Action Party
Citizen
میرے ایک ساتھی نے چار برس پہلے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا "ریپ گڑھ” یہ دراصل مظفر گڑھ کے علاقے میں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کے حوالے سے کہانیوں پر مشتمل تھا۔ یہ بات آج بھی ہر زبان پر ہے کہ وہاں سے تعلق رکھنے والا ہر دوسرا یا تیسرا بچہ اس گندے عمل سے گزر چکا ہے۔ اب تو اس بات کو اتنا نارمل سمجھا جانے لگا ہے کہ وہاں کے لوگوں سے آپ چائے کی میز پر بیٹھ کر ہی کئی کہانیاں نکلوا سکتے ہیں۔ سو یہ معاملات کسی ایک علاقے کے لوگوں کے ساتھ نہیں بلکہ کہیں بھی ہوسکتے ہیں مگر بات صرف فوکس کی ہے۔ یا پھر اس کو اس طرح سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ کچھ تو ایک عرصے سے ہورہا ہے، آہستہ آہستہ منظر عام پر آرہا ہے اور ایکسپوژ ہورہا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔