Re: What is the sunnah of Prophet (pbuh) for Shab e Barat or Middle of Sha'ban
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس شب کے بارے میں جو فضائل بیان کئے جاتے ہیں وہ سب ماہ رمضان المبارک میں لیلة القدر کے ہیں
کتب حدیث پرنظر ڈالی جائے تو صحیح حدیثوں سے اس مہینے میں صرف روزوں کاحکم پایا جاتاہے
جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھاہے کہ شعبان سے زیادہ(رمضان کے بعد)کسی مہینہ میں روزہ رکھتے ہوں،چند دن چھوڑ کر پورے ماہ روزہ رکھتے تھے
( ترمذی کتاب الصوم باب:٣٧حدیث: ٧٣٦)
جمہور علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اوپر بیان کی گئی فضیلت کے علاوہ ماہ شعبان اور اس ماہ کی پندرہویں رات کی فضیلت میں وارد ہونے والی تمام روایتیں ضعیف اور بعض موضوع اور بے اصل ہیں، اسی لئے ایسی حدیثیں بخاری ومسلم میں جگہ نہ پا سکیں. اگر یہ رات فضیلت کی رات ہوتی تو صحابہ کرام میں اس کا چرچا ہوتا ، مشہور اور ثقہ راوی اسے روایت کرتے اتنی اہم بات جس کا عام چرچا ہونا چاہئے صرف ضعیف راویوں ہی کو کیسے معلوم ہوئی؟ اس لئے ان ضعیف روایتوں کا سہارا لے کر اس رات کی فضیلت کو بیان کرنا یا اسے تہوار کی شکل دینا قطعاً جائز ودرست نہیں۔
شعبان سے متعلق ضعیف اور موضوع احادیث کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
١۔نصف شعبان کی رات کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والی روایت
حضرت على بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتواس رات کا قیا م کرو اوراس دن روزہ رکھو,اسلئے کہ اللہ غروب آفتاب کےساتھ ہی سماء دنیا پرنزول فرماتے ہیں- اورکہتے ہیں :کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسکی مغفرت کروں؟ کوئی رزق کا متلاشی ہے کہ میں اسے نوازوں ,کوئی مصیبت کا مارا ہے کہ میں اسے عافیت بخشوں,کیا کوئی ایسا ہے کیا کوئی ایسا ہے- حتى کہ طلوع فجرکا وقت ہوجاتا ہے-
رواه ابن ماجة في سننه: كتاب إقامة الصلاة 1/444 برقم 1390
امام بوصیری نے اس حدیث کی سند میں موجود راوی ابن ابی سبرہ پرشدید کلام کیا ہے اوراسے روایتیں گھڑنے والا قراردیا ہے- اسی لئے علامہ البانی نے اسکی سند کوضعیف جدا یا موضوع کہا ہے- اسی طرح ابی سبرہ پر امام ابن معین اور حافظ ابن ہجر نے سخت جرح کی ہے
التقريب 2/397: ضعيف ابن ماجة (الألباني) ص 103 برقم 294
٢۔ ١٥ شعبان کی رات کو قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت والی روایت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کواپنے پاس نہ پایا تومیں آپ کی تلاش میں نکلی آپ صلى اللہ علی وسلم بقیع میں تشریف فرماتھے- آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا تم ڈرتی تھی کہ اللہ اوراسکے رسول تم پرظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !مجھے گمان گذرا کہ آپ اپنی بعض ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے ہیں, توآپ نے فرمایا :" بے شک اللہ تبارک وتعالى پندرہویں شعبان کی شب کونچلے آسمان پرنزول فرماتے ہیں اورقبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں-
رواه احمد في مسنده 6/238,والترمذي في سننه:أبواب الصيام 2/121-122 برقم 736,وابن ماجة في سننه :كتاب إقامة الصلاة 1/444 برقم 915)
اس حدیث کوامام بخاری,امام ترمذی,امام دارقطنی,امام ابن جوزی,علامہ البانی اورشیخ ابن باز رحمہم اللہ وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے
سنن الترمذي 2/122والعلل المتناهية 2/66 وضعيف ابن ماجة 103-104 والتحذيرمن البدع لابن بازص 28
٣۔پندرہویں شعبان کی رات کو بارہ رکعت والی نمازپڑھنے کی فضیلت سے متعلق روایت
علامہ ابن الجوزی نے الموضوعات 2/129 میں فرمایا ہے- :"ھذا موضوع ایضا" یہ بھی من گھڑت ہے - ابن القیم نے اسے المنارالمنیف ص 99 زیرنمبر177, اورسیوطی نے اللآلی المصنوعۃ 2/59 میں ذکرکرنے کے بعد اس پروضع کا حکم لگایا ہے
٤۔ پندرہویں شعبان کی رات کو سو رکعت والی نماز پڑھنے کی فضیلت والی روایت
ھ"اے على !جوشخص شعبان کی پندرہویں شب سورکعت نمازپڑھے ,ہررکعا ت میں سورہ فاتحہ اورقل هو اللہ احد دس مرتبہ پڑھے" - نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے على! جوبھی بندہ ان نمازوں کوپڑھے گا- اللہ اس شب اسکی مانگی ہوئی ہرضرورت پوری کردیتا ہے"-ھ
اس کوابن الجوزی نے تین طرق سے اپنی کتاب الموضوعات میں ذکرکیا ہے جسے صرف جھوٹی حدیثوں کے لئے ہی ترتیب دیا ہے تاکہ امت ان احادیث موضوعہ کوپہچان کران سے بچ سکے- حدیث علی کے لئے دیکھئے یہی الموضوعات 2/127-128-129 -امام سیوطی نے بھی اس پرمن گھڑت ہونے کا حکم لگایا ہےاللآلی المصنوعۃ ھ2/57-58-59-
٥- ساری مخلوق کی مغفرت والی حدیث
نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا :"اللہ تعالى پندرہویں شب مطلع ہوتے ہیں اوراپنی ساری مخلوق ماسوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کی مغفرت فرماتے ہیں-جبکہ یہی حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے-
دیکھئے صحیح ابن حبان:کتاب الحظروالإباحة ,باب ماجاء فی التباغض والتحاسد والتنابز 12/ 184 برقم5656,وابن ابي عاصم في السنة ص 224 برقم 512,والطبراني في المعجم الكبير20/108-109 برقم 215,نيزديکھئے طبرانی کی ہی مسند الشامین زیرنمبر205, وابونعیم فی حلیۃ الأولیاء 5/191-
امام البانی رحمہ اللہ نے "السنة" ص 224میں فرمایا:"حدیث صحیح,ورجاله موثوقون,لکنه منقطع بین مکحول ومالک بن یخامرولولا ذلک لکان الإسنادحسنا,ولکنه صحیح بشواهدہ المتقدمة" یہ حدیث صحیح ہے - اسکے رواۃ توثیق شدہ ہیں ,لیکن اسمیں مکحول اورمالک بن یخامرکے درمیان سند میں انقطاع ہے- ورنہ سند حسن ہوتی - لیکن یہ دوسرے شواہد کی وجہ سے صحیح ہے"ھ
علامہ البانی نے ایسا ہی کلام سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ 3/135میں بھی ذکرکیا ہے-
اس حدیث کواگرصحیح لغیرہ بھی مان لیا جائے لیکن اسمیں پندرہویں شب کی فضیلت دوسری راتوں کے مقابلے میں بالکل ثابت نہیں ہوتی ہے- اسلئے کہ صحیحین کی حدیث کے مطابق ایسا بلکہ اس سے زیادہ فضیلت ہررات کی توبہ واستغفارکوحاصل ہے
چنانچہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخريقول:من يدعوني فأستجيب له,من يسألني فأعطيه ,من يستغفرني فأغفرله (اخرجه البخاري في صحيحه :كتاب التهجد 3/29 برقم 1145,ومسلم في صحيحه :كتاب صلاة المسافرين 1/125 برقم 758)-ھ
همارے رب تبارک وتعالى ہرشب کی آخری تہائی میں نچلے آسمان پرنزول فرماتے ہیں ,اورفرماتے ہیں :"کون میرے دربارمیں دعا گوہےکہ میں اسکی قبولیت کا پروانہ لکھوں,کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کروں ,کون ہے جومجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اسکی مغفرت کروں"ھ – پس رب کریم کا نزول ,اپنی مخلوقات پرمطلع ہونا اورانکی مغفرت کسی معینہ رات پرہی موقوف نہیں - بلکہ یہ ہرشب ہوتا ہے توپھرپندرہویں شب کی فضیلت میں اس حدیث کوپیش کرنا کسی خصوصی فضیلت کا باعث نہیں.-
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب لطائف المعارف میں بیان کیا ہے
"ھ عبادات میں ضعیف حدیث اس وقت قابل عمل ہوتی ہے جب صحیح دلائل سے اسکی اصل بنیاد (شرع) سےثابت ہو- شب شعبان کے جشن کے بارے میں کوئی صحیح بنیاد ثابت نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ضعیف حدیث قابل عمل ہو"ھ
(دیکھئے التحذیرمن البدع کا اردوترجمہ ص٢٤ )