شاہ ولی اللہ نے کیا خوب بات کی تھی کہ جس مقتول کا کوئی قاتل نہ ہو اس مقتول کا قاتل وقت کا حکمران ہوتا ہے ۔
آفرین آفرین ہمارے میڈیا اور تجزیہ نگاروں پر ، یہ سیاسی لوگوں کے طلاقوں اور شادیوں پر ہفتے ہفتے ٹرانسمیشن چلا دیتے ہے لیکن روز اس ارض پاک میں انصاف کا قتل ہو رہا ہے ، مجال ہے کہ کسی کی غیرت جاگ جائے
کہنے والے اسے ’ بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں‘ نہ کہیں گے تو کیا کہیں گے! اسی کو سندھی میں کہتے ہیں ’ جہان خانی انصاف‘۔ ...زین کو دن دہاڑے سو لوگوں کے سامنے چھلنی کر دیا گیا اور مصطفیٰ کانجو با عزت بری
خوں بہنے سے پہلے خوں بہا دے
یہاں انصاف سے قاتل بڑا ہے
اس خادم اعلی نے زین کے گھر کے کئی دورے کئیے ، اور انصاف کی یقین دہانی کرائی ، پھر کیس فائلوں کی نظر اور خادم اعلی میٹروز ، اورنج لائن اور سولر پارکس میں گم ...خدا نخواستہ اگر زین کی جگہ حمزہ شہباز یا سلمان شہباز کو ایسے کوئی مار دیتا تو کوئی سوچ سکتا تھا کہ قائل ایسے بری ہو جاتا ... عمران خان کی بات سو فیصد ٹھیک ہے اس ملک میں انصاف صرف امیروں کے لیے ہے
اس خادم اعلی نے ایک دن سوچا ہے کہ زین کی ماں کے دل پر کیا گزری ہو گی کہ اس کے بیٹے کو گولیوں سے چھلنی کرنے والا درندہ با عزت بری ہو گیا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
جب عدالتوں سے انصاف کی توقع اٹھ جائے تو شہباز اور سونیا جیسے پاکستانی خودسوزیاں کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور لوگوں کا اس سسٹم سے اعتبار اٹھ جاتا ہے چاہے آپ لاکھوں میٹروز بنا لو سینکڑوں موٹرویز تعمیر کر لیں .. جنگل کے قانون میں صرف درندے ہی زندہ رہ سکتے ہے ..ہر انسان کا ادھر بلد کار ہی ہوتا رہے گا
میرا خادم اعلی سے سوال ہے کہ آپ نے فوٹو سیشن کے لیے زین کے گھر کا دورہ کر لیا ، فمیلی کے ساتھ تصویریں بنا لی ، لیکن گواہوں کو تحفظ دینا کس کا کام تھا ؟ کیس دوسرے صوبے میں ٹرانسفر ہو سکتا تھا ، فوجی عدالت بھیجا جا سکتا تھا ، اگر مقصد انصاف دلوانا ہوتا
ہمارا سسٹم تو اس قابل نہیں کہ زین کے والدین کو انصاف دلا سکے ،مگر روز قیامت انصاف ضرور ملے گا اور حکمران وقت کے گلے میں بھی رسی ضرور ہو گی ..اور کوئی کسی کو نہیں بچا سکے گا۔
آفرین آفرین ہمارے میڈیا اور تجزیہ نگاروں پر ، یہ سیاسی لوگوں کے طلاقوں اور شادیوں پر ہفتے ہفتے ٹرانسمیشن چلا دیتے ہے لیکن روز اس ارض پاک میں انصاف کا قتل ہو رہا ہے ، مجال ہے کہ کسی کی غیرت جاگ جائے
کہنے والے اسے ’ بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں‘ نہ کہیں گے تو کیا کہیں گے! اسی کو سندھی میں کہتے ہیں ’ جہان خانی انصاف‘۔ ...زین کو دن دہاڑے سو لوگوں کے سامنے چھلنی کر دیا گیا اور مصطفیٰ کانجو با عزت بری
خوں بہنے سے پہلے خوں بہا دے
یہاں انصاف سے قاتل بڑا ہے
اس خادم اعلی نے زین کے گھر کے کئی دورے کئیے ، اور انصاف کی یقین دہانی کرائی ، پھر کیس فائلوں کی نظر اور خادم اعلی میٹروز ، اورنج لائن اور سولر پارکس میں گم ...خدا نخواستہ اگر زین کی جگہ حمزہ شہباز یا سلمان شہباز کو ایسے کوئی مار دیتا تو کوئی سوچ سکتا تھا کہ قائل ایسے بری ہو جاتا ... عمران خان کی بات سو فیصد ٹھیک ہے اس ملک میں انصاف صرف امیروں کے لیے ہے
اس خادم اعلی نے ایک دن سوچا ہے کہ زین کی ماں کے دل پر کیا گزری ہو گی کہ اس کے بیٹے کو گولیوں سے چھلنی کرنے والا درندہ با عزت بری ہو گیا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
جب عدالتوں سے انصاف کی توقع اٹھ جائے تو شہباز اور سونیا جیسے پاکستانی خودسوزیاں کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور لوگوں کا اس سسٹم سے اعتبار اٹھ جاتا ہے چاہے آپ لاکھوں میٹروز بنا لو سینکڑوں موٹرویز تعمیر کر لیں .. جنگل کے قانون میں صرف درندے ہی زندہ رہ سکتے ہے ..ہر انسان کا ادھر بلد کار ہی ہوتا رہے گا
میرا خادم اعلی سے سوال ہے کہ آپ نے فوٹو سیشن کے لیے زین کے گھر کا دورہ کر لیا ، فمیلی کے ساتھ تصویریں بنا لی ، لیکن گواہوں کو تحفظ دینا کس کا کام تھا ؟ کیس دوسرے صوبے میں ٹرانسفر ہو سکتا تھا ، فوجی عدالت بھیجا جا سکتا تھا ، اگر مقصد انصاف دلوانا ہوتا
ہمارا سسٹم تو اس قابل نہیں کہ زین کے والدین کو انصاف دلا سکے ،مگر روز قیامت انصاف ضرور ملے گا اور حکمران وقت کے گلے میں بھی رسی ضرور ہو گی ..اور کوئی کسی کو نہیں بچا سکے گا۔