ایک نہیں دو قسمی انصاف!
بھلا وہ کون سا ملک اور معاشرہ ہوسکتا ہے جہاں ایک جج کسی ایسے انسان کو باعزت بری ہونے کی نوید سنادے کہ جب یہ مژدۂ جانفزا سننے کی آس لے کر وہ “ملزم” مجرم بن کر زلت کی چکی میں پس پس کر آسودۂ خاک ہو چکا ہو؟مگر محض ایک آدھ دن ہی اسخبر کا چرچا رہا ہوگا اور اس کے بعد سے لے کر اب تک عدالتی نظام اور فراہمی انصاف دونوں ہی چیزیں انگریزی محاورے کےمصداق سفید ہاتھی سے زیادہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکے۔
مئی ۱۹۹۷ میں مظہر حسین نامی شخص پہ محمد اسماعیل نامی اس کے اپنے ایک عزیز کے قتل کا مقدمہ درج ہوا۔۲۰۰۴ میں “ملزم” کو سزائے موت سنادی گئی۔مقدمہ ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا ۲۰۱۰ میں سپریم کورٹ تک پہنچا اور اس کے بعد ایک طویل وقفے کی بعدجب جسٹس کھوسہ نے التوا کا شکار ہونے والے مقدمے نمٹانے کاکام شروع کیا تو یہ مقدمہ بھی شروع کیا گیا مگر پتہ چلا کہ پیروی کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کی خدمات حاصل کرکے مقدمے کی باریک بینی سے چھان بین شروع کردی مگرستم یہ تھا کہ ایڈووکیٹ جنرل اور ججز دونوں ہی اس بات سے بے خبر تھے کہ مظہر حسین کا انتقال ہو چکا ہے۔سب ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے جب انہیں پتہ چلا کہ جس شخص کو بریت کا سرٹیفیکیٹ دیا جارہا تھا،وہ یہ خبر سننے سے پہلے ہی انتقال کرچکاہے۔مگر اصل ٹریجڈی تب شروع ہوئی جب میڈیا نے اس بندے کی کھوج لگائی اور تفصیلات پتہ کیں تو پتہ چلا کہ اس پورے عرصےکے دوران مظہر حسین کی والدہ،اور بیٹا بھی فوت ہوچکے تھے اور اس کی پوری جائیداد بک چکی تھی۔
یہ تفصیلات ایک ایسے کیس کی ہیں جہاں ملزم مکمل طور پہ وکلاء اور عدلیہ کے ہاتھوں پورے سترہ سال تک بیگار کاٹتا رہا۔پتہ نہیں کتنی پیشیاں بھگتی ہوں گی اور ہر پیشی پہ وکیل اور اس کے منشی کو نہ جانے کہاں کہاں سے پیسوں کا انتظام کرکے دیا ہوگا۔اورنہ جانے ہر پیشی کے شروع اور ختم ہونے کے درمیان میں کتنی بار اس کی امیدیں بندھی اور ٹوٹی ہونگی اور انجام کار پیشیوں کےاسی جان لیوا چکر میں حوالات کے اندر ہی مظہر حسین انتقال کرگیا مگر وکیل اور اس کا منشی اسی طرح سے قانون کی دلالی میں مصروف ہیں اور ججز کا کام بھی معذرت کے ساتھ کوٹھے پہ بیٹھنے والی ایک نائیکہ سے زیادہ نہیں ہے۔مگر قانون کی اس سرعام دلالی نے ایک عام پاکستانی کے ساتھ جو کیا وہ کسی بھی حساس انسان کو خون کے آنسو رلانے کے لیے کافی ہے۔اس دلالی نے ایک بے گناہ انسان کو قیدی بننے پہ مجبور کیا،پھر اس سے دلالی کی بیگار ہر پیشی پہ وصول کی،پھر بیٹے اور ماں کا خراج مانگا،وہ بھی ادا کردیا گیا مگر انصاف کے نام پہ بریت بھی تب ملی کہ جب “ملزم” کائنات کی سب سے بڑی عدالت کے روبرو پیش ہو چکا تھا۔
مگر یہ تو تھا ایک رخ۔ہمیشہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے جو ہم جیسے قانون سے نابلد لوگ دیکھنے سے قاصر ہیں۔ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ مظہر حسین کی خبر صرف ایک آدھ چینل پہ چلی اور اس کے بعد سب کچھ نارمل ہوگیا مگر انہی عدالتوں نے جب حمزہ شہباز شریف کے لیے اتوار کے دن اپنی چھٹی قربان کرکے انصاف کا بول بالا کیا تو پورے سات دن تک اس پہ بحث ہوتی رہی سو اب ایسے میں عدالتوں کو کیا پڑی ہے کہ عام لوگوں کے لیے کچھ بھی کرنے کا سوچیں؟اسی طرح جب ایک جج نےنواز شریف کے باہر جانے کے وقت یہ گارنٹی مانگ لی کہ حکومت نواز شریف کے انتقال نہ کرنے کی ضمانت دے۔اور پھر تازہ ترین مثال قاضی فائز صاحب کی ہے جس میں عدلیہ نے انصاف کے مندر کو تمام پجاریوں کی پہنچ سے ایسے ہی دور پہنچا دیا ہے کہ جیسےتمام ادویات کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا ہے.
قاضی فائز نے عدالت میں مقدمہ باقاعدہ دھونس دھمکی اور غنڈہ گردی سے لڑا اور انتہائی ڈھیٹ پنے سے نہ صرف یہ کہ کچھ بھی بتانے سے انکار کردیا بلکہ اس پہ بھی سوال اٹھا دیا کہ ججز جیسی مقدس ہستیاں جو مُردوں تک کو “باعزت” بری کرنے جیسےکارنامے سرانجام دے سکتی ہیں ان کے خلاف کوئی کچھ پوچھ بھی کیسے سکتا ہے؟اپنے مقدمے میں فائز صاحب نےریاست،حکومت،فوج اور عدلیہ کے وہ ججز جو ان کی دانست میں “انصاف” کی فراہمی میں رکاوٹ تھے سب کے ساتھ بد تمیز ی اور بےہودگی کی مگر سلام ہے ہماری عدلیہ پر کہ نہ صرف یہ ساری باتیں سنیں بلکہ واضح طور پہ چوری کرنے والے ایک بااثر غنڈے کوباعزت بری بھی کردیا۔اور ساتھ ہی ساتھ یہ مثال بھی قائم کردی کہ وکیل کے بجائے “جج” کرنے کے کیا کیا فوائد ہوسکتے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ ریاست مظہر جیسے بے زبان لوگوں کو زبان دے دیتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر مظہرحسین بجائے وکیل کرنے کے ڈائریکٹ جج ہی کرلیتا؟کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ عدالت میں بار بار پیشیوں سے تنگ آکر کہتا کہ “مجھےایسے لگ رہا ہے کہ میں گٹر میں آیا ہوا ہوں”،یا پھر جھوٹ بولنے پہ مخالف وکیل کو دلال اور جج کو بھڑوا کہتا؟مگر ایسی صورت میں ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنی پڑتی آخر قانون تو ہے نا اس ملک میں!
سب سے پہلے اس پہ توہین عدالت کی کاروائی ہوتی پھر عدالتی کاروائی کے دوران ہی قانون کی دلالی کرنے والے وہ غنڈے جوہسپتالوں پہ حملہ کرکے بھی “باعزت” بری ہوتے رہے ہیں،وہ مظہر حسین کی تکہ بوٹی کرتے اور اسے ایسٹیبلشمنٹ کا “مہرہ” قراردیا جاتا۔یہ سب سوچ کے ہی تو بے چارہ مظہر حسین خاموش ہی رہا ہوگا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ وہ قاضی فائز یا حامد خان یاچوہدری افتخار نہیں بلکہ ایک عام پاکستانی ہے جس کا یہ فرض عین ہے کہ وہ اپنی جائیداد بیچ کر بھی اس عدالتی نظام پہ قربان کردے جو بدلے میں اسے صرف دکھ اور کرب کے نہ سر ہونے والے سلسلے دے دےگا۔
آخر میں خان صاحب سے گذارش ہے کہ سر شرافت کچھ زیادہ نہیں ہوگئی؟اگر اتنی لمبی چوڑی تنخواہیں اور مراعات کے بدلے ججزنے گالیاں ہی دینی ہیں اور وکلاء نے بدمعاشی ہی کرنی ہے تو پھر بہتر ہے کہ کم از کم ان بد معاشوں کی تنخواہیں ہی کم کردیں۔رہ گئی انصاف کی بات تو وہ صرف نواز شریف،زرداری قاضی فائز اور افتخار چوہدری جیسوں کے لیے ہے۔مظہر حسین جیسے عام پاکستانیوں کے لیے صرف “بریت بعد از مرگ”!
بھلا وہ کون سا ملک اور معاشرہ ہوسکتا ہے جہاں ایک جج کسی ایسے انسان کو باعزت بری ہونے کی نوید سنادے کہ جب یہ مژدۂ جانفزا سننے کی آس لے کر وہ “ملزم” مجرم بن کر زلت کی چکی میں پس پس کر آسودۂ خاک ہو چکا ہو؟مگر محض ایک آدھ دن ہی اسخبر کا چرچا رہا ہوگا اور اس کے بعد سے لے کر اب تک عدالتی نظام اور فراہمی انصاف دونوں ہی چیزیں انگریزی محاورے کےمصداق سفید ہاتھی سے زیادہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکے۔
مئی ۱۹۹۷ میں مظہر حسین نامی شخص پہ محمد اسماعیل نامی اس کے اپنے ایک عزیز کے قتل کا مقدمہ درج ہوا۔۲۰۰۴ میں “ملزم” کو سزائے موت سنادی گئی۔مقدمہ ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا ۲۰۱۰ میں سپریم کورٹ تک پہنچا اور اس کے بعد ایک طویل وقفے کی بعدجب جسٹس کھوسہ نے التوا کا شکار ہونے والے مقدمے نمٹانے کاکام شروع کیا تو یہ مقدمہ بھی شروع کیا گیا مگر پتہ چلا کہ پیروی کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کی خدمات حاصل کرکے مقدمے کی باریک بینی سے چھان بین شروع کردی مگرستم یہ تھا کہ ایڈووکیٹ جنرل اور ججز دونوں ہی اس بات سے بے خبر تھے کہ مظہر حسین کا انتقال ہو چکا ہے۔سب ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے جب انہیں پتہ چلا کہ جس شخص کو بریت کا سرٹیفیکیٹ دیا جارہا تھا،وہ یہ خبر سننے سے پہلے ہی انتقال کرچکاہے۔مگر اصل ٹریجڈی تب شروع ہوئی جب میڈیا نے اس بندے کی کھوج لگائی اور تفصیلات پتہ کیں تو پتہ چلا کہ اس پورے عرصےکے دوران مظہر حسین کی والدہ،اور بیٹا بھی فوت ہوچکے تھے اور اس کی پوری جائیداد بک چکی تھی۔
یہ تفصیلات ایک ایسے کیس کی ہیں جہاں ملزم مکمل طور پہ وکلاء اور عدلیہ کے ہاتھوں پورے سترہ سال تک بیگار کاٹتا رہا۔پتہ نہیں کتنی پیشیاں بھگتی ہوں گی اور ہر پیشی پہ وکیل اور اس کے منشی کو نہ جانے کہاں کہاں سے پیسوں کا انتظام کرکے دیا ہوگا۔اورنہ جانے ہر پیشی کے شروع اور ختم ہونے کے درمیان میں کتنی بار اس کی امیدیں بندھی اور ٹوٹی ہونگی اور انجام کار پیشیوں کےاسی جان لیوا چکر میں حوالات کے اندر ہی مظہر حسین انتقال کرگیا مگر وکیل اور اس کا منشی اسی طرح سے قانون کی دلالی میں مصروف ہیں اور ججز کا کام بھی معذرت کے ساتھ کوٹھے پہ بیٹھنے والی ایک نائیکہ سے زیادہ نہیں ہے۔مگر قانون کی اس سرعام دلالی نے ایک عام پاکستانی کے ساتھ جو کیا وہ کسی بھی حساس انسان کو خون کے آنسو رلانے کے لیے کافی ہے۔اس دلالی نے ایک بے گناہ انسان کو قیدی بننے پہ مجبور کیا،پھر اس سے دلالی کی بیگار ہر پیشی پہ وصول کی،پھر بیٹے اور ماں کا خراج مانگا،وہ بھی ادا کردیا گیا مگر انصاف کے نام پہ بریت بھی تب ملی کہ جب “ملزم” کائنات کی سب سے بڑی عدالت کے روبرو پیش ہو چکا تھا۔
مگر یہ تو تھا ایک رخ۔ہمیشہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے جو ہم جیسے قانون سے نابلد لوگ دیکھنے سے قاصر ہیں۔ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ مظہر حسین کی خبر صرف ایک آدھ چینل پہ چلی اور اس کے بعد سب کچھ نارمل ہوگیا مگر انہی عدالتوں نے جب حمزہ شہباز شریف کے لیے اتوار کے دن اپنی چھٹی قربان کرکے انصاف کا بول بالا کیا تو پورے سات دن تک اس پہ بحث ہوتی رہی سو اب ایسے میں عدالتوں کو کیا پڑی ہے کہ عام لوگوں کے لیے کچھ بھی کرنے کا سوچیں؟اسی طرح جب ایک جج نےنواز شریف کے باہر جانے کے وقت یہ گارنٹی مانگ لی کہ حکومت نواز شریف کے انتقال نہ کرنے کی ضمانت دے۔اور پھر تازہ ترین مثال قاضی فائز صاحب کی ہے جس میں عدلیہ نے انصاف کے مندر کو تمام پجاریوں کی پہنچ سے ایسے ہی دور پہنچا دیا ہے کہ جیسےتمام ادویات کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا ہے.
قاضی فائز نے عدالت میں مقدمہ باقاعدہ دھونس دھمکی اور غنڈہ گردی سے لڑا اور انتہائی ڈھیٹ پنے سے نہ صرف یہ کہ کچھ بھی بتانے سے انکار کردیا بلکہ اس پہ بھی سوال اٹھا دیا کہ ججز جیسی مقدس ہستیاں جو مُردوں تک کو “باعزت” بری کرنے جیسےکارنامے سرانجام دے سکتی ہیں ان کے خلاف کوئی کچھ پوچھ بھی کیسے سکتا ہے؟اپنے مقدمے میں فائز صاحب نےریاست،حکومت،فوج اور عدلیہ کے وہ ججز جو ان کی دانست میں “انصاف” کی فراہمی میں رکاوٹ تھے سب کے ساتھ بد تمیز ی اور بےہودگی کی مگر سلام ہے ہماری عدلیہ پر کہ نہ صرف یہ ساری باتیں سنیں بلکہ واضح طور پہ چوری کرنے والے ایک بااثر غنڈے کوباعزت بری بھی کردیا۔اور ساتھ ہی ساتھ یہ مثال بھی قائم کردی کہ وکیل کے بجائے “جج” کرنے کے کیا کیا فوائد ہوسکتے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ ریاست مظہر جیسے بے زبان لوگوں کو زبان دے دیتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر مظہرحسین بجائے وکیل کرنے کے ڈائریکٹ جج ہی کرلیتا؟کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ عدالت میں بار بار پیشیوں سے تنگ آکر کہتا کہ “مجھےایسے لگ رہا ہے کہ میں گٹر میں آیا ہوا ہوں”،یا پھر جھوٹ بولنے پہ مخالف وکیل کو دلال اور جج کو بھڑوا کہتا؟مگر ایسی صورت میں ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنی پڑتی آخر قانون تو ہے نا اس ملک میں!
سب سے پہلے اس پہ توہین عدالت کی کاروائی ہوتی پھر عدالتی کاروائی کے دوران ہی قانون کی دلالی کرنے والے وہ غنڈے جوہسپتالوں پہ حملہ کرکے بھی “باعزت” بری ہوتے رہے ہیں،وہ مظہر حسین کی تکہ بوٹی کرتے اور اسے ایسٹیبلشمنٹ کا “مہرہ” قراردیا جاتا۔یہ سب سوچ کے ہی تو بے چارہ مظہر حسین خاموش ہی رہا ہوگا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ وہ قاضی فائز یا حامد خان یاچوہدری افتخار نہیں بلکہ ایک عام پاکستانی ہے جس کا یہ فرض عین ہے کہ وہ اپنی جائیداد بیچ کر بھی اس عدالتی نظام پہ قربان کردے جو بدلے میں اسے صرف دکھ اور کرب کے نہ سر ہونے والے سلسلے دے دےگا۔
آخر میں خان صاحب سے گذارش ہے کہ سر شرافت کچھ زیادہ نہیں ہوگئی؟اگر اتنی لمبی چوڑی تنخواہیں اور مراعات کے بدلے ججزنے گالیاں ہی دینی ہیں اور وکلاء نے بدمعاشی ہی کرنی ہے تو پھر بہتر ہے کہ کم از کم ان بد معاشوں کی تنخواہیں ہی کم کردیں۔رہ گئی انصاف کی بات تو وہ صرف نواز شریف،زرداری قاضی فائز اور افتخار چوہدری جیسوں کے لیے ہے۔مظہر حسین جیسے عام پاکستانیوں کے لیے صرف “بریت بعد از مرگ”!