Sohraab
Prime Minister (20k+ posts)
سلطانہ ڈاکو کون تھا اور اس پر کون سی انگریز لڑکی عاشق تھی؟
نعیم احمد بلوچ
سلطانہ ڈاکو بھی شاید اسی ذیل میں آتا ہے۔جاسوسی ناولوں سے شغف رکھنے والوں نے نیلی چھتری والے ظفر عمر کا نام بہت سنا ہو گا۔ اس ناول نے اپنے زمانے میں بہت شہرت پائی تھی۔ ظفر عمر پیشہ کے لحاظ سے پولیس افسر تھے۔ اپنے زمانے کے نامی گرامی پولیس افسر جس نے سلطانہ ڈاکو کو گرفتاری کے بعد اپنی حفوظت میں رکھا تھا،اس ظفر عمر کی بیگم صاحبہ کی سلطانہ ڈاکو سے جو مڈھ بھیڑ ہوئی اس کا احوال ان کی بیٹی حمیدہ اختر حسین سے سنیے۔یہ ملاقات کب اور کیسے ہوئی اس کا کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔بہرحال واقعہ یوں ہے کہایک لحیم شحیم پگڑ باندھے اندر داخل ہوا اور اماں کو سلام کیا۔ انھوں نے دبدبے والی آواز سے پوچھا کون ہے؟۔میں سلطانہ ڈاکوبتائیں کہ میرے خیمے میں کیسے آنا ہوا؟معاف کیجیے گا بہن۔ میں ایک تحفہ آپ کے لیے لے کر آیا ہوں۔ میں جس دن آپ کے صاحب کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا تو ان سے کہا تھا کہ جیل سے آتے ہی ایک تلوار کا تحفہ آپ کو دوں گا۔ مگر میں وہ تحفہ اس لیے حاصل نہ کر سکا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وہ تلوار لندن کے میوزیم پہنچ گئی ہے۔ سوچا کہاب اس کے بدلے کوئی تحفہ دے دوں ۔پھرشال میں ایک چھوٹی سی پوٹلی نکال کر ان کے آگے بڑھائی۔ یہ کہتے ہوئے کہ اس کو ایک بھائی کا تحفہ سمجھ کر لے لیجیےسفید کپڑے کی پوٹلی کھولی جس میں سچے موتیوں کی پچاسوں لڑیں تھیںبیشک یہ موتی بڑے نادر ہیں۔ جس خلوص سے آپ نے کہا بھائی کا تحفہ۔ یعنی میں آپ کی بہن ہوں۔ صرف ایک شرط پر لے لوں گی کہ آپ مجھ سے یعنی ایک بہن سے یہ وعدہ کریں کہ آج کے بعد سے آپ کبھی ڈاکے نہ ڈالیں گے۔ باقی زندگی کے دن اپنی محنت مزدوری سے کما کر کھائیں گےسلطانہ ڈاکو تن کر کھڑا ہو گیا۔ سینہ پر ہاتھ مار کر کہا: بہن میرا وعدہ ہے آپ کو کبھی شرمندگی نہ ہو گی۔ اچھا خدا حافظ۔اماں نے کہا خدا کرے آپ اپنے وعدے کو ہمیشہ یاد رکھیں۔اور در حقیقت پھر کبھی سلطانہ ڈاکو کی کوئی واردات سننے میں نہ آئیتو یہ آن تھی اس ڈاکو کی۔ مگر وہ زمانہ اور تھا۔ ابھی ہم اس طرح کے معاشرتی اور اخلاقی زوال سے جو آج ہم اپنے یہاں دیکھ رہے ہیں آشنا نہیں ہوئے تھے کچھ اخلاقی قدریں ابھی باقی تھیں۔ اور جب معاشرہ میں کچھ اخلاقی قدریں باقی ہوں تو کوئی بھی مجرم کوئی چور ڈاکو بھی ان سے متاثر ہو سکتا ہےاس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کو وہ عورتوں کا رسیا تھا اور کافی امیر عورتوں کو اس نے ریپ کر کے مار بھی دیا تھا۔ اس سب کے باوجود لوگوں میں وہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا شائد اس کی ایک وجہ اس کی انگریز دشمنی اور امیروں سے لوٹا ہوا مال غریبوں میں تقسیم کرنا تھا۔ سلطانہ پر مقدمہ چلا تو اسے پھانسی کی سزا ہوئی۔ جب اسے پھانسی کے تختہ پہ لایا جا رہا تھا تو لوگوں کا ھجوم باہر اکٹھاہو گیا جو اس کی شانِ بہادری کے قصیدے اور ترانے پڑھ رہے تھےسلطانہ نے چوری کی ابتدا ایک انڈے سے کی تھی لیکن اُس کو گھر والوں نے کوئی تنبیہ نہ کی۔نتیجتاً اُسے جرأت ہوئی اور پھر چوری کی عادت نے اُسے شہرت یافتہ ڈاکو بنا دیا۔ سلطانہ ڈاکو کو انگریز افسر فریڈی نے پھانسی کی سزا دیئے جانے سے پہلے اُس سے آخری خواہش پوچھی تو اُس نے کہا کہ میری آخری خواہش اپنی ماں سے ملاقات کرنا ہے۔ خواہش کے احترام میں اس کی ماں کو اس کے سامنے لایا گیا۔ اس نے ماں کے قریب جا کر بجائے کچھ کہنے کے اپنی ماں کے کان کودانتوں سے کاٹ لیا۔ جب سلطانہ سے دریافت کیا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اُس نے جواب دیا کہ جس وقت میں پہلی بار انڈا چوری کرکے لے آیا تھا ،اگر میری ماں نے مجھے روکا ہوتا تو میں ڈاکو نہ بنتا اور نہ ہی آج تختہ دار پر لٹکایا جاتا۔ میری والدہ نے یہ پوچھنے کے بجائے کہ انڈا کہاں سے آیا، انڈا تل کر بیٹے کو کھلا دیا۔تنگ آمد بجنگ آمد ۔ نفرت اور بھوک ننگِ جسم اور ننگِ آداب ہوا کرتی ہےسلطانہ ڈاکو پر فلمیں بھی بنیں اور کتابیں بھی لکھی گئیںتازہ ترین کتابوں میں The Confession of Sultana Daku
اس سلسلے کی مقبول کتاب ہے ، جو کہ سجیت صراف نے لکھی ۔ یہ کتاب بھارت سے چھپی ہے
نعیم احمد بلوچ

انگریز دور کا ایک مشہور ڈاکو، جو سلطانہ کے نام سے جانا جاتا تھا ، اس اصل نام سلطان تھا اور مذھباً مسلمان تھا۔ وہ صوبہ اتر پردیش انڈیا کا رہنے والا تھا۔ وہ امیروں کو لوٹتا اور غریبوں پر خرچ کرتا تھا۔ سلطانہ انگریز راج سے نفرت کرتا تھا۔ اس نے اپنے کتے کا نام "رائے بہادر" رکھا ہوا تھا اور اس کے گھوڑے کا نام "چیتک" تھا۔سلطانہ ڈاکو، ڈاکے کے دوران مزاحمت کرنے والوں کے ہاتھ کی تین انگلیاں کاٹ دیا کرتا تھا اور ایسے تمام لوگ تا حیات اس تین انگلیوں والے ہاتھ کے ساتھ لوگوں کے لئے عبرت کا سامان بنے رہتے ۔ جو بھی ان کو دیکھتا سمجھ جاتا کہ یہ سلطانہ ڈاکو کا سزا یافتہ ہے
اس کی جائے پناہ نجیب آباد کے نواح میں ایک جنگل تھا جسے کجلی بن کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ جنگل انتہائی گھنا اور ہر طرح کے درندوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس جنگل کی ایک حد نیپال اور چین کو چھوتی تھی تو دوسری طرف اس کی وسعت کشمیر تا افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں ہر طرح کا شکار بھی بے شمار ملتا تھا اور اکثر نواب اور انگریز یہاں شکار کی غرض سے پڑاؤ ڈالا کرتے تھےسلطانہ ڈاکو کی کمین گاہ جس جگہ تھی وہ حصہ اتنا گھنا تھا کہ دن کے اوقات میں بھی یہاں سورج کی روشنی کو دخل نہ تھا۔ اسی جنگل میں گھوسیوں کے ڈیرے بھی تھے جو دودھ بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔سلطانہ بھی گھوسیوں کے بھیس میں یہاں ڈیرے ڈالتا تھا۔ سلطانہ کی سی آئی ڈی بھی بڑی چوکس تھی جس کی وجہ سے اسے ہر چھاپے کی اطلاع پہلے ہی مل جایا کرتی تھی.۔ در پردہ نجیب آباد تھانے کا انچارج منوہر لال سلطانہ کا مخبر تھا۔ جب سلطانہ عوام میں بہت مقبول اور انگیزوں کے لیے چیلنج بن گیا توایک انگریز آفیسر مسٹر ینگ نے سلطانہ کو گرفتار کرنے کی ٹھانی۔ ابتدا میں اسے بے شمار ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا لیکن پھر ایک مقامی منشی عبدالرزاق خان اس کے کام آیا ۔ اس کے سلطانہ سے بھی مراسم تھے اور اعلی افسران سے بھی۔ اس نے بہانے سے سلطانہ کو ایک جگہ بلایا جہاں پولیس پہلے ہی تیار بیٹھی تھی یوں مسٹر ینگ بالآخر سلطانہ کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ گرفتاری کے بعد سلطانہ ڈاکو کو ظفر عمر نامی پولیس افسر کی نگرانی میں دیا گیا۔ ظفر عمر نے سلطانہ ڈاکو پر بے جا سختی کرنے کے بجائے اس سے اچھا سلوک کیاجس وقت سلطانہ کو گرفتار کر کے نجیب آباد کے اسٹیشن پر لایا گیا تو ہزاروں لوگ اس کو دیکھنے کے لئے جمع تھے۔ پولیس کی حراست میں ہونے کے باوجود اس کی ہیبت اور دبدبے کا یہ عالم تھا کہ لوگ سہمے ہوئے تھے اور بدحواس ہو گئے تھے۔جیل کے دوران ایک نوجوان انگریز جیل آفیسر فریڈی سلطانہ کااچھا دوست بن گیا اور اس نے سلطانہ کو بچانے کے لیے قانونی جنگ بھی لڑی۔ مقدمے کا فیصلہ ہونے سے قبل سلطانہ نے فریڈی سے وعدہ لیا کہ وہ سلطانہ کے بیٹے کو ایک افسر بنائے گا۔سلطانہ کی موت کے بعد فریڈی نے اس کے بیٹے کو برطانیہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا اور افسر بنا کر اپنا وعدہ پورا کیا۔ فریڈی بعد میں جیل خانہ جات محکمہ سے انسپکٹر جنرل بن کر ریٹائرڈ ہوا۔ سلطانہ وڈیروں جاگیرداروں کو لوٹتا اور غریبوں میں وہ دولت تقسیم کر دیتا تھا۔ایک انگریز لڑکی اس کے عشق میں مبتلا ہوئی اور یہ عشق سلطانہ کی موت تک چلتا رہااس ڈاکو کا ایک دلچسپ واقعہ حمیدہ اختر حسین رائے پوری نے اپنی کتاب نایاب ہیں ہم میں نقل کیا ہے۔ لیجیے وہ شعر بھی سن لیجیے جس سے یہ عنوان ماخوذ ہےڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوںملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
سلطانہ ڈاکو بھی شاید اسی ذیل میں آتا ہے۔جاسوسی ناولوں سے شغف رکھنے والوں نے نیلی چھتری والے ظفر عمر کا نام بہت سنا ہو گا۔ اس ناول نے اپنے زمانے میں بہت شہرت پائی تھی۔ ظفر عمر پیشہ کے لحاظ سے پولیس افسر تھے۔ اپنے زمانے کے نامی گرامی پولیس افسر جس نے سلطانہ ڈاکو کو گرفتاری کے بعد اپنی حفوظت میں رکھا تھا،اس ظفر عمر کی بیگم صاحبہ کی سلطانہ ڈاکو سے جو مڈھ بھیڑ ہوئی اس کا احوال ان کی بیٹی حمیدہ اختر حسین سے سنیے۔یہ ملاقات کب اور کیسے ہوئی اس کا کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔بہرحال واقعہ یوں ہے کہایک لحیم شحیم پگڑ باندھے اندر داخل ہوا اور اماں کو سلام کیا۔ انھوں نے دبدبے والی آواز سے پوچھا کون ہے؟۔میں سلطانہ ڈاکوبتائیں کہ میرے خیمے میں کیسے آنا ہوا؟معاف کیجیے گا بہن۔ میں ایک تحفہ آپ کے لیے لے کر آیا ہوں۔ میں جس دن آپ کے صاحب کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا تو ان سے کہا تھا کہ جیل سے آتے ہی ایک تلوار کا تحفہ آپ کو دوں گا۔ مگر میں وہ تحفہ اس لیے حاصل نہ کر سکا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وہ تلوار لندن کے میوزیم پہنچ گئی ہے۔ سوچا کہاب اس کے بدلے کوئی تحفہ دے دوں ۔پھرشال میں ایک چھوٹی سی پوٹلی نکال کر ان کے آگے بڑھائی۔ یہ کہتے ہوئے کہ اس کو ایک بھائی کا تحفہ سمجھ کر لے لیجیےسفید کپڑے کی پوٹلی کھولی جس میں سچے موتیوں کی پچاسوں لڑیں تھیںبیشک یہ موتی بڑے نادر ہیں۔ جس خلوص سے آپ نے کہا بھائی کا تحفہ۔ یعنی میں آپ کی بہن ہوں۔ صرف ایک شرط پر لے لوں گی کہ آپ مجھ سے یعنی ایک بہن سے یہ وعدہ کریں کہ آج کے بعد سے آپ کبھی ڈاکے نہ ڈالیں گے۔ باقی زندگی کے دن اپنی محنت مزدوری سے کما کر کھائیں گےسلطانہ ڈاکو تن کر کھڑا ہو گیا۔ سینہ پر ہاتھ مار کر کہا: بہن میرا وعدہ ہے آپ کو کبھی شرمندگی نہ ہو گی۔ اچھا خدا حافظ۔اماں نے کہا خدا کرے آپ اپنے وعدے کو ہمیشہ یاد رکھیں۔اور در حقیقت پھر کبھی سلطانہ ڈاکو کی کوئی واردات سننے میں نہ آئیتو یہ آن تھی اس ڈاکو کی۔ مگر وہ زمانہ اور تھا۔ ابھی ہم اس طرح کے معاشرتی اور اخلاقی زوال سے جو آج ہم اپنے یہاں دیکھ رہے ہیں آشنا نہیں ہوئے تھے کچھ اخلاقی قدریں ابھی باقی تھیں۔ اور جب معاشرہ میں کچھ اخلاقی قدریں باقی ہوں تو کوئی بھی مجرم کوئی چور ڈاکو بھی ان سے متاثر ہو سکتا ہےاس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کو وہ عورتوں کا رسیا تھا اور کافی امیر عورتوں کو اس نے ریپ کر کے مار بھی دیا تھا۔ اس سب کے باوجود لوگوں میں وہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا شائد اس کی ایک وجہ اس کی انگریز دشمنی اور امیروں سے لوٹا ہوا مال غریبوں میں تقسیم کرنا تھا۔ سلطانہ پر مقدمہ چلا تو اسے پھانسی کی سزا ہوئی۔ جب اسے پھانسی کے تختہ پہ لایا جا رہا تھا تو لوگوں کا ھجوم باہر اکٹھاہو گیا جو اس کی شانِ بہادری کے قصیدے اور ترانے پڑھ رہے تھےسلطانہ نے چوری کی ابتدا ایک انڈے سے کی تھی لیکن اُس کو گھر والوں نے کوئی تنبیہ نہ کی۔نتیجتاً اُسے جرأت ہوئی اور پھر چوری کی عادت نے اُسے شہرت یافتہ ڈاکو بنا دیا۔ سلطانہ ڈاکو کو انگریز افسر فریڈی نے پھانسی کی سزا دیئے جانے سے پہلے اُس سے آخری خواہش پوچھی تو اُس نے کہا کہ میری آخری خواہش اپنی ماں سے ملاقات کرنا ہے۔ خواہش کے احترام میں اس کی ماں کو اس کے سامنے لایا گیا۔ اس نے ماں کے قریب جا کر بجائے کچھ کہنے کے اپنی ماں کے کان کودانتوں سے کاٹ لیا۔ جب سلطانہ سے دریافت کیا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اُس نے جواب دیا کہ جس وقت میں پہلی بار انڈا چوری کرکے لے آیا تھا ،اگر میری ماں نے مجھے روکا ہوتا تو میں ڈاکو نہ بنتا اور نہ ہی آج تختہ دار پر لٹکایا جاتا۔ میری والدہ نے یہ پوچھنے کے بجائے کہ انڈا کہاں سے آیا، انڈا تل کر بیٹے کو کھلا دیا۔تنگ آمد بجنگ آمد ۔ نفرت اور بھوک ننگِ جسم اور ننگِ آداب ہوا کرتی ہےسلطانہ ڈاکو پر فلمیں بھی بنیں اور کتابیں بھی لکھی گئیںتازہ ترین کتابوں میں The Confession of Sultana Daku
اس سلسلے کی مقبول کتاب ہے ، جو کہ سجیت صراف نے لکھی ۔ یہ کتاب بھارت سے چھپی ہے
Last edited by a moderator: