جی ہاں، عمران خان کا مطالبہ بالکل ٹھیک ہے!
اگر پی ٹی وی اپنا قبلہ درست کرلے تو نہ کبھی کسی اپوزیشن لیڈر کو قوم سے خطاب کرنے کا خیال آئے اور نہ حکمران جماعت کا کوئی بھی قائد ریاستی ادارے کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرسکے۔ (فوٹو ایڈٹ: ایکسپریس بلاگ)
پانامہ لیکس کے آفٹر شاکس جیسے ہی پاکستان پہنچے تو ملک میں کوئی ایمرجنسی تو نہیں لگی لیکن پھر بھی اتنے بڑے الزامات پر وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرنا وسیع تر قومی مفاد سمجھا۔ قومی ترانے کے بعد میاں صاحب فرمانے لگے کہ وہ پہلی بار کسی ذاتی نوعیت کے معاملے پر قوم سے خطاب کر رہے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ آپ کے اور میرے ووٹوں سے منتخب ہونے والے پبلک آفس ہولڈر، وزیراعظم نے ذاتی نوعیت کے معاملے اور الزامات کا جواب دینے کے لئے اُس سرکاری ٹی وی کا انتخاب کیا جس کے لئے آپ اور میں ہرماہ بجلی کے بل میں 35 روپے ٹیکس بھرتے ہیں۔
اگر پی ٹی وی اپنا قبلہ درست کرلے تو نہ کبھی کسی اپوزیشن لیڈر کو قوم سے خطاب کرنے کا خیال آئے اور نہ حکمران جماعت کا کوئی بھی قائد ریاستی ادارے کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرسکے۔ (فوٹو ایڈٹ: ایکسپریس بلاگ)
پانامہ لیکس کے آفٹر شاکس جیسے ہی پاکستان پہنچے تو ملک میں کوئی ایمرجنسی تو نہیں لگی لیکن پھر بھی اتنے بڑے الزامات پر وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرنا وسیع تر قومی مفاد سمجھا۔ قومی ترانے کے بعد میاں صاحب فرمانے لگے کہ وہ پہلی بار کسی ذاتی نوعیت کے معاملے پر قوم سے خطاب کر رہے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ آپ کے اور میرے ووٹوں سے منتخب ہونے والے پبلک آفس ہولڈر، وزیراعظم نے ذاتی نوعیت کے معاملے اور الزامات کا جواب دینے کے لئے اُس سرکاری ٹی وی کا انتخاب کیا جس کے لئے آپ اور میں ہرماہ بجلی کے بل میں 35 روپے ٹیکس بھرتے ہیں۔
بات ذرا غور کرنے کی ہے۔ اگر پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) حکومتی ٹیلی ویژن ہے اور حکمران جماعت کے فنڈز سے چلتا ہے، ملازمین کو تنخواہیں ن لیگ ادا کرتی ہے اور عوام سے ٹیکس کا ایک پیسہ نہیں لیا جاتا تو پھر پی ٹی وی کا حق ہے کہ وہ حکومت کا ترجمان بن کر ہمیشہ حکومتی سچ بولے، لیکن اگر پی ٹی وی ایک ریاستی ادارہ ہے تو پھر عمران خان کا موقف بالکل درست ہے کہ
سرکاری ٹی وی ریاست کی ملکیت ہے، حکومت کی نہیں۔ پی ٹی وی پر جنتا حق وزیراعظم اور وزراء کا ہے، اتنا ہی اپوزیشن کا بھی ہے۔
تحریک انصاف کا موقف ہے کہ،
وفاقی وزراء نے سرکاری ٹی وی کے ذریعے قوم کو پانامہ لیکس کے معاملے پر گمراہ اور شوکت خانم اسپتال کے خلاف پراپیگنڈا کیا، پی ٹی وی کسی ایک فرد یا خاندان کی تشہیر کا آلہ کار نہیں بلکہ قومی اثاثہ ہے۔
اس موقف کی بنیاد پر عمران خان نے بھی وزیراعظم کے جواب میں اپنی سیاسی اننگز پی ٹی وی کی وکٹ پر ہی کھیلنے فیصلہ کیا اور قوم سے خطاب کی درخواست کردی، لیکن یہ درخواست حکومتی وزراء کو کانٹا بن کر ایسی چبھی کہ پنجاب اور اسلام آباد میں بیٹھے وزیر ہتھے سے ہی اکھڑ گئے۔ وزیر اطلاعات حسب روایت عمران خان کے بیان کے بعد کمر کس کر میدان میں آگئے اور کہنے لگے پی ٹی وی صرف حکومت کی کوریج کے لئے ہے، عمران خان کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔ اگر آج عمران خان کو اجازت دے دی گئی تو کل پھر سب کو دینی پڑ جائے گی۔
لیکن ایک منٹ!
اگر وزیر اطلاعات کی بات مان لی جائے تو جب دھرنے کے دوران پی ٹی وی پر حملہ ہوا تھا، تو پھر اس ادارے کو حکومتی ادارے کی بجائے ریاستی ادارہ کیوں کہا گیا تھا؟ اگر اسے ریاستی ادارہ مان ہی لیا ہے تو ریاست کی تعریف میں حکومت، جغرافیہ اور آبادی تینوں عناصر آتے ہیں، پھر اپوزیشن کو اس ادارے کے استعمال کا حق پارلیمنٹ کی طرح کیوں نہیں؟
حکومت تو صرف حکمران پارٹی تک ہی محدود ہوتی ہے، لیکن فرق صرف یہ ہے کہ دھرنے کے وقت پی ٹی وی ریاستی ادارہ تھا لیکن عمران خان کی درخواست آتے ہی حکومتی ادارے کا روپ دھار لیتا ہے۔ کیوں؟ اس کا پس منظر آف شور کمپنوں کا شور ہے۔
آف شور کمپنیاں کیا ہیں؟
ملک کا پیسہ باہر کیسے جاتا ہے آف شور کمپنیاں اس کی ایک بڑی مثال ہیں، لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ آف شور کمپنیاں صرف کالے پیسے سے ہی بنائی جائیں۔ جائز طریقے سے اربوں روپے کمانے والے بھی پانامہ اور برطانیہ کے ورجن آئی لینڈز جیسی ٹیکس فری لوکیشنز پر علامتی کمپنیاں کھول کر پیسہ محفوظ کرکے جائیداد خرید سکتے ہیں۔ یہ کمپنی ان شخصیات کے نام تو نہیں ہوتی لیکن ہوتی ان ہی کی ملکیت ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ آف شور کمپنی ایک سمندر پار بینک اکاؤنٹ ہے جہاں اپنا پیسہ بغیر کسی ٹیکس کٹوتی کے محفوظ کرکے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
عام آدمی کے لئے آف شور کمپنیاں کھولنا تو کوئی جرم نہیں سمجھا جاتا لیکن اگر کوئی پبلک آفس ہولڈر ایسا کرے تو منظرعام پر آنے کے بعد آئس لینڈ کے وزیر اعظم کی طرح استعفیٰ دینا پڑتا ہے، لیکن یہاں استعفیٰ کے بجائے دفاع ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی بذات خود کوئی آف شور کمپنی تو نہیں البتہ ان کے صاحبزادوں کی ضرور ہیں۔ ٹیکنیکلی بات تو ٹھیک ہے لیکن علامتی اور اخلاقی طور پرکسی ضمیر کے جنازے سے کم نہیں۔
نواز شریف نے اپنے ذاتی دفاع کے لئے پی ٹی وی کا سہارا لیا تو عمران خان اگر وہی سہارا خیراتی دفاع کے لئے مانگ رہے ہیں تو قومی مفاد کس نوعیت کے دفاع میں ہے؟ جمہوری حکومت پہلے ہی دفاعی پوزیشن لیتے ہوئے اپوزیشن کے خلاف پی ٹی وی کا دفاع دھرنے کے دنوں سے بھی زیادہ موثر طریقے سے کرتی محسوس ہور ہی ہے۔
عمران خان کا پی ٹی وی پر قوم سے خطاب موجودہ حالات میں تو شاید ممکن نہیں، لیکن مستقبل میں آزادی اظہار اور پی ٹی وی کے اسٹیسٹس کو، کو چیلنج کرکے ایک بحث ضرور چھیڑ دی ہے کہ،
پی ٹی وی ریاست کا ہے یا حکومت کا؟
عمران خان کے اس مطالبے کی بڑی وجہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرز کی وہ تقریر ہے جس کو عوام تک پہنچانے سے روکنے کے لیے سرکاری تی وی نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ حالانکہ پنجاب میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ پانامہ سے پہلے ہی عملی جامہ پہن چکا ہے، 2013 میں آنے والے اس ایکٹ کے تحت سرکاری ادارے 14 دن کے اندر عوام کو ہر طرح کی معلومات دینے کے پابند ہیں۔ لیکن لگتا ہے سرکاری ٹی وی چلانے والوں کو اپنا بنایا ہوا یہی ایکٹ پڑھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
اگر پی ٹی وی اپنا قبلہ درست کرلے تو نہ کبھی کسی اپوزیشن لیڈر کو قوم سے خطاب کرنے کا خیال آئے اور نہ ہی حکمران جماعت کا کوئی بھی قائد ریاستی ادارے کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرسکے۔
پانامہ لیکس پر سرکاری ٹی وی پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان جلتی پر پانی کے بجائے وہ تیل ثابت ہوا ہے جس نے سیاسی آگ مزید بھڑکا دی ہے، سیاسی شعلے اب پی ٹی وی کے دفتر کے قریب پہنچ چکے ہیں اور یہ وہی پی ٹی وی ہے جہاں سے میرے عزیز ہم وطنو! کی آواز کو سنے 16 سال گزر چکے ہیں۔
PTV
آف شور کمپنیاں کیا ہیں؟
ملک کا پیسہ باہر کیسے جاتا ہے آف شور کمپنیاں اس کی ایک بڑی مثال ہیں، لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ آف شور کمپنیاں صرف کالے پیسے سے ہی بنائی جائیں۔ جائز طریقے سے اربوں روپے کمانے والے بھی پانامہ اور برطانیہ کے ورجن آئی لینڈز جیسی ٹیکس فری لوکیشنز پر علامتی کمپنیاں کھول کر پیسہ محفوظ کرکے جائیداد خرید سکتے ہیں۔ یہ کمپنی ان شخصیات کے نام تو نہیں ہوتی لیکن ہوتی ان ہی کی ملکیت ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ آف شور کمپنی ایک سمندر پار بینک اکاؤنٹ ہے جہاں اپنا پیسہ بغیر کسی ٹیکس کٹوتی کے محفوظ کرکے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
عام آدمی کے لئے آف شور کمپنیاں کھولنا تو کوئی جرم نہیں سمجھا جاتا لیکن اگر کوئی پبلک آفس ہولڈر ایسا کرے تو منظرعام پر آنے کے بعد آئس لینڈ کے وزیر اعظم کی طرح استعفیٰ دینا پڑتا ہے، لیکن یہاں استعفیٰ کے بجائے دفاع ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی بذات خود کوئی آف شور کمپنی تو نہیں البتہ ان کے صاحبزادوں کی ضرور ہیں۔ ٹیکنیکلی بات تو ٹھیک ہے لیکن علامتی اور اخلاقی طور پرکسی ضمیر کے جنازے سے کم نہیں۔
نواز شریف نے اپنے ذاتی دفاع کے لئے پی ٹی وی کا سہارا لیا تو عمران خان اگر وہی سہارا خیراتی دفاع کے لئے مانگ رہے ہیں تو قومی مفاد کس نوعیت کے دفاع میں ہے؟ جمہوری حکومت پہلے ہی دفاعی پوزیشن لیتے ہوئے اپوزیشن کے خلاف پی ٹی وی کا دفاع دھرنے کے دنوں سے بھی زیادہ موثر طریقے سے کرتی محسوس ہور ہی ہے۔
عمران خان کا پی ٹی وی پر قوم سے خطاب موجودہ حالات میں تو شاید ممکن نہیں، لیکن مستقبل میں آزادی اظہار اور پی ٹی وی کے اسٹیسٹس کو، کو چیلنج کرکے ایک بحث ضرور چھیڑ دی ہے کہ،
پی ٹی وی ریاست کا ہے یا حکومت کا؟
عمران خان کے اس مطالبے کی بڑی وجہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرز کی وہ تقریر ہے جس کو عوام تک پہنچانے سے روکنے کے لیے سرکاری تی وی نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ حالانکہ پنجاب میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ پانامہ سے پہلے ہی عملی جامہ پہن چکا ہے، 2013 میں آنے والے اس ایکٹ کے تحت سرکاری ادارے 14 دن کے اندر عوام کو ہر طرح کی معلومات دینے کے پابند ہیں۔ لیکن لگتا ہے سرکاری ٹی وی چلانے والوں کو اپنا بنایا ہوا یہی ایکٹ پڑھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
اگر پی ٹی وی اپنا قبلہ درست کرلے تو نہ کبھی کسی اپوزیشن لیڈر کو قوم سے خطاب کرنے کا خیال آئے اور نہ ہی حکمران جماعت کا کوئی بھی قائد ریاستی ادارے کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرسکے۔
پانامہ لیکس پر سرکاری ٹی وی پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان جلتی پر پانی کے بجائے وہ تیل ثابت ہوا ہے جس نے سیاسی آگ مزید بھڑکا دی ہے، سیاسی شعلے اب پی ٹی وی کے دفتر کے قریب پہنچ چکے ہیں اور یہ وہی پی ٹی وی ہے جہاں سے میرے عزیز ہم وطنو! کی آواز کو سنے 16 سال گزر چکے ہیں۔
PTV