Who was the first in history to celebrate the prophet Muhammad (SAW)'s birthday?

The_Choice

Senator (1k+ posts)

“On the authority of the Mother of the Faithful, Umm Abdullah, Aisha, may Allah be pleased with her, who said: The Messenger of Allah (peace be upon him) said, ‘Whoever introduces anything into this matter of ours that is not from it shall have it rejected.'”

Source: Ṣaḥīḥ al-Bukhārī 2550, Ṣaḥīḥ Muslim 1718
 

منتظر

Minister (2k+ posts)

“On the authority of the Mother of the Faithful, Umm Abdullah, Aisha, may Allah be pleased with her, who said: The Messenger of Allah (peace be upon him) said, ‘Whoever introduces anything into this matter of ours that is not from it shall have it rejected.'”

Source: Ṣaḥīḥ al-Bukhārī 2550, Ṣaḥīḥ Muslim 1718
وہ کونساپہلی ہجری کا سال تھا جب تراویح پڑھی گی
کتنے سالوں بعد از شہادت رسول خدا پڑھی گی
کس نے شروع کی سب سے پہلے ؟
کیا رسول خدا نے پڑھائی پڑھی ؟
کیا پہلے حاکم مدینہ ابو بکر نے پڑھی پڑھائی ؟
اگر نہیں پڑھی پڑھائی ان دو بڑی شخصیتوں نے تو ف یہ بدعت آج تک کیوں جاری ہے ؟
اگر یہ بدعت جاری رہ سکتی ہے تو رسول خدا کی ولادت کی خوشی کو منانے کو اگر تم بدعت سمجھتے ہو تو اس میں کیا تکلیف کی بات ہے ؟
 

karachii

Minister (2k+ posts)
Jo yeh samjhtay hai k hum Allah K rasool S.A.W aur sahaba ki Sunnah ko follow kertay howaye milad nahi banatay un k liye bhi sawab hai, aur Jo huzoor S.A.W ki dunia Mei amad ka jashn banatay hai sharaee hudood Mei rehtay howaye un k liye bhi sawab hai.

Mager yaad rahay Jo cheez Allah k rasool nay Mana nahi farmaiye us ko aap doosray ko rokh nahi saktay aur Jo shaks doosro per yeh ilzam lagatay hai k Jo yeh kushi na manaye woh iblees ka saathi hai woh us say ziada galat hai
 

karachii

Minister (2k+ posts)
وہ کونساپہلی ہجری کا سال تھا جب تراویح پڑھی گی
کتنے سالوں بعد از شہادت رسول خدا پڑھی گی
کس نے شروع کی سب سے پہلے ؟
کیا رسول خدا نے پڑھائی پڑھی ؟
کیا پہلے حاکم مدینہ ابو بکر نے پڑھی پڑھائی ؟
اگر نہیں پڑھی پڑھائی ان دو بڑی شخصیتوں نے تو ف یہ بدعت آج تک کیوں جاری ہے ؟
اگر یہ بدعت جاری رہ سکتی ہے تو رسول خدا کی ولادت کی خوشی کو منانے کو اگر تم بدعت سمجھتے ہو تو اس میں کیا تکلیف کی بات ہے ؟

Chacha g, Quran ka khatam rasool Allah S.A.W see sabit hai, jibrael A.S nahi pak s.a.w se Quran Suntay thay namaz ki halaat mai.

Hazrat Umer nay sirf is Amal ko ijtama ki shakal Mei tarteeb dia

Aslamu alaikum
 

vvaqar

Senator (1k+ posts)
سمپل لاجک
رسولِ کریم ﷺ کی توہین کرنے والا کسی صورت قابلِ معافی نہیں، خوشی منانے والے کو ٹینشن نہیں جتنی چائے خوشیاں منائے

اور میلاد منانا خوشی منانا ہی ہے کیونکہ کے میلاد منانے سے رسول کریم کی نعوذ بااللہ توہین نہیں ہوتی ہے
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
Chacha g, Quran ka khatam rasool Allah S.A.W see sabit hai, jibrael A.S nahi pak s.a.w se Quran Suntay thay namaz ki halaat mai.

Hazrat Umer nay sirf is Amal ko ijtama ki shakal Mei tarteeb dia

Aslamu alaikum
عقل کو ہاتھ مارو کب رسول خدا نے پڑھی چلو ان کو چھوڑو مجھے یہ بتا دو کے کب حاکم مدینہ ابو بکر نے پڑھائی یا پڑھی اگر نہیں تو پھر یہ بدعت ہے اور بقول صحاح ستہ کے بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنم کا رستہ ہے تو اس لیے گمراہ مت ہو اگر یہ اچھی چہز ہوتی تو ابن عمر بھی پڑھتے
 

vvaqar

Senator (1k+ posts)
عقل کو ہاتھ مارو کب رسول خدا نے پڑھی چلو ان کو چھوڑو مجھے یہ بتا دو کے کب حاکم مدینہ ابو بکر نے پڑھائی یا پڑھی اگر نہیں تو پھر یہ بدعت ہے اور بقول صحاح ستہ کے بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنم کا رستہ ہے تو اس لیے گمراہ مت ہو اگر یہ اچھی چہز ہوتی تو ابن عمر بھی پڑھتے

سر جی اس میں پھر اور بڑی خواہ مخواہ کی حجتیں ہیں جیسے اچھی بدعت ، بُری بدعت، میٹھی بدعت، نمکین بدعت، کالی بدعت سفید بدعت ، گرمی کی بدعت سردی کی بدعت

رسول کریم کے اس دنیا سے ظاہری پردہ پوشی کے بعد دین کو موم کی ناک بنا دیا گیا اور یہ سلسلہ خیر سے آج تک جاری و ساری ہے جس کا دل چاہتا ہے ناک کو اپنی مرضی کے مطابق مڑوڑا دے دیتا ہے نہ اُس کے ایمان کا کچھ نقصان ہوتا ہے نہ اسلام کا
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)
حُضُورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم،رسولِ مُحتَشَم،شافِعِ اُمَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مُعظَّم ہے، ''جو کوئی اسلام میں اچّھا طریقہ جاری کرے اُس کو اس کا ثواب ملے گااور اُس کا بھی جو (لوگ) اِس کے بعداُس پر عمل کریں گے اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں بُرا طریقہ جار ی کرے اُس پر اِس کا گناہ بھی ہے اور ان (لوگوں)کا بھی جو اِس کے بعد اِس پر عمل کریں اور اُن کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی۔(صحیح مُسلم ص۱۴۳۸، الحدیث ۱۰۱۷)

''کرم یا نبیَّ اللہ''بارہ حُرُوف کی نسبت سے12 بِدعاتِ حَسَنہ

اِس حدیثِ مبارَک سے معلو م ہوا، قِیامت تک اسلام میں اچّھے اچّھے نئے طریقے نکالنے کی اجازت ہے اوراَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ نکالے بھی جار ہے ہیں جیسا کہ (۱)امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تراویح کی باقاعِدہ جماعت کا اہتِمام کیا اور اس کو خود اچّھی بدعت بھی قرار دیا۔ اِس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وِصال ظاہری کے بعد صحابہ کرام علیھم الرضوان بھی جو اچھا نیا کام جاری کریں وہ بھی بدعتِ حَسَنہ کہلاتا ہے (۲)مسجِد میں امام کیلئے طاق نُما محراب نہیں ہوتی تھی سب سے پہلے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےمسجدُ النَّبَوِی الشّریف علیٰ صاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام میں محراب بنانے کی سعادت حاصل کی اِس نئی ایجاد( بد عتِ حَسَنہ) کو اس قَدَر مقبولیّت حاصل ہے کہ اب دنیابھر میں مسجد کی پہچان اِسی سے ہے (۳) اِسی طرح مساجِد پرگُنبدومیناربنانابھی بعدکی ایجادہے۔ بلکہ کعبے کے مَنارے بھی سرکارمدینہ وصحابہ کرام صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم وعلیھم الرضوان کے دَور میں نہیں تھے (۴) ایمانِ مُفَصَّل (۵) ایمانِ مُجْمَل (۶) چھ کلمے ان کی تعداد و ترکیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا اور ان کے نام (۷)قراٰنِ پاک کے تیس پارے بنانا،اِعراب لگانا ان میں رُکوع بنانا،رُمُوزِ اَوقاَف کی علامات لگانا۔بلکہ نُقطے بھی بعدمیں لگائے گئے،خوبصورت جِلدیں چھاپنا وغیرہ(۸)احادیثِ مبارَکہ کو کتابی شکل دینا،اس کی اَسناد پر جرِح کرنا،ان کی صحیح ، حَسَن، ضعیف اور مَوضُوع وغیرہ اَقسام بنانا (۹) فِقْہ ، اُصولِ فِقْہ وعِلْمِ کلام (۱۰)زکٰوۃ و فطر ہ سکّہ رائجُ الْوقت بلکہ با تصویر نوٹوں سے ادا کرنا(۱۱)اونٹوں وغیرہ کے بجائے سفینے یاہوائی جہازکے ذَرِیعے سفرِحج کرنا (۱۲) شریعت و طریقت کے چاروں سلسلے یعنی حنفی ،شافِعی، مالِکی ، حَنبلی اسی طرح قادِری نَقْشبندی،سُہروردی اور چشتی۔

ہر بدعت گمراہی نہیں ہے

ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذِہن میں یہ سُوال پیدا ہو کہ ان دو احادیث مبارکہ (۱) کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلاَ لَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلاَ لَۃٍ فِی النّار یعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنّم میں (لے جانے والی) ہے۔ (سُنَنُ النَّسائی ج۲ص۱۸۹) (۲)شَرَّ الْاُمُوْر ِمُحْدَثَا تُھَاوَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلا لۃ یعنی بدترین کام نئے طریقے ہیں ہر بدعت (نئی بات)گمراہی ہے۔(صحیح مسلم ص۴۳۰حدیث۸۶۷)

کے کیا معنیٰ ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں احادیثِ مبارکہ حق ہیں۔یہاں بدعت سے مُراد بدعتِ سَیِّئَہَ (سَیْ۔یِ۔ءَ ہْ)یعنی بُری بدعت ہے اور یقینا ہر وہ بدعت بُری ہے جو کسی سنّت کے خِلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہو۔جیسا کہ دیگر احادیث میں اس مسئلے کی مزید وضاحت موجود ہے چنانچِہ ہمارے پیارے پیار ے آقا مکّی مَدَنی مصطفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہروہ گمراہ کرنے والی بدعت جس سے اللہ اوراس کا رسول راضی نہ ہو تو اس گمراہی والی بدعت کو جاری کرنے والے پر اس بدعت پر عمل کرنے والوں کی مثل گناہ ہے، اسے گناہ مل جانا لوگوں کے گناہوں میں کمی نہیں کریگا۔(جامع ترمذی ج۴ص۳۰۹ حدیث۲۶۸۶) ایک اورحدیثِ مبارک میں مزید وَضاحت ملاحَظہ فرمائیے چُنانچِہ اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے ،اللہ کے محبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''مَنْ أحْدثَ فِيْ أمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ فِیْہِ فَھُوَ رَدٌّ۔'' (صحیح بخاری شریف ج۶ص۲۱۱ حدیث ۲۶۹۷) یعنی ''جو ہمارے دین میں ایسی نئی بات نکالے جو اس(کی اصل ) میں سے نہ ہو وہ مردود ہے۔'' ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا ایسی نئی بات جو سنّت سے دُور کرکے گمراہ کرنے والی ہو، جس کی اصل دین میں نہ ہووہ بدعتِ سَیِّئَہ یعنی بُری بدعت ہے جبکہ دین میں ایسی نئی بات جو سنّت پر عمل کرنے میں مدد کرنے والی ہو اور جس کی اصل دین سے ثابت ہو وہ بدعتِ حَسَنہ یعنی اچّھی بدعت ہے۔

حضرتِ سیِّدُ نا شیخ عبدُالْحق مُحَدِّث دِہلوی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی حدیثِ پاک ،'' وَّ کُلُّ ضَلالۃٍ فِی النّار'' کے تَحْت فرماتے ہیں،جو بِد عت کہ اُصول اور قوا عدِ سنّت کے مُوا فِق اور اُس کے مطابِق قِیاس کی ہوئی ہے (یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی)اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہے وہ بدعتِ ضَلالت یعنی گمراہی والی بدعت کہلاتی ہے ۔ (اَشِعَّۃُاللَّمعات ج اوّل ص ۱۳۵)

بدعتِ حَسنہ کے بغیر گزارہ نہیں


بَہَرحال اچّھی اور بُری بدعات کی تقسیم ضَروری ہے ورنہ کئی اچّھی اچّھی بدعتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو صِرْف اس لئے تَرْک کر دیا جائے کہ قُر ونِ ثلَاثہ یعنی شاہِ خیر الانام، صَحابہ کِرام و تابِعینِ عِظام ،صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم و علیھم الرضوان کے اَدوارِ پُر انوارمیں نہیں تھیں ،تو دین کا موجود ہ نِظام ہی نہ چل سکے۔جیسا کہ دینی مدارِس ، ان میں درسِ نظامی،قُراٰن و احادیث اور اسلامی کتابوں کی پریس میں چھپائی وغیرہ وغیرہ یہ تمام کام پہلے نہ تھے بعدمیں جاری ہوئے اور بدعتِ حَسَنہ میں شا مل ہیں۔بَہَرحال ربِّ ذُوالْجلال عزوجل کی عطا سے اُس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یقینا یہ سارے اچّھے اچّھے کام اپنی حیاتِ ظاہِری میں بھی ر ائج فرما سکتے تھے۔مگر اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے غلاموں کے لئے ثوابِ جارِیّہ کمانے کے بے شمار مَواقِع فراہم کر دئیے اوراﷲ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندوں نے صَدَقہ جارِیّہ کی خاطر جو شریعت سے نہیں ٹکراتی ہیں ایسی نئی ایجادوں کی دھوم مچا دی
۔​
 

alimula

Senator (1k+ posts)
عقل کو ہاتھ مارو کب رسول خدا نے پڑھی چلو ان کو چھوڑو مجھے یہ بتا دو کے کب حاکم مدینہ ابو بکر نے پڑھائی یا پڑھی اگر نہیں تو پھر یہ بدعت ہے اور بقول صحاح ستہ کے بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنم کا رستہ ہے تو اس لیے گمراہ مت ہو اگر یہ اچھی چہز ہوتی تو ابن عمر بھی پڑھتے

اس کا مطلب تم اپنے غلط کام کو دوسرے کے غلط کام سے جسٹی فائی کررہے ہو۔
تم اس وجہ سے عید میلاد مناتے ہو کہ دوسرے تراویح پڑتے ہیں؟؟
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
اس کا مطلب تم اپنے غلط کام کو دوسرے کے غلط کام سے جسٹی فائی کررہے ہو۔
تم اس وجہ سے عید میلاد مناتے ہو کہ دوسرے تراویح پڑتے ہیں؟؟
بات یہ نہیں ہے فلاسفر جی الزام لگانے والے کو اپنے گریبان میں پہلے جھانکنا چاہیے ہے کے وہ خود بدعتی تو نہیں ؟ میرے سوال کا جواب نہیں تو بہتر ہے خاموشی رہنے میں
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
سر جی اس میں پھر اور بڑی خواہ مخواہ کی حجتیں ہیں جیسے اچھی بدعت ، بُری بدعت، میٹھی بدعت، نمکین بدعت، کالی بدعت سفید بدعت ، گرمی کی بدعت سردی کی بدعت

رسول کریم کے اس دنیا سے ظاہری پردہ پوشی کے بعد دین کو موم کی ناک بنا دیا گیا اور یہ سلسلہ خیر سے آج تک جاری و ساری ہے جس کا دل چاہتا ہے ناک کو اپنی مرضی کے مطابق مڑوڑا دے دیتا ہے نہ اُس کے ایمان کا کچھ نقصان ہوتا ہے نہ اسلام کا
بدعت بدعت ہی ہے اور جس سے رسول خدا نے منع کر دیا وہ ذلت گمراہی ہے کوئی بندہ کوئی حدیث دکھا دے کے آپ رسالت مآب نے فرمایا ہو کے میری ولادت کا دن مت منانا ؟ جب کے تراویح خود ساختہ کو منع فرمایا فیصلہ امت کیوں نہیں کرتی مجھے کسی کے تراویح پڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں پر افر کوئی جشن ولادت عید میلاد النبی منانے کو بدعت کہے تو اس کو پھر اپنی بدعت کو بھی دیکھنا ہو گا پہلے
 

alimula

Senator (1k+ posts)
حُضُورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم،رسولِ مُحتَشَم،شافِعِ اُمَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مُعظَّم ہے، ''جو کوئی اسلام میں اچّھا طریقہ جاری کرے اُس کو اس کا ثواب ملے گااور اُس کا بھی جو (لوگ) اِس کے بعداُس پر عمل کریں گے اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں بُرا طریقہ جار ی کرے اُس پر اِس کا گناہ بھی ہے اور ان (لوگوں)کا بھی جو اِس کے بعد اِس پر عمل کریں اور اُن کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی۔(صحیح مُسلم ص۱۴۳۸، الحدیث ۱۰۱۷)

''کرم یا نبیَّ اللہ''بارہ حُرُوف کی نسبت سے12 بِدعاتِ حَسَنہ

اِس حدیثِ مبارَک سے معلو م ہوا، قِیامت تک اسلام میں اچّھے اچّھے نئے طریقے نکالنے کی اجازت ہے اوراَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ نکالے بھی جار ہے ہیں جیسا کہ (۱)امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تراویح کی باقاعِدہ جماعت کا اہتِمام کیا اور اس کو خود اچّھی بدعت بھی قرار دیا۔ اِس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وِصال ظاہری کے بعد صحابہ کرام علیھم الرضوان بھی جو اچھا نیا کام جاری کریں وہ بھی بدعتِ حَسَنہ کہلاتا ہے (۲)مسجِد میں امام کیلئے طاق نُما محراب نہیں ہوتی تھی سب سے پہلے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےمسجدُ النَّبَوِی الشّریف علیٰ صاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام میں محراب بنانے کی سعادت حاصل کی اِس نئی ایجاد( بد عتِ حَسَنہ) کو اس قَدَر مقبولیّت حاصل ہے کہ اب دنیابھر میں مسجد کی پہچان اِسی سے ہے (۳) اِسی طرح مساجِد پرگُنبدومیناربنانابھی بعدکی ایجادہے۔ بلکہ کعبے کے مَنارے بھی سرکارمدینہ وصحابہ کرام صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم وعلیھم الرضوان کے دَور میں نہیں تھے (۴) ایمانِ مُفَصَّل (۵) ایمانِ مُجْمَل (۶) چھ کلمے ان کی تعداد و ترکیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا اور ان کے نام (۷)قراٰنِ پاک کے تیس پارے بنانا،اِعراب لگانا ان میں رُکوع بنانا،رُمُوزِ اَوقاَف کی علامات لگانا۔بلکہ نُقطے بھی بعدمیں لگائے گئے،خوبصورت جِلدیں چھاپنا وغیرہ(۸)احادیثِ مبارَکہ کو کتابی شکل دینا،اس کی اَسناد پر جرِح کرنا،ان کی صحیح ، حَسَن، ضعیف اور مَوضُوع وغیرہ اَقسام بنانا (۹) فِقْہ ، اُصولِ فِقْہ وعِلْمِ کلام (۱۰)زکٰوۃ و فطر ہ سکّہ رائجُ الْوقت بلکہ با تصویر نوٹوں سے ادا کرنا(۱۱)اونٹوں وغیرہ کے بجائے سفینے یاہوائی جہازکے ذَرِیعے سفرِحج کرنا (۱۲) شریعت و طریقت کے چاروں سلسلے یعنی حنفی ،شافِعی، مالِکی ، حَنبلی اسی طرح قادِری نَقْشبندی،سُہروردی اور چشتی۔

ہر بدعت گمراہی نہیں ہے

ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذِہن میں یہ سُوال پیدا ہو کہ ان دو احادیث مبارکہ (۱) کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلاَ لَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلاَ لَۃٍ فِی النّار یعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنّم میں (لے جانے والی) ہے۔ (سُنَنُ النَّسائی ج۲ص۱۸۹) (۲)شَرَّ الْاُمُوْر ِمُحْدَثَا تُھَاوَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلا لۃ یعنی بدترین کام نئے طریقے ہیں ہر بدعت (نئی بات)گمراہی ہے۔(صحیح مسلم ص۴۳۰حدیث۸۶۷)

کے کیا معنیٰ ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں احادیثِ مبارکہ حق ہیں۔یہاں بدعت سے مُراد بدعتِ سَیِّئَہَ (سَیْ۔یِ۔ءَ ہْ)یعنی بُری بدعت ہے اور یقینا ہر وہ بدعت بُری ہے جو کسی سنّت کے خِلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہو۔جیسا کہ دیگر احادیث میں اس مسئلے کی مزید وضاحت موجود ہے چنانچِہ ہمارے پیارے پیار ے آقا مکّی مَدَنی مصطفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہروہ گمراہ کرنے والی بدعت جس سے اللہ اوراس کا رسول راضی نہ ہو تو اس گمراہی والی بدعت کو جاری کرنے والے پر اس بدعت پر عمل کرنے والوں کی مثل گناہ ہے، اسے گناہ مل جانا لوگوں کے گناہوں میں کمی نہیں کریگا۔(جامع ترمذی ج۴ص۳۰۹ حدیث۲۶۸۶) ایک اورحدیثِ مبارک میں مزید وَضاحت ملاحَظہ فرمائیے چُنانچِہ اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے ،اللہ کے محبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''مَنْ أحْدثَ فِيْ أمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ فِیْہِ فَھُوَ رَدٌّ۔'' (صحیح بخاری شریف ج۶ص۲۱۱ حدیث ۲۶۹۷) یعنی ''جو ہمارے دین میں ایسی نئی بات نکالے جو اس(کی اصل ) میں سے نہ ہو وہ مردود ہے۔'' ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا ایسی نئی بات جو سنّت سے دُور کرکے گمراہ کرنے والی ہو، جس کی اصل دین میں نہ ہووہ بدعتِ سَیِّئَہ یعنی بُری بدعت ہے جبکہ دین میں ایسی نئی بات جو سنّت پر عمل کرنے میں مدد کرنے والی ہو اور جس کی اصل دین سے ثابت ہو وہ بدعتِ حَسَنہ یعنی اچّھی بدعت ہے۔

حضرتِ سیِّدُ نا شیخ عبدُالْحق مُحَدِّث دِہلوی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی حدیثِ پاک ،'' وَّ کُلُّ ضَلالۃٍ فِی النّار'' کے تَحْت فرماتے ہیں،جو بِد عت کہ اُصول اور قوا عدِ سنّت کے مُوا فِق اور اُس کے مطابِق قِیاس کی ہوئی ہے (یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی)اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہے وہ بدعتِ ضَلالت یعنی گمراہی والی بدعت کہلاتی ہے ۔ (اَشِعَّۃُاللَّمعات ج اوّل ص ۱۳۵)

بدعتِ حَسنہ کے بغیر گزارہ نہیں

بھائی تو نماز پانچ ٹائم کی بجائے دس کردیتے ہیں یہ بھی اچھی بدعت ہوگی؟؟ کسی بھی حدیث میں پانچ نمازوں سے زیادہ پڑنے کا منع نہیں ہے؟؟
 

Muhammad Jibran

Chief Minister (5k+ posts)
46482531_276720589698949_8659899132510470144_n.jpg


Janab ab tou wahabi bhe manana shuru hougaey hain..... kab tak khud ko dhouka daingay app log.... koe mujhy tableeghi ijtima ya seerta conference Sahaba say sabit karday tou jo mangay wo dounga.
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)
میلاد منانا ہی اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ عید میلاد النبیﷺ میں اﷲ تعالیٰ کی نعمت رسولﷺ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ذکر رسولﷺ کرکے محفلیں منعقد کرکے اﷲ تعالیٰ کی نعمت کا چرچہ کرتے ہیں۔ رسول اﷲﷺ نعمت ہیں، اس نعمت کا ذکر کرتے ہیں، نئے کپڑے پہن کر، چراغاں کرکے صدقہ و خیرات کرکے اﷲ تعالیٰ کی نعمت پر خوشی مناتے ہیں۔ اس کا حکم قرآن مجید میں خود اﷲ تعالیٰ دیتا ہے۔

ترجمہ: تم فرماؤ اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ۔

(سورہ یونس آیت 58 پارہ11)

سوال: کیا رحمت عالمﷺ سے محبت کا سب سے بڑا ثبوت زندگی گزارنے کے لئے آپ کے طریقوں پر چلنا نہیں ہے؟

جواب: سرکارﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا واقعی میں محبت کی بنیاد ہے مگر یاد رہے جس سے محبت ہو، اس سے نسبت رکھنے والی ہرچیز سے محبت ہونی چاہئے، میلاد سے عداوت رکھ کر سنتوں پر عمل کرنا یہ سچی محبت نہیں ہے، عیب والی محبت ہے۔

سوال: کیا ایسا کوئی عمل جو سرور کونینﷺ کے اسوہ سے ثابت نہیں ہے کرنا دین میں اضافہ اور بدعت نہیں ہے؟

جواب: الحمدﷲ ہم نے میلاد کو سنت سے ثابت کردیا ہے، اب بدعت سے متعلق تفصیلا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

بدعت کا لغوی معنی

نیا کام، نئی ایجاد، نئی بات

بدعت کاشرعی معنی

ہر وہ کام جو سرکار اعظمﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں نہ ہو بلکہ بعد میں ایجاد ہوا ہو۔

بدعت کی دو قسمیں ہیں

(1) بدعت حسنہ (2) بدعت سیہ

اب ان دو اقسام پر روشنی ڈالتے ہیں

(1) بدعت حسنہ کی تعریف

ہر وہ طریقہ جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ میں نہ ہو ، بعد میں ایجاد ہوا ہو اور وہ کام شریعت کے خلاف نہ ہو جیسے نماز تراویح، جماعت کے ساتھ ادا کرنا، قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لئے بہت سے دوسرے علوم و فنون پڑھنا اور سیکھنا، دینی مدارس قائم کرنا، قرآن مجید کے اعراب کا لگایا جانا، قرآن مجید پر غلاف چڑھانا، قرآن مجید کی اعلیٰ طباعت کے ساتھ شائع کرنا، مساجد میں محرابیں بنانا، مساجد کے بلند مینار تعمیر کروانا، جمعہ کے دن دو اذانیں دینا، دانے والی تسبیح پڑھنا وغیرہ وغیرہ

کتاب کشاف اصطلاحات الفنون جلد اول صفحہ 122 میں حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ کے حوالے سے ہے کہ وہ بدعت جو کتاب اﷲ، سنت، اجماع یا اثر صحابہ کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعت حسنہ ہے۔

بدعت حسنہ پر عمل کرنا باعث اجروثواب ہے

الحدیث۔۔۔ من سنن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجرمن عمل بہا من غیر ان ینقص من اجورہم شئ

ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس کا ثواب ملے گا اور اس کا بھی جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے ثواب میں کچھ کمی نہیں ہوگی (ابو داؤد شریف)

فائدہ: یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر وہ اچھا کام جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ اقدس میں نہ ہو، بعد میں ایجاد ہوا ہو اور شریعت کے مخالف نہ ہو تو ایسے کام کو اپنانا اور ایجاد کرنا دونوں باعث اجر ہیں۔

الحدیث: عن ابی سلمہ ان النبیﷺ عن الامر یحدث لیس فی کتاب ولا سنۃ فقال ینظر فیہ العابدون من المومنین

ترجمہ: حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار اعظمﷺ سے ایسے نئے کام جس کی وضاحت کتاب وسنت میں ہو کے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس امر محدث کے بارے میں عابدین مومنین کو غوروفکر کرنا چاہئے (سنن دارمی باب النورع عن الجواب فی مالیس فیہ کتاب ولا سنتہ جلد اول ص 54)

فائدہ: اس حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر نئے کام کو برا سمجھ کر رد نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے لئے یہ واضح حکم موجود ہے کہ مجتہدین اور اہل اﷲ اس کے بارے میں فیصلہ کریں۔

اسی بناء پر حضرت امام نووی علیہ الرحمہ اور دوسرے بہت سے ائمہ نے بدعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں۔

(1) بدعت واجب، (2) بدعت مندوبہ، (3) بدعت مباحہ، (4) بدعت مکروہہ، (5) بدعت حرام

الحدیث: ماراہ المسلمون حسنا فہو عنداﷲ حسن

ترجمہ: جس کام کو مسلمان اچھا جانیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہے (موطا امام محمد باب قیام شہر رمضان ص 144)

(1) امام کاسانی علیہ الرحمہ بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:

اتباع مااشتہر العمل بہ فی الناس واجب

ترجمہ: جو عمل لوگوں میں مشہور ہوجائے جبکہ شریعت کے مطابق ہو، اس کی اتباع ضروری ہے (بحوالہ: بدائع الصنائع فصل فی بیان یامستحب فی یوم العید، جلد اول)

(2) علامہ بدرالدین عینی (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جو کام شریعت کے مخالف نہ ہو تو وہ ’’بدعت حسنہ‘‘ یعنی اچھی بدعت ہے۔

(3) علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ، شامی کے مقدمے میں فرماتے ہیں ’’یہ حدیث اسلام کے قوانین ہیں کہ جو شخص کوئی بری بدعت ایجاد کرے، اس پر تمام پیروی کرنے والوں کا گناہ ہے اور جو شخص اچھی بدعت نکالے، اسے قیامت تک اس عمل کی پیروی کرنے والوں کا ثواب ہوگا‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت کوئی چیز نہیں ہے تو یہ بات مسلم شریف کی حدیث کے خلاف بھی ہوسکتی ہے۔

(4) شیخ وحید الزماں جوغیر مقلدین اہلحدیث کے امام ہیں، حضرت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ کے حوالے سے اپنی کتاب ہدیۃ المہدی ص 117 میں لکھتے ہیں کہ بدعت حسنہ (اچھی بدعت) کو دانتوں سے (مضبوطی سے) پکڑ لینا چاہئے کیونکہ سرکار اعظمﷺ نے اس کو واجب کئے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے نماز تراویح۔

(5) حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے ماہ رمضان میں نماز تراویح کی جماعت کا اہتمام کیا تو کسی نے عرض کیا کہ یہ ’’بدعت‘‘ ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے جواب میں فرمایا ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے

فائدہ: ان تمام احادیث اور علمائے امت کے اقوال سے یہ بات نہایت آسانی سے معلوم ہورہی ہے کہ ہر وہ ایسا عمل جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ میں نہیں تھا بلکہ بعد میں ایجاد ہوا، اگر وہ شریعت مطہرہ اور سنت رسولﷺ کے مخالف نہیں تو اس پر عمل کرنا مستحب اور بعض صورتوں میں ضروری ہے۔

الحدیث: سرکار اعظمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اسلام میں اچھا طریقہ نکالا اس کے لئے اس کا ثواب ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب بھی (بحوالہ مسلم شریف، جلد تیسری، ص 718)

فائدہ: مسلم شریف کی حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر وہ اچھا کام جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ میں نہ ہو بعد میں ایجاد ہوا اور شریعت کے مخالف نہ ہو تو ایسے کام کو اپنانا اور ایجاد کرنا دونوں باعث اجر ہیں۔

تفسیر روح البیان میں ہے کہ وہ کام جسے علماء اور عارفین ایجاد کریں اور وہ سنت کے خلاف نہ ہو تو یہ اچھا کام ہے۔

(2)بدعت سیۂ کی تعریف

ہر وہ کام جو سرکار اعظمﷺ کے زمانے میں نہ ہو بلکہ بعد میں ایجاد ہوا ہو اور وہ شریعت کے مخالف ہو۔

(1) کتاب اصطلاحات الفنون ص 133 جلد اول میں ہے کہ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ بدعت جو کتاب، سنت، اجماع یا اثر صحابہ کے خلاف ہو تو یہ بدعت سیۂ یعنی بری بدعت ہے۔

(2) کتاب نیل الادطارباب صلوٰۃ جلد سوم ص 57 میں ہے کہ اگر بدعت ایسے وصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیۂ ہے۔

(3) امام حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ دین میں کسی ایسی نئی چیز کا ایجاد کرنا جس کی اصل (دلیل) شریعت میں نہ ہو)

(4) علامہ ابن منظور افریقی فرماتے ہیں کہ وہ نئی بات جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو، بدعت سیۂ ہے۔

(5) مشکوٰۃ المصابیح باب الاعتصام جلد اول میں ہے کہ جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی نیا عقیدہ ایجاد کیا کہ جو دین کے خلاف ہو تو ہو مردود ہے۔

(6) علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں کہ ’’ہر نیا کام بدعت ہے‘‘ سے مراد وہ نیا کام ہے جو شریعت کے مخالف ہو اور سنت کے موافق نہ ہو۔

معلوم ہوا کہ جو چیز اسلام سے ٹکرائے وہ بدعت سیۂ یعنی بری بدعت ہے اور جو دین اسلام سے نہ ٹکرائے اور جن کاموں کو قرآن و سنت میں منع نہیں کیا گیا، وہ بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اہل بیت اطہار نے سرکار اعظمﷺ کے ظاہری زمانے میں اور بعد میں اپنے دل سے بہت سی ایسی اچھی بدعتیں یا نئے کام بھی کئے، جن کا حکم نہ قرآن مجید میں آیا، جو نہ سرکار اعظمﷺ نے خود کئے اور نہ کرنے کا حکم دیا۔

(1) حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ کو قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دیا تو حضرت زید رضی اﷲ عنہ نے عرض کیاکہ آپ رضی اﷲ عنہ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو سرکار اعظمﷺ نے نہیں کیا؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ یہ کام اچھا ہے (بخاری شریف)

(2) نماز تراویح ایک عبادت ہے جو سرکار اعظمﷺ کی ظاہری حیات میں ہر سال پورے رمضان جماعت سے نہیں ہوئی تھی مگر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اسے رائج کرتے ہوئے اس کے لئے ’’بدعت‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور فرمایا ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے‘‘ (بخاری شریف)

(3) حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے جمعہ میں دو اذانوں کا طریقہ شروع کیا

(4) حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ایک ہی شہر میں نماز عید کے دو اجتماعات شروع کئے

(5) حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے علم نحو ایجاد کیا

(6) حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے علم صرف ایجاد کیا

(7) حضرت حباب رضی اﷲ عنہ نے پہلی مرتبہ شہید کئے جانے سے پہلے دو رکعت نفل ادا کئے

(8) حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے وعظ کے لئے جمعرات کا دن متعین کیا (بخاری شریف)

(9) حضرت بلال رضی اﷲ عنہ وضو کے بعد دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے حالانکہ سرکار اعظمﷺ نے انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا

(10) حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے قرآن مجید کو جمع کرکے ایک کتابی صورت تشکیل دی۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ایجاد کردہ کام ’’بدعت‘‘ ہیں یا ’’سنت‘‘؟ کچھ علماء کا خیال ہے کہ ’’سنت‘‘ ہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریقوں پر چلنے کی ہدایت سرکار اعظمﷺ کے فرمان میں موجود ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ایجاد کردہ کام ’’بدعت حسنہ‘‘ ہیں۔ حدیث شریف میں خلفائے راشدین کی ’’سنت‘‘ کا مطلب ان کا طریقہ ہے اور یہ طریقہ ان معنوں میں ’’سنت‘‘ نہیں جس طرح کہ سرکار اعظمﷺ کی سنت ہے۔

 

Muhammad Jibran

Chief Minister (5k+ posts)
Nabi e Pak صلی اللہ علیہ وسلم nay khud manaya apna Milad

Hazrat Abu Katada Se Riwayat Hai Ki,
Rasool’Allah (Sallallahu Alaihay Wasallam) Se Peer Ke Din Roze Ke Baare Me Pucha Gaya Toh,
Aapne Faramaya Ki: “Issi Din (Monday)
Meri Paidaish Hui Aur
Issi Din Se Mere Upar Nuzul Quraan Ki
Ibtida Hui”.
Sahih Muslim Book 006, Hadith Number 2606.(English Book Refrence)
 

NasNY

Chief Minister (5k+ posts)
To my knowledge this was first celebrated in Palestine approx 1100 years ago, in response to Christians celebrating Christmas.

As for if it should be done,
I heard at a Juma Khutba that made sense to me.

The Imam said,
You may not be doing anything wrong in doing innovation, but their are no guidelines in Islam for these innovations.
In time these innovations will grow into something else, get things added to it due to different cultures and backgrounds of Muslims in different

nations and this will lead them astray, your intentions may not be bad, but you will create something without guidelines and this will became part of religion for future generations. Therefore you must avoid innovations, Islam has everything a Muslim needs.

As you see in in videos people are creating structures and carting them around.
 

vvaqar

Senator (1k+ posts)
46482531_276720589698949_8659899132510470144_n.jpg


Janab ab tou wahabi bhe manana shuru hougaey hain..... kab tak khud ko dhouka daingay app log.... koe mujhy tableeghi ijtima ya seerta conference Sahaba say sabit karday tou jo mangay wo dounga.

اوئے دلّے
پہلے تو آسیہ کی گستاخی تو ثابت کرپھر تبلیغیوں کے اجتماع کی قصے کہانیاں بھی لوگوں سے سنتے رہنا
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
ﻧﻌﻢ ﻛﻞ ﻫﺬﺍ ﺻﺤﻴﺢ ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ - ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ، ﺻﺢ ﻋﻨﻪ - ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ - ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﻓﻲ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ ﻓﻲ ﺧﻄﺒﺔ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ : ‏( ﺧﻴﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﻠﻪ ، ﻭﺧﻴﺮ ﺍﻟﻬﺪﻱ ﻫﺪﻱ ﻣﺤﻤﺪٍ - ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ، ﻭﺷﺮ ﺍﻷﻣﻮﺭ ﻣﺤﺪﺛﺎﺗﻬﺎ ، ﻭﻛﻞ ﺑﺪﻋﺔٍ ﺿﻼﻟﺔ ‏) . ﺧﺮﺟﻪ ﻣﺴﻠﻢ ﻓﻲ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ . ﺯﺍﺩ ﺍﻟﻨﺴﺎﺋﻲ ﺑﺈﺳﻨﺎﺩٍ ﺣﺴﻦ : ‏( ﻭﻛﻞ ﺿﻼﻟﺔٍ ﻓﻲ ﺍﻟﻨﺎﺭ ‏)
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)
وال: کیا علمائے امت کے اقوال و افعال سے جشن عیدمیلاد النبیﷺ کا ثبوت ملتا ہے؟

جواب: اس امت کے بڑے بڑے مفتیان کرام، علماء کرام، مفسرین، محدثین، شارحین اور فقہاء نے اپنی اپنی کتابوں میں جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کو باعث اجر وثواب لکھا ہے، چنانچہ علمائے امت کے اقوال ملاحظہ ہوں۔

1۔ حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ (المتوفی 150ھ) آپ رحمتہ اﷲ علیہ کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کی دینی خدمات اس قدر ہیں کہ ساری دنیا کے مسلمان ان شاء اﷲ عزوجل تا قیامت کے علم سے مستفید رہیں گے۔ آپ رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ اپنے ’’قصیدہ نعمانیہ‘‘ میں حضور نبی اکرمﷺ کا میلاد شریف یوں بیان کرتے ہیں:

یعنی! ’’آپﷺ ہی وہ ہیں کہ اگر آپﷺ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا اور آپ پیدا نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ پیدا کیا جاتا۔ آپﷺ وہ ہیں جن کے نور سے چودھویں کا چاند منور ہے اور آپﷺ ہی کے نور سے یہ سورج روشن ہے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام آپ کی خوشخبری سنانے آئے اور آپﷺ کے حسن صفات کی خبر لے کر آئے‘‘ (قصیدۂ نعمانیہ، صفحہ 196، 195ء)

2۔ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ (المتوفی 204ھ) آپ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’میلاد شریف منانے والا صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا‘‘ (النعمتہ الکبریٰ بحوالہ ’’برکات میلاد شریف‘‘ ص 6)

3۔ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ (المتوفی 241ھ) آپ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں ’’شب جمعہ، شب قدر سے افضل ہے کیونکہ جمعہ کی رات سرکار علیہ السلام کا وہ نور پاک اپنی والدہ سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کے مبارک رحم میں منتقل ہوا جو دنیا و آخرت میں ایسی برکات و خیرات کا سبب ہے جوکسی گنتی و شمار میں نہیں آسکتا‘‘ (اشعتہ اللمعات)

4۔ امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (المتوفی 606ھ) فرماتے ہیں کہ ’’جس شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا۔ اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا تو ایسا شخص برکت نبوی سے محتاج نہ ہوگا اور نہ ہی اس کا ہاتھ خالی رہے گا‘‘ (النعمتہ الکبری، بحوالہ برکات میلاد شریف ص 5)

5۔ حضرت امام سبکی رحمتہ اﷲ علیہ (المتوفی 756ھ) آپ رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے ’’قصیدہ تائیہ‘‘ کے آخر میں حضور نبی کریمﷺ کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے۔

ترجمہ ’’میں قسم اٹھاتا ہوں کہ اگر تمام دریا و سمندر میری سیاہی ہوتے اور درخت میرا قلم ہوتے اور میں آپﷺ کی عمر بھر نشانیاں لکھتا تو ان کا دسواں حصہ بھی نہ لکھ پاتا کیونکہ آپ کی آیات و صفات ان چمکتے ستاروں سے بھی کہیں زیادہ ہیں‘‘ (نثرالدرر علی مولد ابن حجر، ص 75)

6۔ حافظ ابن کثیر (المتوفی 774ھ) فرماتے ہیں ’’رسول اﷲﷺ کی ولادت کی شب اہل ایمان کے لئے بڑی شرافت، عظمت، برکت اور سعادت کی شب ہے۔ یہ رات پاکی ونظافت رکھنے والی، انوار کو ظاہر کرنے والی، جلیل القدر رات ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس رات میں وہ محفوظ پوشیدہ جوہر ظاہر فرمایا جس کے انوار کبھی ختم ہونے والے نہیں‘‘ (مولد رسولﷺ، صفحہ 262)

7۔ امام حافظ بن حجر رحمتہ اﷲ علیہ (المتوفی 852ھ) نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ’’میرے لئے اس (محفل میلاد) کی تخریج ایک اصل ثابت سے ظاہر ہوئی، دراصل وہ ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے:

ترجمہ ’’حضور نبی کریمﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دسویں محرم کا روزہ رکھتے دیکھا۔ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے، جس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی، ہم اس دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھتے تھے‘‘

(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء ، رقم الحدیث 2004،

ص 321)

(صحیح المسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء رقم الحدیث 2656، ص 462)

علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے کسی معین دن میں احسان فرمانے پر عملی طور پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ پھر فرماتے ہیں حضور سرور کائنات نبی رحمتﷺ کی تشریف آوری سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے (نثرالدر علی مولد ابن حجر، ص 47)

8۔ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ (المتوفی 911ھ) آپ فرماتے ہیں کہ میلاد النبیﷺ کے سلسلہ میں منعقد کی جانے والی یہ تقریب سعید (مروجہ محافل میلاد) بدعت حسنہ ہے جس کا اہتمام کرنے والے کو ثواب ملے گا۔ اس لئے کہ اس میں حضور نبی کریمﷺ کی تعظیم، شان اور آپ کی ولادت باسعادت پر فرحت و مسرت کا اظہار پایا جاتا ہے (حسن المقصد فی عمل المولد، ص 173)

9۔ امام ملا علی قاری علیہ رحمتہ الباری (المتوفی 1014ھ) آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’جب میں ظاہری دعوت وضیافت سے عاجز ہوا تو یہ اوراق میں نے لکھ دیئے تاکہ یہ معنوی ضیافت ہوجائے اور زمانہ کے صفحات پر ہمیشہ رہے، سال کے کسی مہینے سے مختص نہ ہو اور میں نے اس کا نام ’’الموردالروی فی مولد النبیﷺ‘‘ رکھا ہے (المورد الروی ص 34)

10۔ حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’ہمیشہ مسلمان ولادت پاک کے مہینے میں محفل میلاد منعقد کرتے آئے ہیں اور دعوتیں کرتے ہیں اور اس ماہ کی راتوں میں ہر قسم کا صدقہ کرتے ہیں، خوشی مناتے ہیں، نیکی زیادہ کرتے ہیں اور میلاد شریف پڑھنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں‘‘ (انوار محمدیہ ص 29)

11۔ مفتی مکہ مکرمہ حضرت سید احمد زینی شافعی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’میلاد شریف کرنا اور لوگوں کا اس میں جمع ہونا بہت اچھا ہے‘‘ (سیرۃ نبوی ص 45)

ایک اور جگہ حضور مفتی مکہ مکرمہ فرماتے ہیں ’’محافل میلاد اور افکار اور اذکار جو ہمارے ہاں کئے جاتے ہیں ان میں سے اکثر بھلائی پر مشتمل ہیں جیسے صدقہ ذکر، صلوٰۃ و سلام، رسول خداﷺ پر اور آپ کی مدح پر‘‘ (فتاویٰ حدیثیہ ص 129)

12۔ محدث کبیر علامہ ابن جوزی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’یہ عمل حسن (محفل میلاد) ہمیشہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ، مصر، یمن و شام تمام بلاد عرب اور مشرق و مغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری ہے اور وہ میلاد النبیﷺ کی محفلیں قائم کرتے اور لوگ جمع ہوتے ہیں‘‘ (المیلاد النبوی ص 35-34)

13۔ استاد مسجد حرام مکہ مکرمہ شیخ محمد بن علوی المالکی الحسنی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’حضورﷺ اپنی میلاد شریف کے دن کی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر اسے بہت بڑا اور عظیم واقعہ قرار دیتے ہیں اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا فرماتے کہ یہ آپ کے لئے بہت بڑا انعام و اکرام و نعمت ہے۔ نیز اس لئے کہ تمام کائنات پر آپ کے وجود مسعود کو فضیلت حاصل ہے‘‘ (حوال الامتفال بالمولد النبوی شریف ص 9,8)

14۔ علامہ شہاب الدین احمد بن محمد المعروف امام قسطلانی فرماتے ہیں ’’حضورﷺ کے پیدائش کے مہینے میں اہل اسلام ہمیشہ سے محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانے پکاتے رہے اور دعوت طعام کرتے رہے ہیں۔ اور ان راتوں میں انواع و اقسام کی خیرات کرتے رہے اور سرور ظاہر کرتے چلے آئے ہیں‘‘ (مواہب لدنیہ جلد 1ص 27)

15۔ حضرت امام ابن جوزی رحمتہ اﷲ علیہ کے پوتے فرماتے ہیں ’’مجھے لوگوں نے بتایا کہ جو ملک مظفر (بادشاہ وقت) کے دسترخوان پر میلاد شریف کے موقع پر حاضر ہوئے کہ اس کے دسترخوان پر پانچ ہزار بکریوں کے بھنے ہوئے سر، دس ہزار مرغ، ایک لاکھ پیالی مکھن کی اور تیس طباق حلوے کئے تھے اور میلاد میں اس کے ہاں مشاہیر علماء اور صوفی حضرات حاضر تھے۔ ان سب کو خلعتیں عطا کرتا تھا۔ اور خوشبودار چیزیں سنگھاتا تھا اور میلاد پاک پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا (سیرۃ النبوی 45)

16۔ حضرت شاہ احمد سعید مجددی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’جس طرح آپ خود اپنی ذات پر درود وسلام بھیجا کرتے تھے، ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کے میلاد کی خوشی میں جلسہ کریں، کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات اور خوشی کے جو طریقے ہیں (ان کے) ذریعے شکر بجالائیں‘‘ (اثبات المولد والقیام ص 24)

17۔ پیران پیر حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ ہر اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کو سرکار دوعالمﷺ کے حضور نذرونیاز پیش فرماتے تھے (قرۃ الناظر ص 11)

18۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم رحمتہ اﷲ علیہ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں ’’میرے والد نے مجھے خبر دی کہ میں عید میلاد النبیﷺ کے روز کھانا پکوایا کرتا تھا۔ ایک سال تنگدست تھا کہ میرے پاس کچھ نہ تھا مگر صرف بھنے ہوئے چنے تھے۔ میں نے وہی چنے تقسیم کردیئے۔ رات کو سرکار دوعالمﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا اور کیا دیکھتا ہوں کہ حضورﷺ کے سامنے وہی چنے رکھے ہیں اور آپ خوش ہیں‘‘ (درثمین ص 8)

19۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا معمول تھا کہ 12 ربیع الاول کو ان کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ ذکر ولادت فرماتے پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے (الدرالمنظم ص 89)

20۔ مفتی اعظم شاہ محمد مظہر اﷲ دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ 12 ربیع الاول کو ہر سال بڑے تزک احتشام سے محفل میلاد منعقد کراتے، جو نماز عشاء سے نماز فجر تک جاری رہتی پھر کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کیا جاتا اور مٹھائی تقسیم ہوتی، کھانا کھلایا جاتا (تذکرہ مظہر مسعود ص 176)

علامہ ابن جوزی مولد العروس کے ص 9 پر فرماتے ہیں:

وجعل لمن فرح بمولدہ حجابا من النار و سترا، ومن انفق فی مولدہ درہما کان المصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم لہ شافعا ومشفعا

(اور جو پیارے مصطفیﷺ کے میلاد شریف کی خوشی کرے، وہ خوشی، دوزخ کی آگ کے لئے پردہ بن جائے اور جو میلاد رسول اﷲﷺ میں ایک درہم بھی خرچ کرے، حضورﷺ اس کی شفاعت فرمائیں گے اور ان کی شفاعت مقبول ہوگی)

اور ص 28پر محدث ابن جوزی یہ اشعار لکھتے ہیں

یا مولد المختار کم لک من ثنا۔۔۔ ومدائح تعلو وذکر یحمد

یالیت طول الدھر عندی ذکرہ۔۔۔ یالیت طول الدھر عندی مولد

(اے میلاد رسولﷺ تیرے لئے بہت ہی تعریف ہے اور تعریف بھی ایسی جو بہت اعلیٰ اور ذکر ایسا جو بہت ہی اچھا ہے۔ اے کاش طویل عرصے تک میرے پاس نبی پاکﷺ کا تذکرہ ہوتا، اے کاش طویل عرصے تک میرے پاس ان کا میلاد شریف بیان ہوتا)

اور ص 6 پر یہ شعر لکھتے ہیں

فلوانا عملنا کل یوم۔۔۔ لاحمد مولدا فدکان واجب

(اگر ہم رسول کریمﷺ کا روزانہ میلاد شریف منائیں تو بلاشبہ یہ ہمارے لئے واجب ہے)

23۔محدث ابن جوزی اپنے رسالہ المولد کے آخر میں لکھتے ہیں

اہل حرمین شریفین اور مصرویمن اور شام اور عرب کے مشرق ومغربی شہروں کے لوگ نبیﷺ کے میلاد کی محفلیں کرتے ہیں، ربیع الاول کا چاند دیکھ کر خوشیاں مناتے ہیں، غسل کرکے اچھے کپڑے پہنتے ہیں طرح طرح کی زینت کرتے ہیں اور خوشبو لگاتے ہیں اور نہایت خوشی سے فقراء پر صدقہ خیرات کرتے ہیں اور نبیﷺ کے میلاد شریف کا ذکر سننے کے لئے اہتمام بلیغ کرتے ہیں اور یہ سب کچھ کرنے سے بے پناہ اجر اور عظیم کامیابی پہنچتی ہے جیسا کہ تجربہ ہوچکا کہ نبیﷺ کے میلاد شریف منانے کی برکت سے اس سال میں خیروبرکت کی کثرت، سلامتی و عافیت، رزق میں کشادگی، اولاد میں مال میں زیادتی اور شہروں میں امن اور گھروں میں سکون و قرار پایا جاتا ہے (الدرالمنظم ص 101-100)

24۔ حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:

’’حضرت ایشاں فرموند کہ دوازدہم ربیع الاول‘‘ بہ حسب دستور قدیم ’’قرآن واندم و چیزے نیاز آں حضرتﷺ قسمت کردم وزیارت موئے شریف نمودم، در اثنائے تلاوت ملاء اعلیٰ حاضر شدند وروح پرفتوح آن حضرتﷺ بہ جانب ایں فقیر و دست واران ایں فقیر بہ غایت التفات فرموداراں ساعت کہ ملاء اعلیٰ و جماعت مسلمین کہ بافقیر بود بہ ناز ونیائش صعودی کنندہ برکات ونفحات ازاں حال نزول می فرماید‘‘ (ص 74، القول الجلی)

(حضرت شاہ ولی اﷲ نے فرمایا کہ قدیم طریقہ کے موافق بارہ ربیع الاول (یوم میلاد مصطفیﷺ) کو میں نے قرآن مجید کی تلاوت کی اور آنحضرتﷺ کی نیاز کی چیز کھانا وغیرہ) تقسیم کی اور آپﷺ کے بال مبارک کی زیارت کروائی۔ تلاوت کے دوران (مقرب فرشتے) ملاء اعلیٰ (محفل میلاد میں) آئے اور رسول اﷲﷺ کی روح مبارک نے اس فقیر (شاہ ولی اﷲ) اور میرے دوستوں پر نہایت التفات فرمائی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ ملاء اعلیٰ (مقرب فرشتے) اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت (التفات نبویﷺ کی برکت سے) ناز ونیائش کے ساتھ بلند ہورہی ہے اور (محفل میلاد میں) اس کیفیت کی برکات نازل ہورہی ہیں)

فیوض الحرمین میں حضرت شاہ ولی اﷲ نے مکہ مکرمہ میں مولد رسولﷺ میں اہل مکہ کا میلاد شریف منانا اور انوار وبرکات منانے کی برکتیں پانے کا تذکرہ حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی کی اپنی زبان سے ملاحظہ کرنے کے بعد خود کو ولی اللہی افکار و نظریات کے پیروکار کہلانے والے مزید ملاحظہ فرمائیں۔

شیخ الدلائل مولانا شیخ عبدالحق محدث الہ آبادی نے میلاد و قیام کے موضوع پر ایک تحقیقی کتاب لکھی جس کا نام ’’الدرالمنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظم‘‘ﷺ ہے۔ اس کتاب کے بارے میں علمائے دیوبند کے پیرحضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی فرماتے ہیں:

’’مولف علامہ جامع الشریعہ والطریقہ نے جو کچھ رسالہ الدر المنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظم میں تحریر کیا، وہ عین صواب ہے، فقیر کا بھی یہی اعتقاد ہے اور اکثر مشائخ عظام کو اسی طریقہ پر پایا، خداوند تعالیٰ مولف کے علم و عمل میں برکت زیادہ عطا فرماوے‘‘ (الدرالمنظم ص 146)

یہ کتاب ’’الدرالمنظم‘‘ علمائے دیوبند کی مصدقہ ہے۔ جناب محمد رحمت اﷲ مہاجر مکی، جناب سید حمزہ شاگرد جناب رشید احمد گنگوہی، جناب عبداﷲ انصاری داماد جناب محمد قاسم نانوتوی، جناب محمد جمیل الرحمن خان ابن جناب عبدالرحیم خان علمائے دیوبند کی تعریف وتقاریظ اس کتاب میں شامل ہیں۔ جناب محمد قاسم نانوتوی کے داماد نے اپنی تحریر میں جناب احمد علی محدث، جناب عنایت احمد، جناب عبدالحئی، جناب محمد لطف اﷲ، جناب ارشاد حسین، جناب محمد ملا نواب، جناب محمد یعقوب مدرس، اکابر علمائے دیوبند کا محافل میلاد میں شریف ہونا، سلام وقیام اور مہتمم مدرسہ دیوبند حاجی سید محمد عابد کا اپنے گھر میں محفل میلاد کروانے کا تذکرہ کیا اور جناب محمد قاسم نانوتوی کے لئے اپنی اور پیر جی واجد علی صاحب کی گواہی دی ہے کہ نانوتوی صاحب محفل میلاد میں شریک ہوتے تھے۔

الدر المنظم کتاب کا ساتواں باب ان اعتراضات کے جواب میں ہے جو میلاد شریف کے مخالفین کرتے ہیں یا کرسکتے ہیں۔ جی تو میرا یہی چاہتا ہے کہ یہ باب پورا ہی نقل کردوں تاہم مولانا عبدالحق محدث الہ آبادی نے اپنی کتاب کے ساتویں باب میں جن اہل علم ہستیوں کی تحریروں سے میلاد شریف کا جواز (جائز ہونا)پیش کیا ہے، ان تمام کے نام اور ان کی کتابوں کے نام اسی ترتیب سے نقل کررہا ہوں جس ترتیب سے مولانا عبدالحق نے نقل کئے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:

1۔ مولانا محمد سلامت اﷲ مصنف اشباع الکلام فی اثبات المولد والقیام

2۔ امام ابو محمد عبدالرحمن بن اسمٰعیل المعروف ابی شامہ، المصنف الباعث علی انکار البدع والحوادث

3۔ علامہ محمد بن یوسف شامی، سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد (سیرۃ شامی)

4۔ علامہ امام جلال الدین سیوطی، مصباح الزجاجہ علی سنن ابن ماجہ، الرسالہ حسن المقصد فی عمل المولد

5۔ امام حافظ ابو الخیر شمس الدین الجزری، عرف التعریف بالمولد الشریف

6۔ شیخ ابوالخطاب بن عمر بن حسن کلبی المعروف ابن وجیہ اندلسی، سماہ التنویر فی مولد البشیر النذیر

7۔ امام ناصر الدین المبارک المعروف ابن بطاح، فی فتویٰ

8۔ امام جمال الدین بن عبدالرحمن بن عبدالملک

9۔ امام ظہیر الدین بن جعفر

10۔ علامہ شیخ نصیر الدین طیالسی

11۔ امام صدر الدین موہوب بن عمر الشافعی

12۔ امام محدث ابن جوزی، المولد العروس، المیلاد النبوی

13۔ امام ملا علی قاری حنفی، المورد الروی فی موالد النبوی

14۔ امام شمس الدین سخاوی

15۔ علامہ شیخ شاہ عبدالحق محدث دہلوی، ماثبت من السنہ ومدارج النبوۃ

16۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی، الدر الثمین، فیوض الحرمین، الانبتاہ

17۔ شاہ اسماعیل دہلوی فی فتویٰ

18۔ علامہ شاہ محمد اسحق، فی فتویٰ

19۔ علامہ جمال الدین مرزا احسن علی لکھنؤی فی فتویٰ

20۔ مفتی محمد سعد اﷲ فی فتویٰ

21۔ علامہ شیخ جمال الفتنی حفنی، مفتی مکہ فی فتویٰ

22۔ علامہ شہاب الدین خفاجی، رسالہ عمل المولد

23۔ علامہ عبدالرحمن سراج بن عبداﷲ حنفی، مفتی مکہ فی فتویٰ

24۔ علامہ ابوبکر حجی بسیونی مالکی، مکہ فی فتویٰ

25۔ علامہ محمد رحمتہ اﷲ مفتی مکہ فی فتویٰ

26۔ علامہ محمد سعید بن محمد باصیل شافعی، مفتی مکہ فی فتویٰ

27۔ علامہ خلف بن ابراہیم حنبلی، مفتی مکہ فی فتویٰ

28۔ شاہ عبدالغنی نقشبندی فی فتویٰ

29۔ علامہ حافظ شمس الدین ابن ناصر الدین الد مشقی، مورد الصاوی فی مولد الہادی، جامع الاسرار فی مولد النبی المختار، اللفظ الرائق

30۔ علامہ ابو عبداﷲ محمد زرقانی، شرح مواہب لدنیہ

31۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی، فی فتویٰ

32۔ شاہ رفیع الدین دہلوی، فی فتویٰ

33۔ امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی،مکتوبات

34۔ مولانا محمد مظہر، مقامات سعیدیہ

35۔ مولانا کرامت علی جون پوری، رسالتہ الفیصلہ

36۔ امام بدرالدین عینی، عمدۃ القاری شرح بخاری

کتاب المدرالمنظم کا ساتواں باب ص 93 سے شروع ہوکر ص 136 تک چالیس صفحات کی ضخامت میں سمایا ہوا ہے۔ اہل علم شخصیات کے ناموں کی مذکورہ فہرست میں ان ہستیوں اور کتابوں کے نام نہیں لکھے گئے جن کی تحریروں سے دلائل کو ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا گیا ہے۔

 

alimula

Senator (1k+ posts)
بات یہ نہیں ہے فلاسفر جی الزام لگانے والے کو اپنے گریبان میں پہلے جھانکنا چاہیے ہے کے وہ خود بدعتی تو نہیں ؟ میرے سوال کا جواب نہیں تو بہتر ہے خاموشی رہنے میں
میرا سوال تو پڑھ لیں۔ اپ نے تراویح کو میلاد سے کمپیر کیا ہے۔ اپکا مطلب دونوں ہی بدعت ہیں اپکی اور ایک اپکے مخالف فرقے کی۔ اپ کی بدعت اس وجہ سے جسٹی فائی ہے کہ اپکے مخالف فرقہ بھی ایک بدعت کرتا ہے؟
کیوں کہ اپکا مخالف بھی ایک بدعت کرتا تو اپ کو بھی کم سے کم ایک بدعت کی اجازت ملنی چاہیے۔ بات تو انصاف کی ہے۔
یہ تو وہ پنچایت ولا فیصلہ ہوا کہ ایک خاندان کی لڑکی کا ریپ ہوا تو پنچایت نے فیصلہ دیا کہ لڑکی کے خاندان سے ایک مرد دوسرے خاندان کی لڑکی کو ریپ کرے گا؟
اللہ ہی حافظ ہے ایسی لوجک کا
 

Back
Top