Plot against CJP son , Full Story . .

syed01

MPA (400+ posts)
CJ ka BHANDA Phoot gaya

CJP-Iftikhar1.jpg
اسلام آباد میں کئی روز سے گردش کرنے والی سرگوشیاں آخر کار خبر کا روپ دھار گئ ہیں اورچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نااہل اور مشکوک صاحبزادے ایک بار پھر سکینڈل کی زد میں آگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ایک بار پھر اپنے خلاف سازش کو ناکام بنا کر اپنے ہی بیٹے کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اہم ترین ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کا بیٹا، ڈاکٹر ارسلان شروع سے ہی چیف جسٹس کے لئے مصیبت بنا ہوا ہے اور مشرف نے بھی اسی کو بنیاد بنا کر چیف جسٹس کےخلاف چارج شیٹ تیار کی تھی۔ ڈاکٹر ارسلان، اپنےوالد کے نام پر ناجائز فوائد اٹھاتا رہا ہے اور اس کی ساکھ چیف جسٹس کی طرح نہیں اور اسے خاصے مشکوک معاملات میں دیکھا جاسکتا ہے اسی وجہ سے چیف جسٹس نے بحال ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ اپنے بیٹے ارسلان کو سرکاری نوکری سے چھٹی کرادی تھی اور اب وہ بے روزگار گھوم رہا تھا کہ ایک نیااسکینڈل سامنے آگیا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس نے سرکاری ملازمت حاصل کرنے اور پھر تیز رفتار ترقی کے لئے اپنے والد کا نام اور اپنے جنرل سسر کو استعمال کیا تھا۔ جب یہ سب معاملات سامنے آئے اور اسکینڈل بنا اور چیف جسٹس کےخلاف ریفرنس بنایا گیا تو چیف جسٹس نے یہی موقف اختیار کیا تھا کہ بیٹے کے معاملات میں ان کا کوئی دخل نہیں اور اسے سزا ملنی چاہئے۔ پھر بحال ہونے کے بعد چیف جسٹس نے سب سے پہلے اپنے بیٹے کےخلاف کارروائی کی اور اسےسرکاری نوکری سے زبردستی مستعفی کرادیا۔ اس پر ڈاکٹر ارسلان ناراض ہو کر اسلام آباد سے لاہور چلا آیا جہاں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتا ہے اور یہیں اس کا سسرال بھی ہے۔ ڈاکٹر ارسلان کے سسر فوج کے ریٹائرڈ جنرل ہیں۔ مگر اس بار بھی چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کی حمایت کرنے کےبجائے اس کےخلاف کارروائی کا فیصلہ کیا اور آج اسے عام ملزم کی طرح سپریم کورٹ میں طلب کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملک کی معروف کاروباری شخصیت اور بحریہ ٹائون کے متنازعہ مالک ملک ریاض سے کروڑوں روپے غیر قانونی طور پر لینے کا انکشاف ہوا ہے۔ امریکہ میں مقیم ایک سینئر پاکستانی صحافی شاہین صہبائی نے دعویٰ کیا ہے کہ چیف جسٹس کے صاحبزادے سے ناجائز طور پر 40 کروڑ روپے کا کاروبار کروایا گیا۔ اس کے علاوہ ان کو رشوت کے طور پر غیر ملکی دورے بھی کروائے گئے اور ان کو کریڈٹ کارڈ بھی دئیے گئے،جن کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا گیا تاکہ اس کو چیف جسٹس کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سکینڈل ایک منصوبہ بندی ہے تاکہ چیف جسٹس کو بلیک میل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض نے چیف جسٹس کے صاحبزادے کو 40 کروڑ روپے کا کاروبار کروایا اور تمام ثبوت اپنے پاس جمع کرلئے جس میں وہ ویڈیو بھی شامل ہے جس میں چیف جسٹس کے بیٹے کو پیسے لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ چیف جسٹس کے صاحبزادے کے خلاف مالی سکینڈل کے تمام ثبوت برطانوی خاتون صحافی کو دئیے گئے تاکہ وہ اس وقت یہ سکینڈل خبر کے ذریعے منظر عام پر لے کر آئیں جس وقت چیف جسٹس ایوارڈ لینے کے لئے لندن میں موجود تھے۔ مگر عین وقت پر ایسا نہ ہو سکا کیونکہ برطانوی صحافی کو بھی ڈر تھا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو اس کی حیثیت بھی مشکوک ہوجائے گی کیونکہ عالمی سطح پر چیف جسٹس کی ساکھ بہت بہتر ہے۔ صحافی نے دعویٰ کیا کہ چیف جسٹس کے صاحبزادے اس سے قبل کوئی کاروبار نہیں کرتے تھے یہ تو چیف جسٹس کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے صاحبزادے کے پاس آخر اتنی بڑی رقم کیسے آئی۔ صحافی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جن شخصیات نے یہ پیسے دئیے اس نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے پیسے تقسیم کئے ہیں اور ملک ریاض نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ان کےخلاف سپریم کورٹ میں مقدمات ہیں جن کی وجہ سے وہ دبئی میں رہ رہےہیں اور پاکستان نہیں جاتے۔ صحافی نے کہا کہ چیف جسٹس کے صاحبزادے نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے پیسے لئے ہیں تاکہ سپریم کورٹ کے ذریعے اس شخصیت کو ریلیف دیا جائے۔ چیف جسٹس بھی اس خبر کے منظر عام پر آنے سے ناراض ہیں اور اپنے بیٹے کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ صحافی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ ان کے بیٹے نے پیسے لئے ہیں تو وہ اسے سزا دینے کے علاوہ خاندان سے علیحدہ کردیں گے۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت بدھ سے ہی شروع ہو رہی ہے۔ بدھ کے روز ابتدائی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کرے گا۔سپریم کورٹ کےرجسٹرار فقیر حسین کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ کئی ٹی وی ٹاک شوز میں عدالتی عمل پر اثر انداز ہونے کے لیے کاروباری شخصیت ملک ریاض اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے درمیان کسی بزنس ڈیل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔پریس ریلیز کے مطابق ٹاک شوز میں کہا گیا کہ ملک ریاض نے ڈاکٹر ارسلان کو تیس سے چالیس کروڑ روپے دیے اور ان کے غیر ملکی دوروں کو بھی سپانسر کیا۔پریس ریلیز کے مطابق یہ عنایات ڈاکٹر ارسلان پر اس لیے کی گئیں تاکہ ان کے والد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری پر اثرانداز ہوکر ان کے دل میں ملک ریاض کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا جا سکے۔ ایسا کرنے کا مقصد ملک ریاض کے خلاف سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات میں حمایت حاصل کرنا تھا۔پریس ریلیز کے مطابق چیف جسٹس نے ان خبروں کا نوٹس لیا ہے اور بدھ کو صبح ساڑھے نو بجے اس معاملے کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے بیٹے اور اٹارنی جنرل کے علاوہ پاکستان میں تعمیراتی شعبے کے کاروبار سے وابستہ شخصیت ملک ریاض کو بھی نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ بدھ کو سماعت کے موقع پر عدالت میں پیش ہوں۔ڈاکٹر ارسلان چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سب سے بڑے بیٹے ہیں اور سرکاری ملازم تھے لیکن سنہ 2009 میں اپنے والد کی چیف جسٹس کے عہدے پر بحالی کے بعد اطلاعات کے مطابق انہوں نے نوکری سے استعفٰی دیدیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ الزام بھی عائد کیاگیا کہ ارسلان اورچیف جسٹس کی فیملی کے ارکان نے جو کئی غیر ملکی دورے کئے ان کے اخراجات بحریہ ٹاؤن نے ادا کئے ، ہوٹل، کار اورکرایہ کی رہائش کے لئے بھی بحریہ ٹاؤن نے ادائیگی کی تھی اس کے علاوہ یہ رپورٹس بھی تھیں کہ ارسلان نے ملک ریاض سے مختلف مدات میں 34کروڑ روپے وصول کئے ہیں ، ارسلان کی ساکھ اپنے والد جیسی نہیں ہے لوگ ان کا نام مشکوک معاملات میں لیتے رہے ہیں، جب اس نمائندے نے ارسلان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بیشتر الزامات کا انکار کیا تاہم چند کا یہ کہتے ہوئے اعتراف کیا کہ یہ ذاتی کاروباری معاملات تھے، خاندانی ذرائع کے مطابق ملک ریاض اس وقت دبئی میں ہیں۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس کے خلاف مشرف نے بھی ان کے بیٹے کو استعمال کیا تھا جس کے بعد سے وہ اب اپنے والد کے ساتھ نہیں رہتا اور لاہور میں رہتا ہے۔ یہ بھی خبریں ہیںکہ سرکاری نوکری سے نکالے جانے کےبعد وہ اپنے والد یعنی چیف جسٹس سے خاصا ناراض ہے۔مشرف نےچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں اس بناء پرریفرنس بھیجا تھا کہ انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنے بیٹے ڈاکٹر ارسلان کے کیرئیر کو آگے بڑھانے میں مدد دی ہے اور اس کے ساتھ وہ رویہ اپنایا جو کسی عام شہری کے لیے ممکن نہیں ہے۔ڈاکٹر ارسلان کے سسر میجر جنرل ضیا الحق (ریٹائرڈ) نے برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ ڈاکٹر ارسلان ان کے داماد ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ہونے والے ریفرنس میں لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹر ارسلان کو انٹرمیڈیٹ میں گریڈ سی حاصل کرنے کے باوجود چیف منسٹر کے کوٹے سے بولان میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔سپریم جوڈیشل کونسل کے ریفرنس میں درج ہے کہ ڈاکٹر ارسلان کو جون 2005 میں میڈیکل آفیسر تعینات کیا گیا۔ بطور میڈیکل آفیسر تعیناتی کے صرف چھبیس روز کے اندر انہیں محکمہ صحت میں بطور سکیشن آفیسر مقرر کر دیا گیا۔ڈاکٹر ارسلان کی بلوچستان کے محکمہ صحت میں بطور سیکشن آفیسر تعیناتی کے نوٹیفیکیشن جاری ہونے سے پہلے ہی وفاقی حکومت نے مفاد عامہ میں ڈاکٹر ارسلان کی خدمات مانگ لیں۔بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت کی درخواست کو مان لیا اور ڈاکٹر ارسلان کو گریڈ سترہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے مقرر کیا گیا۔مئی دو ہزار چھ میں ڈاکٹر ارسلان کو اگلے گریڈ میں ترقی دے کی ان کو گریڈ اٹھارہ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے مقرر کیا گیا جہاں سے ان کو نیشل پولیس اکیڈمی میں ٹریننگ کے لیے بھیج دیا گیا۔صدارتی ریفرنس میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف کوئی ایسی دستاویزی شہادت پیش نہیں کی گئی جس میں انہوں نے حکومت کے کسی اہلکار کو اپنے بیٹے کو ترقی دینے کے لیے کہا ہو۔تاہم اس ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جسٹس افتخار محمد نے اسٹیبلمشنٹ ڈویژن کے سیکرٹری کو گھر پر طلب کیا اور ان دباؤ ڈالا کہ وہ ڈاکٹر ارسلان کی محکمہ پولیس میں شمولیت کے لیے وزیر اعظم کو سمری بھیجیں۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کا موقف تھا کہ ان کے علاوہ بھی کوئی بااثر شخصیت ڈاکٹر ارسلان کی ترقی میں دلچسپی رکھتی تھی اور وہی یہ سب کچھ کرارہی تھی ان کا اس میں کوئی ہاتھ نہ تھا۔
 

Ghzanfar

MPA (400+ posts)
Re: CJ ka BHANDA Phoot gaya

What the hell is this nonsense ... this case is no more than a crap of conspiracies. And Chief Justice has done a great job by taking suo moto notice of this thing. Now there's no reason that anyone doubts Chief Justice's integrity in this case. Chief Justice will come out of it stronger and more powerful with greater trust level among public of Pakistan..
 

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
Re: CJ ka BHANDA Phoot gaya

cj ka bhand phoot geya !!
Acha ji!
Kiya woh sharmila farooqi aur faryal talpur se
rang ralian manatay pakray gaye??
 

barca

Prime Minister (20k+ posts)
Re: CJ ka BHANDA Phoot gaya

CJP-Iftikhar1.jpg
اسلام آباد میں کئی روز سے گردش کرنے والی سرگوشیاں آخر کار خبر کا روپ دھار گئ ہیں اورچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نااہل اور مشکوک صاحبزادے ایک بار پھر سکینڈل کی زد میں آگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ایک بار پھر اپنے خلاف سازش کو ناکام بنا کر اپنے ہی بیٹے کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اہم ترین ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کا بیٹا، ڈاکٹر ارسلان شروع سے ہی چیف جسٹس کے لئے مصیبت بنا ہوا ہے اور مشرف نے بھی اسی کو بنیاد بنا کر چیف جسٹس کےخلاف چارج شیٹ تیار کی تھی۔ ڈاکٹر ارسلان، اپنےوالد کے نام پر ناجائز فوائد اٹھاتا رہا ہے اور اس کی ساکھ چیف جسٹس کی طرح نہیں اور اسے خاصے مشکوک معاملات میں دیکھا جاسکتا ہے اسی وجہ سے چیف جسٹس نے بحال ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ اپنے بیٹے ارسلان کو سرکاری نوکری سے چھٹی کرادی تھی اور اب وہ بے روزگار گھوم رہا تھا کہ ایک نیااسکینڈل سامنے آگیا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس نے سرکاری ملازمت حاصل کرنے اور پھر تیز رفتار ترقی کے لئے اپنے والد کا نام اور اپنے جنرل سسر کو استعمال کیا تھا۔ جب یہ سب معاملات سامنے آئے اور اسکینڈل بنا اور چیف جسٹس کےخلاف ریفرنس بنایا گیا تو چیف جسٹس نے یہی موقف اختیار کیا تھا کہ بیٹے کے معاملات میں ان کا کوئی دخل نہیں اور اسے سزا ملنی چاہئے۔ پھر بحال ہونے کے بعد چیف جسٹس نے سب سے پہلے اپنے بیٹے کےخلاف کارروائی کی اور اسےسرکاری نوکری سے زبردستی مستعفی کرادیا۔ اس پر ڈاکٹر ارسلان ناراض ہو کر اسلام آباد سے لاہور چلا آیا جہاں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتا ہے اور یہیں اس کا سسرال بھی ہے۔ ڈاکٹر ارسلان کے سسر فوج کے ریٹائرڈ جنرل ہیں۔ مگر اس بار بھی چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کی حمایت کرنے کےبجائے اس کےخلاف کارروائی کا فیصلہ کیا اور آج اسے عام ملزم کی طرح سپریم کورٹ میں طلب کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملک کی معروف کاروباری شخصیت اور بحریہ ٹائون کے متنازعہ مالک ملک ریاض سے کروڑوں روپے غیر قانونی طور پر لینے کا انکشاف ہوا ہے۔ امریکہ میں مقیم ایک سینئر پاکستانی صحافی شاہین صہبائی نے دعویٰ کیا ہے کہ چیف جسٹس کے صاحبزادے سے ناجائز طور پر 40 کروڑ روپے کا کاروبار کروایا گیا۔ اس کے علاوہ ان کو رشوت کے طور پر غیر ملکی دورے بھی کروائے گئے اور ان کو کریڈٹ کارڈ بھی دئیے گئے،جن کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا گیا تاکہ اس کو چیف جسٹس کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سکینڈل ایک منصوبہ بندی ہے تاکہ چیف جسٹس کو بلیک میل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض نے چیف جسٹس کے صاحبزادے کو 40 کروڑ روپے کا کاروبار کروایا اور تمام ثبوت اپنے پاس جمع کرلئے جس میں وہ ویڈیو بھی شامل ہے جس میں چیف جسٹس کے بیٹے کو پیسے لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ چیف جسٹس کے صاحبزادے کے خلاف مالی سکینڈل کے تمام ثبوت برطانوی خاتون صحافی کو دئیے گئے تاکہ وہ اس وقت یہ سکینڈل خبر کے ذریعے منظر عام پر لے کر آئیں جس وقت چیف جسٹس ایوارڈ لینے کے لئے لندن میں موجود تھے۔ مگر عین وقت پر ایسا نہ ہو سکا کیونکہ برطانوی صحافی کو بھی ڈر تھا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو اس کی حیثیت بھی مشکوک ہوجائے گی کیونکہ عالمی سطح پر چیف جسٹس کی ساکھ بہت بہتر ہے۔ صحافی نے دعویٰ کیا کہ چیف جسٹس کے صاحبزادے اس سے قبل کوئی کاروبار نہیں کرتے تھے یہ تو چیف جسٹس کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے صاحبزادے کے پاس آخر اتنی بڑی رقم کیسے آئی۔ صحافی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جن شخصیات نے یہ پیسے دئیے اس نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے پیسے تقسیم کئے ہیں اور ملک ریاض نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ان کےخلاف سپریم کورٹ میں مقدمات ہیں جن کی وجہ سے وہ دبئی میں رہ رہےہیں اور پاکستان نہیں جاتے۔ صحافی نے کہا کہ چیف جسٹس کے صاحبزادے نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے پیسے لئے ہیں تاکہ سپریم کورٹ کے ذریعے اس شخصیت کو ریلیف دیا جائے۔ چیف جسٹس بھی اس خبر کے منظر عام پر آنے سے ناراض ہیں اور اپنے بیٹے کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ صحافی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ ان کے بیٹے نے پیسے لئے ہیں تو وہ اسے سزا دینے کے علاوہ خاندان سے علیحدہ کردیں گے۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت بدھ سے ہی شروع ہو رہی ہے۔ بدھ کے روز ابتدائی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کرے گا۔سپریم کورٹ کےرجسٹرار فقیر حسین کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ کئی ٹی وی ٹاک شوز میں عدالتی عمل پر اثر انداز ہونے کے لیے کاروباری شخصیت ملک ریاض اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے درمیان کسی ’بزنس ڈیل‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔پریس ریلیز کے مطابق ٹاک شوز میں کہا گیا کہ ’ملک ریاض نے ڈاکٹر ارسلان کو تیس سے چالیس کروڑ روپے دیے اور ان کے غیر ملکی دوروں کو بھی سپانسر کیا‘۔پریس ریلیز کے مطابق ’یہ عنایات ڈاکٹر ارسلان پر اس لیے کی گئیں تاکہ ان کے والد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری پر اثرانداز ہوکر ان کے دل میں ملک ریاض کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا جا سکے۔ ایسا کرنے کا مقصد ملک ریاض کے خلاف سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات میں حمایت حاصل کرنا تھا۔‘پریس ریلیز کے مطابق چیف جسٹس نے ان خبروں کا نوٹس لیا ہے اور بدھ کو صبح ساڑھے نو بجے اس معاملے کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے بیٹے اور اٹارنی جنرل کے علاوہ پاکستان میں تعمیراتی شعبے کے کاروبار سے وابستہ شخصیت ملک ریاض کو بھی نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ بدھ کو سماعت کے موقع پر عدالت میں پیش ہوں۔ڈاکٹر ارسلان چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سب سے بڑے بیٹے ہیں اور سرکاری ملازم تھے لیکن سنہ 2009 میں اپنے والد کی چیف جسٹس کے عہدے پر بحالی کے بعد اطلاعات کے مطابق انہوں نے نوکری سے استعفٰی دیدیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ الزام بھی عائد کیاگیا کہ ارسلان اورچیف جسٹس کی فیملی کے ارکان نے جو کئی غیر ملکی دورے کئے ان کے اخراجات بحریہ ٹاؤن نے ادا کئے ، ہوٹل، کار اورکرایہ کی رہائش کے لئے بھی بحریہ ٹاؤن نے ادائیگی کی تھی اس کے علاوہ یہ رپورٹس بھی تھیں کہ ارسلان نے ملک ریاض سے مختلف مدات میں 34کروڑ روپے وصول کئے ہیں ، ارسلان کی ساکھ اپنے والد جیسی نہیں ہے لوگ ان کا نام مشکوک معاملات میں لیتے رہے ہیں، جب اس نمائندے نے ارسلان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بیشتر الزامات کا انکار کیا تاہم چند کا یہ کہتے ہوئے اعتراف کیا کہ یہ ذاتی کاروباری معاملات تھے، خاندانی ذرائع کے مطابق ملک ریاض اس وقت دبئی میں ہیں۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس کے خلاف مشرف نے بھی ان کے بیٹے کو استعمال کیا تھا جس کے بعد سے وہ اب اپنے والد کے ساتھ نہیں رہتا اور لاہور میں رہتا ہے۔ یہ بھی خبریں ہیںکہ سرکاری نوکری سے نکالے جانے کےبعد وہ اپنے والد یعنی چیف جسٹس سے خاصا ناراض ہے۔مشرف نےچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں اس بناء پرریفرنس بھیجا تھا کہ انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنے بیٹے ڈاکٹر ارسلان کے کیرئیر کو آگے بڑھانے میں مدد دی ہے اور اس کے ساتھ وہ رویہ اپنایا جو کسی عام شہری کے لیے ممکن نہیں ہے۔ڈاکٹر ارسلان کے سسر میجر جنرل ضیا الحق (ریٹائرڈ) نے برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ ڈاکٹر ارسلان ان کے داماد ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ہونے والے ریفرنس میں لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹر ارسلان کو انٹرمیڈیٹ میں گریڈ سی حاصل کرنے کے باوجود چیف منسٹر کے کوٹے سے بولان میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔سپریم جوڈیشل کونسل کے ریفرنس میں درج ہے کہ ڈاکٹر ارسلان کو جون 2005 میں میڈیکل آفیسر تعینات کیا گیا۔ بطور میڈیکل آفیسر تعیناتی کے صرف چھبیس روز کے اندر انہیں محکمہ صحت میں بطور سکیشن آفیسر مقرر کر دیا گیا۔ڈاکٹر ارسلان کی بلوچستان کے محکمہ صحت میں بطور سیکشن آفیسر تعیناتی کے نوٹیفیکیشن جاری ہونے سے پہلے ہی وفاقی حکومت نے ‘مفاد عامہ‘ میں ڈاکٹر ارسلان کی خدمات مانگ لیں۔بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت کی درخواست کو مان لیا اور ڈاکٹر ارسلان کو گریڈ سترہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے مقرر کیا گیا۔مئی دو ہزار چھ میں ڈاکٹر ارسلان کو اگلے گریڈ میں ترقی دے کی ان کو گریڈ اٹھارہ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے مقرر کیا گیا جہاں سے ان کو نیشل پولیس اکیڈمی میں ٹریننگ کے لیے بھیج دیا گیا۔صدارتی ریفرنس میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف کوئی ایسی دستاویزی شہادت پیش نہیں کی گئی جس میں انہوں نے حکومت کے کسی اہلکار کو اپنے بیٹے کو ترقی دینے کے لیے کہا ہو۔تاہم اس ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جسٹس افتخار محمد نے اسٹیبلمشنٹ ڈویژن کے سیکرٹری کو گھر پر طلب کیا اور ان دباؤ ڈالا کہ وہ ڈاکٹر ارسلان کی محکمہ پولیس میں شمولیت کے لیے وزیر اعظم کو سمری بھیجیں۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کا موقف تھا کہ ان کے علاوہ بھی کوئی بااثر شخصیت ڈاکٹر ارسلان کی ترقی میں دلچسپی رکھتی تھی اور وہی یہ سب کچھ کرارہی تھی ان کا اس میں کوئی ہاتھ نہ تھا۔
بندے دا پترا بن جا ؟ نہیں تو تیرا پانڈا ایسا خرکاو گا کے یاد رکھو گے
 

ustadjejanab

Chief Minister (5k+ posts)
Re: CJ ka BHANDA Phoot gaya

مرے خیال میں بھانڈا تو ان کا پھوٹے گا جو چیف جسٹس کو بلیک میل کرنا چاہتے تھے .
چیف صاحب نے انشا الله قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے چاہے اپنے بیٹے کو سولی پر ہی کیوں نہ چڑھانا پڑے .
 

panasonic

Banned
Re: CJ ka BHANDA Phoot gaya

Now CJ has to prove that he 's son is inncoent or give him punish. CJ has proved that MQM has the only party for poor poeople. He looks so sincere and honest.
 

Back
Top