تیری جان میری جان صدیق جان صدیق جان اور صحافت
پاکستانی صحافت میں عمران خان کی آمد سے تمام شعبہ زندگی کے مافیہ کھل کر سامنے ا چکے ہیں اور ان میں سے ایک صحافت کا شعبہ بھی ہے . پاکستان میں سیاست سے لے کر صحافت تک میں بھر پورانویسٹمنٹ کی جاتی ہے . جنرل مشرف نے الیکٹرانک چینلز کے بیشمار لائسنسز جاری کئے جس سے پاکستان ٹیلی ویژن کی اجاداری ختم ہو گئی تھی . پاکستان میں جنگ گروپ کو کنگ میکرز سمجھا جاتا تھا جنکے پاس معروف کالم نویسوں کی ایک مکمل کھیپ تھی جو لوگوں کی ذھن سازی کرتی تھی . پنجاب کے روایتی ذھن سازوں نے شریف خاندان کو بھر پور طریقے سے اٹھایا . یہ مختصرترین تعارف آجکل کی نوجوان نسل کے لئے ہے. پاکستان کی صحافت کا احاطہ کرنا ایک چھوٹے سے بلاگ میں نہ ممکن ہے لھذا عھد حاضر میں جھانکتے ہیں
عمران خان کی وجہ سے میرے جیسے بہت سے لوگوں نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی . پرنٹ میڈیا کے دور میں کسی لیڈر کی خبر لگوانے کے لئے پہلے گولڈ لیف کی ایک ڈبی اور تھوڑے سے پیسوں سے کام چل جاتا تھا جو اگے چل کر باقاعدہ ذھن سازی کی صنعت میں تبدیل ہو گیا . جن لوگوں کی تحریروں سے ہم لوگ پہلے مرعوب ہوتے تھے ، انکی شخصیت پیاز کے چھلکوں کی طرح اترتی چلی گئی . پہلے نامور صحافی اپنی تمام تحریریں اور پروگرامز بلواسطہ کرتے تھے مگر بعد میں سیاسی مافیہ نے انسے سے وفاداری کا تقاضہ کیا .اب سب تمام ماسک اتار کر کھل کر سامنے ا گئے . لوگوں نے انکا اصل چہرہ دیکھ کر اپنی انگلیاں دانتوں کے نیچے دبا دیں . پاکستان کے سیٹھوں نے اپنی غیر قانونی دولت چھپانے کے لئے میڈیا گروپس بنانے شروع کر دئے اور کامیابی سے اپنی ایمپائر کا دفاع کیا
نواز شریف کی تمام ظاہری ترقی میڈیا پر تھی .حکومتی فنڈ سے چار سالوں میں ١٦ ارب روپے خرچ کئے گئے . کچھ سیاسی جماعتیں ٥٠ ارب روپے تک کی باتیں کرتی ہیں . جہاں عمران خان نے سیاسی مافیہ کی چیخیں نکلوائیں ہیں ، وہ صحافیوں کی چیخیں بھی کامیابی سے نکلوا رہے ہیں . اس چھوٹی سی مارکیٹ میں برسات کے مینڈک کی طرح میڈیا گروپ کھل چکے ہیں جو اب اپنی موت آپ مر رہے ہیں لھذا ہزاروں لوگ بیکار ہو رہے ہیں . انٹرنیٹ کے اس دور میں پرنٹ میڈیا ویسے بھی عالمی طور پر کمزور ہو رہا ہے اور اب بڑے بڑے اخبارات بھی مختلف ملکوں میں اپنے نامہ نگار نہیں رکھتے . عمران خان کی مالی بچت کی مہم سے بڑے بڑے میڈیا چینلز نے بڑے بڑے صحافیوں کی تنخواہوں پر ٥٠ فیصد کی چربی کم کی ہے . جو لوگ کل تک جہاز رکھتے تھے وہ اب یو ٹیوب چینل پر مقید ہو چکے ہیں
شتر بے مہار کی طرح پاکستانی صحافی تمام مکتب فکر پرتنقید کرتے تھے مگر کوئی بھی اپنی انڈسٹری کے بارے میں نہیں بولتا تھا . میڈیا انڈسٹری میں چھوٹے صحافیوں کی کوئی شنوائی نہ تھی اور نہ اب ہے .ساری کھیر بڑے صحافی کھا رہے تھے . جسطرح آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے بارے میں کوئی قانون نہیں ہے ، اسی طرح پاکستانی میڈیا انڈسٹری کا کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہے . رؤف کلاسرا نے نواز شریف دور میں سیاستدانوں کے کرپشن پر بیشمار پروگرام کئے اور انھیں ایک چینل سے دوسرے چینل پر جانا پڑا مگر نوکری انکی برقرار رہتی تھی . جرنیلی گورنمنٹ میں جب انہوں نے اینگرو مافیا اور دوسروں کے خلاف پروگرام متواتر کئے تو قومی ترقی میں اسے رکاوٹ سمجھا گیا اور انھیں نوکری سے نکلوا دیا گیا . اب موصوف عمران خان کے لتے لیتے نظر اتے ہیں اور جاوید چوھدری طرز پر لوگوں سے گالیاں کھا رہے ہیں . موجودہ حکومت نے وہسل بلوور قانون کا ایسا کھیل کھیلا جسکی وجہ سے سرکاری افسران نے وہ فائلز صحافیوں کو دینے بند کر دئے جو انویسٹیگیٹو جرنلسٹ کہلائے جاتے تھے . گزشتہ ڈیڑھ سالوں میں کدھر گئی انکی انویسٹیگیٹو جرنلزم؟
جو کل تک انویسٹیگٹو صحافی تھے وہ آج انویسٹیگٹو صحافی کیوں نہیں رہے ؟
کیا اسے کرپشن کے خلاف مہم پر حکومت کی کامیابی سمجھیں ؟
. گورنمنٹ نہ وہ قانون لا رہی ہے اور نہ حکومتی کرپشن کا عوام کو پتا چل رہا ہے
کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف جہاں تمام چوٹی کے اینکر حضرات عمران خان کے دوالے ہو چکے ہیں وہاں صحافیوں کی ایک نئی کھیپ بھی میدان عمل میں اتر چکی ہے .ان تمام نوجوان صحافیوں کی لیڈری صدیق جان کر رہے ہیں . صدیق جان جب ڈیم چیف جسٹس ثاقب نثار کی چاپلوسی کرتے تھے تو مجھے یہ سخت ناگوار لگتا تھا . یہ نوجوان صحافی نہ صرف بہادر ہے بلکے جدت سے بہرہ مند اور ترقی پسند بھی ہے . جب بڑے صحافیوں نے صدیق جان کو دبانا چاہا تو اس نے یو ٹیوب کا سہارا لیا اور اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے اپنے ذریعے خود پیدا کر رہے ہیں. نوجوان صحافی ہو کر بھی صدیق جان نے میڈیا مافیا کے بڑے ناموں کو سینگوں سے پکڑ لیا اور کسی بھی خطرے سے نہ ڈرے . میرے لئے ایک حیران کن عمل ہے جسکی داد نہ دینا کم ظرفی ہو گی . ایسے صحافی کی خواہش میری دل میں عرصے سے پل رہی تھی . لگتا ایسا ہے کے نوجوان صدیق جان عمران خان حکومت کا حمایتی ہے مگر ایسا ہر گز نہیں ہے . وہ " کیپ اٹ فکنگ سمپل " کے اصولوں پر عمل پیرا ہے اور صرف اصل خبروں کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور متعلقہ انڈسٹری کے لوگوں سے حقائق جان کر اپنا اصولی تبصرہ کرتے ہیں . آجکل ٹالک شوز تو کوئی دیکھتا نہیں ہے لھذا جو کلپس سیاست پی کے یا دوسرے سوشل میڈیا پر چل رہے ہوں ہم لوگ اسی پر گزارا کرتے ہیں . صدیق جان کے اکثر یو ٹیوب ویڈیوز کو سیاست پی کے پر جگہ ملتی ہے جوانکی مقبولیت کا ثبوت ہے . صدیق جان نے حالیہ دنوں میں بیشمار نامور صحافیوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں کیونکے وہ صحافت کے بنیادی اصولوں کو رو گردانی نہیں کر رہے ہیں . نوجوان صحافیوں کی موجودہ کھیپ پاکستان کے لئے بہت نیک شگون ہے
عمران خان حکومت نے صحافت کے لئے نئے قانون سازی پر کام شروع کیا ہوا ہے اور کونٹینٹ جانے بغیر نامور صحافیوں نے پہلے سے کھپ رولا ڈال دیا ہے . اگر آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر قانون سازی ہو سکتی ہے تو صحافی اپنے آپکو کسی قانون سے مبرا کیوں سممجھتے ہیں . یہ ہر گورنمنٹ کا حق ہے کے وہ ہر ادارے اور ہر شعبہ حیات میں ریفارمز کرے . صحافیوں کو یہ حق بلکل نہیں پہنچتا کے وہ بغیر جانے اور سمجھےماتم شروع کر دیں اور اپنے آپکو مافیہ ظاہر کر دیں جو تمام قوانین سے بالا تر ہوتے ہیں . جسطرح پاکستان کے بیشتر صحافی بیروزگار ہو چکے ہیں لھذا قانون سازی شائد انکے لئے مفید ثابت ہو . میڈیا انڈسٹری میں گندے انڈوں اور پیرا شوٹر سے ہمیں نجات ملے . آجکل ڈاکٹراور بیرسٹر سمیت بہت سے لوگ صحافت کو اپنی بیساکھی بنا کر اسے استعمال کرکے ہیجان میں اضافہ کر رہے ہیں . میڈیا انڈسٹری میں قانون سازی سے صرف متعلقہ لوگ ہی اس انڈسٹری میں رہ جائیں گے . صحافیوں کو خواہ مخواہ حکومت سے ٹکرانا نہیں چاہئے . ہم لوگ دیکھ رہے ہیں اصلاحات کے عمل سے کاروباری ، ڈاکٹر اور بہت سے لوگ حکومت سے خائف ہیں . یہ ظاہر ہوتا ہے کے لوگ اپنے گریبان میں جھانکنا نہیں چاہتے اور صرف شور شرابے پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں . عمران خان کے ہوتے ہوے ایسا نہیں چلے گا .صحافیوں کو سمجھنا چاہئے کے انکی مقبولیت عام لوگوں کے دم خم سے ہے لھذا وہ باتیں نہ کریں جو معقول نہ ہوں اور زد کے زمرے میں جاتی ہوں . بغض عمران خان سے بیشتر صحافی اپنی میراث کھو چکے ہیں اور باقی اسی راستے کے مسافر ہیں . آپلوگ بدلتی رتوں اور تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش کریں جیسا کے آپلوگوں نے یو ٹیوب کا سہارا لے کر کیا ہے . اب قدورتیں اور بغض چھپائی نہیں چھپ سکتیں لھذا اپنے روایتی سوچوں سے دست بردار ہو کر جدت کو اپنائیں
اگر صدیق جیسا نوجوان صحافی ,صحافت کے بنیادی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر اتنی بھیڑ اور سٹار ڈم میں اپنی مارکیٹ بنا سکتا ہے تو اچھے صحافی ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟
پاکستانی صحافت میں عمران خان کی آمد سے تمام شعبہ زندگی کے مافیہ کھل کر سامنے ا چکے ہیں اور ان میں سے ایک صحافت کا شعبہ بھی ہے . پاکستان میں سیاست سے لے کر صحافت تک میں بھر پورانویسٹمنٹ کی جاتی ہے . جنرل مشرف نے الیکٹرانک چینلز کے بیشمار لائسنسز جاری کئے جس سے پاکستان ٹیلی ویژن کی اجاداری ختم ہو گئی تھی . پاکستان میں جنگ گروپ کو کنگ میکرز سمجھا جاتا تھا جنکے پاس معروف کالم نویسوں کی ایک مکمل کھیپ تھی جو لوگوں کی ذھن سازی کرتی تھی . پنجاب کے روایتی ذھن سازوں نے شریف خاندان کو بھر پور طریقے سے اٹھایا . یہ مختصرترین تعارف آجکل کی نوجوان نسل کے لئے ہے. پاکستان کی صحافت کا احاطہ کرنا ایک چھوٹے سے بلاگ میں نہ ممکن ہے لھذا عھد حاضر میں جھانکتے ہیں
عمران خان کی وجہ سے میرے جیسے بہت سے لوگوں نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی . پرنٹ میڈیا کے دور میں کسی لیڈر کی خبر لگوانے کے لئے پہلے گولڈ لیف کی ایک ڈبی اور تھوڑے سے پیسوں سے کام چل جاتا تھا جو اگے چل کر باقاعدہ ذھن سازی کی صنعت میں تبدیل ہو گیا . جن لوگوں کی تحریروں سے ہم لوگ پہلے مرعوب ہوتے تھے ، انکی شخصیت پیاز کے چھلکوں کی طرح اترتی چلی گئی . پہلے نامور صحافی اپنی تمام تحریریں اور پروگرامز بلواسطہ کرتے تھے مگر بعد میں سیاسی مافیہ نے انسے سے وفاداری کا تقاضہ کیا .اب سب تمام ماسک اتار کر کھل کر سامنے ا گئے . لوگوں نے انکا اصل چہرہ دیکھ کر اپنی انگلیاں دانتوں کے نیچے دبا دیں . پاکستان کے سیٹھوں نے اپنی غیر قانونی دولت چھپانے کے لئے میڈیا گروپس بنانے شروع کر دئے اور کامیابی سے اپنی ایمپائر کا دفاع کیا
PML-N govt gave Rs15.74 billion worth of ads in four years, Senate told
Advertisements worth Rs10.33bn had been given to the print media and Rs5.40bn to the electronic media.
www.dawn.com
نواز شریف کی تمام ظاہری ترقی میڈیا پر تھی .حکومتی فنڈ سے چار سالوں میں ١٦ ارب روپے خرچ کئے گئے . کچھ سیاسی جماعتیں ٥٠ ارب روپے تک کی باتیں کرتی ہیں . جہاں عمران خان نے سیاسی مافیہ کی چیخیں نکلوائیں ہیں ، وہ صحافیوں کی چیخیں بھی کامیابی سے نکلوا رہے ہیں . اس چھوٹی سی مارکیٹ میں برسات کے مینڈک کی طرح میڈیا گروپ کھل چکے ہیں جو اب اپنی موت آپ مر رہے ہیں لھذا ہزاروں لوگ بیکار ہو رہے ہیں . انٹرنیٹ کے اس دور میں پرنٹ میڈیا ویسے بھی عالمی طور پر کمزور ہو رہا ہے اور اب بڑے بڑے اخبارات بھی مختلف ملکوں میں اپنے نامہ نگار نہیں رکھتے . عمران خان کی مالی بچت کی مہم سے بڑے بڑے میڈیا چینلز نے بڑے بڑے صحافیوں کی تنخواہوں پر ٥٠ فیصد کی چربی کم کی ہے . جو لوگ کل تک جہاز رکھتے تھے وہ اب یو ٹیوب چینل پر مقید ہو چکے ہیں
شتر بے مہار کی طرح پاکستانی صحافی تمام مکتب فکر پرتنقید کرتے تھے مگر کوئی بھی اپنی انڈسٹری کے بارے میں نہیں بولتا تھا . میڈیا انڈسٹری میں چھوٹے صحافیوں کی کوئی شنوائی نہ تھی اور نہ اب ہے .ساری کھیر بڑے صحافی کھا رہے تھے . جسطرح آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے بارے میں کوئی قانون نہیں ہے ، اسی طرح پاکستانی میڈیا انڈسٹری کا کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہے . رؤف کلاسرا نے نواز شریف دور میں سیاستدانوں کے کرپشن پر بیشمار پروگرام کئے اور انھیں ایک چینل سے دوسرے چینل پر جانا پڑا مگر نوکری انکی برقرار رہتی تھی . جرنیلی گورنمنٹ میں جب انہوں نے اینگرو مافیا اور دوسروں کے خلاف پروگرام متواتر کئے تو قومی ترقی میں اسے رکاوٹ سمجھا گیا اور انھیں نوکری سے نکلوا دیا گیا . اب موصوف عمران خان کے لتے لیتے نظر اتے ہیں اور جاوید چوھدری طرز پر لوگوں سے گالیاں کھا رہے ہیں . موجودہ حکومت نے وہسل بلوور قانون کا ایسا کھیل کھیلا جسکی وجہ سے سرکاری افسران نے وہ فائلز صحافیوں کو دینے بند کر دئے جو انویسٹیگیٹو جرنلسٹ کہلائے جاتے تھے . گزشتہ ڈیڑھ سالوں میں کدھر گئی انکی انویسٹیگیٹو جرنلزم؟
جو کل تک انویسٹیگٹو صحافی تھے وہ آج انویسٹیگٹو صحافی کیوں نہیں رہے ؟
کیا اسے کرپشن کے خلاف مہم پر حکومت کی کامیابی سمجھیں ؟
. گورنمنٹ نہ وہ قانون لا رہی ہے اور نہ حکومتی کرپشن کا عوام کو پتا چل رہا ہے
کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف جہاں تمام چوٹی کے اینکر حضرات عمران خان کے دوالے ہو چکے ہیں وہاں صحافیوں کی ایک نئی کھیپ بھی میدان عمل میں اتر چکی ہے .ان تمام نوجوان صحافیوں کی لیڈری صدیق جان کر رہے ہیں . صدیق جان جب ڈیم چیف جسٹس ثاقب نثار کی چاپلوسی کرتے تھے تو مجھے یہ سخت ناگوار لگتا تھا . یہ نوجوان صحافی نہ صرف بہادر ہے بلکے جدت سے بہرہ مند اور ترقی پسند بھی ہے . جب بڑے صحافیوں نے صدیق جان کو دبانا چاہا تو اس نے یو ٹیوب کا سہارا لیا اور اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے اپنے ذریعے خود پیدا کر رہے ہیں. نوجوان صحافی ہو کر بھی صدیق جان نے میڈیا مافیا کے بڑے ناموں کو سینگوں سے پکڑ لیا اور کسی بھی خطرے سے نہ ڈرے . میرے لئے ایک حیران کن عمل ہے جسکی داد نہ دینا کم ظرفی ہو گی . ایسے صحافی کی خواہش میری دل میں عرصے سے پل رہی تھی . لگتا ایسا ہے کے نوجوان صدیق جان عمران خان حکومت کا حمایتی ہے مگر ایسا ہر گز نہیں ہے . وہ " کیپ اٹ فکنگ سمپل " کے اصولوں پر عمل پیرا ہے اور صرف اصل خبروں کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور متعلقہ انڈسٹری کے لوگوں سے حقائق جان کر اپنا اصولی تبصرہ کرتے ہیں . آجکل ٹالک شوز تو کوئی دیکھتا نہیں ہے لھذا جو کلپس سیاست پی کے یا دوسرے سوشل میڈیا پر چل رہے ہوں ہم لوگ اسی پر گزارا کرتے ہیں . صدیق جان کے اکثر یو ٹیوب ویڈیوز کو سیاست پی کے پر جگہ ملتی ہے جوانکی مقبولیت کا ثبوت ہے . صدیق جان نے حالیہ دنوں میں بیشمار نامور صحافیوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں کیونکے وہ صحافت کے بنیادی اصولوں کو رو گردانی نہیں کر رہے ہیں . نوجوان صحافیوں کی موجودہ کھیپ پاکستان کے لئے بہت نیک شگون ہے
عمران خان حکومت نے صحافت کے لئے نئے قانون سازی پر کام شروع کیا ہوا ہے اور کونٹینٹ جانے بغیر نامور صحافیوں نے پہلے سے کھپ رولا ڈال دیا ہے . اگر آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر قانون سازی ہو سکتی ہے تو صحافی اپنے آپکو کسی قانون سے مبرا کیوں سممجھتے ہیں . یہ ہر گورنمنٹ کا حق ہے کے وہ ہر ادارے اور ہر شعبہ حیات میں ریفارمز کرے . صحافیوں کو یہ حق بلکل نہیں پہنچتا کے وہ بغیر جانے اور سمجھےماتم شروع کر دیں اور اپنے آپکو مافیہ ظاہر کر دیں جو تمام قوانین سے بالا تر ہوتے ہیں . جسطرح پاکستان کے بیشتر صحافی بیروزگار ہو چکے ہیں لھذا قانون سازی شائد انکے لئے مفید ثابت ہو . میڈیا انڈسٹری میں گندے انڈوں اور پیرا شوٹر سے ہمیں نجات ملے . آجکل ڈاکٹراور بیرسٹر سمیت بہت سے لوگ صحافت کو اپنی بیساکھی بنا کر اسے استعمال کرکے ہیجان میں اضافہ کر رہے ہیں . میڈیا انڈسٹری میں قانون سازی سے صرف متعلقہ لوگ ہی اس انڈسٹری میں رہ جائیں گے . صحافیوں کو خواہ مخواہ حکومت سے ٹکرانا نہیں چاہئے . ہم لوگ دیکھ رہے ہیں اصلاحات کے عمل سے کاروباری ، ڈاکٹر اور بہت سے لوگ حکومت سے خائف ہیں . یہ ظاہر ہوتا ہے کے لوگ اپنے گریبان میں جھانکنا نہیں چاہتے اور صرف شور شرابے پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں . عمران خان کے ہوتے ہوے ایسا نہیں چلے گا .صحافیوں کو سمجھنا چاہئے کے انکی مقبولیت عام لوگوں کے دم خم سے ہے لھذا وہ باتیں نہ کریں جو معقول نہ ہوں اور زد کے زمرے میں جاتی ہوں . بغض عمران خان سے بیشتر صحافی اپنی میراث کھو چکے ہیں اور باقی اسی راستے کے مسافر ہیں . آپلوگ بدلتی رتوں اور تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش کریں جیسا کے آپلوگوں نے یو ٹیوب کا سہارا لے کر کیا ہے . اب قدورتیں اور بغض چھپائی نہیں چھپ سکتیں لھذا اپنے روایتی سوچوں سے دست بردار ہو کر جدت کو اپنائیں
اگر صدیق جیسا نوجوان صحافی ,صحافت کے بنیادی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر اتنی بھیڑ اور سٹار ڈم میں اپنی مارکیٹ بنا سکتا ہے تو اچھے صحافی ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟