؒ کا جرم بن گیا لہٰذا اُنہیں گرفتار کرکے مدینہ میں سر عام کوڑے مارے گئے۔
جس دور میں امام ابو حنیفہؒ، امام جعفر صادقؒ اور امام مالکؒ ایک جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہہ رہے تھے تو اسی دور میں ایسے علماء بھی تھے جو اپنی خوشامد کے باعث خلیفہ کے منظورِ نظر بن گئے۔ حکمرانِ وقت کی خوشامد کرنے والے درباری علماء کو آج کوئی نہیں جانتا۔ آج اگر کسی کا نام زندہ ہے تو جابر حکمران کے سامنے انکار کی پاداش میں جیل جانے اور کوڑے کھانے والے علماء کا نام زندہ ہے۔ ان علمائے حق کی روایت کو آگے بڑھانے والوں میں امام احمد بن حنبلؒ بھی شامل تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے ایک اور عباسی خلیفہ المامون کے دور میں کچھ درباری علماء کی طرف سے پیش کئے گئے نظریات کو مسترد کیا جن میں خلقِ قرآن کا نظریہ بھی شامل تھا۔ کچھ علماء نے اپنی اہمیت جتانے کیلئے دعویٰ کیا کہ اللہ کا علم مخلوق ہے یہ بعد میں پیدا ہوا ہے لیکن امام احمد بن حنبلؒ کا موقف تھا کہ قرآن اللہ کا علم ہے اور جو یہ گمان کرے کہ یہ بعد میں پیدا ہوا اس نے کفر کیا۔ المامون نے اس نظریے سے انکار کو اپنی توہین سمجھا اور امام احمد بن حنبلؒ کو جیل میں ڈال دیا۔ کچھ دنوں کے بعد المامون نے امام احمد بن حنبلؒ کو دوبارہ اپنے دربار میں طلب کیا۔ جب امام احمد بن حنبلؒ اور انکے ایک ساتھی محمد بن نوحؒ کو بیڑیاں پہنا کر خلیفہ کے پاس لے جایا جا رہا تھا تو خلیفہ کے ایک ملازم نے روتے ہوئے امامؒ کو بتایا کہ اگر آج آپ نے خلق قرآن کے نظریہ کو تسلیم نہ کیا تو خلیفہ اپنے ہاتھ سے آپ دونوں کا سر قلم کرے گا۔ یہ سن کر امام احمد بن حنبلؒ نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! اگر قرآن تیرا غیر مخلوق اور ازلی کلام ہے تو ہم دونوں کو مامون کے ساتھ اکٹھا ہونے سے بچا لے کہ نہ ہم دونوں اسے دیکھ سکیں نہ وہ ہم دونوں کو دیکھ سکے۔ اسی رات کو المامون کی موت واقع ہو گئی۔ اس کے مرنے کے بعد اسکا بھائی معتصم باللہ خلیفہ بنا۔ اس دوران محمد بن نوح کا انتقال ہو گیا۔ معتصم نے امام احمد بن حنبلؒ کو اپنے دربار میں طلب کیا اور درباری علماء سے ان کا مناظرہ کرایا۔ یہ درباری علماء امام احمد بن حنبلؒ کے دلائل کے سامنے ڈھیر ہوگئے تو انہوں نے خلیفہ سے کہا کہ یہ گستاخ صرف ہمیں نہیں، آپ کو بھی کافر قرار دے رہا ہے۔ خلیفہ نے امام احمد بن حنبلؒ کے کپڑے اتارنے کا حکم دیا اور اپنے سامنے انہیں کوڑے لگوائے۔ کوڑوں کی برسات میں امام احمد بن حنبلؒ کی استقامت نے معتصم باللہ کو پریشان کر دیا۔ وہ کوڑے کھاتے کھاتے بے ہوش ہوگئے۔ خطرہ تھا کہ وہ زندگی کی بازی نہ ہار دیں لہٰذا انہیں بے ہوشی کی حالت میں رہا کر دیا گیا۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا، امام احمد بن حنبلؒ روزے سے تھے۔ انہیں نیم مردہ حالت میں اسحاق بن ابراہیم کے گھر لایا گیا۔ ہوش میں آنے پر انہیں کہا گیا آپ کے جسم سے خون بہہ رہا ہے، روزہ افطار کر لیں لیکن امام احمد بن حنبلؒ نے نمازِ ظہر ادا کی اور کہا حضرت عمر فاروقؓ نے بھی زخمی حالت میں نماز ادا کی تھی۔ شام کو روزہ افطار کیا اور بعد ازاں ان جلادوں کو معاف کر دیا جنہوں نے کوڑے مارے لیکن ان گمراہ علماء کو معاف نہیں کیا جنہوں نے اسلام کے نام پر گمراہی پھیلائی۔ ان کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور اس جنازے کو دیکھ کر ہزاروں نصرانی مسلمان ہو گئے۔ یہ جنازہ 12ربیع الاول کو ہوا۔
امام شافعیؒ سے لے کر امام موسیٰ کاظمؒ اور عبدالرحیم محدث دہلویؒ سے مجدد الف ثانیؒ تک بہت سے علمائے حق اور مجتہدین نے اپنے اپنے وقت کے حکمرانوں کے جبر کو مسترد کیا اور تکلیفیں اٹھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں امام احمد بن حنبلؒ کا ذکر ملتا ہے لیکن ان پر فتوے لگانے والے درباری علماء کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالکؒ کو ملاقات کا پیغام بھیجا اور کہا کہ آپ نے جو کتاب لکھی ہے وہ آپ سے سننا چاہتا ہوں۔ امام مالکؒ نے جواب بھجوایا ’’علم کی زیارت خود کی جاتی ہے وہ کسی کی زیارت نہیں کرتا‘‘۔ شاہ ولی اللہؒ نے اپنی کتاب ’’انفاس العارفین‘‘ میں لکھا ہے کہ مغل بادشاہ عالمگیر نے عبدالرحیم محدث دہلویؒ سے ملاقات کی خواہش کی۔ انہوں نے بادشاہ کو خط لکھا اور کہا ’’اہلِ اللہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہ فقیر بہتر ہے جو کسی امیر کے آستانے پر حاضری نہ دے‘‘۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہی علماء قابلِ تقلید ہیں جو امراء کے درباروں میں حاضریاں نہیں دیتے بلکہ امراء خود چل کر ان کے پاس جاتے ہیں۔
ye wohi Hamid Mir hey jis ne kaha thaa ISI cheif ne es ku Goli maari hey ju stomach se guzri hey aur pher 2 hours ke baad ye apney suit ke ouper se bandage laga ker wheel chair per aa geya thaaa........
 

Cape Kahloon

Chief Minister (5k+ posts)
Hammid Mir
Abaya lanti tujhay keya pata Alama kon log hutay hain, tu ja ja kay politicians ke dalla gheree ker Tera leay wohan sey he Hram rizaq lekha geya ha.
 

Cape Kahloon

Chief Minister (5k+ posts)
Dunya un Sahafion ko yad rekhte ha jo Zardari, Shabaz oor Nawaz shreef sey lefafay Ne pakertay.
Hamid Mir such bata Zardari oor Nawaz ka kitni bar Pakra ha.
Such batana keyoon kay media jhot Ne bolta ha.
 
Hamid mir uss din se yahi column likh raha tha .
Bugz e Tariq Jamil main kuch tu likhna tha.
Acha column hai lekin mauqay ki munasbat se acha nahi.
 

aqeel_786

MPA (400+ posts)
youthia na parhain, warna cheekhain na marna!

Main MTJ ke saath hon , TJ se ghaliti hogayee unhon ne maafi maang li buss qissa khatam
Keya galti hoi un se?? Joth aur behayai se rokna to agar aap gakti keh rehe ho to apni islaha karo... ALLAH ke hukum ko galti kehna toba karo
 

Zainsha

Chief Minister (5k+ posts)
مولانا نہ تو سياست ميں ہيں اور نہ چيف جسٹس بنے کی خواہش ہو گی کيونکہ شريف آدمی تو وکيل ہی بننا پسند نہی کرے گا۔
مولانا نواز شريف اور مُشرف سے بھی ملتے رہے ہيں اور نہ کوئی فوائد اُٹھائے حکمرانوں سےورنہ اينکر اس بات کو ضرور اُچھالتے ۔
ميں مولانا طارق جميل صاحب کا فين نہی پر مولانا کی جو دُنيا بھر ميں عزت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہی اور يہ دو ٹکے کے لئے جھوٹ بولنے والے لفافے تبليغی جماعت کے عام سے کارکن کے برابر نہی اور چلے ہيں مولانا سے معافی منگوانے ميں نے سوشل ميڈيا اور پر جو ريسپانس ديکھا مولانا کی حمايت ميں وہ شائد دوبارہ ديکھنے کو نہ ملے ۔
ميں بھائی بارود کی پوسٹ پر کومنٹ نہی کرتا اور نہ انکو کبھی جواب ديتا ہوں ۔ميں اس پر عمل بھی کرتا ہوں۔صرف جناب عزت ماب مولانا طارق جميل صاحب کی وجہ سے اور حق اور سچ کی لڑائی ميں حصہ ڈالنے کی وجہ سے اس تھيريڈ پر آيا ہوں، اور ميں لوگوں سے اس فورم پر مودبانہ گزارش کرونگا کے بھائی بارود کی پوسٹ کو ہميشہ اگنور کريں ايسے لوگوں کو جواب نہ ديں۔
اور عوام کو چاہيے کے حامد مير اور مالک جيسے لفافوں کو روڈ پر روک چھترول کريں تاکہ آئيندہ کسی کی ايسی ہمت نہ ہو۔
خليفہ ہارون رشيدکے پاس کافی مذہبی اسکالر رہے تھے اور نجاشی کے دربارميں وہ تقرير جو حضرت جعفر صادق نے کی وہ تو بچوں کو بھی پتہ ہے۔​


Aur kya taqreer thi.. zabardast.. unn kay naam ki taseeh kar doon.. unn ka poora naam Jafar bin Abi Talib tha.. aur unn ki shahadat kay baad Huzoor ne unn ko Tayyar ka laqab deeya tha.. iss waja se unn ko Jafar Tayyar kaha jata hai..
 

Wake Up Pakistan

Chief Minister (5k+ posts)
کیا میں نے ایسا کہا!؛
kaha nahee

Ulm-e-waqat ko Haq pai Kharay Rahna chahiya

But our media is home of Prostitute they don't have page of honour or respect in their books

someone needs to take stand


I pray some more Evil come to kill them
 

AhmadSaleem264

Minister (2k+ posts)
Real Alam e deen who always stayed away from govts. Lovely Fazlu

maxresdefault.jpg
 

knowledge88

Chief Minister (5k+ posts)
aalim.png
https://jang.com.pk/writer/hamid-mir
علمائے دین اور حکمرانوں کے دربار



ایک طاقتور حکمران اپنے زمانے کے ایک نامور عالمِ دین کو اپنی حکومت کا چیف جسٹس بنانا چاہتا تھا لیکن اُس عالمِ دین نے انکار کر دیا جس پر اُنہیں جیل بھیج دیا گیا۔ اُس عالمِ دین کا نام تھا امام ابو حنیفہؒ اور اُنہیں جیل بھجوانے والے حکمران کا نام ابو جعفر عبداللہ بن محمد المنصور، جو دوسرا عباسی خلیفہ تھا۔ امام ابو حنیفہؒ حکمرانِ وقت کے دربار سے دور رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب المنصور نے اُنہیں چیف جسٹس کا عہدہ پیش کیا تو امام ابو حنیفہؒ نے کہا کہ میں اپنے آپ کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا۔ یہ سن کر خلیفہ طیش میں آگیا کیونکہ اس زمانے میں چیف جسٹس کی حیثیت خلیفہ کے نائب کی تھی۔ خلیفہ نے گستاخ لہجے میں کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ یہ سن کر امام ابو حنیفہؒ نے خلیفہ سے کہا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو پھر واقعی میں اِس عہدے کے قابل نہیں۔ اِس جواب کے بعد امام ابو حنیفہؒ کو جیل بھیج دیا گیا اور اُن کے ایک شاگرد ابو یوسف کو چیف جسٹس بنا دیا گیا۔ جیل میں امام ابو حنیفہؒ پر تشدد کیا جاتا تھا تاکہ وہ خلیفہ کا حکم مان لیں لیکن اُنہوں نے وقت کے حکمران کی خواہش کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور پھر جیل سے ہی اُن کا جنازہ اٹھا۔ بغداد میں اُنکے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ المنصور نے امام جعفر صادقؒ کو بھی زبردستی اپنی اطاعت پر مجبور کیا اور انہیں بھی گرفتار کر لیا۔ بعض روایات کے مطابق المنصور کے حکم پر امام جعفر صادقؒ کو زہر دیدیا گیا تھا۔ اسی دور میں ایک اور عالمِ دین امام مالک بن انسؒ نے بھی خلیفہ المنصور کے جبر کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ جب گورنر مدینہ نے حکم دیا کہ خلیفہ کی اطاعت کا حلف لینا سب پر واجب ہے تو امام مالکؒ نے فتویٰ دیا کہ زبردستی خلیفہ کی اطاعت پر مجبور کرنا جائز نہیں۔ یہ فتویٰ امام مالکؒ کا جرم بن گیا لہٰذا اُنہیں گرفتار کرکے مدینہ میں سر عام کوڑے مارے گئے۔
جس دور میں امام ابو حنیفہؒ، امام جعفر صادقؒ اور امام مالکؒ ایک جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہہ رہے تھے تو اسی دور میں ایسے علماء بھی تھے جو اپنی خوشامد کے باعث خلیفہ کے منظورِ نظر بن گئے۔ حکمرانِ وقت کی خوشامد کرنے والے درباری علماء کو آج کوئی نہیں جانتا۔ آج اگر کسی کا نام زندہ ہے تو جابر حکمران کے سامنے انکار کی پاداش میں جیل جانے اور کوڑے کھانے والے علماء کا نام زندہ ہے۔ ان علمائے حق کی روایت کو آگے بڑھانے والوں میں امام احمد بن حنبلؒ بھی شامل تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے ایک اور عباسی خلیفہ المامون کے دور میں کچھ درباری علماء کی طرف سے پیش کئے گئے نظریات کو مسترد کیا جن میں خلقِ قرآن کا نظریہ بھی شامل تھا۔ کچھ علماء نے اپنی اہمیت جتانے کیلئے دعویٰ کیا کہ اللہ کا علم مخلوق ہے یہ بعد میں پیدا ہوا ہے لیکن امام احمد بن حنبلؒ کا موقف تھا کہ قرآن اللہ کا علم ہے اور جو یہ گمان کرے کہ یہ بعد میں پیدا ہوا اس نے کفر کیا۔ المامون نے اس نظریے سے انکار کو اپنی توہین سمجھا اور امام احمد بن حنبلؒ کو جیل میں ڈال دیا۔ کچھ دنوں کے بعد المامون نے امام احمد بن حنبلؒ کو دوبارہ اپنے دربار میں طلب کیا۔ جب امام احمد بن حنبلؒ اور انکے ایک ساتھی محمد بن نوحؒ کو بیڑیاں پہنا کر خلیفہ کے پاس لے جایا جا رہا تھا تو خلیفہ کے ایک ملازم نے روتے ہوئے امامؒ کو بتایا کہ اگر آج آپ نے خلق قرآن کے نظریہ کو تسلیم نہ کیا تو خلیفہ اپنے ہاتھ سے آپ دونوں کا سر قلم کرے گا۔ یہ سن کر امام احمد بن حنبلؒ نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! اگر قرآن تیرا غیر مخلوق اور ازلی کلام ہے تو ہم دونوں کو مامون کے ساتھ اکٹھا ہونے سے بچا لے کہ نہ ہم دونوں اسے دیکھ سکیں نہ وہ ہم دونوں کو دیکھ سکے۔ اسی رات کو المامون کی موت واقع ہو گئی۔ اس کے مرنے کے بعد اسکا بھائی معتصم باللہ خلیفہ بنا۔ اس دوران محمد بن نوح کا انتقال ہو گیا۔ معتصم نے امام احمد بن حنبلؒ کو اپنے دربار میں طلب کیا اور درباری علماء سے ان کا مناظرہ کرایا۔ یہ درباری علماء امام احمد بن حنبلؒ کے دلائل کے سامنے ڈھیر ہوگئے تو انہوں نے خلیفہ سے کہا کہ یہ گستاخ صرف ہمیں نہیں، آپ کو بھی کافر قرار دے رہا ہے۔ خلیفہ نے امام احمد بن حنبلؒ کے کپڑے اتارنے کا حکم دیا اور اپنے سامنے انہیں کوڑے لگوائے۔ کوڑوں کی برسات میں امام احمد بن حنبلؒ کی استقامت نے معتصم باللہ کو پریشان کر دیا۔ وہ کوڑے کھاتے کھاتے بے ہوش ہوگئے۔ خطرہ تھا کہ وہ زندگی کی بازی نہ ہار دیں لہٰذا انہیں بے ہوشی کی حالت میں رہا کر دیا گیا۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا، امام احمد بن حنبلؒ روزے سے تھے۔ انہیں نیم مردہ حالت میں اسحاق بن ابراہیم کے گھر لایا گیا۔ ہوش میں آنے پر انہیں کہا گیا آپ کے جسم سے خون بہہ رہا ہے، روزہ افطار کر لیں لیکن امام احمد بن حنبلؒ نے نمازِ ظہر ادا کی اور کہا حضرت عمر فاروقؓ نے بھی زخمی حالت میں نماز ادا کی تھی۔ شام کو روزہ افطار کیا اور بعد ازاں ان جلادوں کو معاف کر دیا جنہوں نے کوڑے مارے لیکن ان گمراہ علماء کو معاف نہیں کیا جنہوں نے اسلام کے نام پر گمراہی پھیلائی۔ ان کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور اس جنازے کو دیکھ کر ہزاروں نصرانی مسلمان ہو گئے۔ یہ جنازہ 12ربیع الاول کو ہوا۔
امام شافعیؒ سے لے کر امام موسیٰ کاظمؒ اور عبدالرحیم محدث دہلویؒ سے مجدد الف ثانیؒ تک بہت سے علمائے حق اور مجتہدین نے اپنے اپنے وقت کے حکمرانوں کے جبر کو مسترد کیا اور تکلیفیں اٹھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں امام احمد بن حنبلؒ کا ذکر ملتا ہے لیکن ان پر فتوے لگانے والے درباری علماء کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالکؒ کو ملاقات کا پیغام بھیجا اور کہا کہ آپ نے جو کتاب لکھی ہے وہ آپ سے سننا چاہتا ہوں۔ امام مالکؒ نے جواب بھجوایا ’’علم کی زیارت خود کی جاتی ہے وہ کسی کی زیارت نہیں کرتا‘‘۔ شاہ ولی اللہؒ نے اپنی کتاب ’’انفاس العارفین‘‘ میں لکھا ہے کہ مغل بادشاہ عالمگیر نے عبدالرحیم محدث دہلویؒ سے ملاقات کی خواہش کی۔ انہوں نے بادشاہ کو خط لکھا اور کہا ’’اہلِ اللہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہ فقیر بہتر ہے جو کسی امیر کے آستانے پر حاضری نہ دے‘‘۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہی علماء قابلِ تقلید ہیں جو امراء کے درباروں میں حاضریاں نہیں دیتے بلکہ امراء خود چل کر ان کے پاس جاتے ہیں۔
 

bhaibarood

Chief Minister (5k+ posts)
ye wohi Hamid Mir hey jis ne kaha thaa ISI cheif ne es ku Goli maari hey ju stomach se guzri hey aur pher 2 hours ke baad ye apney suit ke ouper se bandage laga ker wheel chair per aa geya thaaa........
Allah apkey ahl e ayaal ko bhi usi ki tarah chehe goliyan pait main lagywae aur inshallah woh bhi bandaage aka braces shirt ke upar pehan kar ghomain !
Ameen bol kar saboot dain ke woh drama kar rah tha....... ? ?
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
kaha nahee

Ulm-e-waqat ko Haq pai Kharay Rahna chahiya

But our media is home of Prostitute they don't have page of honour or respect in their books

someone needs to take stand


I pray some more Evil come to kill them
کوفی صفت عوام کو ان کا طرز عمل بھی دیکھنا چاہئے
 

bhaibarood

Chief Minister (5k+ posts)
ye wohi Hamid Mir hey jis ne kaha thaa ISI cheif ne es ku Goli maari hey ju stomach se guzri hey aur pher 2 hours ke baad ye apney suit ke ouper se bandage laga ker wheel chair per aa geya thaaa........
Jahil e matlaq woh maheno is surgery aur goli jo ab bhi uskey jism main hai us takleef se guzarta raha...!
ISI chief beghairat Gen Zaheer ul haram pe ilzaam lagya tu army ne action kiyon nahi lia?
Black list karna thaa na..
Phir Gen Ghaforaa kapora ne Hamid mir ko hamesha press conferences main front pe kiyon rakhaa?
Kiyon hamid mir ke betay ke shadi main shareek hua
kiyon Hamid mir urf ghaddar ke saath PSL ke match dekhay?
malshi bhai tumhray generals ko pata chal gaya the ke harm udhir Zaheer ul islam ne hi attack kar waya thaa,,
PS: shirt ke upar patta , braces kehlatey hain jo shirt ke upar bhi pehney jasatkey hain woh bandage nahi hotey , sirf abdominal support ke liey hotey hain!
 

bhaibarood

Chief Minister (5k+ posts)
Sach bolnay wali ghalati?
MTJ se ghalati yeh hui ke unhon ne sari qoom aur sarey media ko generalize kardia...
sara media jhoota nahi hai aur na sarey qoom jhooti hai!
bus moun ki firing ya slip of the tongue ho gayee , main MTJ ki niyat pe shak nahi karta !
bohat bhala alim hai