ثاقب نثارکی مبینہ آڈیو ٹیپ پر اٹارنی جنرل کی انکوائری کمیشن بنانے کی مخالفت

saqib-nisar-ihccc.jpg


روزنامہ جنگ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار صلاح الدین ایڈووکیٹ اور اٹارنی جنرل خالد جاوید عدالت میں پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے مبینہ آڈیو پرکمیشن بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا آڈیو اسکینڈل میں تحقیقات سے سپریم کورٹ میں سابق جج شوکت عزیزکیسں، رانا شمیم اور نوازشریف کیس پر اثر پڑے گا۔

درخواست گزار صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت نے فرانزک کمپنیوں کے نام اٹارنی جنرل سے مانگے تھے، اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوال کیا کہ نہیں پہلے آپ یہ بتائیں وہ اصل آڈیو کدھر ہے؟ یہ معاملہ ایک زیر التوا اپیل سے متعلق ہے، ہو سکتا ہے اپیل میں انہوں نے خود یہ گراؤنڈ لی ہو۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک کیس کی متوازی دو سماعتیں چلیں، اصل آڈیو ملنے تک دنیا کی کوئی فرانزک فرم واضح رائے نہیں دے سکتی، صلاح الدین صاحب ہم سب احتساب کیلئے حاضر ہیں، آپ کا اس عدالت سے کوئی شکوہ ہے تو ہمیں بتائیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کل ہم فرانزک کرائیں اور رائے آجائے کہ یہ آڈیو مستند نہیں، دوسری جانب اسی کیس کی اپیلیں زیر سماعت ہیں، کیا ایسی رپورٹ آنے پر اپیل میں فیئر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہو گا؟ درخواستگزار نے کہا کہ صحافی احمد نورانی مجھے کبھی بھی اصل آڈیو نہیں دیں گے، اگر عدالت صحافی کو سمن کرے یا کوئی کمیشن بنے تب ہی آڈیو مل سکتی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ آڈیو سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، اس فیصلے کےخلاف جا کر ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟ یہ سارا معاملہ ایک کیس سے متعلق ہی ہے، زیر التوا کیس سے متعلق متوازی کارروائی کیسے چلائیں یہ بتائیں۔

درخواستگزار وکیل نے دلائل میں کہا کہ یہ صرف ایک پہلو ہے کہ آڈیو شریف فیملی سے متعلق ہے، ہو سکتا ہے آڈیو کے علاوہ دیگر گراؤنڈز پر کل شریف فیملی بری ہو جائے، کل انہیں صدارتی معافی مل جائے یا کچھ بھی ہو کر کیسز ختم ہو سکتے ہیں، اس کے بعد بھی اس آڈیو کی دھند چھائی رہے گی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ آپ جب اس عدالت کی بات کرتے ہیں پہلے بتائیں اس عدالت سے کیا شکوہ ہے؟ اب آپ کو پہلے بتانا ہو گا اس عدالت نے ایسا کیا کیا ہے؟ صلاح الدین ایڈووکیت نے کہاکہ میرا مطلب مجموعی طور پر عدلیہ تھا صرف یہ عدالت نہیں۔ مجھے امید ہے رپورٹ یہی آئے گی آڈیو درست نہیں۔

صلاح الدین بولے کہ 10 فیصد بھی چانس ہوا کہ آڈیو درست ہے تو ہوسکتا ہے یہ بات کسی جج کو نہ بولی گئی ہو، ہو سکتا ہے یہ سابق چیف جسٹس کی محض اپنے دوست سے کی گئی بات ہو،ہو سکتا ہے آڈیو والی گفتگو کا کسی کیس پر اثر نہ پڑا ہو۔

اٹارنی جنرل نے ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست کے کیس میں کہا کہ درخواست گزار وکیل کہتے ہیں اصل آڈیو موجود ہی نہیں، یہی بنیاد اس درخواست کو مسترد کر دینے کیلئے کافی ہے، پاکستانی عدلیہ کو کسی فرانزک کی بیساکھیاں نہیں چاہئیں،ماضی میں بھی جج سے بات کرنے کی آڈیو آگئی تھی کچھ نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ تاریخ بہت ظالم ہے وہ کسی کو فرانزک رپورٹ پر یاد نہیں رکھتی، تاریخ ججوں کو ان کے فیصلوں پر یاد رکھے گی، میں حکومت کو بھی انکوائری کروانے کا کہہ سکتا ہوں، مگر سوال یہ ہے اس انکوائری کا پرنسپل کیا ہو گا؟ کس کس معاملے پر انکوائری کرانا کیسے طے کریں؟

انہوں نے کہا کہ شوگر، پیٹرولیم انکوائری پر مجھے کوئی کنفیوژن نہیں تھی کیا کرنا ہے، اس کیس میں جن کی اپیلیں زیر التوا ہیں وہ بھی میرے لئے محترم ہیں، یہ ایک زیر التوا کیس نہ ہوتا میں بھی کہہ دیتا کروا لیں انکوائری۔

چیف جسٹس اسلام آباد کا درخواست گزار سے مکالمہ کہاکہ صلاح الدین صاحب ایک مشکل اور بھی ہے، 2018 میں اسی کیس کے دوران کہا گیا فلاں جج کو بیرون ملک فلیٹ ملا، کیا اس معاملے پر بھی کہنا چاہیے کہ اس پر کمیشن بنایا جائے؟ ایک کیس میں ایک معاملے پر کمیشن بنایا جائے تو باقی ایشوز پر کیوں نہیں؟
 

Siberite

Chief Minister (5k+ posts)
یعنی بوسری کی عدالت اپنے پیٹ سے پردہ اٹھانا نہیں چاھتی ۔ یہ حرامی یپلا بابا رحمتے اتنا گند ڈال گیا ہے کہ سارے موالی اس سے پردہ اٹھا کر اپنا ٹھٹا نہیں اڑانا چاھتے ، اسی دوران چاھے انصاف تیل لینے چلا جائے ۔​