یہ حدیث پڑھیں اور پھر امام بخاری کو بھی گالیاں دیں، یہی سکھا رہے ہیں نا علامہ خادم حسین صاحب؟
حدثنا يحيى بن بكير ، حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب ، وحدثني عبد الله بن محمد حدثنا عبد الرزاق حدثنا معمر ، قال الزهري فأخبرني عروة عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت : " ..ثم لم ينشب ورقة أن توفي ، وفتر الوحي فترةً حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم - فيما بلغنا - حزناً غدا منه مرارا كي يتردى من رؤوس شواهق الجبال ، فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه ، تبدّى له جبريل فقال : يا محمد ، إنك رسول الله حقا . فيسكن لذلك جأشه ، وتقر نفسه ، فيرجع ، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك ، فإذا أوفى بذروة جبل ، تبدّى له جبريل فقال له مثل ذلك - ( رواہ البخاری)
نوٹ ( ابن شھاب زھری) عروہ ابن زبیر سے نقل کرتے ھیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ورقہ بن نوفل سے ملاقات کے بعد کچھ ھی عرصہ گزرا کہ ورقہ کا انتقال ھو گیا اور وحی رک گئ ( واضح رھے ملحدین اس سے یہ استدلال کرتے ھیں کہ وحی سکھا ھی ورقہ رھا تھا ، جونہی وہ فوت ھوا تو وحی بھی رک گئ جب تک نیا استاد نہیں ملا) وحی رکنے پر رسول اللہ بہت غمگین ھوئے اور یہ غم جیسا کہ ھمیں خبر پہنچی ھے اس حد تک پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے کئ بار خود کو پہاڑ کی چوٹی سے گرانے کی کوشش کی ، جب بھی پہاڑ کے کنارے پرپہنچتے تا کہ خود کو گرا دیں تو جبرائیل سامنے آ جاتے اور کہتے کہ اے محمدﷺ آپ واقعی اللہ کے رسول ھیں ، جس پر رسول اللہ ﷺ کو وقتی سکون میسر آ جاتا اور آپ پلٹ آتے پھر جب وحی میں وقفہ پڑتا تو پھر وھی کچھ دھرایا جاتا کہ آپ پہاڑ کے کنارے پہنچتے تو جبرائیل ظاھر ھو کر وھی دھراتے جو پہلی دفعہ کہا تھا ( بخاری)
حدثنا يحيى بن بكير ، حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب ، وحدثني عبد الله بن محمد حدثنا عبد الرزاق حدثنا معمر ، قال الزهري فأخبرني عروة عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت : " ..ثم لم ينشب ورقة أن توفي ، وفتر الوحي فترةً حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم - فيما بلغنا - حزناً غدا منه مرارا كي يتردى من رؤوس شواهق الجبال ، فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه ، تبدّى له جبريل فقال : يا محمد ، إنك رسول الله حقا . فيسكن لذلك جأشه ، وتقر نفسه ، فيرجع ، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك ، فإذا أوفى بذروة جبل ، تبدّى له جبريل فقال له مثل ذلك - ( رواہ البخاری)
نوٹ ( ابن شھاب زھری) عروہ ابن زبیر سے نقل کرتے ھیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ورقہ بن نوفل سے ملاقات کے بعد کچھ ھی عرصہ گزرا کہ ورقہ کا انتقال ھو گیا اور وحی رک گئ ( واضح رھے ملحدین اس سے یہ استدلال کرتے ھیں کہ وحی سکھا ھی ورقہ رھا تھا ، جونہی وہ فوت ھوا تو وحی بھی رک گئ جب تک نیا استاد نہیں ملا) وحی رکنے پر رسول اللہ بہت غمگین ھوئے اور یہ غم جیسا کہ ھمیں خبر پہنچی ھے اس حد تک پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے کئ بار خود کو پہاڑ کی چوٹی سے گرانے کی کوشش کی ، جب بھی پہاڑ کے کنارے پرپہنچتے تا کہ خود کو گرا دیں تو جبرائیل سامنے آ جاتے اور کہتے کہ اے محمدﷺ آپ واقعی اللہ کے رسول ھیں ، جس پر رسول اللہ ﷺ کو وقتی سکون میسر آ جاتا اور آپ پلٹ آتے پھر جب وحی میں وقفہ پڑتا تو پھر وھی کچھ دھرایا جاتا کہ آپ پہاڑ کے کنارے پہنچتے تو جبرائیل ظاھر ھو کر وھی دھراتے جو پہلی دفعہ کہا تھا ( بخاری)