what should be the law or constitution of pakistan..."true islam only"

drkjke

Chief Minister (5k+ posts)
what should be the law or constitution of pakistan..."only quran and sunnah"

read this column and reflect.





ابن تیمیہ سے علامہ اقبالؒ تک غلام اکبر

علم و تحقیق کے حوالے سے مسلم تاریخ کی بہت بڑی شخصیات میں ابن تیمیہؒ‘ ابن خلدون ؒاور ابن بطوطہؒ کا تعلق تقریباً ایک ہی عہد سے تھا۔ میرا اشارہ سقوط بغداد کے بعد کے زمانے سے ہے۔ بارہویں صدی کے آخر اور تیرہویں صدی کے آغاز میں مسلمانوں نے صلیبی جنگوں میں فیصلہ کن فتح حاصل کی تھی۔ اگرچہ وہ خطرہ تو ٹل گیا تھا جو بیت المقدس پر صلیبی لشکروں کی یلغار اور قبضے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ اب خطرہ اس بات کا تھا کہ اہل صلیب ایک بار پھر مشرق وسطیٰ پر غالب آجائینگے اور اس خطرے کے احساس کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب بغداد کی خلافت عباسیہ کازوال تھا۔دوسری طرف ہسپانیہ میں بھی مسلمانوں کا سفرِ زوال بڑی تیزی سے جاری تھا۔ بغداد کے بعد ” اسلامی قوت“ کے دو بڑے مرکز دمشق اور قاہرہ تھے جو امراءکی سازشوں اور اقتدار کی بندر بانٹ کا بڑا بھیانک نقشہ پیش کررہے تھے۔
ایسے میں پہلے عماد الدین زنگی اور پھر انکے بیٹے نورالدین زنگی کا ظہور ہوا جن کی کوششوں سے دمشق میں وہ سیاسی استحکام پیدا ہوا جو اس دور کی مسلم دنیا میں تقریباً مفقود ہو چکا تھا۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوںکہ ”سیاسی استحکام“کی ترکیب دورِ جدید کی پیداوار نہیں۔ جب سے دنیا میں ریاست کا تصور ابھرا ہے اور اس کےساتھ اقتدار اور حکمرانی کے تصورات جڑے ہیں تب سے ”سیاسی استحکام“ کی ترکیب مورخین کے استعمال میں رہی ہے۔
نور الدین زنگی کا سپہ سالار وہ بطلِ جلیل تھا جس کے مقدر میں مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کا نجات دہندہ بننا لکھا تھا اور جس کا نام صلیبی تاریخ میں بھی اسی قدر روشن ہے جس قدر اسلامی تاریخ میں۔ میری مراد صلاح الدین ایوبیؒ سے ہے جنہوں نے پہلے شام میں سیاسی استحکام پیدا کیا اور پھر یکے بعد دیگرے لڑی جانےوالی دو بڑی صلیبی جنگوں میں یورپ کی افواج کو فیصلہ کن شکستیں دےکر بیت المقدس کو غیروں کے تسلط سے آزاد کرالیا۔ صلاح الدین ایوبی ؒنے مصرمیں بھی ایک مستحکم حکومت قائم کی جس کا فائدہ عالم ِاسلام کو چند دہائیاں بعد اس خوفناک طوفان کے خونیں اور تباہ کن نتائج سے نمٹتے وقت ہوا جسے تاریخ ” وحشت و بربریت کا منگول سیلاب“ کے زیرِ عنوان یاد کرتی ہے۔
چنگیز خان کی وحشیانہ یلغار کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ آگ موت اور تباہی کے اس طوفان نے سلطنتِ خوارزم اور اسکی شان و شوکت کے تمام نشانات یعنی بلخ بخارا سمر قند تاشقند اور کاشغر وغیرہ کو تاریخ کے کباڑخانوں میں پھینک دیا۔ چند ہی برس بعد چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔جولائی 1258ءمیں سقوطِ بغداد کا سانحہ مسلمانوں کے سیاسی عدمِ استحکام کے ایک طویل دور کے لرزا دینے والے انجام کا درجہ رکھتا ہے۔ سیاسی عدمِ استحکام کے اس دور اور اسکے خوفناک نتائج کا تجزیہ چند دہائیاں بعد ابن خلدون ؒنے اپنے شہرہ آفاق ” مقدمہ “ میں کیا۔
بغداد کی تباہی کے وقت دمشق کے لوگ ایک ایسے محقّق مدّبر اور مصلح کے نام سے بخوبی واقف تھے جو انہیں بتا رہا تھا کہ جو معاشرے اپنی فکری اساس سے ہٹ کر اخلاقی انحطاط کاشکار ہوتے ہیں وہ اپنے خارجی دشمنوں کی یلغار کے سامنے مدافعت کی چٹان بننے کی امنگ سے بھی اور قوت سے بھی محروم ہوجایا کرتے ہیں۔
اس محقّق مدّبر اور مصلح کا نام ابن تیمیہؒ تھا جنہیں آج کے دور کے مغربی یا مغرب زدہ لبرل مفکر اسلامی بنیاد پرستی کا ایک بڑا ”موجد“ قرار دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ابن تیمیہؒ کا پیغام ”ان عظیم اقدار کی طرف واپسی کا پیغام“ تھا جن سے مسلّح ہو کر عرب شہسوار حجاز کے ریگستانوں سے نکلے تھے اور چشم ِزدن میں مغرب و مشرق‘ اور شمال و جنوب کے طول و عرض میں طوفان بن کر چھا گئے تھے۔ ایک ایسا طوفان جس کی زد میں آکر قیصر و کسریٰ کا سارا جاہ وجلال خس و خاشاک کی طرح اڑ گیا تھا۔ اور اس لحاظ سے وہ یقیناً بنیاد پرست تھے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر ہم ان اقدار کی ہی نفی کرینگے جو اسلام کی بنیاد ہیں تو ہمارے پاس مسلمان کہلوانے کاکیا جواز باقی رہ جائےگا؟ ابن تیمیہؒ کا کہنا تھاکہ قرآن حکیم ہر مسلمان کےلئے آئین کا درجہ رکھتا ہے اور جو شخص جان بوجھ کر اس آئین کی نفی کرےگا یا اسکے نفاذ کے راستے میں رکاوٹ بنے گا اسے دائرہ اسلام سے خارج ہی سمجھا جانا چاہئے۔ یہ تعلیم اگر بنیاد پرستی تھی تو میرے خیال میں دنیا کے ہر کلمہ گو کو اپنے بنیاد پرست ہونے پر فخر کرنا چاہئے۔
جہاں تک ابن تیمیہؒ کے شدت پسند رحجانات کا تعلق ہے تو ہمیں یہ بات ہر گز نہیں بھولنی چاہئے کہ وہ ایک ایسے عہد میں اسلامی امنگوں کے نقیب اور اسلامی احتجاج کی علامت تھے‘ جس عہد میں مسلمانوں کی شان و شوکت کے تقریباً تمام نشانات اور مظاہر ”حرفِ غلط“ کی طرح مٹا دیئے گئے تھے۔ انہوں نے بلخ بخارا سمرقند تاشقند اور کاشغر میں بلند کئے جانےوالے ”مسلمانوں کی کھوپڑیوں کے مینار“ دیکھے تو نہیں ہونگے۔ انکے بارے میں کچھ چشم دید گواہوں سے سنا ضرور ہو گا اور دریائے دجلّہ کے لہولہو ہو جانے کا سانحہ تو ابن تیمیہؒ کے اپنے خطے میں پیش آیا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انکے کانوں تک تہ تیغ ہونےوالے لاکھوں مسلمانوں کی یہ فریاد نہ پہنچی ہو کہ ”ہمیں سزا ہمارے حاکموں کی بدکرداریوں اور بداعمالیوں کی ملی ہے۔“ بدکردار اور بداعمال حاکموں کے بوئے جانےوالے بیج قوموں اور معاشروں کے مقدر میں کیسی کیسی تباہیوں کی فصل لکھا کرتے ہیں۔ اس کا بھرپور احاطہ ابن تیمیہؒ کے بعد آنےوالے اس بطلِ جلیل نے کیا جس کا مجسمہ تونس کے وسط میں کھڑا آج بھی ہمیں دعوت فکر دیتا ہے۔
یہ ذکر ابن خلدونؒ کا ہے جنہیں ہیروڈوٹس کے بعد دنیا کا سب سے بڑا مورخ بھی سمجھا جاتا ہے اور فلسفہ تاریخ کا موجد بھی۔ ابن خلدونؒ نے اپنے مقدمہ میں لکھا کہ ”جن ملکوں قوموں اور معاشروں میں سیاسی اقتدار ان کے تاجر طبقوں اور حصول ِزر میں مصروف خاندانوں کے ہاتھوں میں چلا جایا کرتا ہے وہاں اقدار کی بیخ کنی اور اخلاقیات کی آبروریزی کا عمل اتنی تیزی سے پھلتا پھولتا ہے کہ انہیں تباہی اور زوال سے بچانا ممکن نہیں رہتا۔“ اپنے عہد سے پہلے کی دو صدیوں میں مسلمانوں کے زوال کے اسباب کا جائزہ ابن خلدونؒ نے بڑی ہی عمیق بینی سے لیا۔ اور اس نتیجے پر پہنچنے میں انہیں ذرا برابر بھی مشکل پیش نہ آئی کہ ”تجارت اور سیاست“ کا ایک ہاتھ میں یا ایک چھت کے تلے آنا معاشرے کی تباہی کا باعث بنے بغیر نہیں رہتا۔ اپنے دور کے حاکموں اور اپنے بعد آنےوالے حاکموں کےلئے ابن خلدونؒ کا ایک ہی پیغام تھا۔
”حکومت کرنی ہے تو تجارت اور حصول زر سے دستبردار ہو جاﺅ۔ اگر تجارت کرنی ہے اور مال کمانا ہے تو حکومت سے نکل جاﺅ۔“
میرے خیال میں یہ پیغام ہمیں ایک کتبے کی صورت میں بلال ہاﺅس‘ رائے ونڈ محل‘ ایوان صدر‘ قومی اسمبلی اور اقتدار کے تمام ایوانوں پر چسپاں کر دینا چاہئے۔ ابن خلدونؒ کے قریب قریب ہی ابن بطوطہؒ کا نام ابھر کر سامنے آتا ہے جو 1325ءمیں مراکش کے شہر طنجہ سے مکہ شریف کی زیارت کےلئے نکلے تھے اور اپنی زندگی کی اگلی تین دہائیاں انہوں نے کرہ ارض کی سیاحت میں گزار دیں۔ ان کا سفر نامہ علم کی دنیا میں روشنی کے ایک مینار کا درجہ رکھتا ہے۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا۔
”جب تک میں طنجہ میں تھا تو میں نہیں جانتا تھا کہ تکبیر کی اذانیں صرف دنیائے عرب میں نہیں پوری دنیا میں گونجتی ہیں۔ آج میں یہ سوچ کر فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک ایسی تہذیب کا وارث ہوں جو افریقہ کے صحراﺅں پر بھی راج کرتی ہے اور ان عظیم الشان درباروں پر بھی جو دنیا کے دوسرے کنارے یعنی چین تک پھیلے ہوئے ہیں۔“
ابن بطوط ؒ کا سفرنامہ اس تاریخی عمل کی اولین بڑی دستاویز کا درجہ رکھتا ہے جسے ہم آج گلوبلائزیشن کا نام دیتے ہیں۔
ہمارے لبرل مفکروں کو شاید میرا یہ موقف ناگوار گزرے کہ گلو بلائزیشن کی تحریک کا آغاز اس لشکر سے ہوا تھا جو آنحضرت نے اپنی وفات سے چند روز قبل تشکیل دیا تھا اور جس کی سالاری اسامہ بن زید بن حارث ؓ کو دی گئی تھی۔
آج ہم ویسے ہی چیلنجوں کاسامنا کررہے ہیں جیسے چیلنجوں کا سامنا ابن تیمیہؒ ابن خلدونؒ اور ابن بطوطہؒ کے عہد کے مسلمان کر رہے تھے۔ وہ تین نام تو ہمارے ورثے میں ہیں ہی‘ اب ایک اور نام کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ علامہ اقبالؒ ع
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلئے
....!
 
Last edited:

drkjke

Chief Minister (5k+ posts)
Re: what should be the law or constitution of pakistan..."quran ad sunnah"

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر ہم ان اقدار کی ہی نفی کرینگے جو اسلام کی بنیاد ہیں تو ہمارے پاس مسلمان کہلوانے کاکیا جواز باقی رہ جائےگا؟ ابن تیمیہؒ کا کہنا تھاکہ قرآن حکیم ہر مسلمان کےلئے آئین کا درجہ رکھتا ہے اور جو شخص جان بوجھ کر اس آئین کی نفی کرےگا یا اسکے نفاذ کے راستے میں رکاوٹ بنے گا اسے دائرہ اسلام سے خارج ہی سمجھا جانا چاہئے۔ یہ تعلیم اگر بنیاد پرستی تھی تو میرے خیال میں دنیا کے ہر کلمہ گو کو اپنے بنیاد پرست ہونے پر فخر کرنا چاہئے۔
ہمارے لبرل مفکروں کو شاید میرا یہ موقف ناگوار گزرے کہ گلو بلائزیشن کی تحریک کا آغاز اس لشکر سے ہوا تھا جو آنحضرت نے اپنی وفات سے چند روز قبل تشکیل دیا تھا اور جس کی سالاری اسامہ بن زید بن حارث ؓ کو دی گئی تھی۔



 
Last edited:

angryoldman

Minister (2k+ posts)
Re: what should be the law or constitution of pakistan..."quran ad sunnah"

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر ہم ان اقدار کی ہی نفی کرینگے جو اسلام کی بنیاد ہیں تو ہمارے پاس مسلمان کہلوانے کاکیا جواز باقی رہ جائےگا؟ ابن تیمیہؒ کا کہنا تھاکہ قرآن حکیم ہر مسلمان کےلئے آئین کا درجہ رکھتا ہے اور جو شخص جان بوجھ کر اس آئین کی نفی کرےگا یا اسکے نفاذ کے راستے میں رکاوٹ بنے گا اسے دائرہ اسلام سے خارج ہی سمجھا جانا چاہئے۔ یہ تعلیم اگر بنیاد پرستی تھی تو میرے خیال میں دنیا کے ہر کلمہ گو کو اپنے بنیاد پرست ہونے پر فخر کرنا چاہئے۔
ہمارے لبرل مفکروں کو شاید میرا یہ موقف ناگوار گزرے کہ گلو بلائزیشن کی تحریک کا آغاز اس لشکر سے ہوا تھا جو آنحضرت نے اپنی وفات سے چند روز قبل تشکیل دیا تھا اور جس کی سالاری اسامہ بن زید بن حارث ؓ کو دی گئی تھی۔

Very well said .libral aur roshan khiyalon ki fundalist ya extremist ky sath yeh jang bohat zayada purani nahi hai.aur agar quran ko ayin samjna extremism hai to alhamdolillah hum extremist hain.
 

Bombaybuz

Minister (2k+ posts)
All went over my head ... Humari barbadi main tou 4 general aur 40 Siasatdanon ka haath hai lakin Saqoot a baghdad main ya Ali baba aur 40 choor kahan they ... koun see media war thi wahan? kahan ki foreign policy? kahan kis k vasted interest ? after caliphate our history got nothing but trators, goons, womanisers, drunkards, and idiots ... with no vision what so ever .. do we question why there are no famous muslim historians and if there are few they are all paid associated to palace or dynasty ... don't tell me the area of Usmanian empire tell me its contribution towards humanity or any connection with the present time progress of science and tecnology ... long story short our history is full of nothing but betrayal, blood, bulls*it...

But our future will be bright thought there is hard any thing left to be created but one thing for sure the justice the values they peace the best socio economic system will be given to this world from us.