سوشل میڈیا کی خبریں

پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی پر مسلم لیگ کے صدر نواز شریف نے پیغام جاری کیا ہے۔ سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر نواز شریف نے کہا کہ اللّہ ربّ العزت کا شکر ہے کہ اس نے پاکستان کو سر بلند کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر، چیف آف ائیر سٹاف ائیر چیف مارشل ظہیر سندھو اور افواجِ پاکستان کو شاباش اور مبارکباد دیتا ہوں۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور امن کو ترجیح دیتا ہے مگر اپنا دفاع کرنا بھی جانتا ہے۔ نوازشریف کے اس بیان پر سوشل میڈیاصارفین نے خوب طنز کئے اور کہا کہ جو شخص مودی کے خلاف نہ بول سکا، اس نے آج چپ کا روزہ توڑا تو تب بھی مودی کا نام نہ لیا۔ کسی نے کہا کہ جو مکا لڑائی کے بعد یا آجائے اسے اپنے منہ پر مارلینا چاہئے تو کسی نے کہا کہ اس سے بہتر تھا کہ چپ ہی رہتے۔ صاحبزادہ حامد رضا نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ نہ کسی شہید کو خراج تحسین نہ کسی غازی کو سلام اور نہ ہی مودی کی مذمت ۔۔۔ کیا بدقسمتی ہے ۔ اس سے بہتر تھا موصوف چپ ہی رہتے۔ جو فوجی جوانوں اور معصوم پاکستانیوں کے قاتل کے بارے لب کشائی نہ کرسکے جو قرآن و مساجد شہید کرنے والے دشمن کے بارے لب کشائی نہ کرسکے ایسے شخص کے کردار پر تھو فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کا شکریہ ایک تو جنگ بندی کرا دی دوسرا قائد کے چپ کے روزے کی روزہ کشائ کرا دی؛) مودی کی محبت میں شریف نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ اویس منگل والا نے طنز کیا کہ ارے مبارک ہو. جناب نے بھی آخرکار ٹویٹ کردیا. حضور والا شکر ہے کہ آپ کچھ بولے اور ہمارا انتظار ختم ہوا. ملیحہ ہاشمی نے تبصرہ کیا کہ اب سیز فائر ہوتے ہی نواز شریف صاحب بھی ہوش میں آ گئے ہیں اور ابھی بھی مودی کا نام نہیں لیا جا رہا میاں صاحب سے۔ جب ملک کو حوصلہ دینے کی ضرورت تھی، اس وقت نواز شریف کیوں نہ بولنے کی جرات کر سکے؟ شہربانو نے لکھا کہ مبارک ہو سبجیکٹ کو ہوش آگیا اور مودی کی مزممت بھی نہیں کرنی پڑی صابر شاکر کا کہنا تھا کہ مودی کے بھائی کو صرف امید نہیں تھی بلکہ یقین تھا کہ مودی جیتے گا اور فوج کو بھی لمبے عرصے تک مصروف رکھے گا لیکن پاکستان کے شاہینوں نے سارا پروگرام واڑدیا محمد حسین زمان نے تبصرہ کیا کہ مسلہ یہ ہے کہ اگر آج یہاں پی ٹی آئی کی حکومت تو عمران خان ایسی ٹویٹ کرتے تو ہمارے مُلک کی سیاسی پارٹیاں اور یہاں کے صحافی اُسے پتہ نہیں کیا ڈرپوک اور غدار ڈیکلئیر کر چُکے ہوتے آج میاں صاحب کی اس ٹویٹ پر کیا کہیں گے ؟ حافظ فرحت عباس نے ردعمل دیا کہ جو مکا جنگ کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پے ہی مار لینا چاہیے ! اتنے دن بعد بھی زحمت نہیں کرنی تھی ۔ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے خرم اقبال نے طنز کیا کہ نوازشریف نے آج سُکھ کا سانس لیا۔۔!! طارق متین نے لکھا کہ بھارت ، بھارت کی دہشت گردی اور میڈ ڈاگ مودی کے خلاف باؤ جی ایک لفظ نہ بول سکے۔ بیرسٹر ابوذرسلمان نیازی نے لکھا کہ یہ بتانا بھول گئے کہ پاکستان کس کے خلاف لڑ رہا تھا؟پاکستان پر حملہ کس نے کیا؟ معصوم شہریوں کو کس نے مارا؟ بچوں کو کس نے مارا؟ مساجد کو کس نے تباہ کیا؟ اور سب سے اہم گجرات کے قصاب کا نام بھول گئے جس نے پاکستان پر حملے کا حکم دیا تھا۔ وقار ملک نے تبصرہ کیا کہ شریف خاندان بہت شاطر ہے کبھی عالمی طاقتوں کو ناراض نہیں کرتا 2019 میں عمران خان نے مودی کیخلاف سخت ترین سٹینڈ لیا تو ہی عالمی طاقتوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب اسکی حکومت قبول نہیں شریف خاندان ان سب معاملات میں بہت گھاک ہے وہ جانتا ہے حکومت عوام سے نہیں طاقتور کی خوشنودی سے ملتی ہے فہیم اختر کا کہنا تھا کہ جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے پر جڑ دینا چاہیے۔۔۔ فارسی کہاوت کا اردو ترجمہ
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کو درست قرار دے دیا جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔ سپر یم کورٹ نے حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کر لیں۔ حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں 2-5 کے تناسب سے منظور ہوئیں، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فیصلے سے اختلاف کیا اور کالعدم قرار دی گئیں شقیں بحال کردیں۔ عدیل راجہ نے ردعمل دیا کہ آج کے دن یہ فیصلہ جاری کرنا اس قوم کو توڑنے کے متراف ہے!! امین الدین نے آج یہ کام کیا ہے! پی ٹی آئی رہنما عرفان سلیم نے تبصرہ کیا کہ سویلین کا ملٹری ٹرائل منظور کر کے ریاست نے اپنی ترجیحات کا اظہار کر دیا۔ترجیح پاکستان تحریک انصاف کو فکس کرنا ہے ہندوستان کو نہیں۔ وقار ملک کا کہنا تھا کہ بہت ہی خطرناک فیصلہ ایک ایسے وقت کا سوچ سمجھ کے انتخاب کیا گیا جس دن فوج پہ تنقید حرام قرار دی جارہی ہے سویلین کا ملٹری ٹرائل جائز قرار دے دیا گیا تباہ کن فیصلہ قومی یکجہتی واڑ کے رکھ دی گئی! فرحان منہاج نے لکھا کہ ایک حملہ بھارت نے کیا اور دوسرا حملہ سویلین پر سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے کردیا صحافی عمران ریاض نے تبصرہ کیا کہ یہ فیصلہ نہیں ظلم ہے۔ پوری مہذب دنیا میں کہیں بھی سویلینز کا فوجی ٹرائل نہیں ہوتا۔ پہلے 9 مئی کے بہانے ایک سیاسی جماعت اور اسکی لیڈرشپ کو کچلا گیا اور اب اس مکروہ اور انسانیت سوز عمل کو عدالتی تحفظ بھی دے دیا گیا۔ شرم آنی چاہیئے شاکر محمود اعوان کا کہنا تھا کہ دوبارہ ٹوئیٹر پر پابندی لگادیں اچھا ہے نہیں تو یکجہتی پوری دنیا دیکھے گی انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کا فیصلہ۔۔۔دشمن سے بعد میں نمٹ لیں گے پہلے پی ٹی آئی سے نمٹ لیا جائے۔۔ نجم الحسن باجوہ نے لکھا کہ ریاست نے بھارت کی بجائے عمران خان سے لڑنے کا فیصلہ کر لیا ۔ ملٹری کورٹس فیصلہ علی ملک نے ردعمل دیا کہ انڈیا کے کل رات والے حملے سے بڑا حملہ اس وقت سپریم کورٹ نے پاکستان پر کر دیا ہے، اس حملے کا تو مقابلہ کر لیا جائے گا لیکن سپریم کورٹ کے حملے میں ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ انہوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ نہ کچھ سیکھنا اور نہ ہی انہوں نے سدھرنا ہے وسیم ملک نے تبصرہ کیا کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتیں بحال کرتے ہوئے سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دے دی، اور یہ فیصلہ اس دن ہوا جب ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ ایک 9 مئی ہوا تھا وہ بھی بڑا unfortunate واقعہ تھا نہیں ہونا چاہیے تھا اور ایک آج سپریم کورٹ نے 7 مئی کر دیا ہے یہ بھی بنتا نہیں تھا جو کر دیا گیا تاریخ ہمیشہ کے لئے یاد رکھے گی
لندن کے ایک ریستوران میں پاکستانی صحافیوں کی لڑائی کے دوران ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دی گئی ہیں۔ نجی چینل کی نیو نیوز کی لندن میں رپورٹر سفینہ خان اور وزیرداخلہ محسن نقوی کے چینل 24 نیوز کے لندن کے نمائندے اسد علی ملک کی لڑائی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر صارف نے پوسٹ کی جو وائرل ہے۔ ویڈیو میں دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف انتہائی گندی زبان کا استعمال کیا اور ماں بہن کی گالیاں دیں۔ اسکے بعد سفیینہ خان نے اپنے ایکس پیغام میں تفصیلی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ آج پہلے فرید قریشی ، اسد ملک اور مغل نے سلمان اکرم راجہ کی میڈیا ٹاک میں مجھے ناصرف کارنر کرنے کی کوشش کی بلکہ میرے سوال پوچھتے وقت بولنا شروع کر دیتے تھے پھر جب لاسٹ میں میں سوال کرنے کی کوشش کی تو بھی مرزا اخلاق سے نعرے لگوا کر مجھے روکنے کی کوشش کی میں نہایت صبر کیساتھ سب برداشت کیا اور تحمل کیساتھ برداشت کرتے ہوئے سوال پوچھ کر دم لیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پھر سب میڈیا والے نیچے چلے گئے اور مرزا اخلاق بھی نیچے پہنچ گیا ان سب کیساتھ بیٹھ کر اظہر جاوید کو برا کہا گیا اور تحریک انصاف کے کارکن مرزا اخلاق نے اظہر جاوید کی والدہ کو گالیاں دیں مجھ سے برداشت نہیں ہوا اسی وقت اظہر جاوید کو فون کر کے بتایا کہ آپکی والدہ کو گالیاں دی جا رہی ہیں اور رپوٹرز بیٹھ کر سن رہے ہیں کیونکہ میں سب کے سامنے اظہر جاوید کو فون کر کے بتا رہی تھی انکے مطابق اسکے بعد شوکت ڈار اتے ہیں میں ہم لوگ باہر چلے جاتے ہیں میں جب دوبارہ ریسٹورینٹ میں داخل ہوتی ہوں یہ لوگ کھانا کھانے میں مصروف تھے اور میں شوکت ڈار صاحب سے کہا کہ میں ٹویٹ کرنے لگی ہوں کہ ہزار سور ملکر بھی شیر کو نہیں ڈرا سکتے اتنے میں اس ملک نے شوکت ڈار کو مجھے گالی دیتے ہوئے کہا اسے کہیں اپنا منہ بند کر لے میں نے کہا تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی میں تمہیں سور نہیں کہہ رہی اسکے بعد اس نے گالیاں دیتے ہوئے کہا کہ میں چغل خور ہوں اور پھر میں نے بھی گالیوں کے جواب میں گالیاں ہی دیں اس نے مجھے دھمکی دی کہ تم مجھے جانتی نہیں ہو ہم تمہارے گھر ائیں گے سفینہ خان نے مزید کہا کہ خیر میں ایسے گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والی نہیں جو شخص اپنے گھر کی عورتوں پر تشدد کرنے کا عادی ہو اسکا مطلب یہ نہیں کہ باہر بھی گالی دے گا سن لی جائے گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے پولیس میں ان لوگوں کے خلاف رپورٹ کروا دی ہے فرید قریشی کے خلاف پہلے ہی پولیس میں کمپلئین ہیں آج دوسرے گینگ ممبرز کا بھی اضافہ ہو گیا ہے سفینہ خان نے مزید کہا کہ میں نے ARY اور Hum والوں کو شکایات کیں تھیں کہ یہ سلسلہ پچھلے ایک سال سے جاری ہے جان بوجھ کر تحریک انصاف کے لوگوں کو میرے خلاف چھوڑا جاتا ہے اور کئی مرتبہ جانی نقصان بھی پہنچانے کی کوشش کی گئی ایسڈ اٹیک تک کروایا گیا لیکن میں نا تب ڈری تھی نا اب ڈروں گی ۔ کوئی مرد اٹھے اور مجھے گالی یا میری ماں کو گالی دے گا میں اس سے ڈبل گالی اسکی گھر کی عورتوں کو دونگی اور جتنی چیخیں مارنی ہے مار گالی تو ڈبل ہی ملے گی اسد علی ملک نے اس کے جواب میں لکھا کہ: ”یہ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات ہیں، جو اس (سفینہ خان) کے ماضی کے طرز عمل سے مطابقت رکھتے ہیں۔ حقائق واضح ہیں اور متعدد عینی شاہدین کی طرف سے تائید کی گئی ہے۔ ایک ریسٹورنٹ میں ہمارے کھانے کے دوران، میں سمیت صحافیوں نے شرکت کی، رفیق مغل (ہم ٹی وی)، سعید نیازی (جی ای او)، فرید قریشی (اے آر وائی)، نصیر احمد (جیو)، ساحرہ خان (ہم ٹی وی) اور دیگر، اس خاتون نے قریبی میز پر بیٹھے ہوئے بغیر کسی اشتعال کے ہمیں گالی دینا شروع کر دی۔
پاکستان کی معروف ٹک ٹاکر جنت مرزا کو حال ہی میں سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا ہے، جب انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی پر سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب جنت مرزا ایک ایونٹ میں شریک تھیں اور ایک صحافی نے اُن سے پاک بھارت تعلقات پر ان کے خیالات دریافت کیے۔ جنت مرزا نے اس سوال پر خاموشی اختیار کی اور اشارے سے بتایا کہ وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتیں۔ جنت مرزا کی اس خاموشی پر سوشل میڈیا صارفین نے مختلف ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنت مرزا کو اپنے اکاؤنٹ کی فکر پڑگئی ہے کہ کہیں بھارت بین نہ کردے، سوشل میڈیا صارفین نے مزید کہا کہ جہاں کا 3 بار کا وزیراعلیٰ خاموش ہو، بڑے صوبے کی وزیراعلیٰ خاموش ہو، وہاں ایک ٹک ٹاکر سے کیا گلہ کرنا؟ صحافی محمد عمیر نے تبصرہ کیا کہ جہاں تین بار کا وزیراعظم خاموش ہو سب سے بڑے صوبے کی وزیراعلی خاموش ہو پورا شریف خاندان خاموش ہو وہاں ایک ٹک ٹاکر سے کیا گلہ شکوہ؟ سحرش مان نے لکھا کہ یہاں بڑی بڑی ٹک ٹاکرز نوکری بچانے کے لیے خاموش ہیں یہ تو پھر چھوٹی موٹی ٹک ٹاکر ہے رضی طاہر نے طنزیہ تبصرہ کیا کہ زبیر بھائی حد کرتے ہیں، یہاں پر پنجاب کی ٹک ٹاکر وزیراعلیٰ مودی کیخلاف ایک لفظ نہیں بول سکیں، جبکہ آبی جارحیت کا سب سے زیادہ شکار پنجاب ہوگا، یہ تو پھر غیر سیاسی خاتون ہے۔ مومن مختار کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ جنت مرزا کا بائکاٹ کیا جائے جسے اسکی ویور شپ پاکستان سے زیادہ پیاری ہے۔۔ خرم اقبال نے تبصرہ کیا کہ ہر انسان کی اپنی سوچ ہوتی ہے، وہ بولے یا چُپ رہے، یہ اُس کی چوائس ہے، سب سے بڑی مثال میاں نوازشریف ہیں، وہ 10 دن سے خاموش ہیں، جنت مرزا سے سوال یہ ہو رہا ہے کہ پاک انڈیا ٹینشن سے کیا آپ بھی متاثر ہوتے ہیں، اُس نے چپ رہنا بہتر سمجھا، اب کیا وہ منہ سے آگ برساتی۔۔!!
گزشتہ روز ابصار عالم نے طعنہ دیا کہ بھارت نے صدیق جان، صابر شاکر ، عمران ریاض، آفتاب اقبال وغیر کے چینل کیوں نہیں بن کئے اور انہیں گندے انڈے قرار دیا ۔ ابصار عالم کا کہنا تھا کہ انڈیا نے آفتاب اقبال ، عمران ریاض اور عادل راجہ پر کیوں پابندی نہیں لگائی ؟صدیق جان ، وجاہت ایس خان ، صابر شاکر پر کیوں پابندی نہیں لگائی ؟پاکستانی میڈیا پر پابندی لگادی گئی مگر ان لوگوں پر کیوں پابندی نہیں لگائی جبکہ صدیق جان، صابر شاکر سمیت متعدد صحافیوں کے چینلز بھارت نے بلاک کررکھے تھے۔ صحافی اسد چوہدری نے انکشاف کیا کہ صدیق جان کا چینل انڈیا میں بند ہے، لیکن وہ انکی طرح کم ظرف نہیں کہ اسکا ڈھنڈورا پیٹتا پھرے۔ یہ سابق صحافی و حکومتی عہدیداروں کے پاس کب سے اتھارٹی آگئی کہ وہ انڈیا میں چینل بلاک ہونے کی بنیاد پر یہاں سرٹیفکیٹ بانٹتے پھریں۔ ان جیسوں کے لئے حتمی بات وہی ہے جو ارشد شریف کہہ گیا تھا۔ یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ صابر شاکر کا یوٹیوب چینل بھی انڈیا نے بند کردیا ہے اس پر صابر شاکر کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کاکہناہےکہ میراچینل انکی قومی سلامتی کیلیے خطرہ ہےاسلیےپابندی عائدکردی گئی ہےسچ کوئی سنناہی نہیں چاہتاسب کوسرکاری طوطےچاہئیں ہر وقت حکومتی سچ اور جھوٹ بولیں انکےحکم پر رجیم چینچ آپریشن سرکارغدارملک دشمن کہتی ہےاورمودی سرکارمجھے پاکستان کامجاہد،جرنیل بھائی فیصلہ کرو فہیم اختر کا کہنا تھا کہ دفعہ کریں چوہدری صاحب یہ لوگ سٹھیائے ہوئے ہیں ان کے آقائوں کی جیسے سیاسی آخری اننگز ہے ویسے ہی ان کی صحافتی اننگز بھی آخری ہے سعید بلوچ نے تبصرہ کیا کہ نہ شیطان نے اپنی غلطی پر توبہ کی نہ ہی ابصار عالم کا معافی مانگنے کا امکان ہے، جو شخص کیمرے پر صحافت چھوڑنے کا کہے اور ساتھ ریکارڈ کر لینے کی بات کرے اور پھر شریف خاندان کی سیاست کا ٹائٹینک ڈوبتا دیکھ کر دوبارہ بے شرموں کی طرح صحافت کا لبادہ اوڑھ کے آ جائے اور شرمندگی محسوس نہ کرے اس سے ایسے اچھے کام ہی توقع نہ کیا کریں احمد وڑائچ نے عمران خان، مولانا فضل الرحمان کا یوٹیوب چینل بند ہونے پر کہا کہ امید ہے عمران خان اور مولانا فضل الرحمان کو ابصار عالم گینگ اینڈ وغیرہ وغیرہ سے "حب الوطنی" کا سرٹیفکیٹ جلد جاری کیا جائے گا
بیرسٹر شہزاداکبر نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے سی سی آئی کے رسمی اجلاس سے قبل راولپنڈی میں ایک خفیہ پیشگی اجلاس منعقد ہوا، جس میں فیصلہ ساز حلقوں نے اہم ہدایات طے کیں۔ انکے ذرائع کے مطابق، اس غیر رسمی اجلاس کی صدارت "اصل طاقت کے مرکز" نے کی، جبکہ تمام شرکاء کو سختی سے حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا گیا۔ خفیہ اجلاس میں سی سی آئی کے تمام ایجنڈا آئٹمز پر تفصیلی بات چیت ہوئی، جس کے بعد رسمی اجلاس میں "ضبط" اور "فرماں برداری" کی ہدایات جاری کی گئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے نہروں کے معاملے پر ایس آئی ایف سی کے توسیعی منصوبوں کو وقتی طور پر روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ سندھ میں بدامنی اور بھارت کے ساتھ کشیدگی کے پیشِ نظر راولپنڈی نے توسیعی عزائم پر عارضی طور پر بریک لگا دیا۔ اس پر علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین گنڈاپور بھڑک اٹھے اور شہزاداکبر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "آپ کو وزیرِ اعظم عمران خان صاحب نے صبح 11:30 بجے وزیرِ اعظم ہاؤس کے لان میں اثاثہ جات کی بازیابی یونٹ کے سربراہ کے عہدے سے برطرف کیوں کیا؟" سابق وزیر شہزاد اکبر نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین گنڈاپور کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: "بیٹا، اپنے قد سے بڑی باتیں نہیں کرتے۔ یہاں ذاتیات نہیں، اصل سوال یہ ہے کہ قافلہ کیوں لٹا؟" شہزاد اکبر نے موقع پر ایک شعر بھی سنایا کہ "ادھر اُدھر کی نہ بات کر، یہ بتا قافلہ کیوں لٹا؟۔۔مجھے رہزنوں سے نہیں، گلہ تیری رہبری کا سوال ہے"۔
بھارت میں 16 پاکستانی یوٹیوب چینلز پر پابندی لگائے جانے کے بعد اب بھارت کی درخواست پر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا انسٹا گرام اکاؤنٹ بلاک کردیا گیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر ایک بیان میں کہاکہ میرا انسٹا گرام اکاؤنٹ انڈیا کی درخواست پر بلاک کردیا گیا ہے، یہ ہمارے بیانیے کی فتح ہے۔ صحافی محمد عمیر نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ملک میں یہ جو ٹویٹر بند ہے یہ کس کے بیانئیے کی جیت ہے خواجہ صاحب؟ وجیہہ ثانی نے ردعمل دیا کہ سر پاکستان میں تمام پاکستانیوں کا ٹوئٹر بلاک ہے۔ مہربانی کرکے کھلوادیں۔ شہباز گل نے خواجہ آصف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بے شرم آدمی خود پورے پاکستان کا ٹوئیٹر بلاک کیا ہوا ہے۔ وہ کس کے بیانیہ کی فتح ہے ؟ وہاں کیوں نہیں مانتے کہ وہ بھی بھی بیانیے کی فتح ہے فرحان منہاج نے لکھا کہ یعنی جس کو بلاک کیا جائے وہ اس کے بیانیے کی فتح ہوتی ہے نئیر ذکریا نے کہا کہ سر جی ہم پچیس کروڑ پاکستانیوں کا ایکس بند ہے آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد سے جب نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا عوام اسے بھی اپنے بیانیے کی جیت سمجھیں یا جمہوری عمل میں حصہ لینے والے ابھی بھی ڈیجیٹل دہشت گرد ہی چل رہے ہیں؟ سحرش منیر نے کہا کہ چچا اس کا مطلب ہے پاکستان میں جن صحافیوں کے یوٹیوب بینک اکاونٹ بند ہوئے وہ ان کے بیانیے کی فتح ہے؟؟ ذیشان مہمند نے تبصرہ کیا کہ پھرپاکستان میں ایکس بند ہونا آپ کے مخالفین کے بیانیے کے سچ کی فتح ہے؟26 ویں ترمیم کرکے انصاف کا راستہ روکنا آپ کے مخالفین کے بیانیے کے سچ کی فتح ہے؟انتخابی عذداری کا فیصلہ رک جانا کیا آپ کے مخالفین کے بیانیے کے سچ کی فتح ہے؟ عرفان االحق کا کہنا تھا کہ آپ نے اپنے ہی پاکستانیوں کا ٹوئٹر (ایکس) بلاک کیا ہوا ہے زرا اب اس نا انصافی کو محسوس کریں اور اب تو یہ پابندی ختم کریں۔ نوشین یوسف نے طنز کیا کہ سر ہمارا ٹوئیٹر بھی پاکستان میں بلاک ہے اویس حمید نے تبصرہ کیا کہ بالکل اسی طرح پاکستان میں ایکس کا بلاک کر دیا جانا تحریک انصاف کے بیانیے کی فتح ہے۔
گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف نے برطانوی چینل سکائی نیوز کو انٹرویو دیا جس میں انہوں نے متنازعہ باتیں کیں جس پر پاکستانی صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے کو ملا پروگرام کے دوران اسکائی نیوز کی اینکر یالدا حکیم نے سوال کیا کہ لیکن آپ تسلیم کرتے ہیں نا کہ پاکستان کا ایک طویل ماضی رہا ہے دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرنے، انہیں تربیت دینے اور فنڈنگ فراہم کرنے کا؟۔ اس پر وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ جی، ہم یہ گندا کام امریکہ کے لیے تین دہائیوں تک کرتے رہے ہیں، نہ صرف مغرب بلکہ برطانیہ کے لیے بھی یہ ہماری غلطی تھی اور ہم بھگت رہے ہیں، سویت یونین کے خلاف ہم امریکہ کے ساتھ تھے یہ بیان سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بن گیا، جہاں صارفین نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کو مزود ہوا فراہم کرنا نہیں؟ صحافی سبی کاظمی نے خواجہ آصف کے ایک اور متنازع اقدام کو یاد دلایا، جب 2018 میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے FATF کے حوالے سے غلط معلومات جاری کی تھیں۔ انکے مطابق فروری 2018 میں خواجہ آصف نے ٹویٹ کیا تھا: "ہماری کوششیں کامیاب ہوئیں، FATF نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کی قرارداد منظور نہیں کی۔ ہمیں 3 ماہ کی مہلت مل گئی ہے" ۔لیکن FATF نے اس کی فوری تردید کی اور کہا کہ "کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ سبی کاظمی نے مزید کہا کہ " بعد ازاں، امریکہ نے سعودی عرب کو قائل کیا کہ وہ پاکستان کی حمایت واپس لے، جس کے نتیجے میں جون 2018 میں پاکستان FATF کی گرے لسٹ میں شامل ہو گیا۔ "خواجہ آصف کی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑا" – حماد اظہر سابق وزیر مملکت برائے مالیات حماد اظہر، جنہوں نے بعد میں FATF گرے لسٹ سے پاکستان کو نکالنے میں اہم کردار ادا کیا، نے خواجہ آصف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "2018 میں خواجہ آصف کے غیر ذمہ دارانہ بیان کی وجہ سے ہمیں گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا" انہوں نے کہا یہ خواجہ آصف کا فروری 2018 میں ماسکو میں دیا گیا غیر ذمہ دارانہ بیان تھا جس کی وجہ سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ پاکستان پر بند بحث کو اسی سیشن میں دوبارہ کھولا گیا۔ ان کا تازہ ترین غیر ذمہ دارانہ بیان ایک بار پھر پاکستان کو شدید نقصان پہنچا چکا ہے۔ خواجہ آصف 2013 کے بعد سے کوئی انتخاب جائز طریقے سے نہیں جیتے، بلکہ ہر بار اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے پارلیمان میں لائے جاتے ہیں۔ ان کی واحد 'مہارت' اپنے سیاسی مخالفین پر غیر شائستہ، خواتین مخالف تبصروں اور سطحی نوعیت کی جگتوں کے ذریعے حملے کرنا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنے اس 'اثاثے' سے جان چھڑائے خواجہ آصف کے حالیہ بیان کے بعد سیاسی و سماجی حلقوں میں یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ انہیں وزارتِ دفاع جیسے اہم عہدے پر برقرار رکھنا پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کے بیانات ماضی کی پالیسیوں کو بین الاقوامی میڈیا میں اچھال کر پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف نے برطانوی چینل سکائی نیوز کو انٹرویو دیا جس میں انہوں نے متنازعہ باتیں کیں جس پر پاکستانی صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے کو ملا پروگرام کے دوران اسکائی نیوز کی اینکر یالدا حکیم نے سوال کیا کہ لیکن آپ تسلیم کرتے ہیں نا کہ پاکستان کا ایک طویل ماضی رہا ہے دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرنے، انہیں تربیت دینے اور فنڈنگ فراہم کرنے کا؟۔ اس پر وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ جی، ہم یہ گندا کام امریکہ کے لیے تین دہائیوں تک کرتے رہے ہیں، نہ صرف مغرب بلکہ برطانیہ کے لیے بھی یہ ہماری غلطی تھی اور ہم بھگت رہے ہیں، سویت یونین کے خلاف ہم امریکہ کے ساتھ تھے محمد عمیر نے ردعمل دیا کہ تین دہائیوں سے سیاست میں ہیں اور کل استعداد کار یہ ہے کہ ایک سوال کا جواب ٹھیک طریقے سے نہیں دے سکے۔ پاکستانیت نےا س پر جواب دیا کہ کالج کا ایک طالب علم بھی اس سوال کا مناسب جواب دے سکتا ہے ، لیکن ن لیگ کا صف اول کا لیڈر جو تیس سال سے سیاست میں ہے اس کی حواس باختگی دیکھیں ، اصل میں یہ فطرتاً جگت باز، بڑ بولا اور غیر متوازن شخص ہے ، پارلیمنٹ میں بھی گھٹیا اور بازاری جملے بولتا ہے ضیغم خان نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ایک وزیر کو بین الاقوامی سطح پر قوم کی توہین کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے—خصوصاً ایسے بیانات کے ذریعے جو حقیقت کے منافی ہوں۔ پاکستان کے اقدامات درست تھے یا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن ان کی بنیاد ہمیشہ قومی مفادات پر رہی، جو اکثر امریکہ کے مفادات سے متصادم ہوتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک زیادہ مؤثر اور تعمیری حکمتِ عملی یہ ہوتی کہ وہ اس بات کو اُجاگر کرتے کہ بھارت مسلسل پاکستان کے خلاف پراکسی وار کا سہارا لیتا رہا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ یہ اپنے خلاف ہی بیانیہ بنا رہے ہیں؟ فارم 47 کی وجہ سے اسمبلیوں میں جانے والے گھس بیٹھیوں کی شرمناک کارکردگی احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ بندے کو وقت کے حساب سے بولنا چاہیے، امریکا سمیت پوری دنیا ایک طرف کھڑی ہے، خواجہ جی نے اپنی طرف سے بہت بڑا بیان دیا ہے۔ آپ بس گالم گلوچ تک محدود رہیں اور کچھ نہ بولیں فرحان منہاج نے ردعمل دیا کہ وزیر دفاع غیر ملکی میڈیا پر قبول کررہا ہے کہ ہم امریکہ , مغرب اور مڈل ایسٹ کے ایماء پر تین دہائیوں سے دھشت گرد گروپس کی حمایت اور تربیت کرتے رہے ۔ جاہل آدمی ہے یہ بندہ شہباز گل نے تبصرہ کیا کہ جنرل صاحب اس کو کوئی پنجابی ٹرانسلیٹر دے دیا کریں ساتھ۔ تاکہ جناب کا جگت مارنے کا سواد پورا ہو جائے۔ ان کی بے شرمی کی قیمت اب ہم سب اٹھائیں گے۔ لیکن قصور انکا نہیں۔ قصور ہمارے جرنیلوں کا ہے جن کو یہ والا سودا چاہیئے مریم نواز خان نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ بندہ اس پر ہنسے یا روہے؟ احمد بوبک نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ اعتراف جرم بلکل سوچیں سمجھی سازش کا حصہ ہے ۔ سب لوگ نواز شریف سے انڈیا کے خلاف بیان مانگ رہے تھے یہ خواجہ آصف کے منہ سے نواز شریف کا سب کو جواب ہے۔ یہ بیان اس وقت دیا گیا ہے جب اس بیان کی انڈیا کو کشمیر حملہ کے بعد ضرورت تھی تاکہ انڈیا کا بیانیہ مظبوط ہو سکے چٹی ننگی غداری ہو رہی ہے
کچھ روز قبل شیر افضل مروت نے عمران خان کی بہن علیمہ خان سے متعلق گھٹیا زبان کا استعمال کیا اور سنگین الزامات لگائے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خلاف اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ملے ہونے کا بیانیہ علیمہ خان نے بنایا، حیدر مہدی اور عادل راجہ نے علیمہ خان کی ایما پر میرے خلاف وی لاگ کیے، علیمہ خان یوٹیوبرز کو بلا کر میرے خلاف کان بھرتی تھی، سارا سوشل میڈیا اور جو امریکہ سے مدد آتی ہے، اسے علیمہ خان کنٹرول کرتی ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کو علیمہ خان کنٹرول کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر گالیوں کی ذمہ دار یہی ہیں۔ سلمان اکرم راجہ انہی کے کہنے پر کے پی حکومت سمیت ہر کسی سے سینگ اڑا رہے ہیں۔ معدنیات بل پر کہا کہ اسے پاس نہ کریں شیر افضل مروت پارٹی فنڈ میں کرپشن کا الزام بھی علیمہ خان پر لگادیا اور کہا کہ اوورسیز پاکستانی جو پیسے بھیجتے ہیں اس کا آڈٹ نہیں ہوا، پیسے علیمہ خان دیکھتی ہیں وہ شبلی فراز کو کہتی کہ انہیں وکلاء کو فیسوں کی مد میں دے دیں، لیگل کیسز کی مد میں 11 کروڑ تو علی امین نے دیے، 3 کروڑ وکلا کو دیے گئے 8 کروڑ غائب ہو گئے، شیر افضل مروت کے ان بیانات پر ثمینہ پاشا نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ تنقید تو علی محمد خان، زرتاج گل، حماد اظہر ، شہریار آفریدی، شاندانہ گلزار اور دیگر بہت سے لوگوں پر ہوئی اور بے تحاشا ہوئی۔ لیکن جس کم ظرفی کا مظاہرہ شیر افضل مروت نے کیا ایسا کم ہی دیکھا۔ ثمینہ پاشا کے اس ٹویٹ پر شیر افضل مروت نے ثمینہ پاشا کو پرائیویٹ پیغام میں گھٹیا زبان کا استعمال کیا اور کہا کہ کم ظرف تمہارے والدین ہیں جنہوں نے تمہیں جنم دیا ثمینہ پاشا نے شیر افضل مروت کا پیغام شئیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ حالت ہے اسٹیبلشمنٹ کے اس ٹاؤٹ کی کہ تنقید کی تو والدین تک آ گیا۔ لعنتیں ایویں ہی نہیں سمیٹ رہا پوری قابلیت ہے جناب میں۔ جس پر شیر افضل مروت نے ثمینہ پاشا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے شرافت کی حدیں نہ پار کی ہوتیں تو میں تمہارے والدین پر تمہارے گندے انداز کا الزام نہ لگاتا۔ قصور ان کا ہے اور وہ گندا خون جو تمہاری رگوں میں دوڑتا ہے۔
رحیم یارخان پولیس کے مطابق پولیس کا کچہ ماچھکہ میں دوران گشت ڈاکوؤں سے مقابلہ 02 مغوی بازیاب ہوگئے ہیں یہ مغوی کوئی اور نہیں بلکہ احمد نورانی کے 2 بھائی ہیں جنہیں 25 روز قبل انکے گھر سے اغوا کیا گیا تھا۔ پولیس ترجمان کے مطابق دوران کاروائی 02 ڈاکوؤں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں اور اغواء کار دونوں مغویوں کو چھوڑ کر کچے کے علاقے میں فرار ہوگئے ہیں۔ پولیس کے مطابق بازیاب مغویوں کی شناخت محمد علی اور سیف الرحمن حیدر پسران بشیر احمد سعیدی کے نام سے ہوئی ہے۔بازیاب ہونے والے افراد کاتعلق اسلام آباد سے بتایا جارہا ہے پولیس کے اس دعوے کا سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا۔سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ ھئی یہ کیسےکچے ڈاکو تھےجنہوں نے اتنا پکا کام کرکےبھی تاوان نہیں مانگا، کسی نے کہا کہ چلیں ڈرامہ ہی سہی لیکن ایک ماں کے بیٹے واپس آگئے یاسر چیمہ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کل اوقات ہے ہماری سیکیورٹی کی. کچے کے ڈاکو اسلام آباد آتے ہیں، گھر میں داخل ہوتے ہیں اور بے خوف دو لڑکوں کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں. باتیں کرتے ہیں ہم دہشت گردی ختم کریں گے. یہ لوگ تو محافظ کم اور دہشتگردوں اور ڈاکووں کے سہولتکار زیادہ ہیں. عدالت بھی بے بس. سحرش منیر نے تبصرہ کیا کہ صبح اٹھتے ہی کچے کےڈاکوؤں کی پکی کاروائی کا علم ہوا ہےکہ احمد نورانی کےبھائی کچے کےپکے ڈاکوؤں نے اغواکرلئےتھےجو32 دن بعدپولیس پارٹی کواچانک پولیس مقابلے میں مل گئےہیں۔بھئی یہ کیسےکچے ڈاکو تھےجنہوں نے اتنا پکا کام کرکےبھی تاوان نہیں مانگا؟بلکہ مغویوں کو گھرجمائی بناکررکھا ہوا تھا؟ سحرش مان نے طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ٹام کروز مشن امپاسبل کیلئے کیا ہی سٹنٹس لگاتا ہو گا جو ہماری پنجاب پولیس کے جوان اس ویڈیو میں ”مشن پاسبلی امپاسبل“ کے لیے لگا رہے ہیں اظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ ڈرامہ کر کے ہی ان کی جان چھوڑی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ احمد نورانی کے اغوا شدہ بھائی واپس چھوڑ دئیے گئے قاسم سوری نے لکھا کہ آپ سب نے پاکستان کی کہانی اپنی اگلی نسل کو دکھانی ہے کہ کیسے صحافی احمد نورانی کے ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ بھائیوں کی بازیابی کےلیے پولیس نے کچہ ماچھکہ کے علاقے میں فالس فلیگ آپریشن کرکے اغواء کی ذمہ داری کچےکے ڈاکوؤں پر ڈالی۔ شفقت چوہدری نے ردعمل دیا کہ احمد نورانی کے بھائیوں اور انتظار پنجوتھہ کی بازیابی کی کہانی ذرا سی بھی مختلف اس لئے نہیں ہے کہ اغوا کاروں کو بھی پتہ ہے کہ سب سب جانتے ہیں علیحدہ سکرپٹ کی ضرورت تب ہوتی اگر انہیں کسی پکڑ کا ڈر ہوتا وہ پاکستان بھر کا ضمیر کب سے اعلانیہ للکار رہے ہیں کہ جو اکھاڑ سکتے ہو اکھاڑ لو محسن حجازی نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ "بات تھوڑی ہے تو کچی پکی، لیکن پکے کے ڈاکوؤں کو چھیڑو تو کچے کے ڈاکو لے جاتے ہیں۔ کچے کے ڈاکوؤں کو چھیڑو تو پکے کے ڈاکو لے جاتے ہیں۔ اور دونوں کو ہی نہ چھیڑو، تب بھی چوری ڈاکے کا پرچہ پڑ جاتا ہے۔"- احمد بوباک نے تبصرہ کیا کہ احمد نورانی کے بھائیوں کی بازیابی کیلئے پولیس نے کچہ ماچھکہ کے علاقے میں یہ فالس فلیگ آپریشن کیا ہے اور احمد نورانی کے بھائیوں کے اغواء کی ذمہ داری کچے کے ڈاکوؤں پر ڈالی ہے سعید بلوچ نے تبصرہ کیا کہ کہ اکلوتا سوال، احمد نورانی کی خبر سے کچے کے ڈاکوؤں کو کیا مسئلہ تھا؟ وہ آٹھ سو کلومیٹر کا سفر کر کے اسلام آباد آئے یہاں گاڑیوں کا انتظام کیا، احمد نورانی کے بھائیوں کو گھر سے اغوا کیا، ایک مہینہ انہیں حساس اداروں سے چھپا کر رکھا، اخراجات برداشت کیے، پھر آٹھ سو کلومیٹر دور کچے کے علاقے لے گئے، راستے میں درجنوں چیک پوسٹوں، ناکوں، پٹرولنگ پولیس سے بچنے میں کامیاب ہوئے، بظاہر کچے کے ڈاکوؤں نے وہی راستہ استعمال کیا جس سے سمگلنگ کا مال اسلام آباد تک پہنچتا ہے
گزشتہ روز وزیراعلٰی پنجاب نواز نے پنجابی کلچر ڈے کی خصوصی تقریب سے خطاب کیا اور مریم نواز نے منصور ملنگی کا گانا "اک پُھل موتیئے دامار کے جگا سوہنئے"عارف لوہار سے منسوب کر دیا مریم نواز نے عارف لوہار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "عارف لوہار صاحب آپ کا ایک گانا ہے ، اک پھل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے ، میں بہت شوق سے آپ کا وہ گانا سنتی ہوں ، بہت اچھا لگا آپ سے مل کے آج "۔ مریم نواز کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ ہم نے ساری زندگی منصور ملنگی کو ہی یہ گانے سنا اور آج پتہ چلا کہ گانا گانیوالا منصور ملنگی نہیں عارف لوہار ہے۔ صحافی بشارت راجہ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ میں نے پوری تحقیق کی ایک پُھل موتیے دا منصور ملنگی نے گایا ہوا ہے عارف لوہار کا اس گانے سے کیا تعلق؟ مریم نواز کا کہنا ہے کہ عارف لوہار سے آپ کا گانا ایک پھُل موتیا دا میں بہت سنتی ہوں۔ یہی خاتون تاریخ سے فکشن پڑھتی ہےپس ثابت ہوا کہ اس خاتون کا فنون لطیفہ سے یا مطالعہ سے کوئی تعلق نہیں.... مینوں مارو سنگلاں نال یار پنجابیوں تہاڈا کس نال پالا پڑ گیا... انہوں نے منصور ملنگی کے گانے کا کلپ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ پوری تحقیق کے بعد ثبوت بھی حاضر ہے فاسق والی بات بالکل بھی نہیں یہ خاتون سرتاپاء جھوٹ میں لھتڑی ہوئی ہے ان کی صبح کی ابتداء یاحافظ یا جھوٹ تیرا ہی آسرا سے ہوتی ہے اور یہ ورد سوتے تک جاری رہتا ہے لہذا محسن نواز کا کہنا تھا کہ منصور ملنگی زندہ ہوتا تو کہتا پھل کی جگہ پتھر مار لو لیکن گانا میرا ہی رہنے دو شاہد اسلم کا کہنا تھا کہ گانا جس کا بھی ہو جس نے بھی گایا ہو، سلیکٹیڈ وزیر اعلی کی گانے کی چوائس تو اچھی ہے اس پہ تو داد دیں انہیں۔ نادر بلوچ نے تبصرہ کیا کہ ہسٹری میں فکشن کے بعد پیش خدمت ہے ایک اور شاہکار۔۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز پنجابی کلچر کی تقریب میں دھڑلے سے عارف لوہار کو کہتی ہیں میں آپ کا گانا، ’’اک پھل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے‘‘ بہت شوق سے سنتی ہوں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک پھل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے، منصور ملنگی نے گایا، عارف لوہار نے نہیں!!!!۔ محسن نواز صاحب آپکا شکریہ، ورنہ یہ گانا آج کے بعد عارف لوہار کے کھاتے میں چلے جانا تھا۔ ایک صارف نے کہا کہ ساری زندگی میں سمجھتا رہا کے " ایک پھل موتیا دا مار کے جاگ " گانا منصور ملنگی کا ہے آج مریم نواز نے بتایا کے وہ عارف لوہار کا ہے میں ابھی تک سکتے میں ہوں
اسلام آباد: پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے صدر پروفیسر رضوان تاج نے منگل کو انکشاف کیا کہ 1,061 پاکستانی ڈاکٹرز نے امریکہ میں رزیڈنسی پوزیشنز حاصل کی ہیں جو ایک سال میں اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی، علامہ اقبال میڈیکل کالج، ڈاؤ میڈیکل کالج، شفا کالج آف میڈیسن، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی (جے ایس ایم یو) اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ڈاکٹرز نے سب سے زیادہ رزیڈنسی پوزیشنز حاصل کی ہیں۔ پروفیسر تاج نے کہا کہ "ڈاکٹرز کی یہ شاندار کارکردگی پی ایم ڈی سی کے معیارات کی عکاس ہے، جس نے ملک میں میڈیکل ایجوکیشن کے مضبوط نصاب اور تربیتی پروگراموں کو یقینی بنایا ہے۔" انہوں نے ڈاکٹرز میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اسے ایک "تبدیلی کے سفر کا آغاز" قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "چیک اینڈ بیلنس کے سخت نظام کے ذریعے پی ایم ڈی سی نے پاکستانی میڈیکل و ڈینٹل کالجز کو بہتر نصاب اور تربیتی پروگرام مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔" انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں رزیڈنسی کا عمل انتہائی مقابلے پر مبنی ہوتا ہے، جس میں امیدواروں کو غیر معمولی تعلیمی کارکردگی، یو ایس میڈیکل لائسنسنگ امتحان (یو ایس ایم ایل ای) پاس کرنے اور انٹرویوز سمیت تفصیلی دستاویزات جمع کروانے کے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ صرف انتہائی محنتی اور مستقل مزاج امیدوار ہی اس چیلنجنگ انتخاب میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔** پروفیسر تاج نے کہا کہ یہ کامیابی پی ایم ڈی سی کے ویژن کو مزید تقویت دے گی، جس کا مقصد عالمی معیارات کے مطابق مستقبل کے ہیلتھ کیئر پروفیشنلز تیار کرنا ہے۔ اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے اس پر تبصرہ کیا کہ ایک ہزار قابل پاکستانی امریکہ میں مستقل رہائشی ہو گئے اور ہمارے ادارے اس کو اپنی کامیابی تصور کر رہے ہیں!! کیا کوئی اس خبر کی تصدیق کرے گا اور بتائے گا کہ گذشتہ 3 سالوں سے کتنے پاکستانیوں نے سکونت ختم کر لی یا موجودہ حکومتوں کی کارکردگی اور برے حالات کی وجہ سے منتقل ہوئے؟؟ محمد عمیر نے تبصرہ کیا کہ ایک اور ریکارڈ۔۔صرف امریکہ میں ایک سال میں ایک ہزار سے زائد پاکستانی ڈاکٹرز کو ریزیڈنسی ملی۔ پی ایم ڈی سی برین ڈین کے اس پر عمل حیران و پریشان ہونے کی بجائے خوشی کا اظہار کررہا ہے۔ منیب نے کہا کہ کہاوت ہے کہ ایک بے شرم آدمی کی پیٹھ پر درخت اُگ آیا- وہ شرمندہ ہونے کی بجائے کہتا تھا کہ اب میں ہمیشہ چھاؤں میں بیٹھوں گا۔ صرف امریکہ میں ایک سال میں ایک ہزار سے زائد پاکستانی ڈاکٹرز کو ریزیڈنسی ملی۔ پی ایم ڈی سی برین ڈین کے اس عمل پر حیران و پریشان ہونے کی بجائے خوشی کا اظہار
سابق نگران وزیراطلاعات کی بشریٰ بی بی سے متعلق گھٹیا گفتگو پر شدید ردعمل۔۔ مرتضی سولنگی اپنے پیغام میں بشریٰ بی بی کا نام بگاڑتے رہے اور عمران خان کو اوباش خان کہہ کر بلاتے رہے اپنے پیغام میں مرتضی سولنگی نے کہا کہ پنکی پیرنی نامی اوباش، بدعنوان اور سزا یافتہ مجرم خاتون اس بنیاد پر اپنے لیے بہتر سہولتیں مانگ رہی ہے کہ کیونکہ اس نے ایک اور اوباش، بدعنوان اور سزا یافتہ مجرم المعروف اڈیالہ کے اُلو سے عدت میں شادی کی تھی اس لیے اسے بھی اسی طرح کی سہولتیں دی جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر برابری چاہتی ہیں تو ایک فارمولا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اوباش خان سے اضافی سہولیات واپس لیکر پنکی پیرنی کے برابر کر دی جائیں۔اس کی زبان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنا گھٹیا ہے اور اسکے والدین نے اسکی تربیت کیسی کی ہے۔ سابق نگران وزیراطلاعات کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین اور صحافیوں نے شدید ردعمل دیا، ان کا کہنا تھا کہ خود کو لبرل اور روشن خیال کہنے والے کی گفتگو گٹر سے بھی زیادہ بدبودار ہے، فرحان منہاج نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا سابق نگران وزیر اطلاعات اسکی زبان اور کردار اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی مکمل ترجمانی ہے؟ زبیر علی خان نے کہا کہ یہ پاکستانی لبرلز اور روشن خیال کہلائے جانے والوں کا ایک نمائندہ ہے، اس کی گفتگو گٹر سے بھی زیادہ بدبودار ہے سہراب برکت نے مرتضیٰ سولنگی کو سٹھیایا ہوا بڈھا قرار دیا احمد جنجوعہ نے تبصرہ کیا کہ یہ بات وہ شخص بول رہا ہے جو امریکہ میں اپنی کینسر سے مرتی بیوی چھوڑ کر پاکستان آگیا ، جس نے ایک سرکاری افسر خاتون سے شادی کر لی اور اپنی بیمار بیوی کو امریکہ میں بتایا بھی نہیں ۔ جسکے اپنے لئے آصف زرداری کی بدولت ملی سرکاری نوکری ، پروٹوکول بیمار بیوی سے زیادہ اہم تھا ۔ امجد خان کا کہنا تھا کہ مرتضی سولنگی سے زیادہ گھٹیا شخص کوئی ہے پاکستان میں ؟؟ شاہد اسلم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ گھٹیا کردار جس طرح کی زبان استعمال کرتا ہے دوسری خواتین کے متعلق اگر پی ٹی آئی والے استعمال کریں تو فورا انسانی حقوق، خواتین کے حقوق کا پرچار کرنے والے دانشور اور صحافی میدان میں کود پڑتے ہیں لیکن اسے اس گھٹیا پن پہ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ایسے لوگوں کو سر عام چھتر مارنے چاہیں۔ شہبازگل نے ردعمل دیا کہ کاش آپکی تربیت اچھی کی ہوتی۔ کچھ تو حیا کرتے بے غیرت آدمی ایک عورت کے بارے یہ بات کرتے۔ خرم ااقبال کا کہنا تھا کہ کہنے کو سینئر صحافی، سابق نگران وزیر اطلاعات اور زبان محلے کے کسی اوباش جیسی، افسوس ہے ایسی صحافت پر کہ اخلاقیات کی دھجیاں اُڑا دیں
اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ہیومن رائٹس سیل کے صدر اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کے خلاف مبینہ "کرپشن، ٹیکس چوری اور غیر قانونی اثاثہ جات بنانے" کے الزامات پر انکوائری شروع کر دی ہے۔ ذرائع نے روزنامہ ڈان کو بتایا کہ فرحت اللہ بابر پہلے ہی عید کی تعطیلات سے ایک دن قبل ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سیل اسلام آباد میں پیش ہو چکے ہیں تاکہ ایف آئی اے کی طرف سے جاری کردہ نوٹس کا جواب دے سکیں، جو راولپنڈی کے مورگاہ علاقے کے ایک عام شہری کی شکایت پر جاری کیا گیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے نے فرحت اللہ بابر سے کہا ہے کہ وہ عید کے بعد اپنی آمدنی اور اثاثوں سے متعلق کچھ دستاویزات پیش کریں۔ جواباً فرحت اللہ بابر نے ایف آئی اے سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں شکایت کی کاپی، ایف بی آر کے نوٹسز، ٹیکس ریٹرنز، اثاثہ جات کی تفصیلات اور دیگر متعلقہ دستاویزات فراہم کی جائیں، جن کی بنیاد پر ان کے خلاف انکوائری شروع کی گئی ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وہ 2013 کے بعد سے کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتے، جب وہ صدر آصف علی زرداری کے ترجمان کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ رابطہ کرنے پر فرحت اللہ بابر نے ایف آئی اے کے نوٹس موصول ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ قانونی طریقے سے اس کا جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا: "واقعات کی ترتیب اور ٹائمنگ، اور ایک نجی شکایت کی بنیاد پر اچانک انکوائری شروع کرنا انتہائی حیران کن ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا: "مجھے بالکل علم نہیں کہ اس کے پیچھے کون ہے، لیکن میں اسے شک کا فائدہ دوں گا۔" فرحت اللہ بابر کے مطابق، ایف بی آر نے انہیں 21 مارچ کو نوٹس جاری کیا تھا، اور اس سے پہلے کہ انہیں یہ نوٹس ملتا، 23 مارچ کو راولپنڈی کے ایک نجی شہری نے ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سرکل میں شکایت درج کروائی، جس میں ان کے خلاف کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگائے گئے۔ ایف آئی اے نے یہ شکایت منظور کرتے ہوئے 25 مارچ کو فرحت اللہ بابر کو نوٹس جاری کیا کہ وہ 28 مارچ کو ان کے سامنے پیش ہوں، جو کہ عید کی تعطیلات سے ایک دن پہلے کی تاریخ تھی۔ اس پر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ باخُدا یہ پیپلز پارٹی کو ہو کیا گیا ہے؟ ایک ایسا شخص جِس کی ساری زندگی ہمارے سامنے ہے۔ بے داغ، خودار اور سچا آدمی۔اُس کے ساتھ عمر کے اِس حصہ میں یہ سلوک؟فرحت اللہ بابر کو ایف آئی اے کی جانب سے کرپشن کا نوٹس انتہائی قابلِ مذمت اور پریشان کُن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اور نوٹس اُس محکمہ سے جِس کی سربراہی محسن نقوی کے پاس ہے جو زرداری صاحب کی آنکھ کا تارا ہے؟ ڈوب مرنے کا مقام ہے پیپلز پارٹی کے لئیے۔ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ بات اگر یہاں تک آگئی ہےکہ فرحت اللہ بابر صاحب جیسے دیانت دارشخص پرعام شہری کے نام پرکرپشن الزام لگایا جائےتوپھر آگے کیا ہو گااس کااندازہ لگایاجاسکتاہے جنید نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ فرحت اللہ بابر صاحب اپنی سیاست سے بالا تر ہو کر انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں جس سے کچھ لوگوں کو مرچیں لگی ہیں اور وہ ان کے خلاف روایتی حربے استعمال کر رہے ہیں۔ حافظ اور شریف کمپنی کو شرم آنی چاہیے۔ محسن حجازی نے ردعمل دیا کہ طاقت ور سیاستدان عام آدمی پر تو مٹی ڈالیں، فرحت اللہ بابر کے کیس کا طاقتور صدر صاحب اور طاقتور وزیراعظم صاحب اور پاکستان میں تو طاقتور ڈپٹی وزیراعظم بھی ہیں، یہ مل کر پتہ لگوا لیں کہ فرحت اللہ بابر پر کیس کون ڈال کر چلا گیا۔
لاہور پولیس نے غیر اخلاقی سرگرمیوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے دو مختلف مقامات پر چھاپے مار کر درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا۔ لاہور پولیس کے مطابق غالب مارکیٹ پولیس نے ایک نجی ہوٹل میں جاری ڈانس پارٹی پر چھاپہ مارا، جہاں فحش گانوں پر رقص اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف 20 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ کارروائی کے دوران پولیس نے موقع سے 4 بوتلیں شراب اور ساؤنڈ سسٹم بھی برآمد کرلیا۔ گرفتار افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب تھانہ مصطفیٰ آباد پولیس نے ڈی ایس پی صدر افضل ڈوگر کی سربراہی میں ایک فارم ہاؤس پر کارروائی کی۔ فارم ہاؤس میں جاری ڈانس پارٹی کے دوران 30 مرد اور 25 خواتین کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزمان نشے کی حالت میں بلند آواز میں موسیقی پر رقص کر رہے تھے۔ پولیس چھاپے کے دوران گرفتار نوجوانوں اور لڑکیوں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر پھیلادی گئیں جس پر سوشل میڈیا صارفین خوب تنقید کررہے ہیں۔ عائشہ بھٹہ کا کہنا تھا کہ س قانون کے تحت ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی گئی ہے؟شریفوں اور زرداروں کے بچوں کو عیاشی کے لیے تمام سہولیات اور پرائیویسی میسر ہے، وہی کام عوام کرےتو اس کے حصے میں ذلت آتی ہے۔ان نوجوانوں کو وارننگ دے کرچھوڑا جا سکتا تھا لیکن ان کو ذلیل کرنا مقصود تھا احمد نے لکھا کہ مسلم لیگ ن ہمیشہ ضیاء الحق کی پیروکار رہے گی۔ وہ انتہا پسندوں کو نہیں روک سکتے لیکن انہیں پنجاب میں پارٹی کرنے والے نوجوانوں سے مسئلہ ہے۔ حیدر نقوی نے ردعمل دیا کہ ویڈیو بنانے والے پر لعنت ، گرفتار کرنے والے پر لعنت ، بے غیرتوں بے شرموں کم از کم خواتین کی ویڈیو تو نہ بناتے ۔۔ انہوں نے مریم نواز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز صاحبہ آپ کے صوبے میں یہ ہورہا ہے ؟ اگر آپ نے ان پولیس والوں کو ان بچیوں کی ویڈیو بنانے پر سزا نہ دی تو پھر نوجوانوں کو متاثر کرنے کی آپ کی ساری کوشش بیکار ہے ۔ کون کس سے مل رہا ہے کون کیا زندگی گزار رہا ہے یہ سب کا ذاتی حق ہے ان کو سزا ان کے بزرگ دے سکتے ہیں پولیس نہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے کوئ بھی نشہ کی حالت میں نظر نہیں آرہا اور اگر ہے بھی تو اُس کی سزا کا ایک طریقہ کار ہے ۔ آئ جی پنجاب تم ذمہ دار اگر تم ان پولیس والوں کو سزا نہیں دیتے چوہدری سجاد نے کہا کہ کسی میں جرات ہے کہ ان گیسٹ ہاوسز کے مالکان شراب اور دلہ گیری کا بزنس کرنے والوں کے نام بتائے اسی طرح انکی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شئیر کریں؟نہیں ناں مرزا اشرف کا کہنا تھا کہ پکڑ لیا ٹھیک کیا انہیں سزا دیں پر میرے خیال میں ویڈیو بنا کر شئیر کرنے کی ضرورت نہیں تھی عائزہ نے تبصرہ کیا کہ انکے جرم کی سزا عدالت دیگی لیکن پولیس نے کس قاعدے قانون کے تحت انکی ویڈیو بنا کر پھیلائی ہے۔
کاٹلنگ ڈرون حملے پر عطاء تارڑ اور مشتاق احمد خان کے بیانات... سپریم کورٹ سے آزاد انکوائری کا مطالبہ اسلام آباد: کاٹلنگ آپریشن میں ہلاک ہونے والوں کے حوالے سے وزیر اطلاعات عطاء تارڑ اور سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ عطاء تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ آپریشن میں 17 خارجی دہشت گرد ہلاک ہوئے، جبکہ مشتاق احمد خان نے الزام لگایا ہے کہ اس کارروائی میں بے گناہ شہری مارے گئے ہیں۔ عطاء تارڑ نے کہا کہ کٹلانگ آپریشن میں کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا بلکہ سیکیورٹی فورسز نے کارروائی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کی جگہ سے قریبی آبادیاں 6 سے 9 کلومیٹر دور تھیں اور وہاں کوئی عام شہری موجود نہیں تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی نے خارجی دہشت گردوں کی حمایت کی اور جھوٹی خبریں پھیلائیں۔ سابق سینیٹر نے عطاء تارڑ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تو وہ نیشنل میڈیا پر مناظرہ کریں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آپریشن میں 2 خواتین، 2 بچے اور 5 مرد سمیت 9 بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے۔ ان کے مطابق، تمام لاشوں کے پوسٹ مارٹم ہو چکے ہیں اور تحصیل ہسپتال، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پولیس کے پاس ریکارڈ موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں جیلنج کرتا ہوں آپ نے بےگناہ انسان قتل کرکے جنگی جرم کیا ہے ،آپ کے پاس ثبوت ہیں، ہمت ہے تو میرے ساتھ اس ایشو پر نیشنل میڈیا پر مناظرہ کریں۔پاکستان میں قانون کی عملداری ہوتی تو پیکا ایکٹ کے تحت فیک نیوز میں آپ ،رانا ثناءاللہ اپنے وزیراعظم کی قیادت میں جیل میں ہوتے؟ سینیٹر مشتاق نےمزید کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانی کے کرسیوں پر بیٹھے لوگ دروغ گوئی کے کارخانے ہیں۔جو بڑی بے شرمی سے تواتر کیساتھ جھوٹ بولتے ہیں۔ مشتاق احمد خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے اس معاملے میں نوٹس لینے اور آزاد عدالتی انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو عطاء تارڑ اور دیگر حکومتی اراکین کے خلاف PECA ایکٹ کے تحت کارروائی ہوتی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ حکومت نے ڈرون حملے کی غلط خبریں پھیلا کر دہشت گردوں کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ پارٹی نے فوجی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں عمران ریاض کہہ رہے ہیں کہ علی امین گنڈاپور کو جلد ہی پارٹی اور وزارت اعلیٰ خیبر پختونخوا کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی عمران خان جیل سے رہا ہوں گے، وہ اس فیصلے پر عمل کریں گے۔ عمران ریاض کے مطابق، گنڈاپور کے اپنے حامی بھی ان پر تنقید کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے تحریک انصاف کی سیاسی رفتار کو متاثر کیا ہے۔ عمران ریاض کی یہ ویڈیو سیاق وسباق سے ہٹ کر تھی اور شیر افضل مروت نے علی امین گنڈاپور سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ انہیں وزارت اعلیٰ سے ہٹادیا جائے گا جسے عمران ریاض نے دہرایا تھا۔ علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین نے یہ ویڈیو شئیر کرکے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران ریاض کے بیانات پی ٹی آئی کے مخالفین کی خواہشات کے عین مطابق ہیں۔ فیصل نے علی امین کی خدمات گنواتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 9 مئی کے بعد سے گرفتار کارکنوں کے خاندانوں کی مالی مدد کی، 2,200 کارکنوں کو رہا کروایا، اور 5,500 دیگر کی رہائی کے لیے کام جاری رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ علی امین نے اپنی ذاتی جیب سے ضمانتی مچلکے اور متاثرین کی امداد کی ادائیگی کی ہے۔ عمران ریاض نے اس پر کہا کہ فیصل امین صاحب تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ رکھیے۔ آپکو سب لوگ کمزور اور کمپرومائزڈ نہیں ملیں گے۔ اور نہ ہی مجھ پر الزامات لگانے والے آپ پہلے شخص ہیں۔ پیسہ کس کی جیب سے جا رہا ہے اور کہاں سے آرہا ہے شائد آپ سب سے بہتر جانتے ہیں۔ ڈی چوک میں کارکنوں کے ساتھ دونوں بار کیا سلوک ہوا اور ابتک انصاف کے لیے کیا کیا گیا۔ تفصیلات سب جانتے ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا نام ECL میں کیوں نہیں ڈالا جاتا اور بیرونی دورے بھی جاری ہیں۔ فیصل امین نے عمران ریاض پر سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 5 اکتوبر کے واقعات کے بعد علی امین کو پولیس اور رینجرز پر گولیاں چلانے کی ترغیب دی تھی۔ فیصل کے مطابق، علی امین نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ وہ صرف سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے بعد سے عمران ریاض نے گنڈاپور برادران کے خلاف مہم شروع کر دی۔ فیصل امین نے بتایا کہ علی امین پر 9 مئی سے پہلے 53 ایف آئی آرز درج تھیں، جبکہ بعد میں مزید 102 اور وزیراعلیٰ بننے کے بعد 63 مزید ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔ ان میں دہشت گردی اور قتل جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔ فیصل نے اپنے بیرونی دوروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی دعوت پر COP29 موسمیاتی کانفرنس میں بطور ماہر شریک ہوئے تھے۔ عمران ریاض نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سارا پاکستان جانتا ہے انہوں نے کبھی تشدد کی حمایت نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ پرامن احتجاج کے حق میں رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیصل امین کے بیانات میں تضادات ہیں اور انہوں نے جان بوجھ کر غلط بیانی کی ہے۔ عمران ریاض نے اختتامیہ میں کہا کہ جانتا ہوں کہ ویڈیو کس نے ایڈٹ کی اور اچانک سے بہت سی توپوں رخ میری طرف کیوں ہوگیا ہے اور اسکے پیچھے کے کرداروں کو بھی جانتا ہوں۔ قصور کرسی کا ہے جس پر بیٹھ کر اکثر لوگ اوقات اور تربیت بھول جاتے ہیں۔ اللہ رب العزت آپکو پچھتاوے سے محفوظ رکھے۔
صحافی وحید مراد کے اغوا پر عدیل سرفراز اور ابصار عالم کے درمیان سوشل میڈیا پر نوک جھونک اسلام آباد: سینئر صحافی وحید مراد کے مبینہ اغوا کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دو صحافیوں، عدیل سرفراز اور ابصار عالم کے درمیان شدید نوک جھونک دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب عدیل سرفراز نے ابصار عالم پر الزام لگایا کہ وہ مشکل وقت میں وحید مراد کے حق میں آواز اٹھانے میں ناکام رہے، جبکہ ابصار عالم نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے عدیل سرفراز پر جوابی تنقید کی۔ 26 مارچ 2025 کو اسلام آباد کے سیکٹر جی-8 میں واقع چمن روڈ پر سینئر صحافی وحید مراد کو نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر اغوا کر لیا۔ جیو نیوز کے مطابق، نقاب پوش افراد جو سیاہ وردیوں میں ملبوس تھے، وحید مراد کے گھر میں داخل ہوئے اور انہیں زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ وحید مراد کی اہلیہ کے مطابق، اغوا کاروں نے انہیں افغان ہونے کا الزام لگایا۔ واقعے کے بعد، وحید مراد کی ساس نے ایڈووکیٹس ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے ذریعے ان کی بازیابی کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی، جس میں صحافی کی فوری بازیابی اور اغوا کاروں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ عدیل سرفراز نے ایکس پر ایک پوسٹ شیئر کی، جس میں انہوں نے ابصار عالم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب باجوہ ڈاکٹرائن کے دوران ابصار عالم خود زیر عتاب تھے، تو اس وقت وحید مراد نے اپنی ویب سائٹ "پاکستان 24" پر ابصار عالم کے کالم شائع کیے تھے۔ عدیل نے مزید کہا کہ اب جب وحید مراد پر مشکل وقت آیا ہے، تو ابصار عالم کا ایکس اکاؤنٹ "گونگا بہرا" بن گیا ہے۔ عدیل کی اس پوسٹ کو 1.9 ملین سے زائد بار دیکھا گیا اور اس پر متعدد صارفین نے ابصار عالم کے خلاف سخت تبصرے کیے، جن میں انہیں "منافق"، "بہروپیا" اور "غلیظ" جیسے القابات سے نوازا گیا۔ ابصارعالم نے اس پر جواب دیتے ہوئے لکھا کہ عدیل صاحب آپ کی بات درست ہے میں رمضان میں ٹوئٹر سے دور ہوں صرف اپنے پروگرام کے چند ریٹویٹ کیے ہیں۔ جو بات بھی کہنی ہو اپنے پروگرام یا پوڈکاسٹ میں کہتا ہوں۔ جس رات وحید مُراد کو اغواء کیا گیا تب سے اب تک شئڈول میں کوئی پروگرام ہوا نا پوڈکاسٹ۔ پھر بھی مُجُھے اس شرمناک واقعے کی فوری مذمت کرنی چاہئے تھی اور یہ واقعی قابل مذمت ہے اور وحید مُراد کو رہا ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اعزاز سید نے مُجھ سے احمد نورانی سے بات کرنے کو کہا جو میں نے کی اور رابطے میں بھی ہوں۔ آپ کے پاس میرا فون نمبر ہے، بات بھی ہوتی ہے آپ بھی اعزاز کی طرح مُجھے کال کر سکتے تھے لیکن آپ نے مُجھ سے بات نہیں کی بلکہ اس ٹویٹ کے ذریعے آپ نے جس طرح میرے دشمنوں کو مُجھے گالیاں دینے کا موقع فراہم کیا اسُ کے لئے شکریہ ابصار عالم نے مزید کہا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اور عدیل جیسے لوگوں کے الزامات ان کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے۔ عدیل سرفراز نے پر کہا کہ بصد احترام سر، میرا قطعاً ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ ٹویٹر پر آپ کیخلاف کسی مہم کا آغاز کروں، آپ کے اور وحید کے تعلق کو جانتے ہوئے مجھے یہ تعجب ہوا کہ ایسے موقعے پر آپ کیوں خاموش ہیں۔ ٹویٹ کا مقصد ایک شکوے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ 48 گھنٹے گزر جانے کے باوجود آپ کو اس واقعے کا علم ہی نہیں تو کال کر دیتا ابصارعالم نے جوابی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اب آپ نے یہ شروع کر دیا؟ میں نے کب کہا کہ مُجھے اس واقعے کا علم نہیں؟ میں نے تو آپ کا اعتراض تسلیم کیا اور یہ کہا کہ رمضان میں بجائے ٹویٹر کے میں اپنے تبصرے اپنے پروگرام یا پوڈکاسٹ میں کرتا ہوں اور جس رات وحید مراد والا واقعہ ہوا اُس کے بعد شیڈول کی وجہ سے ابھی تک میرا کوئی پروگرام یا پوڈکاسٹ نہیں۔ جب ہو گا تو گونگا بھی نہیں ہوں گا لیکن اب میرے خلاف جو غلیظ اور نفرت انگیز پروپیگنڈا ہو رہا اُس کا ذمہ دار کون ہے؟ جبکہ آپ آج بھی مُجھے میرے واٹس ایپ پر میسیجز کرتے رہے؟ ابصار عالم پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین رہ چکے ہیں اور وہ 2015 سے 2017 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انہیں 2021 میں ایک پارک میں چہل قدمی کے دوران گولی مار کر زخمی کیا گیا تھا، جس کا الزام انہوں نے فوج پر تنقید کرنے والوں پر لگایا تھا۔۔
تحریک انصاف کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رہنما سالار کاکڑ کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں اس کے چہرے پر سفید کپڑا ڈال کر اسے تضحیک آمیز انداز میں لایا جارہا ہے۔ دراصل سالار کاکڑ کو 26 نومبر اسلام آباد میں احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ سالار کاکڑ کو ضمانتیں ملنے کے باوجود نئے کیسز میں گرفتاری ڈال کر انہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔ سالار کاکڑ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس پر صارفین نے تبصرے کئے اور سوال کیا کہ سالار کاکڑ کیلئے مرکزی لیڈرشپ آواز کیوں نہیں اٹھارہی؟ اظہر مشوانی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ بلوچستان میں جو پاکستان کی بات کرے، جو وفاق کی سیاست کرے لیکن ٹاؤٹ بننے سے انکار کرے تو اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہےسالار کاکڑ کو راولپنڈی کے 9 جھوٹے مقدمات میں ضمانت ملنے پر رہا کرنے کی بجائے اسلام آباد کے کیسز میں ڈال دیا گیا ہے نورکاکڑ نے ردعمل دیا کہ کیا کبھی بیرسٹر گوہر علی، عمر ایوب، سلمان اکرم راجہ، وقاص اکرم، اسد قیصر یا کسی اور مرکزی لیڈر نے سالار کاکڑ کے لئے کوئی آواز اُٹھائی ہیں؟ ہم گارنٹی سے کہتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان کا سب سے توانا اواز سالار ہیں لیکن یہ لوگ محمود اچکزئی کے پیچھے لگے ہیں اپنے لوگوں کا خیال نہیں ؟ عمر انعام کا کہنا تھا کہ سالار کاکڑ دہکتے، سسکتے، بلکتے بلوچستان کے ان چند نوجوانوں میں سے ہے جو اس وقت بلوچستان کے حالات کو بہتر کرنے میں ریاست کی مدد کر سکتا ہے مگر اسے عمران خان سے وفا کے جرم میں دہشتگردوں کی طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہے۔ افسوس ہم بلوچستان کھو رہے ہیں!! مغیث علی نے کہا کہ یہ پاکستان تحریکِ انصاف کا نوجوان کارکن سالار کاکڑ ہے جو 26 نومبر کے بعد سے جیل بھگت رہا ہے، ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ سحرش مان نے لکھا کہ شرمناک شرمناک۔سالار خان کاکڑ بلوچستان کا وہ شہری ہےجوریاست پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے والا ہے جو آئین پاکستان کی سربلندی چاہتاہے اسکے ساتھ یہ سلوک شرمناک ہے۔سالار کی شناخت بی ایل اےنہیں،اسکی شناخت پاکستانیت ہے۔لڑنا ہےتو بی ایل اےسے لڑئیے۔حقیقی اور پرامن عوامی نمائندے سے نہیں

Back
Top