چند ہفتے پہلے ہندوستان نے اپنے بہنوئیوں (اسرائیل وغیرہم) کے ذریعے راجستھان کی جانب سے بھی حملے کا پروگرام بنایا تھا۔ اس وقت ہم یہ سمجھے تھے کہ شاید یہ پہلے جیسا پروگرام ہو جو گزشتہ جنگوں میں عمل میں لایا گیا تھا۔ مگر دشمنوں سے ہمیں آج پتہ چلا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔
چینی افوج کی پاکستانی تھرپارکر اور ہندوستانی راجستھان کے بیچ میں تعیناتی جہاں بھارت ماتا کے ارمانوں کا خون ہے، وہیں محب وطن پاکستانیوں کے لیے ایک خوش گوار حیرت کا سماں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہماری افواج تعداد کے اعتبار سے ہندوستان کی افواج کا قریباً ایک چوتھائی ہیں۔ مقابلہ برابری کا نہیں ہے۔ صرف مقبوضہ کشمیر میں ماتا جی نے 7 لاکھ فوج بٹھائی ہوئی ہے جو ہماری کل افواج کے کم و بیش برابر ہے؟
اتنا ہی نہیں، ماتا جی کو اپنے مسلز پر پھر بھی بھروسہ نہیں۔ کبھی وہ رقیب روسیاہ کی گود میں بیٹھیں (جیسے کہ 1971) اور کبھی ہر دوسری تیسری گود میں۔
آج کل اسرائیل کے علاوہ امریکہ، ایران اور افغانستان کی گود بھارت ماتا کے لیے ہیٹر بلکہ انکیوبیٹر بنی ہوئی ہے۔
ایسے میں اگر آپ سپرپاورز کے کندھوں پر چھڑھ کر ہمیں آزمائیں گے تو ہم کیا اکیلے ہی مقابلہ کریں گے؟
ہم اپنی فوج کی تعداد اور گولہ بارود میں اضافہ نہیں کر سکتے تو کیا اپنے دوستوں کی فوج ساتھ بھی نہیں ملا سکتے؟ آپ نے کیا ہمیں ماموں سمجھ رکھا ہے؟
فوجی قیادت نے کمال ہوشیاری سے وہ کام کر دکھایا ہے، جس سے بھارت ماتا پر غشی کے دورے پڑنے لگے ہیں، خطرہ ہے کہ کہیں شدت غم سے ہارٹ فیل نہ ہوجائے۔
چینی افواج کی تھرپارکر میں تعیناتی (بہانہ کچھ بھی ہو، تھر کول مائنز یا سی پیک)، حقیقت یہ ہے کہ بھارت ماتا کی سیج کے تمام پھول مرجھا گئے اور وہ کانٹوں سے بھر گئی ہے۔
تھر میں جو کالا خزانہ دفن ہے وہ پاکستان کی 200 سال کی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے، اور دشمن کے لیے یہ حسد اور جلن کا عظیم خزانہ بھی ہے۔
مگر اب کرو حملہ تم سندھ پر۔۔۔ کرو اگر بھارت ماتا کی غیرت مند اولاد ہو۔
تم نے حملہ کیا اور یہ حملہ پاکستان کے ساتھ اب چین پر بھی تصور کیا جائے گا۔ ہم تو تم سے ہینڈل نہیں ہورہے، چین تو پھر بھی تمہارا باپ ہے۔
اور اگر حملہ نہ کیا تو جان لو، تمہاری بھارت ماتا کے 2 ٹکڑے 1947 میں کیے، کچھ اور ٹکڑے بھی کر کے دکھا دیں گے۔