Muslimonly
Senator (1k+ posts)
PTI's Hamid Khan to lead the case against 21st amendment in Supreme Court
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2015/01/150122_sc_21st_amendment_challanged_zs

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2015/01/150122_sc_21st_amendment_challanged_zs

٢١ ویں ترمیم کے خلاف درخواست ابتدائی سماعت کے لیے منظور
شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
22 جنوری
پاکستان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی 21ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر کی گئی درخواست کو ابتدائی سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔
پشاور میں طالبان کے حملے میں درجنوں طلبہ سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد قومی ایکشن پلان کے تحت لائی جانے والی اس آئینی ترمیم میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے دہشت گردی کے مقدمات کے فوری فیصلوں کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی گئی تھی۔
آئینی ترمیم کے خلاف یہ درخواست لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہونے والی مقدمات کی کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ 28 جنوری سے اس درخواست کی سماعت کرے گا۔
جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مشیر عالم بھی اس بینچ کا حصہ ہوں گے اور ابتدائی سماعت کے بعد عدالت اس درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ دے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حامد خان سماعت کے دوران عدالت میں درخواست گزاروں کی نمائندگی کریں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ترمیم جمہوریت سے متصادم تو ہے لیکن ملک کی غیرمعمولی صورتِ حال میں یہ ناگزیر ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے اس ترمیم کو جمہوریت پر خودکش حملہ قرار دیا تھا پاکستانی پارلیمنٹ میں 21ویں ترمیم کی منظوری متفقہ طور پر دی گئی تھی اور اس پر کسی بھی سیاسی جماعت نے اعتراض نہیں کیا تھا۔
تاہم کچھ مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس کی مخالفت کے بعد ملک کی وکلا برادری کے ایک دھڑے نے بھی اس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وکلا برادری نے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کو آزاد عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا تھا اور لاہور کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی ان عدالتوں کے قیام کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کی تھی۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق ابتدائی طور پر ملک میں نو فوجی عدالتیں قائم کی جائیں گی جن میں سے پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں تین تین، سندھ میں دو جبکہ ایک فوجی عدالت بلوچستان میں قائم کی جائے گی
Source
Last edited by a moderator: