Without reading the article, title confirms that this manhoos wants to become another Irfan Siddiqui or Qasmi. AAqa ko khush karo aur phal pao, isi theory pe Pakistan chalta hai hamara mashallah!!
اقبال نے بھی شاید مغربی طرزِ جمہوریت کے بھیانک نتائج پر غور و فکر کے بعد ہی اسے مطعون کیا تھا۔ گلشنِ راز جدید میں کہتے ہیں ؎
فرنگ آئینِ جمہوری نہاد است
رسن از گردنِ دیوے کشاد است
نوا بے زخمہ و سازے ندارد
و بے طیارہ پروازے ندارد
زِ باغش کشتِ ویرانے نکو تر
زِ شہرِ او بیابانے نکو تر
چو رہزن کاروانے در تگ و تاز
شکمہا بہر نانے در تگ و تاز
رواں خوابیدو تن بیدار گردید
ہنر با دین و دانش خوار گردید
خرد جز کافری کافر گری نیست
فن افرنگ جز مردم دری نیست
گروہے را گروہے در کمین است
خدایش یار اگر کارش چنین است
زِ من دہ اہلِ مغرب را پیامے
کہ جمہور است تیغ بے نیامے
چہ شمشیرے کہ جانہا می ستاند
تمیزِ مسلم و کافر نداند
نہ ماند در غلافِ خود زمانے
برد جانِ خود و جانِ جہانے
(فرنگیوں نے جمہوریت کی بنیاد رکھتے ہوئے شیطان کی گردن سے رسّی کھول کر اسے آزاد کردیا ہے۔ یعنی فرنگیوں نے جمہوریت کی آڑ میں صرف ایک فرد کی رائے کی برتری کو اکثریتی رائے عامہ کا روپ دے کر شیطانی مقاصد پورے کرنے کی راہ ہموار کردی ہے۔ ان کی جمہوریت میں زخمہ و ساز کے بغیر ہی آواز ہے۔ وہ بغیر جہاز کے پرواز بھی نہیں کرسکتے۔ یعنی ان کی تمام تر تگ و دو مادی ہے۔ روحانی ترفع سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس [فرنگی] کے باغ سے تو اجڑی ہوئی کھیتی بہتر ہے۔ اس کے شہر سے تو جنگل اچھے ہیں۔ ان کا قافلہ تو ڈاکوؤں کی طرح لوٹ مار کرنے ہی کے لیے کوشاں ہے۔ ان کے پیٹ صرف روٹی کے لیے جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ صرف شکم پرست ہیں۔ روح سو چکی ہے اور جسم بیدار ہوگئے ہیں۔ ان کا ہنر بھی دین اور عقل کے ساتھ خوار ہوگیا ہے۔ ان کی عقل صرف کافری ہے یا دوسروں کو کافر بنانے میں مصروف ہے۔ اپنی جمہوریت کے اندر وہ خود بھی خدا کے منکر ہوئے اور دوسروں کو بھی اسی مرض میں مبتلا کردیا ہے۔ افرنگیوں کا ہنر بھی صرف انسان کو پھاڑنے کا ہنر ہے۔ وہ انسانیت کو مٹانے کے درپے ہیں۔ ان کے نظام میں ایک قوم دوسری قوم کو لوٹنے کے لیے تاک میں بیٹھی ہے۔ اگر ان کا یہی کاروبار ہے تو انسانیت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ میری طرف سے اہلِ مغرب کو یہ پیغام دے دو کہ عوام برہنہ تلوار کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ ایسی تلوار ہے جو جان لیتے ہوئے مسلمان اور کافر کی تمیز نہیں کرتی۔ یہ تلوار ایک لحظے کے لیے بھی نیام میں نہیں رہتی۔ یہ تو اپنی جان بھی لیتی ہے اور جہاں والوں کی بھی جان لے لیتی ہے۔ یعنی جمہوریت کی تلوار میں ہلاکت کے سوا کچھ نہیں)۔