Status Quo Aur Awam

Osama Altaf

MPA (400+ posts)

اسٹیٹس کو اور عوام

"اسٹیٹس کو" پاکستان میں اس لعنت کا نام ہے جس کی کرم فرمائیوں سے آج پاکستان کے جو حالات ہے وہ سب کے سامنے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اسٹیٹس کو کی کامیابی میں عوام کی بےحسی اور سیاسی شعور کا فقدان بڑی اہمیت رکھتتے ہیں،اور یہی کچھ وطن عزیز کے ساتھ پچھلے تین عشروں سے ہوتا چلاآرہا ہے۔پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نوازعرصہ دراز سے حصول اقتدار کی لالچ میں مختلف نعروں ،وعدوں اور دعووں کے ذریعہ عوام کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہے۔پیپلز پارٹی عوام کو جمہوریت کی بالادستی اور روٹی،کپڑا ،مکان کا جھانسہ دے کر، جبکہ ان کے سابق حریف نواز شریف اپنے معصومانہ شکل اور ظاہری شرافت کی بنیاد پر پروان چڑھے اور پاکستان کی غیر سیاسی عوام کو اپنے "سیاسی" ہتھکنڈوں میں پھنسانے میں مکمل طور پر کامیاب ہوئے ۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں پارٹیوں نے اپنے دور حکومت میں "عوام کی خدمت" کا فرض کس طرح بخوبی انجام دیا اس کا اندازہ پچھلے تیس سالہ تاریخ کا مطالعہ سے بخوبی ہو جائیگا۔ نواز شریف کو جرنل ضیا الحق نے پنچاب کا وزیر خزانہ بنایا، اور بہت جلد ضیاء الحق کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کی بنا پر وزیر اعلی پنجاب کا عہدہ دیا گیا، نواز شریف کو بطور وزیر اعلی، پا کستان میں سب سے پہلے ارکان اسمبلی کی خریداری کا اعزاز حاصل ہے،1987 میں نواز شریف نے ترقیاتی فنڈز کے ذریعے 37 "کمزور " اراکین اسمبلی کی وفاداریاں 34 کڑوڑ روپے میں خریدی،کیونکہ نواز شریف کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے تھا اور اس وقت (1987) تک وہ سیاست کے نئے کھلاڑی سمجھے جاتے تھے،

عوام میں ان کا زیادہ اثر ورسوخ نہیں تھا،میاں صاحب کو اپنے گرد ہجوم اکھٹا کرنے کا شوق ستانے لگا،اس غرض سے انہوں نے "ایم ایس اف "نامی طلبہ کی فورس بنائی جس کےقیام کا مقصد جلوس نکالنا،ہجوم اکھٹا کرنا اور مخالفین کو زدو کوب کرنا تھا،میاں صاحب نے اس فورس کو "فعال" بنانے کے لیے خوب محنت کی، اس فورس میں شامل نوجوانوں کو روزگار ،مراعات کے علاوہ صوابدیدی فنڈز سے "حصہ" دیا جاتا،بعد ازاں جب صوابدیدی فنڈز کم پڑگئے تو میاں صاحب نے اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی شروع کردہ بے روزگار نوجوانوں کو قرضہ فراہم کرنے کی اسکیم YIPS کا رخ کیا،1988 میں اس کامیاب اسکیم کے 50 کڑوڑ روپے ایم ایس اف پر لٹائے گئے،1990

میں چھوٹے میاں صاحب نے بھی سرکاری اسکیم YIPS کو ذاتی جاگیر سمجھ کر 3 ارب روپے ایم ایس اف پر خرچ کیے،نتیجتا شریف برادران ایم ایس اف سے مقاصد حصل کرنے میں کامیاب ہوگئے،البتہ بے روزگار نوجوانوں کو قرضہ فراہم کرنے والی اسکیم تباہ ہو گئی ،لیکن یہ بات میا ں صاحبان کے نزدیک کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔اسی طرح سرکاری خزانہ کا ذاتی استعمال چلتا رہا،جس کی ایک مثال میاں صاحب کے راؤنڈ میں واقع محل ہے،اپنا محل تعمیر کرنے کے غرض سے میاں صاحب نے اقتدار کے بل بوتے پر مہنگی زمینیں کوڑیوں کے مول خریدا،تعمیر کے بعد نواز شریف نے 1997 میں اپنے محل کو سرکاری گھر کا درجہ دیا اور اس کے تمام اخراجات پورا کرنے کی ذمہ داری وفاقی ادارہ PWD کو سونپی،اس محل پر شریف خاندان جس بے دردی سے عوام کا پیسہ خرچ کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رائے ونڈ محل میں گیس کے نظام پر 7 کڑوڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ ٹیلی فون لائنز بچھانے پر 20 ملین روپے خرچ ہوئے اس کے علاوہ شریف فارم میں ہسپتال،اسکول اور مسجد بھی سرکاری خرچ سے تعمیر ہوئی۔


نواز شریف کے سیاسی اتحادی بینظییر اور زرداری کے کارنامے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ،1995 میں زرداری نے برطانیہ میں سرے کاؤنٹی کے نواح میں واقع 335 ایکڑ پر پھیلی 40 لاکھ پاؤنڈ کا محل خریدا ،بعد ازاں سرے محل کی تزئین وآرائش ، تعمیر نو ،فرنیچر کی خریداری اور فرنیچر کی بحری جہاز میں لندن منتقلی کے سارے اخراجات قومی خزانے سے پورے کیے گئے۔

یہ ان دونوں اسٹیٹس کو کی جماعتوں کی عوامی خزانے پر ڈاکے مارنے کی ایک چھوٹی سی مثال ہےورنہ پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن اور ان کی دائیں بازو کی جماعتوں (جے یو آئی،اے این پی وغیرہ) کے اگر کرپشن کے کیسز ذکر کیے جائے تو کئی کتب تصنیف کرنی پڑے۔۔حیران کن بات یہ ہے کہ مشرف دور سے پہلے بینظیر اور نواز شریف ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے حتی کہ بینظیر نے " میں شیطان سے اتحاد کرلوں گی لیکن نواز شریف سے نہیں" اور نواز شریف نے " بینظیر یہودی ایجنٹ ہے" جیسے بیانات بھی دیے ،لیکن مشرف دور میں جب دونوں پر سخت وقت آیا تو دونوں پارٹیوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آپس میں اتحاد کرلیا،اور جبکہ دونوں کا مقصد ایک ہی تھا یعنی سرکاری پیسے شاہ خرچیاں

کرنی اور اقتدار کے مزے لوٹنے ،تو اتحاد کیوں نہ ہوتا؟ اس غرض کے لیے نواز شریف اور بینظیر کی لندن میں سابق وزیر داخلہ عبد الرحمن ملک کے گھر پرملاقات ہوئی جہاں دونوں رہنماؤں نے بدنام زمانہ "چارٹر آف ڈیموکریسی" پر سائن کیا،اور آئندہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر اتفاق کیا۔یہ پاکستانی عوام کے لیے انتہائی فکر انگیز مقام تھا کہ عوام مخالف طاقتیں تو اپنے مفادات کے لیے جمع ہوگئیں ،لیکن عوام اب تک اپنے حقوق کے لیے متحد آواز نہیں بلند کر سکی۔2008 سے 2013 تک لندن معاہدہ کے تحت پیپلز پارٹی کا سیاہ دور گزرا جس میں کرپشن اور بد عنوانی اپنی انتہاؤوں کو پہنچ گئی،اس دوران شریف برادران نے پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے اور زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کیے،لیکن 2013 کے پلانڈ انتخابات کے بعد جب نواز شریف کو تحریک انصاف کی صورت میں مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا تو نواز شریف نے اپنے سیاسی استاد زرداری کو لندن معاہدہ کے تحت مدد کے لیے پکارا،زرداری نے بھی وفاداری کا ثبوت دیا اور نواز شریف کو سپورٹ کرنے فورا اسلام اباد پہھنچ گئے۔

اسامہ الطاف ۔ جدہ

اسٹیٹس کو تو اپنے مفادات کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھاتاہے ،چاہے وہ پارلیمنٹ میں جوائنٹ سیشن کی صورت میں ہو ،نواز زرداری اتحاد کی صورت میں ہو یا علماء کی نمائندگی کے دعویدار فضل الرحمن اور سیکولر ای این پی کے گٹھ جوڑ میں ،لیکن عوام کے سیاسی شعور کو سلام ہے جو اب بھی بھٹو کے نام اور میٹرو کے لالی پاپس سے بہک جاتے ہے،اب بھی اگر ہم بیوقوف بنتے رہے اور دوست ،دشمن کا فرق کرنے میں ناکام رہے تو وہ وقت دور نہیں جب چند خاندانوں اپنے مفادات کے لیے پورا ملک بیچ ڈالے اور ہم دیکھتے کہ دیکھتے رہ جائے۔
Osama Altaf
[email protected]


 
Last edited by a moderator:

cheetah

Chief Minister (5k+ posts)
What to do then, 2013 elections massive turn out even those who had never cast their vote participated but the result all you know. Now only option left is gun, bloody revolution but this too will be disastrous but this is only option otherwise don't think we will get rid of leeches.