برما میں اسلام تب آبسا جب خلیفہ مسلمین ہارون رشید نے یہاں مسلمان مبلعین کو ارکان نامی علاقے میں بھیجا تب سے ہی اسلام برما میں پھیلنے لگا آج برما میں جو ہورہا ہے وہ کچھ نیا نہی برما پہ ظلم و ستم کا یہ احوال کچھ نیا نہیں برما کی تاریخ اُٹھا کر دیکھا جائے تو مسلمانوں پر اس طرح کی قیامتیں ٹوٹنے کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ 1559ء میں مذہبی عقائد کی آڑ میں جانور ذبح کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ حتیٰ کہ عید الاضحی کے موقع پر بھی کسی مسلمان کو اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی جانور پر چھڑی چلا سکے۔ 1752ء میں بھی جانوروں کے ذبح پر پابندی لگا دی گئی۔ 1782ء میں تو بادشاہ ’’بودھاپایہ‘‘ نے پورے علاقے کے مسلمان علماء کرام کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انکار پر ان سب کو قتل کر دیا گیا۔ برما کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس واقعے کے بعد 7 دن تک برما کی سر زمین پر سورج طلوع نہیں ہوا۔ جس پر بادشاہ نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا، معافی مانگی پھر ظلم و ستم کی یہ داستان بڑھتے بڑھتے 1938 ء تک جا پہنچتی ہے جب برمی بودھ برطانوی فوجوں کے خلاف جنگِ آزادی لڑنے میں مشغول تھے تو گولیوں سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں کا پہلا قتلِ عام 1962ء میں ہوا جب فوجی حکومت نے اقتدارسنبھالنے کے بعد مسلمانوں کو باغی قرار دے کر اُن کے خلاف آپریشن شروع کردیا، جو وقفے وقفے سے 1982ء تک جاری رہا اور اس میں کم و بیش 1 لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور اندازاً 20 لاکھ کے قریب مسلمان اس دور میں بنگلا دیش، بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کرگئے۔ برما کی فوجی حکومت نے 1982ء کے سیٹزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے 8 لاکھ افراد اور برما میں موجود دوسرے دس لاکھ چینی و بنگالی، مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کر دیا اور ان مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے باہر جانے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا۔ جس وجہ سے وہاں رکنے والوں پر عرصہ حیات مزید تنگ ہوگیا۔ روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کی ایک تاریخ 1997ء میں بھی رقم کی گئی جب 16 مارچ 1997ء کو دن دیہاڑے بے لگام بودھ راکھین صوبے کے شہر’’مندالے‘‘ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں داخل ہوگئے اور مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے لگے۔ گھروں، مسجدوں اور مذہبی کتابوں کو نذرِ آتش کردیا گیا، دکانوں کو لوٹ لیا گیا اور مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا جس کے بعد مسلمانوں نے دوسرے شہروں میں پناہ لی۔ اس فساد کی اگلی قسط 15 مئی سے 12 جولائی 2001ء کے دوران اس وقت دیکھی گئی جب بودھوئوں نے ایک مسجد پر حملہ کرکے عبادت میں مصروف نمازیوں کو قتل کر دیا اور اس فساد کے نتیجے میں 11 مساجد شہید، 400 سے زائد گھروں کو نذرِآتش اور کم و بیش 200 مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ دنیا میں جب کبھی، کہیں بھی کسی نے اگر اسلام کے نام پر کوئی ظلم کیا تو اس کا شکار بے چارے روہنگیا مسلمان ہوئے۔ حتیٰ کہ جب طالبان کی طرف سے بامیان کے مجسموں کو نشانہ بنایا گیا تو اس وقت بھی روہنگیا مسلمانوں پر حملے کی خبریں سامنے آتی رہیں اور بودھ بھکشوئوں کی جانب سے مسلسل یہ ہی مطالبہ کیا جاتا رہا کہ برمی حکومت کو انتقاماً برما میں موجود تمام مسجدوں کو ڈھا دینا چاہئے۔ 1962ء سے میانمار فوجی حکومت کے زیر اثر تھا۔ 2010ء میں الیکشن ہوئے جس کے نتیجے میں طویل آمریت کا یہ سورج 2011ء میں غروب ہوا اور ملک میں ایک جمہوری حکومت تشکیل دی گئی۔ اس دوران روہنگیا مسلمانوں نے بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق اور شہریت کا مطالبہ دہرایا لیکن بڑی سختی کے ساتھ یہ آواز دبا دی گئی۔ مسلم کش فسادات کی ایک قسط مئی 2012ء میں بھی نشر ہوئی جب ایک بودھ لڑکی نے اسلام قبول کرلیا جس پر بودھ بہت رنجیدہ ہوئے اور لڑکی کو گھر بدر کردیا، لڑکی نے مسلم آبادی میں پناہ لے لی۔ چند دن بعد اس لڑکی کی لاش ملی جسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ مسلمانوں نے الزام لگایا کہ بودھوئوں نے اپنی خفت مٹانے کے لئے اسے قتل کیا ہے جب کہ بودھوئوں نے تین مسلمان نوجوانوں کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ جس نے علاقے کے حالات کافی کشیدہ کر دئیے۔ اس کے بعد 3 جون 2012ء کو بودھ بھکشوئوں نے زائرین کی ایک بس روکی اور اس میں سے عمرہ کی ادائیگی کرکے واپس آنے والے 10 مسلمان علماء کو باہر نکال کرموت کے گھاٹ اتار دیا اور بس جلا دی۔ ساتھ ہی ساتھ بودھوئوں کی جانب سے مسلم اکثریتی علاقوں پر بھی دھاوا بول دیا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس قتلِ عام پر بہت واویلا کیا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ پہلے پہل تو مقامی حکومت کی جانب سے اسے صاف جھٹلا کر حیلے بہانے کئے جاتے رہے اور متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگادیا اور فوج بھیج کر صحافیوں کو فساد زدہ علاقوں سے نکال دیا گیا۔ مگر اگست 2012ء میں برطانوی ٹی وی چینل ’چینل فور‘ نے ایک دستاویزی رپورٹ نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح مسلمان، کیمپوں میں جانوروں والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں قریباً 10 ہزار مکانات کا ملبہ بھی دکھایا گیا جس کے بعد اقوامِ متحدہ کے ادارۂ برائے پناہ گزین نے اپنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تشدد کی اس لہر میں کم از کم 80 ہزار مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار ’نوی پلے‘ نے انتظامیہ کے سلوک و رویے کے حوالے سے بھی ایک رپورٹ دی کہ مقامی پولیس اور بدامنی پر قابو پانے کیلئے بھیجے جانے والی فوج بھی بے گناہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا رہی ہے۔ پھرجولائی 2012ء میں برطانوی نشریاتی ادارے نے بنگلادیش کے کیمپوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں پر ایک رپورٹ شائع کی جس میں اکثر نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کومیانمار کی فوج نے قتل کیا۔ اکتوبر 2012ء میں جب مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے مسلمانوں کی مدد کے لئے میانمار میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو میانمار کے صدر نے نہ صرف اجازت دینے سے انکار کر دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اس طرح کے دفاتر ’’لوگوں کی خواہشات‘‘ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بارہا عالمی برادری کے سامنے بے شمار ٹھوس دستاویزی اور تصویری ثبوت پیش بھی کئے اور اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد روکنے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن ساری کوششیں بے سود رہیں۔ دوسری جانب میانمار کی عالمی شہرت یافتہ رہنما ’’آنگ سان سوچی‘‘ نے مسلمانوں کو ’’صبر‘‘ کی تلقین کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’’رہنما کو مسائل کی بنیاد دیکھے بغیر کسی خاص مقصد کے لئے کھڑے نہیں ہو جانا چاہئے‘‘، انسانی حقوق کی تمام تنظیموں نے اس پر سوچی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انہیں اس قسم کے ردعمل پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔ پھر 2012ء میں عین عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی لگا دی گئی جس کے نتیجہ میں عید کے روز ہونے والے فساد میں 50 مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ویسے بھی جہاں انسانوں کا گلا کاٹا جا رہا ہو وہاں سنتِ ابراہیمی کی یاد میں جانور نہ کاٹنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور فرق پڑتا ہی کسے ہے،تمام عالم ہی چپ چاپ تماشا دیکھنے میں مصروف ہے۔ میانمار کی حکومت اور اس کا موقف کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میانمار کے صدر نے تو جولائی 2012ء میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ ’’اس سارے مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ یا تو مسلمانوں کو ملک بدر کیا جائے یا پھر انہیں مہاجر کیمپوں میں منتقل کیا جائے‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوامِ متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے حکومت سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا بارہا مطالبہ کیا ہے مگر ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔ ان عالمی اداروں کی کاوشوں سے فسادات کی تحقیقات کیلئے 2012ء میں مسلمانوں، بودھ، عالمی اور مقامی لوگوں پر مشتمل ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا مگر عین وقت پر میانمار کی حکومت نے اقوامِ متحدہ کی قیادت میں کمیشن کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ پھر ان فسادات میں ایک ٹھہراو سا آگیا لیکن بعد میں یہ ثابت ہوا کہ یہ ٹھہراو ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھا کیونکہ اس کے بعد فسادات کی لہر راکھین سے نکل کر ملک کے سب سے بڑے شہر رنگون تک پہنچ گئی۔ اس تمام عرصے کے دوران متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگا رہا جبکہ مسلم ممالک اور انسانی حقوق کے دعوایدار ’’روز روز کی اس چک چک اور بک بک‘‘ سے تنگ آ چکے تھے۔ اسی دوران 2013ء میں مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے میانمار کے دو صوبوں میں ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی جبکہ ان کے خلاف قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ بودھوئوں سے تو کسی کو کوئی گلہ بھی نہیں تھا کیونکہ وہ درست انداز میں گوتم بودھ کے فلسفے پر عمل کر رہے ہیں کہ آپ کا فلسفہ تھا کہ جس نے کسی جانور کو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا۔ بس ذرا سا سمجھنے کا فرق ہے کہ میانمار کے بودھ بھکشوئوں نے یہ سمجھ لیا کہ جس نے کسی انسان کو قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی جانور کو قتل کیا۔ البتہ مسئلہ توروہنگیا مسلمانوں کا تھا کہ وہ کہاں جاتے، کس کو دکھڑے سناتے۔ شرع یہ کہتی ہے کہ جب تم پر زمین تنگ کردی جائے تو ہجرت کر جاؤ، روہنگیا ئی ہجرت کرکے بنگلادیش پہنچے جہاں پر ان کا گولیوں کے ساتھ استقبال کیا گیا، کئی مرگئے، کچھ زخمی ہوئے مگر مجال کہ کسی نے دنیا کے اس سوتیلے بچے کو جسے اس کا ملک بھی تسلیم نہیں کرتا، اپنانے میں حامی بھری ہو۔ انڈونیشیا، ملائشیا، تھائی لینڈ، سنگا پور، سری لنکا، کون سا ایسا ملک تھا جہاں انہوں نے رحم طلب نگاہوں سے پناہ کی اپیل نہ کی ہو۔ وہ بھارت گئے مگر وہاں بھی ردعمل مختلف نہ تھا۔ یہ تو فطرتِ انسانی ہے کہ وہ مہمان کو بھی چند دن سے زیادہ قبول نہیں کرتی۔ اسی لئے بنگلا دیشی حکومت نے اپنا اصل رخ دکھلایا اور جو پناہ گزین بنگلادیش میں محصور تھے انہیں فوری طور پر بنگلادیش سے نکل جانے کو کہا۔ یہ ساڑھے تین ہزار افراد خدا کے سہارے کشتیوں میں بیٹھ کر نکل پڑے کہ شاید کوئی ان پر مہربان ہوجائے مگر یہ تو دنیا کے لئے ایک پنگ پانگ بال کی حیثیت رکھتے تھے، بنگلا دیش نے بال کو ہٹ کیا تو یہ سری لنکا پہنچا، وہاں سے ہٹ ہوئے تو تھائی لینڈ، وہاں سے ملائیشیا، وہاں سے انڈونیشیا، وہاں سے سنگاپور۔ دنیا کو کیا فکر کہ یہ انسانوں کی بات ہو رہی ہے، ان کے بھی کچھ حقوق ہیں، سب کو اپنا بارڈر محفوظ اور پناہ گزین سے پاک چاہئے تھا۔
تحریک انصاف نے برما میں مسلمانوں پر بربریت کے خلاف تحریک التوا قومی اسمبلی میں جمع کرادی۔ قرارداد ڈاکٹر عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری اور شفقت محمود کی جانب سے مشترکہ طور پر جمع کرائی گئی۔