بھٹو کو کیوں پھانسی دی گئی- احمد رضا قصوری کا دلچسپ انٹرویو

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
یہ انٹرویو احمد رضا قصوری صاحب نے تقریباً ایک سال قبل ریکارڈ کروایا تھا- یہ وہی احمد رضا قصوری صاحب ہیں جن کے والد نواب احمد رضا خان قصوری کے قتل کا جرم سپریم کورٹ میں ثابت ہونے پر بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی- احمد رضا خان قصوری نے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹر کیا ہے۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ وکیل بن گئے ۔ وہ پاکستان کے بہترین قانونی ذہنوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ جب 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب کی حکومت چھوڑ دی ، تو احمد رضا قصوری ان کی تیز تقریروں سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے 1967 میں اپنی پارٹی ، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شمولیت اختیار کی۔ بھٹو نے انہیں پیپلز پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا ممبر مقرر کیا۔ وہ لاہور کے ایک حلقے سے 1970 کے پاکستانی عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پاکستان کی قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔

اس انٹرویو میں احمد رضا قصوری صاحب بیان کرتے ہیں کہ 7 دسمبر 1970 کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے نتیجہ عوامی لیگ کی فتح تھی ، جس نے 160 سیٹوں کی مطلق اکثریت حاصل کی ، یہ تمام تر مشرقی پاکستان میں تھی۔ پیپلز پارٹی نے صرف 81 سیٹیں حاصل کیں ، تمام مغربی پاکستان میں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وفاقی حکومت میں مشرقی پاکستان سے پارٹی نہیں چاہتے تھے۔ اس نے ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے بھی سختی سے انکار کردیا۔ دراصل ، وہ اتنا مغرور تھا کہ اس نے دھمکی دی کہ اگر کوئی منتخب پارٹی ممبر ڈھاکہ جانے کی جرات کرے گا تو ان کی ٹانگیں توڑ ڈالیں گے ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم نہیں بن سکتا ، لہذا اس نے یہاں تک کہا کہ آپ مشرق میں حکومت کریں ، ہم مغرب میں حکومت کریں گے۔ جو کہ "
ادھر تم ادھر ہم " کے نعرے سے مشہور ہوا۔ اس موقع پر احمد رضا قصوری صاحب نے مغربی پاکستان کی اسمبلی میں اس نعرے کے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ نہ صرف یہ بلکہ احمد رضا قصوری صاحب شاید وہ واحد پارٹی ممبر تھے جو کہ ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنےکے لیے ڈھاکہ پہونچ گئے۔ بھٹو احمد رضا قصوری صاحب کے اس رویے سے سخت نالاں تھے۔ ایک موقع پر اسمبلی کے فلور پر بھٹو نے کہ قصوری پاکستان کے لئے خطرہ ہیں اور یہ کہ وہ ان کا جلد بندوبست کریں گے۔ یہیں سے بھٹو قصوری صاحب کا جانی دشمن بن گیا۔ اور کئی ناکام قاتلانہ حملوں میں ناکامی کے بعد ایک حملے میں جو گولی احمد رضا قصوری صاحب کو نشانہ بنانا چاہتی تھی وہ ان کے والد کے جا لگی جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہو گئے۔
بھٹو کے دور حکومت میں احمد رضا قصوری صاحب کو کوئی انصاف نہ ملا، بلاخر ضیاء الحق کے دور میں
ایف-ایس-ایف کے ڈائریکٹر نے وعدہ معاف گواہ کے طور پر اعترافی بیان دیا کہ کس طرح بھٹو کے حکم پر قصوری صاحب کو قتل کرنے کا پلان بنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا ہونے کے بعد نظر ثانی کی درخواست بھی پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر مسترد کر دی ۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 2 اپریل 2011 کو بھٹو کے قتل کے مقدمے پر نظرثانی کے بارے میں اپنی رائے طلب کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن ریفرنس اب تک بے نتیجہ ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی کے وکلاء احمد رضا قصوری کے مظبوط سوالناموں کا جواب دینے میں اب تک ناکام ہیں۔
 
Last edited:

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)

Photo: J A Rahim sitting on the lap of Bhutto

Above photo shows Bhutto seated among the men who would turn the PPP into a fervent progressive platform that not only accommodated committed Marxists, Maoists, Islamic Socialists and liberals alike, but would also go on to sweep the 1970 general election (in former West Pakistan). The most endearing characteristic of the image is the way J. A. Rahim (an otherwise serious and sombre Marxist thinker and PPP's leading ideologue) is actually sitting on Bhutto's lap!

In mid-1974 the People’s Party government led by Z.A. Bhutto faced a barrage of criticism from the opposition, mostly the rightist parties which did not want hard-core secular people and committed workers at the centre of the party. This cast shadows on the party’s infrastructure. The most regrettable event was the departure of Mr J.A. Rahim, in a very disgraceful manner.

Jalaluddin Abdur Rahim was a Bengali socialist, thinker and one of the founding fathers of Pakistan People’s Party. Educated in political science and philosophy, he began his career as foreign secretary in Mohammed Ali Bogra’s government. He became a member of the Communist Party but joined Bhutto in 1965. When Bhutto convened a convention for forming a political party on November 30, 1967, J.A. Rahim authored the PPP’s constitution and was appointed the party’s first secretary general. After the formation of the PPP government in 1972, Rahim was appointed minister for defence production — a position he retained till his ouster in 1974.

On July 2, 1974, Bhutto had arranged a dinner for the cabinet ministers and close aides. Though the invitation card asked the guests to be there by 8pm, Bhutto did not appear till 11pm. As the clock struck midnight Rahim felt tired and humiliated. Considerably annoyed, J. A. Rahim rose and looking at the waiting ‘courtiers’ said that they could wait for the ‘Larkana Maharaja’ but he was leaving.

While he was asleep at home, at around 1.0am, the FSF men led by the chief of the prime minister’s security officers banged at his gate. They beat him mercilessly and took the bleeding minister to the police station in a jeep. His release was later secured by Rafi Raza, Bhutto’s special assistant. He was flown to Karachi from where he flew to Europe.

Besides his altercations with party leaders over holding independent views, Bhutto also dragged the party into confrontation with the press. Besides hundreds of examples of press gagging, three examples best illustrate Bhutto’s animosity towards the independence of the press. First, the arrest of Altaf Gohar, editor of Dawn; second, the arrest of the editor of the Jamaat-i-Islami mouthpiece, Jasarat; third, the arrest of Syed Sardar Ali Shah, editor of Pir Pagara’s Sindhi newspaper Mehran and closure of the newspaper for six months.

The arrest of the Jasarat editor was due to its criticism over the political objectives of the People’s Party and Bhutto’s policy vis-a-vis the opposition. The action against Altaf Gohar of Dawn had a background of personal bitterness. Altaf Gohar was a bureaucrat and known for his honesty and hard work, besides being a gifted writer. He became so close to the military dictator, Ayub Khan, that he outlined the government’s policies. Bhutto also remembered the incident when he had to appear before Altaf who was then the deputy commissioner of Karachi. A heated debate ensued between the two. The bitterness also had a background of the Tashkent summit when Bhutto was the foreign minister. When Altaf retired in 1969, he took up journalism and was chosen by the Haroons as editor of Dawn. One day Dawn carried an editorial titled ‘Mountains don’t cry’, which was indirectly a reference to Bhutto’s flawed policies.

One night in 1972, a contingent of police broke into Altaf’s home, entered his bedroom, dragged him out and put him in jail for reasons not known to him. In spite of these excessive measures, he continued writing according to his conscience and upheld the people’s right to freedom of expression.

The ordeals of Syed Sardar Ali Shah of daily Mehran and other journalists were not too different. This placed a pall of gloom over the community that kept the society abreast of developments and raised a voice for their rights. This created a wedge between the people and the government. Since the government’s mouthpiece papers could not give a true picture, people began relying on foreign broadcasts, a trend that had taken firm root during the East Pakistan debacle.

The London reporter of Dawn, Nasim Ahmed, who had developed an acquaintance with Bhutto during the former’s stay in the United Kingdom, had been appointed the federal government’s information secretary and used his powers in alienating the media from the people.



His handful of cronies followed the track route Nasim Ahmad laid down. This made the whole political situation murky and confusing, strengthening opposition’s fears of foul play.
Published in Dawn Feb 02, 2013 09:04 pm
 

Cornered Tiger

Councller (250+ posts)
یہ انٹرویو احمد رضا قصوری صاحب نے تقریباً ایک سال قبل ریکارڈ کروایا تھا- یہ وہی احمد رضا قصوری صاحب ہیں جن کے والد نواب احمد رضا خان قصوری کے قتل کا جرم سپریم کورٹ میں ثابت ہونے پر بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی- احمد رضا خان قصوری نے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹر کیا ہے۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ وکیل بن گئے ۔ وہ پاکستان کے بہترین قانونی ذہنوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ جب 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب کی حکومت چھوڑ دی ، تو احمد رضا قصوری ان کی تیز تقریروں سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے 1967 میں اپنی پارٹی ، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شمولیت اختیار کی۔ بھٹو نے انہیں پیپلز پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا ممبر مقرر کیا۔ وہ لاہور کے ایک حلقے سے 1970 کے پاکستانی عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پاکستان کی قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔

اس انٹرویو میں احمد رضا قصوری صاحب بیان کرتے ہیں کہ 7 دسمبر 1970 کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے نتیجہ عوامی لیگ کی فتح تھی ، جس نے 160 سیٹوں کی مطلق اکثریت حاصل کی ، یہ تمام تر مشرقی پاکستان میں تھی۔ پیپلز پارٹی نے صرف 81 سیٹیں حاصل کیں ، تمام مغربی پاکستان میں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وفاقی حکومت میں مشرقی پاکستان سے پارٹی نہیں چاہتے تھے۔ اس نے ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے بھی سختی سے انکار کردیا۔ دراصل ، وہ اتنا مغرور تھا کہ اس نے دھمکی دی کہ اگر کوئی منتخب پارٹی ممبر ڈھاکہ جانے کی جرات کرے گا تو ان کی ٹانگیں توڑ ڈالیں گے ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم نہیں بن سکتا ، لہذا اس نے یہاں تک کہا کہ آپ مشرق میں حکومت کریں ، ہم مغرب میں حکومت کریں گے۔ جو کہ "
ادھر تم ادھر ہم " کے نعرے سے مشہور ہوا۔ اس موقع پر احمد رضا قصوری صاحب نے مغربی پاکستان کی اسمبلی میں اس نعرے کے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ نہ صرف یہ بلکہ احمد رضا قصوری صاحب شاید وہ واحد پارٹی ممبر تھے جو کہ ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنےکے لیے ڈھاکہ پہونچ گئے۔ بھٹو احمد رضا قصوری صاحب کے اس رویے سے سخت نالاں تھے۔ ایک موقع پر اسمبلی کے فلور پر بھٹو نے کہ قصوری پاکستان کے لئے خطرہ ہیں اور یہ کہ وہ ان کا جلد بندوبست کریں گے۔ یہیں سے بھٹو قصوری صاحب کا جانی دشمن بن گیا۔ اور کئی ناکام قاتلانہ حملوں میں ناکامی کے بعد ایک حملے میں جو گولی احمد رضا قصوری صاحب کو نشانہ بنانا چاہتی تھی وہ ان کے والد کے جا لگی جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہو گئے۔
بھٹو کے دور حکومت میں احمد رضا قصوری صاحب کو کوئی انصاف نہ ملا، بلاخر ضیاء الحق کے دور میں
ایف-ایس-ایف کے ڈائریکٹر نے وعدہ معاف گواہ کے طور پر اعترافی بیان دیا کہ کس طرح بھٹو کے حکم پر قصوری صاحب کو قتل کرنے کا پلان بنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا ہونے کے بعد نظر ثانی کی درخواست بھی پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر مسترد کر دی ۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 2 اپریل 2011 کو بھٹو کے قتل کے مقدمے پر نظرثانی کے بارے میں اپنی رائے طلب کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن ریفرنس اب تک بے نتیجہ ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی کے وکلاء احمد رضا قصوری کے مظبوط سوالناموں کا جواب دینے میں اب تک ناکام ہیں۔

He seems to be talking sense.
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
یہ انٹرویو احمد رضا قصوری صاحب نے تقریباً ایک سال قبل ریکارڈ کروایا تھا- یہ وہی احمد رضا قصوری صاحب ہیں جن کے والد نواب احمد رضا خان قصوری کے قتل کا جرم سپریم کورٹ میں ثابت ہونے پر بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی- احمد رضا خان قصوری نے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹر کیا ہے۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ وکیل بن گئے ۔ وہ پاکستان کے بہترین قانونی ذہنوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ جب 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب کی حکومت چھوڑ دی ، تو احمد رضا قصوری ان کی تیز تقریروں سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے 1967 میں اپنی پارٹی ، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شمولیت اختیار کی۔ بھٹو نے انہیں پیپلز پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا ممبر مقرر کیا۔ وہ لاہور کے ایک حلقے سے 1970 کے پاکستانی عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پاکستان کی قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔

اس انٹرویو میں احمد رضا قصوری صاحب بیان کرتے ہیں کہ 7 دسمبر 1970 کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے نتیجہ عوامی لیگ کی فتح تھی ، جس نے 160 سیٹوں کی مطلق اکثریت حاصل کی ، یہ تمام تر مشرقی پاکستان میں تھی۔ پیپلز پارٹی نے صرف 81 سیٹیں حاصل کیں ، تمام مغربی پاکستان میں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وفاقی حکومت میں مشرقی پاکستان سے پارٹی نہیں چاہتے تھے۔ اس نے ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے بھی سختی سے انکار کردیا۔ دراصل ، وہ اتنا مغرور تھا کہ اس نے دھمکی دی کہ اگر کوئی منتخب پارٹی ممبر ڈھاکہ جانے کی جرات کرے گا تو ان کی ٹانگیں توڑ ڈالیں گے ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم نہیں بن سکتا ، لہذا اس نے یہاں تک کہا کہ آپ مشرق میں حکومت کریں ، ہم مغرب میں حکومت کریں گے۔ جو کہ "
ادھر تم ادھر ہم " کے نعرے سے مشہور ہوا۔ اس موقع پر احمد رضا قصوری صاحب نے مغربی پاکستان کی اسمبلی میں اس نعرے کے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ نہ صرف یہ بلکہ احمد رضا قصوری صاحب شاید وہ واحد پارٹی ممبر تھے جو کہ ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنےکے لیے ڈھاکہ پہونچ گئے۔ بھٹو احمد رضا قصوری صاحب کے اس رویے سے سخت نالاں تھے۔ ایک موقع پر اسمبلی کے فلور پر بھٹو نے کہ قصوری پاکستان کے لئے خطرہ ہیں اور یہ کہ وہ ان کا جلد بندوبست کریں گے۔ یہیں سے بھٹو قصوری صاحب کا جانی دشمن بن گیا۔ اور کئی ناکام قاتلانہ حملوں میں ناکامی کے بعد ایک حملے میں جو گولی احمد رضا قصوری صاحب کو نشانہ بنانا چاہتی تھی وہ ان کے والد کے جا لگی جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہو گئے۔
بھٹو کے دور حکومت میں احمد رضا قصوری صاحب کو کوئی انصاف نہ ملا، بلاخر ضیاء الحق کے دور میں
ایف-ایس-ایف کے ڈائریکٹر نے وعدہ معاف گواہ کے طور پر اعترافی بیان دیا کہ کس طرح بھٹو کے حکم پر قصوری صاحب کو قتل کرنے کا پلان بنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا ہونے کے بعد نظر ثانی کی درخواست بھی پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر مسترد کر دی ۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 2 اپریل 2011 کو بھٹو کے قتل کے مقدمے پر نظرثانی کے بارے میں اپنی رائے طلب کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن ریفرنس اب تک بے نتیجہ ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی کے وکلاء احمد رضا قصوری کے مظبوط سوالناموں کا جواب دینے میں اب تک ناکام ہیں۔
If Bhuttoo had accepted Election results Pakistan would have never Split, but he was emotional person hungry for power and he was intimidated by International establishment he failed Otherwise he could have come in power both east and west in next election but patience was that he didn't had.
 
Last edited:

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
یہ انٹرویو احمد رضا قصوری صاحب نے تقریباً ایک سال قبل ریکارڈ کروایا تھا- یہ وہی احمد رضا قصوری صاحب ہیں جن کے والد نواب احمد رضا خان قصوری کے قتل کا جرم سپریم کورٹ میں ثابت ہونے پر بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی- احمد رضا خان قصوری نے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹر کیا ہے۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ وکیل بن گئے ۔ وہ پاکستان کے بہترین قانونی ذہنوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ جب 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب کی حکومت چھوڑ دی ، تو احمد رضا قصوری ان کی تیز تقریروں سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے 1967 میں اپنی پارٹی ، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شمولیت اختیار کی۔ بھٹو نے انہیں پیپلز پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا ممبر مقرر کیا۔ وہ لاہور کے ایک حلقے سے 1970 کے پاکستانی عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پاکستان کی قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔

اس انٹرویو میں احمد رضا قصوری صاحب بیان کرتے ہیں کہ 7 دسمبر 1970 کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے نتیجہ عوامی لیگ کی فتح تھی ، جس نے 160 سیٹوں کی مطلق اکثریت حاصل کی ، یہ تمام تر مشرقی پاکستان میں تھی۔ پیپلز پارٹی نے صرف 81 سیٹیں حاصل کیں ، تمام مغربی پاکستان میں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وفاقی حکومت میں مشرقی پاکستان سے پارٹی نہیں چاہتے تھے۔ اس نے ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے بھی سختی سے انکار کردیا۔ دراصل ، وہ اتنا مغرور تھا کہ اس نے دھمکی دی کہ اگر کوئی منتخب پارٹی ممبر ڈھاکہ جانے کی جرات کرے گا تو ان کی ٹانگیں توڑ ڈالیں گے ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم نہیں بن سکتا ، لہذا اس نے یہاں تک کہا کہ آپ مشرق میں حکومت کریں ، ہم مغرب میں حکومت کریں گے۔ جو کہ "
ادھر تم ادھر ہم " کے نعرے سے مشہور ہوا۔ اس موقع پر احمد رضا قصوری صاحب نے مغربی پاکستان کی اسمبلی میں اس نعرے کے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ نہ صرف یہ بلکہ احمد رضا قصوری صاحب شاید وہ واحد پارٹی ممبر تھے جو کہ ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنےکے لیے ڈھاکہ پہونچ گئے۔ بھٹو احمد رضا قصوری صاحب کے اس رویے سے سخت نالاں تھے۔ ایک موقع پر اسمبلی کے فلور پر بھٹو نے کہ قصوری پاکستان کے لئے خطرہ ہیں اور یہ کہ وہ ان کا جلد بندوبست کریں گے۔ یہیں سے بھٹو قصوری صاحب کا جانی دشمن بن گیا۔ اور کئی ناکام قاتلانہ حملوں میں ناکامی کے بعد ایک حملے میں جو گولی احمد رضا قصوری صاحب کو نشانہ بنانا چاہتی تھی وہ ان کے والد کے جا لگی جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہو گئے۔
بھٹو کے دور حکومت میں احمد رضا قصوری صاحب کو کوئی انصاف نہ ملا، بلاخر ضیاء الحق کے دور میں
ایف-ایس-ایف کے ڈائریکٹر نے وعدہ معاف گواہ کے طور پر اعترافی بیان دیا کہ کس طرح بھٹو کے حکم پر قصوری صاحب کو قتل کرنے کا پلان بنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا ہونے کے بعد نظر ثانی کی درخواست بھی پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر مسترد کر دی ۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 2 اپریل 2011 کو بھٹو کے قتل کے مقدمے پر نظرثانی کے بارے میں اپنی رائے طلب کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن ریفرنس اب تک بے نتیجہ ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی کے وکلاء احمد رضا قصوری کے مظبوط سوالناموں کا جواب دینے میں اب تک ناکام ہیں۔


پاکستان کے قانون کے مطابق اس نے ایک قابل تعزیر جرم کیا تھا جسکی پاداش میں سپریم کورٹ نے اسے پھاہے لگا دیا. اتنی سی بات ہے
خوامخواہ اس منحوس کو آسمان پر چڑھایا ہوا ہے اس کے حرامخور مجاوروں نے . ویسے بھی اس کے جرائم کی ایک لمبی داستان ہے جس پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں


@ Pakistani1947

بڑے عرصے بعد درشن کرا رہے ہیں محترم . خیریت تو تھی ناں ؟؟؟
چلیں اب چہرہ کراتے رہیے گا . الله آپ کو خوش رکھے . آمین
 

musafir2016

Voter (50+ posts)
یہ امام اسماعیل بخاری مجوسی النسل کی بات کر رہے ہو یا نعمان بن ثابت مجوسی النسل کی ؟
I know what you're referring to.
To some extent you're right that Imam Ismail Bokhari's ancestors were Majoosi but Imam Bokhari was Muslim for sure. He was great Hadees compiler of his time, Sahi Bokhari is the Book of Ahadees he compiled.

Also, Imam Bokhari and Noman Bin Sabet is same person.
 

musafir2016

Voter (50+ posts)
Majoosion nay puray Islami maashray ko tabah kiya tha aur unkey naslain ab bhi woh he kaam kar rahi hain.
Majoosi, Qadiyani, Wahabi and Deo Bondi and Munkaran-e-Hadees all MOFO are piece of shit. On top of that Munkaran-e-Hadees douchebags are so ugly, can't stand their own faces in mirror.
 

musafir2016

Voter (50+ posts)

پاکستان کے قانون کے مطابق اس نے ایک قابل تعزیر جرم کیا تھا جسکی پاداش میں سپریم کورٹ نے اسے پھاہے لگا دیا. اتنی سی بات ہے
خوامخواہ اس منحوس کو آسمان پر چڑھایا ہوا ہے اس کے حرامخور مجاوروں نے . ویسے بھی اس کے جرائم کی ایک لمبی داستان ہے جس پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں


@ Pakistani1947

بڑے عرصے بعد درشن کرا رہے ہیں محترم . خیریت تو تھی ناں ؟؟؟
چلیں اب چہرہ کراتے رہیے گا . الله آپ کو خوش رکھے . آمین
Shutup,
Get outa here you stinky QADIYANI
 

musafir2016

Voter (50+ posts)
یہ خبیث انسان مجوسیوں سے ہمیں ملا رہا ہے جب کے ہمارے تمام ائمہ آل رسول ہیں اس نجس ولد الحیض کو تاریخ کا کچھ اتا پتہ نہیں یہ منکر حدیث ہے

دوسری بات سر جی امام بخاری اور نعمان بن ثابت دو مختلف شخصیات کے نام ہیں ایک کو دنیا ابو حنیفہ کے نام سے جانتی ہے وہ بھی مجوسی النسل تھے
Sorry, my bad.
I confused Noman Bin Sabit and Imama Abu Haneefa
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
ولد الزنا تو نے مذھب کدھر سے لیا جب کے تو منکر حدیث ہے دوسری بات تو تو ویسے ہی بد نسل ہے تیری کیا اوقات ہے
Abhi tu bacha hay.
chal mera puttar jakar diaper change karkay feeder lay kar soo ja.
Teri itni auqaat nahi kay may tujh jaysay chooray khatmal kay moo lagoon.
 

Constable

MPA (400+ posts)

پاکستان کے قانون کے مطابق اس نے ایک قابل تعزیر جرم کیا تھا جسکی پاداش میں سپریم کورٹ نے اسے پھاہے لگا دیا. اتنی سی بات ہے
خوامخواہ اس منحوس کو آسمان پر چڑھایا ہوا ہے اس کے حرامخور مجاوروں نے . ویسے بھی اس کے جرائم کی ایک لمبی داستان ہے جس پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں


@ Pakistani1947

بڑے عرصے بعد درشن کرا رہے ہیں محترم . خیریت تو تھی ناں ؟؟؟
چلیں اب چہرہ کراتے رہیے گا . الله آپ کو خوش رکھے . آمین
بھٹو نے مرزائیوں کو کافر قرار دیا تھا، بدبودار نہیں
بدبو تو تم لوگوں سے ٹٹی مارکہ پیغمبر مرزا غلام احمد کی اطاعت وجہ سے آتی ہے

مذید براں یہ کہ ۔ ۔ ۔
بھٹو جتنا گناہگار بھی ہوگا آج بھی لوگ اسکا نام اپنے نام کیساتھ لگاتے ہیں جبکہ جنرل ضیاع الیک حرامی النسل کی اپنی اولاد اور تیرے جیسے اسکے مبینہ غلام بھی اُسے اپنا آقا تسلیم کرنے کی جرات نہیں رکھتے۔ حد تو یہ کہ گوالمنڈی کا گونگلو جسکے ناویں ضیاع نے اپنی زندگی لگائی تھی وہ بھی آج اپنے ابا سے مونہہ موڑے پھرتا ہے بلکہ بھٹو کی قبر پر جا کر جیے بھٹو کے نعرے بھی لگا دیے۔
 
Last edited:

stargazer

Chief Minister (5k+ posts)
مجھے قوٹ کرنے سے پہلے اپنے بارے میں بھی سوچ لیتے تم تو خود تعصب رکھتے ہو بھٹو سے ورنہ وہ اوپر جو قوٹ تم نے کیا وہ نہ کرتے میں نے جو لکھا وہ ایمانداری سے لکھا ان کو بھٹو سے نفرت ہی اسی بنا پر تھی ورنہ بھٹو مخالف پوسٹ کو ایک مرزائی کیوں لائک دیتا ؟
Taa sub naheen bhai, sirf suchaai maane hai.
One has to have the ability to connect dots and see the whole story without labels or wide swathes of brush strokes.
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)

پاکستان کے قانون کے مطابق اس نے ایک قابل تعزیر جرم کیا تھا جسکی پاداش میں سپریم کورٹ نے اسے پھاہے لگا دیا. اتنی سی بات ہے
خوامخواہ اس منحوس کو آسمان پر چڑھایا ہوا ہے اس کے حرامخور مجاوروں نے . ویسے بھی اس کے جرائم کی ایک لمبی داستان ہے جس پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں


@ Pakistani1947

بڑے عرصے بعد درشن کرا رہے ہیں محترم . خیریت تو تھی ناں ؟؟؟
چلیں اب چہرہ کراتے رہیے گا . الله آپ کو خوش رکھے . آمین
ڈاکٹر صاحب، سیاست داٹ پی کے ماڈریٹر کی جانب سے میرا تھریڈ ڈیلیٹ کر نے پر کچھ بد دل ہو گیا تھا- بہرحال اس میں بھی کچھ بھلائی تھی کہ مجھے کچھ مہینے کمپوٹر سے چھٹکارا مل گیا، اور میرا اس فورم کا ایڈکشن بھی کافی کم ہو گیا- آپ کی صحت کے لیے دعا گو ہوں