You Decide!

Tsunami

MPA (400+ posts)
Malala Case...another perspective!

Sorry I don't know how to share Facebook Video but you can watch it by clicking the following link.

2llj0uf.png
 
Last edited by a moderator:

ibnali

Banned
ملالہ ڈے۔ تہذیبی ڈی این اے کا فساد مبارک ہو
ابو زید
[email protected]
انسان فانی ہے یعنی ہر انسان کو ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے۔ لیکن ہر انسانی کے اندر یہ خواہش بھی پائی جاتی ہے کہ اس دنیا میں اس کو دوام حاصل ہو۔ جسمانی طور پر حاصل نہ ہو تو کسی اور طور پر حاصل ہو۔ کوئی اپنی دانشوری کا سکہ جماتا ہے، کوئی پرشکوہ عمارتیں بناتا ہے تو کوئی اپنے فن اور آرٹ کے مظاہرہ کرتا ہے۔ ہر ایک کے دل میں یہ چور ضرور ہوتا ہے اس کی جسمانی موت کے بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کو دوام حاصل ہو۔ایک عام انسان جو اس طرح کا کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتا وہ کم از کم یہ چاہتا ہے کہ اس کو اولاد ہو جو کہ اس کے ڈی این اے کا نقش ثانی بن کر اس دنیا میں اس کے وجود کے تسلسل کو جاری رکھے۔ ایک بوڑھا شخص اپنی جوان اولاد کو خود سے زیادہ اہمیت اس لئے دیتا ہے کیوں کہ اسے پتہ ہوتا کہ اس کاجسم عنقریب ختم ہونے والا ہے اور اس کی اولاد اس کی فطری خصوصات یعنی ڈی این کے کافی بڑے حصے کے تسلسل کو جاری رکھے گی۔ یہ انسانی فطرت ہے اور ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔ عام طورپر کوئی عالمگیر مقصد کا ادراک ہی کسی فرد کو اس رجحان سے ہٹا سکتا ہے۔ یعنی عظیم ترین مقصد یا کوئی بہت بڑا عزم ہی کسی شخص کو اپنی اس فطری خواہش کو قربان کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔انسانی فطرت یہ قبول نہیں کرتی کہ اس کے نام سے کسی اور کے ڈی این اے کا تسلسل قائم ہوجائے۔ مشرقی معاشرے میں "اپنی اولاد" میں کسی اور کا ڈی این اے کا پایا جانا انتہائی کریہہ سمجھا جاتا ہے۔ آج کے مغربی معاشرے میں اگرچیکہ نااصل اور نامعلوم ڈی این اے کوئی مسئلہ نہیں ہوتے پھر بھی کوئی مرد اس کے اپنے ڈی این اے میں مداخلت برداشت نہیں کرتا۔قریب قریب یہی انسانی نفسیات تہذیبوں کی عمرانیات میں بھی پائی جاتی ہے۔ ہر تہذیب جسے ہم چاہے ترقی یافتہ مانیں یا پس ماندہ وہ اپنے کچھ مخصوص رویوں، اقدار، روایات، رسومات اور مابعد الطبیعاتی اصول رکھتی ہیں اور اس قوم کے اندر یہ خواہش فطری طور پر پائی جاتی ہے کہ ان تہذیبی رویوں کو تسلسل اور دوام حاصل رہے۔ چونکہ فرد اور اجتماع کی نفسیات ایک نہیں ہوتی اس لئے فرد کے مقابلے میں اجتماعیت کے ڈی این اے میں غیر محسوس انداز میں تبدیلی بھی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن ہر تمدن اور معاشرہ اپنے ڈی این اے میں زبردستی مداخلت سے دفاع کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔صورت حال یہ ہے کہ مغرب میں حجاب، برقعہ، میناروں والی مساجد اور دیگر اسلامی مظاہر کو اپنے تہذیبی ڈی این اے میں مداخلت تصور کیا جاتا ہے اور اپنی کشادہ دلی اور آزادی کے تمام دعوؤں کے باوجود قوت نافذہ کو استعمال کر کے مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ مغرب باہر کے پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے ٹیلنٹ کو قبول کرنے میں کافی گرم جوش واقع ہوا ہے لیکن یہ سب اس یقین کی وجہ سے تھا کہ باہر کے لوگ اندر آکر ان کے اپنے تہذیبی رویوں کا حصہ بن جائیں گے۔ ایک عرصے تک ایسا ہوا بھی۔ لیکن جیسے ہی انہیں انداز ہوا سی قوت نافذہ کے نہ ہونے کے باوجود ان کے معاشرے میں مسلمان تارکین وطن کی ڈی این اے کا "اظہار " بھی ہو رہا ہے تو انہوں نے اس اظہار پر بھی پابندی لگادی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بہت سوں کے نزدیک دہرا معیار ہو اور اس کو مغرب کا جھوٹا دعوی سمجھا جائے جبکہ یہ ہماری اپنی خوش فہمی تھی کہ ہم نے مغرب کےبارے میں یہ باور کرلیا کہ وہ ہمیں اس کے تہذیبی ڈی این اے میں مداخلت کی اجازت دے گا۔مسلم معاشروں میں مغربی استعمار کے غلبے کےدوران اور اس کے بعد بھی یہ کوششیں مسلسل کی جاتی رہی کہ مسلم معاشرے کے تہذیبی ترتیب کو مغرب کے مطابق ڈھال دیا جائے۔ یعنی مسلسل یہ کوشش ہوتی رہی کہ نام تو "مسلمان" کا ہو اور تہذیبی ڈی این اے مغرب کا ہو۔ اس کے لئے جن آلات کا استعمال کیا گیا اس میں ہتھیار، قوت نافذہ، ان کا عطا کردہ تعلیمی نظام، انجمن اقوام متحدہ، بین الاقوامی قانون وغیرہ شامل ہیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں مغربی تہذیب کس حد تک مسلمانوں پر اثر انداز ہوئی اور مسلمان اپنی تہذیبی رویوں کا دفاع کرنے میں کتنا کامیاب رہے یہ ایک الگ اور طویل موضوع ہے۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ پر حقیقت کہ مغرب مسلمانوں کی بہت ساری ٹیلنٹ کو اغوا کرنے میں کامیاب ہوا اوریہ بھی حقیقت ہے کہ اس تعامل میں مغرب کے طریقے میں اخلاقی رویے کے بجائے زور و قوت ، ظلم و تعدی اور فریب کا بھر پور استعمال کیا گیا۔بہرحال مسلمانوں کے درمیان ایسے بہت سے پل رہے بلکہ پالے جارہے ہیں جو نہ صرف مغربی تہذیبی ڈی این اے کے حامل ہیں بلکہ اس میدان کے بھر پور داعی ہیں۔ اس سب کے باوجود مغرب ان تہذیبی رویوں کو مسلمانوں میں قبول عام کا درجہ نہیں دلواسکا اور آج بھی یہاں کے دیسی لبرل واضح اعلان کرکے اپنی دعوت کو پیش کرنے سے قاصر ہیں اوروہ مختلف حیلوں بہانوں ، میڈیائی پروپیگنڈوں اور بیرونی فنڈنگ کے محتاج ہیں۔بہت کوششوں بلکہ کامیابیوں کے باوجود عوامی سطح پر ان بیرونی رویوں کو پذیرائی حاصل نہ ہوسکی جس کی اپنی وجوہات ہیں۔لیکن اس بار ان کے پاس ایک نیا ہتھیار سامنے آیا ہے اور وہ ہے "ملالہ"۔۔ اس بچی کو جس کام کے لئے استعمال کیا جارہا ہے شاید اس کو اس کا ادراک کرنے تک ایک عرصہ لگ جائے ۔ لڑکیوں کو تعلیم کے فروغ اور اس کے لئے ایک بچی کی جرأت اور پھر جان پر کھیل جانا اس سے پیدا ہونے والی ہمدردی ایک ایسا نسخہ ہے کہ اس میں چھپ چھپاتے ڈی این اے کو تبدیل کرنے والا زہر بھی دے دیا جائے تو کسی کو پتہ چلنا مشکل ہے۔ ملالہ نو عمر ضرورہے لیکن وہ خود اس کرپٹ ڈی این اے کی نمائندہ ہے اگرچیکہ اس کی قوت ادراک اور شعور کی ناپختگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے بے قصور قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب اس بچی کو استعمال کر کے ڈی این اے کی تبدیلی کے عمل کو آگے پڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ان کوشش کرنے والوں کو یہ موقعہ فراہم بھی انہیں کی طرف سے ہوا ہے جو جہاد کے داعی ہیں اور میدان عمل میں برسرپیکار ہیں۔بہرحال انجمن اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری با ن کی مون جو کوریائی ہونے کے باوجود تہذیبی اعتبار سے مغربی ڈی این اے زدہ ہیں نے دس نومبر کو ملالہ ڈے منانے کا اعلان کیا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کی بات ہوتی تو برصغیر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کی جانے والی کوششوں کی ملالہ کی ڈائری سے کیا واسطہ؟ یہ دراصل ملالہ کو سیلیبریٹ (Celebrate) نہیں کیا جارہا ہے بلکہ یہ اس تہذیبی ڈی این اے کی تبدیلی کو منانے کی کوشش ہے۔ ورنہ لوگ ملالہ کی چاہے جتنی مدح سرائی کریں ملالہ کا کارنامہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ ان "نااصل" مغربی تہذیبوں کے حامل افراد اور جماعتوں کے لئے ملالہ ایک علامت بن گئی ہے۔اب خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ ملالہ کو نوبل پرائز کے لئے نامزد کرنے کی تحریک بھی زور پکڑ رہی ہے۔ اس بیج برطانیہ کے کوئین ہسپتال سے ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاءالدین یوسف زئی کا ایک ویڈیو بھی جاری ہوا ہے۔ان کے بقول ’ملالہ کی جدوجہد کا مقصد انسانی وقار اور رواداری کا فروغ ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ملالہ نے اپنے خون سے انسانی تہذیب اور وحشی پن کے درمیان واضح لکیر کھینچ دی ہے۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہم اپنی آنے والوں نسلوں کے لیے امن اور استحکام پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ تعلیم حق ہے۔مسئلہ یہ ہےکہ جن طالبان نے ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے انہوں نے تعلیم کو کبھی بھی اس کی وجہ قرار نہیں دی ہے۔ بلکہ انہوں نے ملالہ کے طالبان مخالف بیانات کا حوالہ دیا ہے۔ ملالہ کے والد صاحب کا بیان دیکھیں تو صاف طور پر کرپٹ ڈی این اے کی تصویر سامنے آتی ہے جس میں ایک حملہ آور قوم نجات دہندہ نظر آتی ہے اور اس حملے کے خلاف جدو جہد کرنے والے وحشی نظر آتے ہیں اور ساتھ میں یہ عزم بھی نظر آتا ہے کہ بقیہ قوم کی تہذیبی ڈی این اے کی ترتیب کو الٹ پلٹ کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔بہرحال پہلے بھی اس طرح کی چالیں اور سازشیں ہوتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ اس بار ایک عام مسلمان کے ہاتھ میں سوشل میڈیا کا ہتھیار آگیا ہے اور یہ ہتھیار ترقی، گلوبلائزیشن اور سرمایہ داری کے چیمپین نے خود اپنی مرضی سے اور اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر حوالے کیا ہے۔ ایسے میں اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ ملالہ کی گولی ہمارے ڈی این اے پر اثر انداز ہوسکے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ مغرب ملالہ کی گولی سے اپنے عوام کو اپنے اخلاقی جواز کے نشے میں ایک بار اور مست کرادے۔
 

ONLYISLAM

Banned
ملالہ ، سلطان راہی کو بھِی بہادری میں پیچھے، چھوڑ گئ، وہ تلوار سے گولی روک لیتا تھا،یہ محترمہ سر سے گولی روک لیتی ہیں، اور ایک ہفتے بعد سر پر گولی کا نشان بھی نہیں رہتا۔
ملالہ عافیہ کو بھی پیچھے چھوڑ گئ، وہ پروفیسر ہونے کے باوجود عمر قید کی سزا وار ٹھہریں اور یہ امریکہ کے لیے کالم لکھنے کی وجہ سے یوم ملالہ کی حقدار ٹھہری۔۔
۔۔۔۔
 

Back
Top