وفا کی نگری میں کھلواڑ : سچی کہانی

Annie

Moderator
وفا کی نگری میں کھلواڑ : سچی کہانی
حسب معمول زینت اپنے کاموں میں لگی ہوئی تھی ، آج تو ویسے بھی وہ کافی خوش تھی پانچ سال ہوۓ زینت اس گھر میں بیاہ کر آئ ، شروع سے ہی اسکا اور اسکے سسرال کا گھرانہ کراچی میں مقیم تھا ، اسی شہر میں ہی پلی بڑھی اور پھر شادی بھی یہیں ہو گئی ، سسرال کا اچھا خاصہ حویلی نما گھر تھا ساس سسر تھے ایک نند تھی جو کے میٹرک میں تھی جبکے ایک ہی دیور تھا جو کے کالج میں پڑھتا تھا ، سسر صاحب کی دکان تھی جہاں وہ اکثر مصروف رہتے جبکے اسکے شوہر سلیم تعلیم یافتہ ہونے کی ساتھ دبئی میں اچھی ملازمت کر رہے تھے ، چھوٹا سا گھرانہ تھا جہاں زینت اپنے سر پر دوپٹہ ڈالے پراندہ لٹکاۓ دوڑ دوڑ کر کام کاج کرتی اور زیادہ وقت اپنی ساس کے ساتھ باتوں میں گزارتی ، ایک خوشحال گھر تھا اور سلیم کی ملازمت بھی بہت اچھی تھی ہر سال یا دس ماہ کے بعد وہ چھٹی آتا ، وہ تو لاکھوں میں ایک تھا ، دراز قد ، خوبرو ، پڑھا لکھا ، سلجھا ہوا اور سب سے بڑھ کر خوش اخلاق اور ملنسار ، سب کی عزت کرنے والا - ہر ہفتےڈیڑھ بعد اسکے خط اورہر مہینے منی آرڈر باقاعدگی سے آتے اور گھر سے اسکے لیے خطوط بھی جاتے - اس گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی اگر تھی تو بس ایک چیز کی کمی تھی


پانچ سال گزر گۓ زینت اور سلیم کی شادی کو لیکن ابھی تک انکی کوئی اولاد نہ تھی بس یہی ایک کمی تھی جو زینت کو اندر سے پریشان رکھتی ، اسکی ساس تو اٹھتے بیٹھتے دعائیں مانگتیں کے اللہ انھیں سلیم کے بچوں کو کھیلانا نصیب کرے ، لیکن ابھی انکی مراد پوری نہ ہوئی تھی اس سے کہیں بڑھ کر تو زینت کی اماں پریشان رہتی تھیں وہ تو ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں مانگتیں اور پھر اونچی اونچی آواز سے رونے لگ جاتیں کے انکی بیٹی کے ہاں ابھی کوئی اولاد نہیں ہے ، وہ تو کبھی ایک سے دم درود کروا رہی ہیں تو کبھی کوئی دم کیا ہوا پانی لا رہی ہیں تو کبھی تعویز دھاگے لائی ہیں ، تو کبھی کسی حکیم کی دوا زینت کو کھلا رہی ہیں کے اللہ زینت کو اولاد دے لیکن ابھی تک اللہ کے ہاں کوئی شنوائی نہ تھی
✮✮✮
آج موسم بھی کافی خوشگوار تھا زینت چھت پر دھلے ہوۓ کپڑے پھیلانے پہنچی ، ارد گرد بھی چھتوں پر لوگ اپنی سرگرمیوں میں مگن تھے کوئی پتنگ اڑا رہا تھا تو کوئی کبوتروں کو دانہ ڈال رہا تھا اور بچے بھی دوڑتے نظر آرہے تھے - زینت سر پر دوپٹہ اوڑھے کپڑے پھیلا رہی تھی کے اسے گلی میں تانگے کے رکنے کی آواز آئی - اس نے نیچے گلی میں جھانکا تو اسکی اماں ٹوپی والا برقع پہنے ہوۓ تانگے سے اتر کر کوچوان کو سکے تھما رہی تھیں ، زینت بہت خوش ہوئی اسکی اماں آئی تھیں - گھر کی ڈیوڑھی تو کنڈی کے بغیر کھلی ہی رہتی تھی ، لیکن گھر میں آنے والے رشتہ دار ڈیوڑھی کی سنگل بجا کر اپنی آمد کی خبر کر کے گھر میں آجایا کرتے تھے ، صحن میں زینت کی ساس درخت کے نیچے اپنی مسہری پر بیٹھی چھالیہ چھیل رہی تھیں کے اسکی اماں کی اسلام اعلیکم کی آواز آئی ، ساتھ میں اسکی ساس کی بھی جی آیاں نوں کی آواز آرہی تھی - زینت چھت سے نیچے جھانک کر دیکھا اسکی اماں اپنا ٹوپی والا برقع سمبھالتے ہوۓ وہیں مسہری پر بیٹھ گئیں - جلدی جلدی کپڑے پھیلانے کے بعد زینت تیزی سے سیڑھیاں اترتی آئ اور سلام کرتے ہوۓ اپنی اماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اماں نے چوما اور دعائیں دیں ، وہ بتانے لگیں کے کیسے کسی کام سے ادھر جاتے ہوۓ وہ زینت کو ملنے چلی آئیں ، زینت نے خوشی خوشی اماں کو بتایا کے آج سلیم کا خط آیا ہے وہ دس دنوں بعد چھٹی پر گھر آرہے ہیں ، ...اماں نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی زینت کی ساس سے کہنے لگیں کے اگر آپ اجازت دیں تو وہ زینت کو دو دن کے لیے لے جائیں پھر وہ سلیم کے آجانے پر گھر داری میں مصروف ہو جاۓ گی ، زینت کی ساس نے خوشدلی سے اجازت دے دی ، دونوں ماں بیٹی اپنے برقعے سنبھالتے ہوۓ چل پڑیں
✮✮✮
گھر پہنچتے ہی اماں نے حسب معمول اپنی فکرمندی کا اظہار کرنا شروع کر دیا ساتھ میں وہ ہاتھ مل مل کر روتی تھیں " میری بچی اللہ تجھے اولاد دے دے پانچ سال ہو گۓ ہیں یہ لوگ کب تک انتظار کرینگے ، میں تو دم درود کے پانی سے لے کر پیروں فقیروں اور خانگاہوں تک دھکے کھاتی پھرتی ہوں ، میرا نہیں خیال اب یہ لوگ مزید انتظار کریں گے تجھے طلاق دے کر وہ سلیم کی دوسری شادی کروا دیں گے ، اسکو کس چیز کی کمی ہے کماؤ ہے پڑھا لکھا خوبصورت اور فرمابردار لڑکا ہے کون اسکو رشتہ نہ دے گا یہ کہتے ہوۓ اماں منہ پر دوپٹہ رکھ کر زور زور سے رونے لگ جاتیں تو زینت کا دل بھی ڈولنے لگتا وہ ماں کو تسلی دیتی "اماں سلیم نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کہی وہ تو جب میں پریشان ہو جاؤں تو کہتے ہیں سب کچھ اللہ کی رضا سے ہوتا ہے یہ سب مشیت الہی ہے تم سوچا نہ کرو اور نہ ہی فکر کیا کرو تم بس خوش رہا کرو...

وہ تو بہت اچھا ہے لیکن آخر کب تک انتظار کرے گا " اماں اپنے اندیشوں کا اظہار کر رہی تھیں ، ان دو دنوں میں انہوں نے پھر وہی دم درود کئے گۓ پانی سے لے کر ہر طرح سے بھاگ دوڑ کی -

اسکے بعد دعائیں دیتی ہوئیں وہ زینت کو سسرال چھوڑ گئیں
زینت دل میں خوشی سموے اپنے دل کے شہزادے کا انتظار کر رہی تھی ، ہر خط میں تو وہ لکھتا تھا زینت تم خوش رہا کرو ، دن پر لگا کر اڑے اور سلیم گھر آ پہنچا ، وہی مسکراہٹ لیے گھر کے ہر فرد کے لیے تحائف کے ساتھ وہ دبئی سے آ چکا تھا ، گھر میں اسکی آمد کی خوشی تھی ایک رونق تھی ، وہ بھی تو سب کا خیال رکھنے والا تھا کبھی ابا کے ساتھ باہر کے کاموں میں ہاتھ بٹا رہا ہے تو کبھی اپنی اماں کے پاس بیٹھا پاؤں دبا رہا ہے ، چھوٹے بھائی اور بہن کا خیال ہے تو انکی ضرورتوں کی بھی فکر ہے ، زینت کے لیے تحائف ہیں تو ساتھ میں اسکو وہ لازمی کہتا" تم خوش رہا کرو بس " اور زینت مسکرا دیتی ، وہ تو لاکھوں میں ایک تھا ، ہر شخص سے عزت احترام سے پیش آنے والا ایک ملنسار انسان


وقت تو ویسے بھی دوڑتا جاتا ہے اور پھر سلیم کے آنے کی رونق میں تو وقت کا پتا بھی نہ چلا اور مہینہ گزرنے کو آگیا ، اب سلیم کے واپس جانے کے دن قریب تھے . زینت اپنی دل کی اداسی کو سلیم سے بہت چھپاتی لیکن سلیم سے چھپانا کب آسان تھا اور وہ اس کی بناوٹی مسکراہٹ میں چھپی اداسی بھانپ لیتا، اسکاچہرہ اوپر اٹھاتے ہوۓ وہ اسکو تنبیہہ کرتا پگلی خبر بھی نہ ہو گی اور پھر کچھ ماہ کے بعد گھر آجاؤں گا ، تمہیں میری خاطر خوش رہنا ہوگا ، وہ اسکی آنکھوں میں دکھ کا ہلکا عکس بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا . اور زینت اپنے سلیم کے لیے خود کو سمبھالتی کے یہی سلیم کی خوشی تھی . چند دن بعد اسکی محبتوں کا محور دوبارہ دیار غیر چلا گیا . پھر سے اسکے خطوں کا انتظار ہوتا اور وہ جب بھی اکیلی ہوتی تو اسکے خطوط سے دل بہلا لیتی .


سلیم کے جانے کے کچھ دن بعد اسکی اماں اسے ملنے آئیں انہوں نے پھر زینت کو ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی تو اسکی ساس بخوشی مان گئیں. گھر پہنچتے ہی اماں کی آنکھوں میں خوشخبری سننے والا سوال تھا لیکن زینت کی آنکھوں میں آنسو تھے نہیں اماں میری قسمت میں ابھی دیر ہے . میرے نصیب ابھی جاگتے نظر نہیں آتے . یہ سنتے ہی اسکی اماں کے آنسو تیزی سے بہنے لگے "کیا کچھ نہیں کیا ہم نے کوئی دعا ، کوئی دم درود نہیں چھوڑا لیکن کوئی چارہ گر نہیں " اسکی اماں نے دکھ میں ڈوبی آواز میں کہا "بس بہت ہو گیا زینت مجھے نہیں لگتا اب تمھارے سسرال والے زیادہ انتظار کریں گے . یہی تمہارا آخری موقع تھا . پانچ سال ہوگئے ہیں اگلی دفعہ جب سلیم آیا تو انہوں نے تمہیں طلاق
دلوا کر اسکی دوسری شادی کروا دینا ہے". اماں تو بولے جا رہی تھیں اور طلاق کا سن کر زینت کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو "

وہ بے چینی سے بولی اماں سلیم بہت محبت کرنے والے ہیں وہ ایسے نہیں اماں نے زینت کی بات کی نفی کرتے ہوۓ کہا میری بچی مرد کو بیوی میں کشش اولاد کے دم سے ہی محسوس ہوتی ہے ، وہ تمہیں کتنا عرصہ دیکھتا رہے گا . مرد ہے ظاہر ہے اسے بھی اولاد کو پانے کی خواہش ہوگی . کیا تمہاری ساس نہ چاہے گی اسکے بیٹے کی اولاد ہو . یہی دنیا کا دستور ہے ، مانا کے وہ لوگ اچھے ہیں لیکن اور کتنے سال دیکھیں گے "

اپنی بات کو بڑھاتے ہوۓ وہ بولیں "میں نے سب سوچ لیا ہے . اب اگر اپنا گھر بسانا ہے تو میری بات مانو اور مشھور کر دو کے اللہ نے تم پر مہربانی کر دی ہے اور بہت جلد ننھا مہمان آنے والا ہے حیرت سے زینت کا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا " کیا ؟ اماں آپ مذاق کر رہی ہیں ؟ کیسے ننھے مہمان کی آمد مشھور کر دوں ؟
یہ جھوٹ چار دن چل بھی گیا تو کب تک چھپے گا ؟ اسکی اماں نے آنسو پونچھتے ہوۓ بے قراری سے کہا " طلاق سے بچنے کا اور کوئی راستہ نہیں ، تم سسرال میں مشھور کر دو. میں نے سب سوچ رکھا ہے اور بندوبست بھی سوچا ہوا ہے "کیا سوچ رکھا ہے ؟ "

زینت ابھی تک ماں کی بات سے حیرت میں ڈوبی ہوئی تھی . "دیکھو بیٹی سوچ سوچ کر میرا
دماغ شل ہو رہا ہے اتنا عرصہ میں یہی سوچتی رہی ہوں کے کیا کیا جاۓ کے تمہیں طلاق بھی نہ ہو اور تمہارا گھر آباد رہے . میں نے یہ سوچا ہے کے تم اولاد کی خوشخبری سسرال میں سنا دو ، میں تمہاری ناساز صحت کے بہانے سے تمہیں اپنے گھر دو ماہ کے لیے رکھ لوں گی . کسی کو شک نہ ہوگا کے تم نے جھوٹ بولا ہے " اماں اپنا پلان سناۓ جا رہی تھیں کے زینت نے ٹوکتے ہوۓ کہا "اماں دو ماہ کے بعد کیا ہوگا ؟

کیا رشتہ دار آپکے گھر نہ آئیں گے ؟ اور یہ بچہ کہاں سے آیے گا ؟ اسکی اماں بولیں " تم چپ رہ کر میری بات تو پہلے پوری سن لیتیں پھر بیچ میں بول پڑتی ہو . ہم دو ماہ کے بعد بہانہ بنائیں گے کے ڈاکٹر نے تمہاری صحت کے بارے میں بہت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کے زینت کو کراچی سے باہر کسی صحت افزا مقام پر لے جائیں جہاں اسکی طبیعت سمبھل سکے . اس بہانے ہم مری چلی جائیں گیں . سارا خاندان یہیں کراچی میں ہے مری میں کسی کے آنے کا خطرہ نہ ہوگا میری ایک عزیزہ صفیہ مری میں ہوتی ہیں انکو خط لکھا تھا اور ساری بات کی تھی وہ ہمارے رہنے کے لیے مری میں ہی کوئی چھوٹا سا کواٹر لے دے گی اور اس نے بتایا ہے کے وہاں ایسے کئی غریب گھرانے ہیں جہاں سے کوئی بچہ گود لیا جا سکتا ہے . ہم سات آٹھ ماہ مری میں گزاریں گیں اور کوئی بچہ گود لے کر واپس آجائیں گیں . کسی کو پتا نہیں چلے گا اور تمہارا گھر بھی اجڑنے سے بچ جاۓ گا زینت حیرت سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی وہ ہکلاتے ہوۓ بولی "

لیکن اماں ! اس بات کا کیا بھروسہ کے میری ساس کراچی ہی نہیں بلکے سندھ سے باہر مری جا کر رہنے کی اجازت دے دے گی ؟ اگر وہ مان بھی گئیں تو پھر بھی اتنا دور جانے کے لیے سلیم کی اجازت چاہئیے ہوگی ، اگر وہ نہ مانے تو پھر کیا ہوگا ؟ بچے کی خوشخبری مشھور کر کے میں یہ جھوٹ کیسے چھپاؤں گی ؟

اماں نے تسلی دیتے ہوۓ کہا جب بہانہ کریں گے کے تمھاری اور آنے والے بچے کی جان کو خطرہ ہے تو سلیم اور اسکے ماں باپ مان جائیں گے . اولاد بہت پیاری چیز ہے وہ مان جائیں گے "اماں اگر اس عرصہ میں میری ساس مری میں مجھ سے ملنے آگئیں تو ؟" زینت نے اپنے اندیشے کا اظہار کیا . " تیس سال ہوگئے وہ پنجاب گئی نہیں سارا خاندان یہاں کراچی میں ہے وہ گھر بار چھوڑ کر تمھارے لیے مری آیے گی !" اماں نے جھنجھلاتے ہوۓ جواب دیا . آپس کی کافی بحث کے بعد ماں بیٹی نے فیصلہ کیا کے یہی آخری چارہ گر ہے اور گھر بچانے کا اور کوئی طریقہ نہیں ....
✮✮✮
ہفتہ ڈیڑھ بعد ماں بیٹی دونوں سسرال پہنچیں ، زینت کی ساس کیلئے انکی واپسی اتنی جلدی متوقع نہ تھی ،ابھی وہ انھیں خوش آمدید کہتیں اس سے پہلے ہی زینت کی اماں نے مٹھائی کا ڈبہ نکال کر کھولا اور انکا منہ میٹھا کروانے لگیں . ساس جی تو حیرت اور خوشی کی بے یقینی کی کیفیت میں ان کے چہرے دیکھ رہ تھیں ، جیسے ہی اماں نے کہا منہ میٹھا کریں آپ دادی بننے والی ہیں ، زینت کی ساس نے تو اس وقت خوشی سے برقع میں لپٹی ہوئی زینت تو گلے سے لگا کر چوما . زینت کی اماں کو گلے سے لگا کر خوشی سے چیخ کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا ، گھر کے سب افراد ایک دوسرے کو خوشی سے مبارکباد دے رہے تھے . ساس جی نے دوپٹے سے بندھے ہوۓ پیسے نکال کر زینت کے سر سے لگا کر صدقہ کے لیے دئیے . اسی وقت انہوں نے بیٹی کو کہا کے ابھی سلیم کو خط لکھو ، اسکو خوشخبری کا لکھو کے اللہ نے کرم کیا ہے اور بہت جلد اب ہمارے گھر ننھا مہمان آنے والا ہے ، زنیت بھی سب کے ساتھ خوشی خوشی بیٹھی ہوئی سب کی باتیں سن رہی تھی . خط لکھوا کر انہوں نے اسی وقت چھوٹے بیٹے کو کہا کے وہ ابھی جا کر ارسال کرے
کچھ دیر کے بعد زینت کی اماں اصل مدعے کی طرف آتے ہوۓ بولیں ، کے وہ زینت کی صحت کے لیے بہت فکرمند ہیں چونکہ پہلی خوشی ہے اس لیے وہ اسکی خود دیکھ بھال کرنا چاہتی ہیں ،اس لیے اسکو وہ اپنے پاس ڈیڑھ دو مہینہ رکھنا چاہتی ہیں اسکے بعد وہ آپکے پاس آجاۓ گی . اپنی پریشان صورت اور باتوں سے انہوں نے زینت کی ساس کو رضامند کر لیا کے وہ اسے انکے پاس رہنے کی اجازت دے دیں ساس کی اجازت ملتے ہی زینت نے کچھ ضروری چیزیں ساتھ لیں اور ماں کے ساتھ انکے گھر آگئی . پہلا مرحلہ تو بغیر کسی پریشانی کے مکمل ہوگیا

چند دنوں کے بعد اسکا دیور اسکے لیے سلیم کا خط لایا تھا . جسمیں سلیم نے اسے مبارکباد دی نیک خواہشات کے ساتھ اس نے اسے اپنا خیال رکھنے کی اور ہمیشہ کی طرح خوش رہنے کی تاکید کی . ہر دوسرے تیسرے دن اسکی ساس اسکے لیے پھل اور کھانے پینے کی چیزیں بھیجتیں جو اسکا دیور کالج جاتے ہوۓ انکے گھر دے جاتا تھا - اسکی ساس اور نند بھی اسکی خیریت معلوم کرنے آتیں اور کچھ وقت گزار کر چلی جاتیں . سلیم کے محبت بھرے خطوط باقاعدگی سے آتے جسمیں وہ اسے اپنا بہت خیال رکھنے کو لکھتا​
وقت اب کم پڑ رہا تھا . اماں کی سہیلی صفیہ نے مری میں ماں بیٹی کے رہنے کو کوارٹر کا بندوبست کر رکھا تھا اب اگلا مرحلہ تھا کے جلد از جلد کراچی سے نکلا جاۓ تاکے انکے جھوٹ کا بھانڈا نہ پھوٹے
✮✮✮
اب ایک دن اماں نے اپنا ٹوپی والا برقع اٹھایا اور بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ زینت کی ساس کے پاس پہنچیں ..یہ بتاتے ہوۓ وہ رونے لگ گئیں کے زینت کی صحت بہتر نہیں ہورہی سیانی ڈاکٹر کے پاس لے کر گی تھی اس نے کہا ہے کے یہ کراچی کا موسم آب و ہوا زیادہ اچھی نہیں زینت کو آپ کسی صحت افزا مقام پر لے جائیں نہیں تو اسکی صحت بہتر نہ ہوگی اور اگر یہ یونہی بیمار رہی تو اسکی اور بچے دونوں کی جان کو خطرہ ہے یہ بتاتے ہوۓ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں . یہ سنتے ہی زینت کی ساس نے تو گھبرا کر دل تھام لیا وہ بھی پریشانی میں رونے لگیں . زینت کی اماں نے انکی منتیں کیں کے بہن آپ اجازت دے دیں میری ایک عزیزہ مری رہتی ہیں انکو خط لکھا ہے کوئی رہنے کا بندوبست ہو جاۓ گا . .

میں سب کچھ چھوڑ کر خود اپنی بچی کے ساتھ وہاں رہوں گی . چھ سات ماہ کی بات ہے جیسے ہی زینت ٹھیک ہو جاۓ گی ہم آپکے ننھے مہمان کے ساتھ واپس آجائیں گیں . ساس جی نے روتے ہوۓ اعتراض کیا کے اتنی دور وہ زینت کو کیسے دیکھا کریں گیں اور نہ ہی مل سکیں گیں . اس پر اماں نے تسلی دی کے آپ فکر نہ کریں زینت آپکو باقاعدگی سے خط لکھا کرے گی اور اپنی خیریت سے آگاہ کرتی رہے گی _ زینت کی ساس جی نے کہا کے انھیں کوئی اعتراض تو نہیں لیکن سلیم سے پوچھے بغیر وہ کچھ نہیں کہہ سکتیں وہ آج ہی خط لکھ کر اسے حالات لکھیں گی اسکے جواب آنے تک آپ انتظار کریں . ساس کی طرف سے تسلی ہو جانے کے بعد اماں نے گھر آکر زینت کو بھی خط لکھنے کو کہا کے وہ لکھے کے اسکی صحت اچھی نہیں ہے ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق اسے مری جانا ہوگا تاکے صحت افزا مقام پر اسکی طبیعت بہتر ہو سکے . کچھ دنوں کے بعد سلیم کا والدین کی طرف خط آیا کے آپ زینت کو مری جانے کی اجازت دے دیں اسکی اور بچے کی صحت اور زندگی سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں . ساتھ میں اس نے پیسے بھی بھیجے کے یہ زینت کو دے دیں تاکے اسے کوئی تنگی یا پیسے کی کمی نہ ہو جب سلیم کی طرف سے بھی اجازت مل گئی تو ماں بیٹی نے فوراً تیاری باندھی اور سسرال والوں کو الوداع کر کے دونوں ریل پر اپنے اگلے سفر کی جانب روانہ ہو گئیں . جہاں انکی منزل مری کا پر فضا مقام تھا
✮✮✮
زندگی میں پہلی دفعہ تو زینت نے مری دیکھا ، کراچی سے بہت مختلف . کہاں کراچی کی گرمی اور کہاں مری کا خوشگوار موسم ، اونچی اونچی پہاڑیاں ان پر چھوٹے چھوٹے ڈھلواں چھتوں والے گھر ، لمبے لمبے درخت اور بل کھاتی ہوئی سڑک جو اوپر تک جاتی تھی . مری کی پہاڑیوں کا اپنا ہی حسن تھا، زینت نے وہاں پہنچتے ہی سسرال والوں کو ، اپنے ابا کو اور سلیم کو خیریت کے خطوط لکھے اور بتایا کے یہاں آکر وہ کافی خوش ہے . اسکی اماں تو ٹوپی والا برقع پہنے نیچے ڈھلواں سڑک پر جاتیں اور سودا سلف کے تھیلے بھر کر لے آتیں . اسطرح دونوں ماں بیٹی کو مری میں سکونت اختیار کرنے میں مشکل نہ ہوئی ، اماں کی عزیزہ خالہ صفیہ بھی کافی راہنمائی کرتی تھیں وہ تو وہاں کی رہائشی تھیں بہت جلد زینت کو سب کی جانب سے خطوط ملے کچھ دنوں کے بعد سلیم کا بھی خط مری میں آیا اور زینت کو خاص طور پر اپنا خیال رکھنے کی تاکید تھی ساتھ میں حسب معمول اسکا اصرار ہوتا زینت تم خوش رہنا اسکی اماں اور خالہ صفیہ نے بھاگ دوڑ شروع کر دی کے بچے کا بندوبست ہو جاۓ تاکے چند ماہ بعد جب انکی واپسی ہو تو اس وقت تک کوئی بچہ مل جاۓ . انھیں زیادہ تگ و دو نہ کرنا پڑی پنڈی شہر میں ایک ایسا غریب جوڑا انھیں مل گیا جنکے پہلے ہی بچے تھے اور انکے ہاں ایک اور بچے کا آمد متوقع تھی . ان میاں بیوی سے بات کرنے پرساتھ میں مالی امداد کی یقین دہانی پر اور اس امید پر کے انکا آنے والا بچہ اچھے خوشال گھرانے میں پلے بڑھے گا وہ میاں بیوی اپنا بچہ گود دینے پر راضی ہو گۓ . زینت کے لیے قدرتی طور پر تمام امور خوش اسلوبی سے درست سمت میں جا رہے تھے وہ اپنی بہتر ہوتی ہوئی صحت اور ڈاکٹر کی حوصلہ افزا باتیں خود سے ہی بنا کر سلیم کو لکھتی اور یہ کے کب وہ دوبارہ گھر آیے گا . سلیم کے محبت بھرے خطوط زینت کو باقاعدگی سے ملتے وہ اسکی دلجوئی کرتا اسکو اپنا خیال رکھنے کو کہتا .ساتھ میں وہ اسکو پیسے بھی بھیجتا کے اسے کسی چیز کی کمی نہ ہو .. وقت تو گزرنے کو ہوتا ہے تیزی سے گزر رہا تھا اب بہت جلد زینت کو مری میں کئی ماہ ہو گۓ .

اب اسکا خاندان کو خوشخبری سنانے کا وقت بھی قریب آرہا تھا ، اسکی اماں اور خالہ صفیہ اکثر اس غریب جوڑے کے گھر جاتیں انکی مالی مدد کرتیں آنے والے بچے کو گود دینے کی وہ میاں بیوی زبان دے چکے تھے ..اماں نے گھر میں بچے کی ضرورت کی ہر چیز لاکر رکھ دی تھی اب مری کے موسم کے تیور بدل رہے تھےسردی دن بدن بڑھ رہی تھی ، بہت جلد برفانی موسم بھی شروع ہو گیا ، کیا حسن تھا ، برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑیاں ، برف کی سفیدی میں نہاے ہوۓ درخت ، بل کھاتی گھر کے سامنے والی سڑک جو نیچے ڈھلوان کو جاتی تھی ،تھر تھر کانپتے پرندوں کی چہچہاہٹ .. یہ خوبصورت نظارہ تو زینت نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا تھا .وہ اکثر اماں کے ساتھ چہل قدمی کرنے جاتی تھی اب تو باہر کم ہی نکلتی تھی . وہ تو اکثر کھڑکی کے ساتھ لگی یہ حسین منظر دیکھتی رہتی ..

بہت جلد انتظار کی مدت تمام ہوئی . اب زینت کی اماں اور خالہ صفیہ اپنے ٹوپی والے برقعے پہنے ہوۓ پنڈی جانے والی لاری پر بیٹھ کر اس جوڑے کے گھر گئیں . جنہیں اللہ نے ایک پیارے سے بیٹے سے نوازا تھا. وعدہ کے مطابق دونوں خواتین نے اس غریب جوڑے کی مالی مدد کی اور بچہ ان سے گود لے لیا اور واپس مری پہنچیں جہاں زینت انکا انتظار کر رہی تھی . اماں نے بچے کو لاکر زینت کی گود میں ڈالا اور اسکو کہا کے بیٹی اب یہ ہے تمہارا بیٹا . یاد رکھنا اسی بچے نے تمہیں طلاق سے بچایا ہے ، کل کو اللہ تمہیں اپنی اولاد بھی دے دے تب بھی تم اسکی محبت میں کمی نہ کرنا . اسے ہمیشہ ماں بن کر ہی پالنا . زینت نے پیار سے منے کو چوما اوراپنے سینے سے لگایا . تھوڑی دیر بعد پھر اسی برفباری میں اسکی اماں ڈاک خانے چل پڑیں کے زینت کے سسرال اور دوبئی میں بچے کی پیدائش کی خوشخبری کا تار روانہ کریں گیں ..انہوں نے لکھا کے اللہ نے زینت کو بیٹا عطا کیا ہے ماں بیٹا ٹھیک ہیں تین چار ہفتوں کے بعد وہ بہت جلد کراچی واپس آجائیں گیں . زینت کے سسرال میں تو تار ملتے ہی جشن کا سماں تھا مٹھائیاں بانٹی جا رہی تھیں خیرات کی جا رہی تھی اور بچے کے استقبال کی تیاریاں شروع ہو گئیں

چند دن بعد سلیم کا خط بھی آگیا اس نے مبارک کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کیا اور یہ بھی لکھا کے وہ دو ہفتوں کے بعد چھٹی آجاۓ گا اور سیدھا بچے اور زینت سے ملنے مری ہی آیے گا . یہ پڑھ کر تو زنیت خوشی سے نہال ہو گئی ، یہ مری کی وادیاں تو مزید حسین ہونے والی تھیں اب یہاں اسکا دلبر بھی تو آنے والا تھا . اسکی اماں کو پتا چلا تو بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں دیکھا میں نہ کہتی تھی اولاد کی کشش ہی ایسی ہوتی ہے اب کیسے اپنی اولاد کی خوشی میں چھٹی لے کر وقت سے پہلے ہی سیدھا مری آرہا ہے . اسکا مطلب ہے اب وہ تم لوگوں کو خود اپنے ساتھ واپس کراچی لے کر جاۓ گا . اماں کو اتنا خوش دیکھ کر زینت بھی خوشی سے کھلکھلا اٹھی ..
✮✮✮
زینت تو ایک ایک پل گن رہی تھی اسکے انتظار میں جو اسکے دل کا شہزادہ تھا جو ہر لمحہ اسے خوش دیکھنا چاہتا تھا . وہ آے گا تو اسکی دنیا اپنے منے کے ساتھ مکمل ہو جاۓ گی . ان دو ہفتوں میں بھی اس کے دل کے شہزادے کے خطوط آتے رہتے جو زینت کے انتظار کی کوفت کو کم کر دیتے تھے ، اب انتظار کی گھڑیاں سمٹ رہی تھیں اگلی صبح اسے پنڈی کے ائیرپورٹ پر اترنا تھا . مری کا موسم پھر اسی طرح برف لیے ہوۓ تھا. سلیم نے اسے سمجھا دیا تھا کے وہ کس وقت تک پنڈی اترے گا اور کب وہ مری اسکے پاس پہنچ جاۓ گا ،

صبح صبح ہی زینت نے اٹھتے ہی کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا . برف کا غلاف اوڑھے پہاڑیاں اپنا حسن بکھیر رہی تھیں اسکے گھر کے باہر کی چھوٹی سی بل کھاتی سڑک سفید برف سے ڈھکی ہوئی تھیں جبکے ہلکی ہلکی برفباری ابھی بھی جاری تھی . سلیم چند گھنٹوں میں آنے والا تھا . اماں تو سودا سلف لینے چلی گییں، واپس آتے ہی انہوں نے منے کو نہلا کر تیار کر دیا اب وہ باورچی خانے میں کھانا پکانے میں لگی ہوئی تھیں ، زینت نے بھی تیار ہونا شروع کیا سلیم کی پسند کا لایا ہوا فیروزی اور مہرون رنگ کا ہلکی کڑھائی والا جوڑا پہنا ، خوبصورتی سے بال بنا کر آنکھوں میں کاجل سجایا تو ہونٹوں پر ہلکی سی سرخی جماتے ہوۓ آنچل سر پر ڈال کر جب اس نے خود کو آئینہ میں دیکھا تو سلیم کو یاد کر کے مسکرا اٹھی ، وہ آیے گا تو بس محبت سے دیکھتا ہی جاۓ گا. کمرے میں انگیٹھی جل رہی تھی اور منا بھی سو رہا تھا .

جب بے چینی سے وہ کھڑکی سے باہر سڑک کو دیکھتی تو اک انجانا سا خوف بھی اسکے دل میں بیٹھ جاتا تھا ، اتنی برف ہے سلیم خیریت سے آجاۓ . وہ اماں سے بار بار پوچھتی اماں کیا نیچے لاری اڈے سے لوگ آجارہے ہیں ؟ اماں نے اسکی پریشانی کو بھانپتے ہوۓ تسلی دی کے سلیم پنڈی اترے گا ، وہاں کوئی برفباری نہیں گاڑیاں معمول کے مطابق آجا رہی ہیں اور نیچے کی سڑک صاف ہے کیوں کے وہاں سے گاڑیاں جو چل رہی ہیں . اس تسلی کے باوجود زینت عجیب سی فکر میں گھر جاتی اور دعا کرتی سلیم کا سفر خیریت سے گزرے
بار بار دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھ دیکھ کر زینت انتظار کر رہی تھی ،

آخر انتظار کی گھڑیاں تمام ہوئیں اور گھر کے دروازے پر دستک ہوئی زینت کا دل دھک دھک کرنے لگا اسکی اماں چادر سنبھالتے ہوۓ دروازے کی طرف بڑھیں انکے دروازہ کھولتے ہی اسلام علیکم کی آواز آئ . یہ اسکے سلیم کی آواز تھی ، وہ تو خوشی سے شاد ہو گئی ، وہ آگیا جسکا انتظار تھا وہ جسکی راہ میں پلکیں بچھاے بیٹھی تھی وہ اسکے کمرے کی طرف آرہا تھا ، اماں کی دعائیں دینے اور بلائیں لینے کی اونچی آواز آرہی تھی تھوڑی دیر میں اسکے کمرے کا دروازہ کھلا. وہ دونوں کمرے میں داخل ہوۓ اس نے شرماتے ہوۓ سلام کیا ، سلیم کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا جو اس نے ایکطرف رکھا اس نے لمبا سا گرم کوٹ پہن رکھا تھا گردن میں لپٹا ہوا مفلر پیشانی پر الجھے ہوۓ بال اسکے کوٹ پر برف کے بکھرے ہوۓ سفید گالے سفیدی بکھیرے ہوۓ تھے وہ توہر روز کی طرح آج بھی وجہہ نظر آرہا تھا

زینت کے سلام کا جواب دینے کے بعد وہ سیدھا پنگھوڑے کی طرف بڑھا جہاں منا اون کی ٹوپی پہنے آنکھوں میں سرما ڈالے آرام سے سو رہا تھا. اماں خوشی خوشی اسے مبارکیں دیتے ہوۓ بتا رہی تھیں کے منا ہوبہو اسکی شکل ہے پھر وہ کھانے کا بندوبست کرنے کمرے میں انکو اکیلا چھوڑ کر نکل گیں سلیم وہیں صوفے پر بیٹھ گیا جبکے ساتھ والی کرسی پر زینت بھی بیٹھی اپنی خوشی میں خود کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی مسکراہٹ تھی کے چھپتی نہ تھی بار بار دوپٹے کو انگلی پر لپیٹ کر وہ مسکراتی ہوئی کن اکھیوں سے سلیم کو دیکھتی اور پھر شرما جاتی وہ تو اسکے چہرے پر ہی نگاہیں مرکوز کئے بیٹھا تھا ،

دھک دھک دل کو سنبھلتے ہوۓ وہ بولی " آپ ٹھیک ہیں نا ؟ "ہاں میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو ؟" سلیم نے اس سے پوچھا "جی میں بھی ٹھیک ہوں آپ کا کب سے انتظار کر رہی تھی آپ کا سفر کیسا گزرا ؟"

زینت نے دوپٹےکو انگلی پر لپیٹتے ہوۓ بات کو جاری رکھا "اچھا گزر گیا سفر " سلیم نے مختصر سا جواب دیا اسکی نگاہیں ابھی بھی زینت کے خوبصورت چہرے پر جمی تھیں " آپ کو یہاں پہنچنے میں مشکل تو نہیں ہوئی ؟" وہ مسکراۓ جا رہی تھی پھر نگاہیں جھکا لیتی

"نہیں پتہ میرے پاس تھا . یہاں آنے میں کوئی مشکل نہ ہوئی " اسکی نظریں زینت کے شرمیلے چہرے کا طواف جو کر رہی تھیں وہ جانتی تھی ایسے ہی تو وہ پیار سے اسے دیکھا کرتا تھا . محبت کے معاملے میں تو وہ سخی تھا ہر لمحہ اسے خوش رکھنے والا اسکے پاس ہی بیٹھا تھا ، وہ خوشی سے گلنار تھی نظریں اٹھاتی پھر جھکا لیتی . سلیم کی نگاہیں اسکے چہرے پر ٹھہری ہوئی تھیں .......

.چند منٹ یونہی تکتے ہوۓ خاموشی سے گزر گۓ ...پھر وہ بولا .... "زینت " "جی" زینت نے محبت بھرے لہجے میں جواب دیا سلیم کی آنکھیں زینت پر جمی تھیں

وہ بولا "میں نے تمہیں کبھی نہیں بتایا کے ڈاکٹروں نے مجھے دبئی میں دو سال پہلے ہی بتا دیا تھا کے میں کبھی باپ نہیں بن سکتا زینت کو یوں جھٹکا لگا جیسے کسی نے اسکو بجلی کے ننگے تار پکڑا دیئے ہوں وہ آنکھیں پھاڑے شدید حیرت سے سلیم کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر بیحد سنجیدگی تھی

تم نے میری غیر موجودگی میں کسی اور سے دوستی کر کے مجھے کسی اور کے بچے کا باپ بنا دیا " یہ الفاظ نہ تھے گویا ہتھوڑے تھے جو زینت کے سر پر برس رہے تھے وہ صدمے اور حیرت سے پھٹی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھے جا رہی تھی اسکا حلق دہشت میں خشک ہوچکا تھا اسکی حالت ایسی تھی کے کاٹو تو لہو نہیں

سلیم نے جیب سے ایک لفافہ نکال کر زینت کے پہلو میں رکھتے ہوۓ کہا " زینت یہ طلاق ہے " زینت کو لگا اس پر کوئی بمب گرا ہے اسکے سپنوں کا محل زمین بوس ہوچکا تھا سلیم بول رہا تھا " میں چاہتا تو اس وقت ہی تمہیں طلاق دینے پاکستان آجاتا جب مجھے میری ماں نے خوشخبری کا خط لکھا تھا لیکن نہیں ،جب سے تم میری زندگی میں آئ تھیں اسی دن سے میرا تہیہ تھا کے تمہیں کبھی کوئی تکلیف نہ دوں گا ، یہی سوچ کر کے تمہاری اور اس بچے کی جان پر برا اثر پڑ سکتا ہے میں ہر دکھ پی گیا ، یہ جانتے ہوۓ بھی کے تم نے مجھ سے بیوفائی کی ہے میں اپنی بات نبھانے کی خاطر دل پر پتھر رکھ کر تمھیں دلجوئی کے خط لکھتا رہا کے تمہیں کوئی دکھ نہ ہو"

وہ ہونقوں کی طرح آنسو بھری آنکھوں سے سکتے کا عالم میں تھی صرف ہکلا رہی تھی الفاظ اسکے حلق میں ہی گھٹ چکے تھے سلیم کی دھیمی آواز پھر سے ابھری " زینت گواہ رہنا ان پانچ سالوں کے تعلق میں میں نے ایک دن کے لیے بھی تمہیں کوئی دکھ ، تنگی یا تکلیف تک نہ دی ، میں نے اپنا عہد تعلق کے آخری لمحہ تک نبھایا .آج ہر تعلق ختم ہوا یہ جانتے ہوۓ بھی کے یہ بچہ میرا نہ تھا میں پھر بھی تمہیں پیسے بھیجتا رہا محبت بھرے خط لکھتا رہا کے میرے سنگ تمہیں کبھی کوئی دکھ نہ ملے، مجھے اس بچے سے کوئی نفرت نہیں میرے لیے یہ فرشتوں جیسا معصوم ہے یہ جو میں بیگ لایا ہوں اسمیں اسکے لیے کھلونے اور کپڑے ہیں "

وہ تو صدمے اور اضطراب میں گنگ تھی تھر تھر کانپ رہی تھی " زینت میں نے تمہیں ہمیشہ خوش رہنے کو کہا اور خوش رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن تم نے میری غیر موجودگی میں کسی اور سے دوستی کر کے میری محبت ، میری وفا اور میری آبرو کے ساتھ کھلواڑ کیا " یہ کہتے ہوۓ وہ لرزتے وجود کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا

بخدا وہ یہ کیا کر بیٹھی وہ جو ہر دم اسے خوش دیکھنا چاہتا تھا آج وہی محبت کرنے والا اپنی گھائل روح کے ساتھ اسکے سامنے دکھوں میں ڈوبا کھڑا تھا اسکے دکھ کا درد اسکے چہرے سے عیاں تھا اسکے اعتبار کا ہر آبگینہ پاش پاش ہو چکا تھا جسکی آنکھوں میں غم کی نمی تیر رہی تھی وہ لرزتے ہوۓ اٹھی وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی آنسوؤں میں اسکی ہر آواز حلق میں گھٹی جارہی تھی بمشکل اسکے منہ سے ٹوٹے الفاظ میں اتنا نکلا .".سس ...سلیم

میں تمہیں یہاں یہ بتانے مری آیا ہوں کے اب تم میرے گھر میں قدم نہیں رکھو گی جو کچھ میں نے تمہیں دیا مجھے اس سے کچھ نہیں چاہئیے محبت کے سودے میں حساب کتاب نہیں ہوتے البتہ تمھاری ہر چیز تمھارے گھر پہنچا دی جاۓ گی ، اب اس بچے کے باپ سے شادی کر لینا

زینت سر سے پاؤں تک لرز رہی تھی اسے روکنا چاہتی تھی وہ ایک لمحے کے لیے مڑا، آخری الوداعی نظر زینت پر ڈالتے ہوۓ نمدیدہ آنکھیں لیے وہ دروازہ کھول کر جاچکا تھا . اسے روکتی بھی تو کیسے روکتی وہ ہر ناتہ توڑچکا تھا لڑکھڑاتے قدموں سے وہ کھڑکی کی طرف بڑھی ..

.ہچکیوں کے ساتھ اسکی نگاہیں اسے ڈھونڈھ رہی تھیں وادی تو ابھی بھی خوبصورت تھی لیکن اب سارا حسن غم میں ڈوبا تھا اسکا محبوب اسی بل کھاتی ہوئی برف پوش سڑک پر اپنے لمبے کوٹ میں ہاتھ ڈالے محبت اور وفا کی نگری میں لٹے ہوۓ جواری کی طرح سر جھکاۓ جا رہا تھا ،

اسکے تھکے تھکے قدم اسکے ٹوٹے دل کا فسانہ سنا رہے تھے جیسے دل کی کرچیوں کو تھامے جا رہا ہو ، برف جھوم جھوم کر اس پر نچھاور ہو رہی تھی لیکن اسکا جھکا ہوا سر اسکے غم کا داستان گو تھا
وہ جو اسکا غمگسار تھا جو ہمدم تھا جو اسکے دل میں بستا تھا آج دنیا کی بھیڑ میں بچھڑ چکا تھا ہمیشہ کے لیے
.. اسکا دلربا ، دلبر ، دلنشین جا ریا تھا کبھی نہ لوٹنے کے لیے وہ اسے روکنا چاہتی تھی ،
وہ جو کبھی اسکا اپنا تھا آج ہر تعلق ، ہر واسطہ ہر رشتہ توڑ کر پرایا ہو چکا تھا کچھ دیر میں وہ برف کی دھول میں گم ہوگیا

جاتے جاتے اسکا ساجن اپنی خوشبو انہی وادیوں میں چھوڑ گیا ، اسکے دل کی خوشیاں اپنے ساتھ ہی لے گیا ہمیشہ کے لیے ..
. وہ خالی داماں ، حسرت سے اپنے محبوب کے برف پر پڑے قدموں کے نشانوں کو حسرت سے روتے ہوۓ دیکھ رہی تھی وہ انھیں اپنے دل میں سمو لینا چاہتی تھی یہی تو اسکے محبوب کی ایک نشانی اس وادی میں بچی تھی لیکن نثار ہوتی ہوئی برف نے ان قدموں کو کچھ دیر میں مٹا دینا تھا ہمیشہ کے لیے ..
.
bLK06iH.gif
................
1zCT6.gif
...............
 
Last edited:

Haris Abbasi

Minister (2k+ posts)
:)عینی میڈم ! اسکو پڑھنے میں کتنے ماہ لگیں گے :lol:.پڑھتے وقت میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کہانی ختم کیوں نہیں ہورہی .خیر کوشش کرتے ہیں
 

Annie

Moderator
:)عینی میڈم ! اسکو پڑھنے میں کتنے ماہ لگیں گے :lol:.پڑھتے وقت میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کہانی ختم کیوں نہیں ہورہی .خیر کوشش کرتے ہیں

ایک تو سارا ٹیکسٹ ہی گڑ بڑ ہو کر چنک بن گیا ہے ..اب مہینہ لگائیں یا سال پر پڑہنا پڑے گا ..

 

Annie

Moderator
This thread is a specially created for forum member Nuzhat Ghazali's special comeback to have discussion with us. She will be joining us soon here
Nuzhat ji will have her say.


 

saeenji

Minister (2k+ posts)
باقی سب کچھ تو ٹھیک ہے لیکن جب سلیم کی اچھی نوکری تھی تو ایسے حالات میں بیوی کو اپنے ساتھ دبئی نہ رکھنا زیادتی ہے

Moral of the story:

19b80b87a707bcb45a941a49f9701e32.jpg
a-single-lie-discovered-is-enough-to-create-doubt-in-every-truth-quote-1.jpg


 
Last edited:

Annie

Moderator
باقی سب کچھ تو ٹھیک ہے لیکن جب سلیم کی اچھی نوکری تھی تو ایسے حالات میں بیوی کو اپنے ساتھ دبئی نہ رکھنا زیادتی ہے

Moral of the story:

لو کر لو گل . یہ پرانے وقتوں کی کہانی ہے . جب اسلام آباد کیپٹل نہیں تھا . اس وقت پردیسی مرد اکثر دوسرے ملکوں میں اکٹھے رہتے تھے اور بیویوں کو ساتھ رکھنے کا رواج ایسا نہ تھا ..


سائیں... دونوں کی محبت تو گہری تھی پر ہار گئی ، دونوں ہی خالی ہاتھ رہ گۓ ، یہ کہانی مجھے اداس کر دیتی ہے ..
 

Zaidi Qasim

Prime Minister (20k+ posts)
This thread is a specially created for forum member Nuzhat Ghazali's special comeback to have discussion with us. She will be joining us soon here
Nuzhat ji will have her say.






یہ نزھت جی ، غاۂب کہاں تھیں ؟






 

Haidar Ali Shah

MPA (400+ posts)
عینی پڑھ کر بہت مایوسی ہوئی اب بھلا اسمیں عمران خان کا کیا قصور ہیں لگتا ہے آپ کو پٹواریوں سے بےقاعدگی سے لفافے ملتے ہیں. اگر آپ میں ذرا سی بھی اخلاقی جراءت ہے تو عمران خان کی کوئی کرپشن ثابت کرے یوں پٹواریوں کی پروپیگنڈہ کرکے آپ نے ثابت کردیا کہ آپ روحانی پٹواری ہوں لیکن یاد رکھنا خان آپ کے گنجے قائد لٹکا کر چھوڑےگا
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم

لو کر لو گل . یہ پرانے وقتوں کی کہانی ہے . جب اسلام آباد کیپٹل نہیں تھا . اس وقت پردیسی مرد اکثر دوسرے ملکوں میں اکٹھے رہتے تھے اور بیویوں کو ساتھ رکھنے کا رواج ایسا نہ تھا ..


سائیں... دونوں کی محبت تو گہری تھی پر ہار گئی ، دونوں ہی خالی ہاتھ رہ گۓ ، یہ کہانی مجھے اداس کر دیتی ہے ..

;)دوستی کا خانہ ہی نہی تھا اصل میں

میں نے ابھی تھریڈ نہی پڑھا )
اتنا لمبی سٹوری پڑھنے کی ہمت نہی ہے
(دو جملوں میں بتا سکتی ہیں تو بتائیں
 

Zaidi Qasim

Prime Minister (20k+ posts)
(bigsmile)بزی ہونگیں ، آنے دیں پھر ان سے پوچھئے گا ، تھریڈ کے بارے میں کمنٹ کریں .. جی سٹے آن ٹاپک ...



جی آن ٹاپک کیا اسٹے کریں ، مہاتڑ لفظوں کی مار کھا رھا ہے ۔





 

Annie

Moderator
;)دوستی کا خانہ ہی نہی تھا اصل میں

میں نے ابھی تھریڈ نہی پڑھا )
اتنا لمبی سٹوری پڑھنے کی ہمت نہی ہے
(دو جملوں میں بتا سکتی ہیں تو بتائیں
نہیں آپ خود ٹائم نکال کر پڑھیں .. سمجھیں کتاب پڑھ رہے ہیں .. دو محبت کرنے والے میاں بیوی کی کہانی ہے جسکا اینڈ اچھا نہیں ہوا ..
 

saeenji

Minister (2k+ posts)

لو کر لو گل . یہ پرانے وقتوں کی کہانی ہے . جب اسلام آباد کیپٹل نہیں تھا . اس وقت پردیسی مرد اکثر دوسرے ملکوں میں اکٹھے رہتے تھے اور بیویوں کو ساتھ رکھنے کا رواج ایسا نہ تھا ..


سائیں... دونوں کی محبت تو گہری تھی پر ہار گئی ، دونوں ہی خالی ہاتھ رہ گۓ ، یہ کہانی مجھے اداس کر دیتی ہے ..

جب باقی تمام معاملات میں سلیم اتنا سلجھا ہوا تھا، تو بیوی کو ساتھ رکھنے میں کون سی پریشانی تھی؟ بات وقت کی نہیں ارادے کی ہوتی ہے، میرے پاس بھی کچھ مثالیں موجود ہیں "پرانے وقتوں" کی جہاں میاں بیوی ایک ساتھ پردیس رہے... لائیک دے سے "وین دیر از آ ول دیر از آ وے"... لڑکی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقعہ نہ دینا بھی سلیم کی غلطی تھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ زینت یا خاص طور پر اس کی ماں قصور وار نہیں تھیں... بہرحال الله سب کے گھر آباد رکھے
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
This thread is a specially created for forum member Nuzhat Ghazali's special comeback to have discussion with us. She will be joining us soon here
Nuzhat ji will have her say.



اس کا مطلب ہے کہ فورم پر لڑکیوں کی سپیشل نیٹ ورکنگ موجود ہے
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
جب باقی تمام معاملات میں سلیم اتنا سلجھا ہوا تھا، تو بیوی کو ساتھ رکھنے میں کون سی پریشانی تھی؟ بات وقت کی نہیں ارادے کی ہوتی ہے، میرے پاس بھی کچھ مثالیں موجود ہیں "پرانے وقتوں" کی جہاں میاں بیوی ایک ساتھ پردیس رہے... لائیک دے سے "وین دیر از آ ول دیر از آ وے"... لڑکی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقعہ نہ دینا بھی سلیم کی غلطی تھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ زینت یا خاص طور پر اس کی ماں قصور وار نہیں تھیں... بہرحال الله سب کے گھر آباد رکھے

او سائیں بادشاہ یہ صرف پرانے زمانے میں ہی نہی آج بھی ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اپنی بیگم کو ساتھ نہی رکھتے
خاص طور سے پٹھان لوگ

اگر ساتھ رکھتے بھی ہیں تو شہر سے دور گھر لیتے ہیں
کبھی دوستوں کو گھر نہی بلاتے

میں نے دبی میں ایسے لوگ دیکھ ہیں
 

Annie

Moderator
جب باقی تمام معاملات میں سلیم اتنا سلجھا ہوا تھا، تو بیوی کو ساتھ رکھنے میں کون سی پریشانی تھی؟ بات وقت کی نہیں ارادے کی ہوتی ہے، میرے پاس بھی کچھ مثالیں موجود ہیں "پرانے وقتوں" کی جہاں میاں بیوی ایک ساتھ پردیس رہے... لائیک دے سے "وین دیر از آ ول دیر از آ وے"... لڑکی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقعہ نہ دینا بھی سلیم کی غلطی تھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ زینت یا خاص طور پر اس کی ماں قصور وار نہیں تھیں... بہرحال الله سب کے گھر آباد رکھے

جب اعتبار ٹوٹ جاتا ہے تو صفائی کیسی لینا .. زینت نے خود ہی اپنے لیے گڑھا کھودا ، شروع سے آخر تک وہ بنا بنا کر جو خط لکھتی رہی جس سے دیکھنے میں صورتحال ویسی ہی تھی جیسی سلیم نے سمجھی سلیم نے وہی دیکھا جو اسکو زینت کی طرف سے دکھایا گیا ..... جہاں تک پرانے وقتوں میں بیوی ساتھ پردیس میں رکھتا تو ہر جگہ کے حالات مختلف ہوتے ہیں
..
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
نہیں آپ خود ٹائم نکال کر پڑھیں .. سمجھیں کتاب پڑھ رہے ہیں .. دو محبت کرنے والے میاں بیوی کی کہانی ہے جسکا اینڈ اچھا نہیں ہوا ..

مجھے یاد آتا ہے میں بہت پہلے کچھ اسطرح سٹوری پڑھی تھی
اب دوبارہ پڑھوں گا سوتے وقت

دنیا میں بہت اچھے اچھے لوگ ہوتے ہیں
اصل میں محبت نامی جذبے کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے
لوگ لسٹ کو لو سمجھتے ہیں
یا دنیاوی مال دولت کو میاں بیوی کی محبت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں

صرف یہ دو چیزیں ہیں جو محبت کو ختم کر دیتی ہیں
 

Annie

Moderator
اس کا مطلب ہے کہ فورم پر لڑکیوں کی سپیشل نیٹ ورکنگ موجود ہے

نیٹ ورک تو کوئی نہیں نزہت کو واپس آنے کو کہا ہے اور انہوں نے اچھے اخلاق کے ساتھ اس تھریڈ پر اپنی واپسی کی دعوت قبول کر لی ہے
:)