اس وقت دونوں جانب سے کچھ عجیب و غریب مسائل سامنے آرہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع یہ خبر دے رہے ہیں کہ عمران خان کے خط کو نیشنل سیکیورٹی کاوٗنسل نے بھی صرف اتنی ہی اہمیت دی تھی کہ اس پر ایک احتجاج نوٹ کروا دیا جائے۔
اگر بیرونی سازش کی کوئی اتنی ہی بڑی دلیل سامنے آئی ہوتی، تو نیشنل سیکیورٹی کاوٗنسل اس مسئلے میں خود ہی ایک تحقیقات کے لیئے بھی تجویز پیش کرتی، جس سے اجتناب کیا گیا۔
اگر کہ ڈپٹی اسپیکر کا اقدام غیر آئینی قرار دے دیا جاتا ہے، تو پھر بھی سپریم کورٹ اس بارے میں کوئی اختیار نہیں رکھتی کہ پارلیمان کو کوئی حکم جاری کرے۔ یہ مسئلہ پھر سے من و عن پارلیمان میں واپس بھیجا جاسکتا ہے اور اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو اس پر از سرِ نو کاروائی عمل میں لانے کی ہدایات ہی دی جاسکتی ہیں۔
ایسی صورت میں، اگر اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر پارلیمان میں بحث کے بعد ایک تحقیقاتی کمیشن کا قیام عمل میں لاتے ہیں تو یہ ترازو کس جانب جھکاوٗ رکھے گا؟
ظاہر سی بات ہے کہ جب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوجاتی، تب تک حکومت کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار ضبط رہے گا۔ گو کہ پی ٹی آئی کے کچھ ارکان کی طرف سے یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ حکومت کے پاس اب بھی ایک تُرپ کا پتّہ موجود ہے اور ایسی صورتحال میں تمام پی ٹی آئی کے اراکین اسبلی اپنا استعفیٰ جمع کروا دیں گے۔ ایسی صورتحال میں پی ڈی ایم کے مضموم مقاصد، یعنی الیکشن ریفارمز آرڈینینس میں تبدیلی کو بھی آئینی تحفّظ فراہم نہیں کیا جاسکے گا اور ۱۵۵ سیٹوں پر نیا الیکشن کروانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ بات پھر سے جنرل الیکشن کی جانب ہی جائے گی اور نگران حکومت کے ہی حوالے ہوگا یہ پارلیمان تب تک۔ ہاں، لیک استعفوں کی صورت میں پی ٹی آئی نگران وزیر اعظم کی تقررّی کے سلسلے میں شائد اپنا اثر و رسوخ کھو دے، جو اس کے پاس اس وقت موجود ہے۔
اس وقت تحریک لبیک کا اس مسئلے میں سامنے آنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ عمران خان، جو اپنی عوامی طاقت کا پچھلے دِنوں میں بھرپور اظہار کرچکا ہے، اسکو ٹھنڈ کروائی جائے۔ تحریک لبیک، چاہے اچھی ہے یا بری ہے، لیکن پاکستان کی سیاست کی ایک ٹھوس حقیقت ضرور بن چکی ہے اور اسمیں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر سامنے آئی ہے۔
مسائل مزید الجھتے جارہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی فریق کا پیچھے ہٹنا ناممکن نظر آرہا ہے، اور ساتھ ہی یہ بات بھی کھلتی جارہی ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنے سامراجی آقاوٗں کو خوش رکھنے کی ہی ٹھان رکھی ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ عوام اس بات کو سمجھ لے کہ کون کیا کر رہا ہے ؟ کون ملک و ملّت کا وفادار ہے اور کون آئین اور جمہوریت کا اس ملک میں پاسدار ہے؟ لیکن صرف سمجھنے سے بات نہیں بنے گی۔ اس مرتبہ کچھ عملی طور پر بھی کرنا بہت ضروری ہے ورنہ اسکا خمیازہ نہ صرف ہم اپنی تمام عمر بھگتیں گے بلکہ ہماری نسلیں بھی اسکا شکار رہیں گی۔
اگر بیرونی سازش کی کوئی اتنی ہی بڑی دلیل سامنے آئی ہوتی، تو نیشنل سیکیورٹی کاوٗنسل اس مسئلے میں خود ہی ایک تحقیقات کے لیئے بھی تجویز پیش کرتی، جس سے اجتناب کیا گیا۔
اگر کہ ڈپٹی اسپیکر کا اقدام غیر آئینی قرار دے دیا جاتا ہے، تو پھر بھی سپریم کورٹ اس بارے میں کوئی اختیار نہیں رکھتی کہ پارلیمان کو کوئی حکم جاری کرے۔ یہ مسئلہ پھر سے من و عن پارلیمان میں واپس بھیجا جاسکتا ہے اور اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو اس پر از سرِ نو کاروائی عمل میں لانے کی ہدایات ہی دی جاسکتی ہیں۔
ایسی صورت میں، اگر اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر پارلیمان میں بحث کے بعد ایک تحقیقاتی کمیشن کا قیام عمل میں لاتے ہیں تو یہ ترازو کس جانب جھکاوٗ رکھے گا؟
ظاہر سی بات ہے کہ جب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوجاتی، تب تک حکومت کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار ضبط رہے گا۔ گو کہ پی ٹی آئی کے کچھ ارکان کی طرف سے یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ حکومت کے پاس اب بھی ایک تُرپ کا پتّہ موجود ہے اور ایسی صورتحال میں تمام پی ٹی آئی کے اراکین اسبلی اپنا استعفیٰ جمع کروا دیں گے۔ ایسی صورتحال میں پی ڈی ایم کے مضموم مقاصد، یعنی الیکشن ریفارمز آرڈینینس میں تبدیلی کو بھی آئینی تحفّظ فراہم نہیں کیا جاسکے گا اور ۱۵۵ سیٹوں پر نیا الیکشن کروانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ بات پھر سے جنرل الیکشن کی جانب ہی جائے گی اور نگران حکومت کے ہی حوالے ہوگا یہ پارلیمان تب تک۔ ہاں، لیک استعفوں کی صورت میں پی ٹی آئی نگران وزیر اعظم کی تقررّی کے سلسلے میں شائد اپنا اثر و رسوخ کھو دے، جو اس کے پاس اس وقت موجود ہے۔
اس وقت تحریک لبیک کا اس مسئلے میں سامنے آنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ عمران خان، جو اپنی عوامی طاقت کا پچھلے دِنوں میں بھرپور اظہار کرچکا ہے، اسکو ٹھنڈ کروائی جائے۔ تحریک لبیک، چاہے اچھی ہے یا بری ہے، لیکن پاکستان کی سیاست کی ایک ٹھوس حقیقت ضرور بن چکی ہے اور اسمیں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر سامنے آئی ہے۔
مسائل مزید الجھتے جارہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی فریق کا پیچھے ہٹنا ناممکن نظر آرہا ہے، اور ساتھ ہی یہ بات بھی کھلتی جارہی ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنے سامراجی آقاوٗں کو خوش رکھنے کی ہی ٹھان رکھی ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ عوام اس بات کو سمجھ لے کہ کون کیا کر رہا ہے ؟ کون ملک و ملّت کا وفادار ہے اور کون آئین اور جمہوریت کا اس ملک میں پاسدار ہے؟ لیکن صرف سمجھنے سے بات نہیں بنے گی۔ اس مرتبہ کچھ عملی طور پر بھی کرنا بہت ضروری ہے ورنہ اسکا خمیازہ نہ صرف ہم اپنی تمام عمر بھگتیں گے بلکہ ہماری نسلیں بھی اسکا شکار رہیں گی۔