سلیم صافی نے آج روزنامہ جنگ میں کالم لکھا اور وزیراعظم عمران خان سے اپنی بغض نہ چھپا سکے اور دوسروں کو اخلاقیات کا لیکچر دینے والے خود بداخلاقی پر اتر آئے۔ ایسا شخص جو کروڑوں ووٹ لیکر وزیراعظم بنا ا سے اپنے کالم میں "وزیراعظم جناب عمران احمد خان نیازی المعروف یوٹرن خان" کہہ کر مخاطب کیا۔ سلیم صافی نے ہمیشہ ہی عمران خان پر ذاتی حملے کئے ہیں اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ پر بھی یہ کئی بار ذاتی حملے کرچکے ہیں۔ ان کا دکھ صرف یہ ہے کہ عمران خان کیوں وزیراعظم بنا؟ میں نے تو اپنے کالمز لکھ لکھ کر صفحات کالے کردئیے تھے کہ یہ شخص کبھی وزیراعظم نہیں بنے گا۔
سلیم صافی نے اپنے کالم میں آخر لائنیں بہت دلچسپ لکھیں "ان کو لیڈر اور وزیراعظم بنانے کی مشق میں پاکستان یوٹرن لے کر اسی کی دہائی میں توواپس چلا گیا لیکن ہمیں ڈر ہے کہ یوٹرنز لے لے کر کہیں وہ پاکستان کو ساٹھ کی دہائی میں واپس نہ لے جائیں"۔ سلیم صافی کو شاید یہ معلوم نہیں کہ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان تیزی سے ترقی کررہا تھا لیکن بعد میں بھٹو کہیں سے نمودار ہوا اور ملک کا ستیاناس کرکے رکھ دیا۔۔ پہلے اپنی ضد اور "ادھر تم ادھر ہم" کا نعرہ لگاکر بنگلہ دیش بنوانے کی راہ ہموار کی اور پھر نیشنلائزیشن کرکے ملک کی اکانومی کا ستیاناس کردیا۔ جس کی وجہ سے سرمایہ کار اور صنعت کار ڈر گئے اور کئی صنعت کار سرمایہ کاری سے ہچکچاتے رہے کہ کہیں ان کی فیکٹریاں ہتھیانہ لی جائیں اور بیرون ملک سرمایہ کاری کیلئے رخ کیا۔
سلیم صافی کی اطلاع کیلئے ساٹھ کی دہائی میں جرمنی ہم سے قرضہ لے رہا تھا۔ ساٹھ کی دہائی ہی تھی جب ہمیں تربیلا اور منگلا ڈیم ملے اور آج یہی دو ڈیمز انرجی سیکٹر اور پانی کا بوجھ اٹھارہے ہیں۔ یہ دو ڈیم نہ ہوتے تو پاکستان کس حال میں ہوتا ذرا تصور کیجئے۔ کراچی میں ایم کیوایم نامی کسی تنظیم کا وجود نہیں تھا، دہشتگردی نہیں تھی اور کراچی پرامن شہر تھا جہاں 60 کی دہائی میں ٹرام چلا کرتی تھی۔ روپیہ مضبوط تھا، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، کرپشن ، سیاسی اور کرپٹ بیوروکریسی جیسی لعنت آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ پاکستان کے زرعی شعبے میں انقلاب جسے گرین انقلاب کہا جاتا ہے وہ بھی ساٹھ کی دہائی میں آیا۔ صنعت کاری کا پہیہ بھی تب چلا۔ نوازشریف اور زرداری جیسے کرپٹ سیاستدان نہیں تھے جنہوں نے لندن، دوبئی میں جائیدادیں بنائیں۔ جنہوں نے فالودے والے، مرے ہوئے لوگوں کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنائے۔ بھٹو جیسا شخص نہ آتا، نیشنلائزیشن جیسے بلنڈرز نہ کرتا، آئی ایس آئی کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش نہ کرتا تو شاید ہم ترقی یافتہ ملک کہلاتے۔
سلیم صافی کی خدمت میں عرض ہے کہ بات کرنے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ 60 کی دہائی میں ایسے بدترین حالات نہیں تھے جیسے آج ہیں۔ آج بے شک ٹیکنالوجی ہے، موبائل ، انٹرنیٹ جیسی سہولیات ہیں لیکن کرپشن ، معاشی بدحالی ، انتہاپسندی نہیں تھی۔ اس زمانے میں کوئی کرپٹ ہوتا تھا تو لوگ اس پر تھو تھو کرتے تھے آج کرپٹ بندہ سب سے معزز ہے ۔ اس زمانے میں کسی پر چوری کا الزام لگتا تو پورا خاندان شرم سے منہ چھپالیتا۔ آج شریف خاندان اور زرداری خاندان کرپشن پر اکڑ دکھارہے ہیں کہ تم کون ہوتے ہو ہم سے حساب لینے والے۔
کاش پاکستان 60 کی دہائی والا یوٹرن ہی لے لے تاکہ عوام کی زندگیاں تو آسان ہوں۔
سلیم صافی نے اپنے کالم میں آخر لائنیں بہت دلچسپ لکھیں "ان کو لیڈر اور وزیراعظم بنانے کی مشق میں پاکستان یوٹرن لے کر اسی کی دہائی میں توواپس چلا گیا لیکن ہمیں ڈر ہے کہ یوٹرنز لے لے کر کہیں وہ پاکستان کو ساٹھ کی دہائی میں واپس نہ لے جائیں"۔ سلیم صافی کو شاید یہ معلوم نہیں کہ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان تیزی سے ترقی کررہا تھا لیکن بعد میں بھٹو کہیں سے نمودار ہوا اور ملک کا ستیاناس کرکے رکھ دیا۔۔ پہلے اپنی ضد اور "ادھر تم ادھر ہم" کا نعرہ لگاکر بنگلہ دیش بنوانے کی راہ ہموار کی اور پھر نیشنلائزیشن کرکے ملک کی اکانومی کا ستیاناس کردیا۔ جس کی وجہ سے سرمایہ کار اور صنعت کار ڈر گئے اور کئی صنعت کار سرمایہ کاری سے ہچکچاتے رہے کہ کہیں ان کی فیکٹریاں ہتھیانہ لی جائیں اور بیرون ملک سرمایہ کاری کیلئے رخ کیا۔
سلیم صافی کی اطلاع کیلئے ساٹھ کی دہائی میں جرمنی ہم سے قرضہ لے رہا تھا۔ ساٹھ کی دہائی ہی تھی جب ہمیں تربیلا اور منگلا ڈیم ملے اور آج یہی دو ڈیمز انرجی سیکٹر اور پانی کا بوجھ اٹھارہے ہیں۔ یہ دو ڈیم نہ ہوتے تو پاکستان کس حال میں ہوتا ذرا تصور کیجئے۔ کراچی میں ایم کیوایم نامی کسی تنظیم کا وجود نہیں تھا، دہشتگردی نہیں تھی اور کراچی پرامن شہر تھا جہاں 60 کی دہائی میں ٹرام چلا کرتی تھی۔ روپیہ مضبوط تھا، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، کرپشن ، سیاسی اور کرپٹ بیوروکریسی جیسی لعنت آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ پاکستان کے زرعی شعبے میں انقلاب جسے گرین انقلاب کہا جاتا ہے وہ بھی ساٹھ کی دہائی میں آیا۔ صنعت کاری کا پہیہ بھی تب چلا۔ نوازشریف اور زرداری جیسے کرپٹ سیاستدان نہیں تھے جنہوں نے لندن، دوبئی میں جائیدادیں بنائیں۔ جنہوں نے فالودے والے، مرے ہوئے لوگوں کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنائے۔ بھٹو جیسا شخص نہ آتا، نیشنلائزیشن جیسے بلنڈرز نہ کرتا، آئی ایس آئی کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش نہ کرتا تو شاید ہم ترقی یافتہ ملک کہلاتے۔
سلیم صافی کی خدمت میں عرض ہے کہ بات کرنے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ 60 کی دہائی میں ایسے بدترین حالات نہیں تھے جیسے آج ہیں۔ آج بے شک ٹیکنالوجی ہے، موبائل ، انٹرنیٹ جیسی سہولیات ہیں لیکن کرپشن ، معاشی بدحالی ، انتہاپسندی نہیں تھی۔ اس زمانے میں کوئی کرپٹ ہوتا تھا تو لوگ اس پر تھو تھو کرتے تھے آج کرپٹ بندہ سب سے معزز ہے ۔ اس زمانے میں کسی پر چوری کا الزام لگتا تو پورا خاندان شرم سے منہ چھپالیتا۔ آج شریف خاندان اور زرداری خاندان کرپشن پر اکڑ دکھارہے ہیں کہ تم کون ہوتے ہو ہم سے حساب لینے والے۔
کاش پاکستان 60 کی دہائی والا یوٹرن ہی لے لے تاکہ عوام کی زندگیاں تو آسان ہوں۔